اذان کا تیسرا کلمہ ،
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (1)
مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536
اذان کا تیسرا کلمہ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِہے،ترجمہ:(میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں)۔ لَااِلٰہَ اِلّاَاللہُ مُحَمّدُ رَسُوْلُ اللہِ در اصل یہ کلمہ اسلام کے پہلے کلمہ لَااِلٰہَ اِلّاَاللہُ مُحَمّدُ رَسُوْلُ اللہ کادوسرا جز ہے، اسلام کی دعوت و شہادت میں اس کی اہمیت کے پیش نظر اذان کے کلمات میں اسے ایک علیحدہ کلمہ کے طور پر رکھا گیا ہے،
اور وہ بھی گواہی کے انداز میں، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اس کلمہ کا صرف اقرار ہی کافی نہیں ہے، بلکہ دوسروں کے سامنے اس کی گواہی دینا اور اعلان کرنا بھی ضروری ہے، ساتھ ہی یہ کلمہ خالص قرآنی کلمہ ہے، کیونکہ سورۂ فتح کی آیت اُنتیس(۹۲) میں یہ کلمہ اپنی کامل صورت میں بیان ہوا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے، مُحَمّدُ رَسُولُ اللہِ یعنی محمدؐ اللہ کے رسول ہیں چونکہ لَااِلٰہَ اِلّاَاللہُ مُحَمّدُ رَسُوْلُ اللہِ پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے، اس لحاظ سے مُحَمّدُ رَسُولُ اللہِ پر اسلام کی آدھی عمارت کھڑی ہے،مطلب یہ کہ آدھا اسلام لَااِلٰہَ اِلّاَاللہُ سے وابستہ ہے، جس کا تذکرہ اذان کے دوسرے کلمہ میں آچکا ہے، اور آدھا اسلام مُحَمّدُ رَسُوْلُ اللہِ سے وابستہ ہے۔
مُحَمّدُ رَسُوْلُ اللہِ کی مکمل تشریح سے واقفیت کے لیے تو مکمل قرآن سے واقفیت اور محمدﷺ کی مکمل تیرسٹھ (۳۶) سالہ زندگی سے واقفیت ضروری ہے، لیکن یہاں چونکہ محمدرسولﷺ اللہ کی تشریح اسلام کی دعوت کے طور پر کی جارہی ہے، اسلئے صرف چند بنیادی باتیں ہی پیش کی جائینگی، کیونکہ اسلام کی دعوت میں بنیادی باتیں ہی پیش کی جاتی ہیں، اور ویسے بھی اذان کا اصل موضوع دعوت ہی ہے، البتہ جنہوں نے اسلام کی دعوت کو قبول کر لیا ہیں، ضرور انہیں اسلام کا مکمل علم بھی حاصل کرنا چاہئے۔ دینی لحاظ سے یہ بات طئے شدہ ہے کہ محمد ﷺ کو جاننے اور ماننے کا اصل ذریعہ قرآن و حدیث اور عمل صحابہؓ ہے، بلکہ عمل صحابہؓ بھی قرآن و حدیث کے تابع ہے، اس لحاظ سے محمد ﷺ کو جاننے اور ماننے کا مستند اور محفوظ ذریعہ قرآن و حدیث ہے، چنانچہ یہاں چند آیات قرآن اور چند احادیث نبویہ کی روشنی میں محمدﷺ کے تعارف کے متعلق کچھ باتیں پیش کی جارہی ہیں، سب سے پہلے یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ محمدﷺ کو جاننے اور ماننے کے لئے کلام خدا، اور کلام محمدﷺ کیوں ضروری ہے؟ اس سوال کی اہمیت سمجھنے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ دنیا میں بہت سی قومیں گزری ہیں اور کچھ آج بھی ہیں جنہوں نے انبیاء و رُسُل کو جاننے اور ماننے کے متعلق کلام خدا اور کلام انبیاء کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی سے انبیاء و رُسُل کو جاننے اور ماننے کی کوشش کی تو وہ گمراہ ہو گئیں، دور ماضی اور دور حال میں اس کی واضح مثال یہود، و نصارٰی ہے، جو انبیاء و رُسُل کو جاننے اور ماننے کے دعوے کے باوجود گمراہ قومیں ہیں
کیونکہ انہوں نے بنیاء و رُسُل کو جاننے اور ماننے کے متعلق کلام خدا، اور کلام انبیاء کو چھوڑ دیا، اور اپنی مرضی سے انبیاء و رُسُل کو جانا اور مانا، بد قسمتی سے امت مسلمہ پر بھی اس کے کچھ اثرات پڑے ہوئے ہیں، چنانچہ اسوقت بہت سے مسلمان محمدﷺ کو جاننے اور ماننے کے متعلق کلام اللہ اور کلام محمدﷺ کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی سے محمدﷺ کو جاننے اور ماننے کے دعویدار بن گئے ہیں، یہاں تک کہ قبروں کو سجدے بھی محمد ﷺ کو ماننے کے نام پر کئے جا رہے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ اور محمد ﷺ نے اللہ کے علاوہ کسی بھی چیز کے لئے سجدہ کو شرک اور حرام قرار دیا ہیں۔
اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ کے ایک فرمان کَانَ خُلُفُہ الْقُرْآنُ یعنی محمدﷺ کی سیرت و اخلاق قرآن ہی تھا، مطلب یہ کہ جو قرآن نے کہا وہی محمد ﷺ نے کیا، اس لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ اذان کے تیسرے کلمہ، اَشْھدُ اَنَّ مُحَمّدًرَسُولُ اللہِ کو قرآن سے سمجھا جائے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو خصوصیت کے ساتھ اپنے بندہ اور رسول کی حیثیت سے پیش کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ محمدﷺ نہ خدا ہے اور نہ خدائی میں شریک ہے، بلکہ آپؐ اللہ کے عبد یعنی بندہ اور غلام ہیں، اور اللہ تعالیٰ جس کو اپنا عبد قرار دے یہ بڑا اعزاز ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں محمدﷺ کے متعلق فرمایا۔ ، سُبْحٰنَ الَّذِیٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہ لَبْلاً مِنَّ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْاَ قْصَا۔(یعنی پاک ہے وہ اللہ جو لے گیا آپنے بندہ کو ایک ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کی صفت عبد کو اس لئے بیان فرمایا کہ کوئی معراج کے سفر و واقعہ کو دیکھ کر یہ گمان نہ کر بیٹھے کہ محمد ﷺ اللہ کی بندگی اور غلامی کے مقام سے اوپر اٹھ کر خدا کی خدائی میں شریک ہوگئے تھے، بلکہ ہر شخص پر یہ بات واضح رہے کہ محمدﷺ ایک ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک پہنچنے اور پھر وہاں سے ساتویں آسمان اور عرش تک پہنچنے اور پھر اسی رات میں صبح ہونے سے پہلے واپس مکہ پہنچنے تک بھی اللہ ہی کے بندہ اور غلام تھے، اور زندگی بھر آپؐ اللہ ہی کے بندہ اور غلام رہے اور اسی پر آپؐ شکر بھی کرتے تھے اور اسی پر آپؐ کو فخر بھی تھا، اس سے معلوم ہوا کہ ایک انسان کے لئے قابل شکر و قابل فخر چیز اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونا ہے۔
ایک حدیث میں جن پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے، ان میں سے ایک چیز محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہونے کی بھی گواہی ہے، چنانچہ بخاری اور مسلم شریف کی روایت ہے، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ،قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بُنِیَ الْاسْلَامُ عَلٰی خَمْسِِ شَھَادَۃُ اَنْ لاّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ وَ اِنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَرَسُولَہُ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ اِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ وَالْحَجِ وَ صَوْمِ رَمَضَانَْ(بخاری و مسلم)(ترجمعہ: حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی
گئی ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور تحقیق محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا،اور حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا۔)
مذکورہ حدیث میں خاص بات یہ ہے کہ محمد رسولﷺ کے ساتھ رسول سے پہے عَبَدْ یعنی اللہ کے بندے ہونے کی صفت پہلے رکھی گئی ہے، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ محمدﷺ کا اللہ سے جو پہلا تعلق ہے وہ بندہ ہونے کا ہے، اور پھر اسی تعلق کے نتیجہ میں آپ پر رسالت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ چنانچہ یہی ترتیب پانچ کلموں میں سے دوم کلمہ میں رکھی گئی ہے، اس کلمہ کانام بھی کلمہ شہادت ہے۔ چنانچہ اس کلمہ کے الفاظ اس طرح ہے۔ اَشْھدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّاللَّہُ وَ اَشْھَدُ اِنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَ رَسُولَہ۔(یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور میں گواہی دیتا ہو کہ محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں)ایک طرح سے اس کلمہ میں اذان کا دوسرا اور تیسرا کلمہ آگیا ہے، البتہ اذان کے کلمہ میں محمدﷺ کے صرف اللہ کے رسول ہونے کی گواہی شامل کی گئی ہے، کیونکہ اذان کے کلمات کا اصل موضوع دعوت دین ہے، البتہ محمدﷺ کے تعارف میں اللہ کے بندے ہونے کے تعارف کو کسی بھی صورت میں انداز نہیں کیا جا سکتا۔
عبدْ کی حقیقت و تعریف سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دور نبوی اور دور نزول قرآن کے وقت عَبدْ کس معنیٰ و مفہوم میں استعمال ہوتا تھا، اسے سمجھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئیگی کہ دور نبوی میں انسانوں کی دو قسمیں شمار ہوتی تھیں، ایک آزاد اور دوسرے غلام، جو غلام ہوتے تھے وہ اپنی مرضی کے مالک نہیں ہوتے تھے، بلکہ وہ اپنے آقا کی مرضی کے تابع ہوتے تھے، یہاں تک کہ غلام جو کچھ کماتے تھے وہ بھی ان کے آقا کا ہوتا تھا، عربی میں ان ہی غلاموں کو عَبدْ کہا جاتا تھا، اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عَبدْ کا لفظ اس مفہوم و معنیٰ میں بیان کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نکاح کے متعلق اہل ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا۔ وَلاَ تُنْکحُِواْ الْمُشْرکٰتِ حَتَّی یُوْمِنَّ وَ لَاَ مَۃُ مُوْ مِنَۃُ خَیْرُ مِنْ مُّشْرِکَۃِ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَ لَا تُنْکِحُوْا الْمُشْرِکِینَ حَتَّی یُوْ مِنُوْا وَ لَعَبْدُ مُّوْمِنُ خَیْرُ مِنْ مُشْرِکِ وَّ لَوْاَعْجَبَکُمْ (سورۂ بقر آیت ۱۲۲) (ترجمہ: اور نکاح نہ کریں مشرکہ عورتوں سے جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں، اور مومنہ باندی، مشرکہ سے بہتر ہے، اگر چہ کہ تمہیں مشرکہ عورتیں اچھی لگتی ہوں، اور نہ عورتیں مشرک مردوں سے نکاح کریں جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں، اور تحقیق کہ مومن غلام، مشرک مرد سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں اچھا لگے)
مذکورہ آیت میں باندی کے لئے اَمَۃُ کا لفظ اور غلام کے لئے عبد کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ایک غلام اور آقا میں
مقام و مرتبہ و اختیار کا جو فرق ہوتا ہے، وہی مقام و مرتبہ و اختیار کا فرق حضرت محمدﷺ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محمدﷺ اللہ کے سب سے افضل بندے اور رسول ہیں۔ حضر ت محمدﷺ کو اللہ کا رسول ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے آپؐ کو دنیا میں مبعوث کیا ہے، اس مقصد کو پورا کیا جائے، اور آپؐ کے دنیا میں آنے کے مقصد کو اگر مختصر جملوں میں سمجھا جائے تو یہ ہے کہ انسانوں کو اللہ کی بندگی کی دعوت دی جائے، اور غیر اللہ کی بندگی سے منع کیا جائے، اور دین اسلام کو دنیا میں تمام دینوں پر غالب کرنے کی کوشش کی جائے، چنانچہ آنحضورﷺ کی تئیس(۳۲) سالہ نبوی زندگی اسی کام میں گزری، دعوت دین اور غلبہ دین کا کام ہر دور میں مشکل رہا ہے، لیکن کسی بھی نبی اور رسول نے اس کام میں کوتاہی نہیں کی، بلکہ ہر نبی اور رسول نے بڑی دلچسپی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا، حضرت محمدﷺ نے بھی اس کام کو بڑی دلی آمادگی اور کُڑھن کے ساتھ انجام دیا، یہاں تک کہ بعض دفعہ خود اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا کہ آپؐ لوگوں کے ایمان نہیں لانے کی خاطر کیوں اتنا غم و افسوس کرتے ہیں، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے، لَعَلّکَ بَاخِعُ نَّفْسَکَ اِلّاَ یَکُوْنُوا مُوْمِنِینَ۔(شعریٰ آیت ۳) (ترجمہ: شاید آپؐ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے کہ وہ مومن نہیں ہوتے محمدﷺ کو اللہ کا رسول ماننے کا ایک لازمی تقاضہ یہ ہے کہ دعوت دین کا کام اللہ کے کلام یعنی قرآن کی ہدایت کے مطابق کیا جائے، نہ کہ اپنی مرضی کے مطابق، یہی وجہ ہے کہ محمدﷺ نبوت سے پہلے چالیس(۰۴) سال تک مکہ میں رہے، لیکن کسی کو آپؐ نے اللہ پر ایمان لانے کی دعوت نہیں دی، کیونکہ آپ پر ابھی قرآن کے نزول کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا، اور نہ ہی آپؐ اللہ پر ایمان کی حقیقت کو جانتے تھے، اور یہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائی،وَ کَذٰلِکَ اَوْ حَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحاً مِنْ اَمْرنَا مَاکُنْتَ تَدْرِیْ مَا الکِتٰبُ وَلاَ الْاِیْمَانُ وَ لٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْراً نَّھْدِیْ بِہِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا۔(سورۂ شورٰی آیت ۲۵)(ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کی آپؐ کی طرف وحی کی، آپؐ نہ کتاب جانتے تھے اور نہ ایمان، اور لیکن ہم نے اس قرآن کو روشنی بنایا، ہم اس کے ذریعہ ہمارے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔)
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ محمدﷺ کا اصل دعوتی و ایمانی ہتھیار و نسخہ قرآن ہی تھا، اسی قرآن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ایمان سمجھایا، اور اسی قرآن کے ذریعہ محمدﷺ نے صحابہ کرامؓ کو ایمان سمجھایا اور اسی قرآن کی تبلیغ کا آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے،یَآیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبَکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ۔(مائدہ آیت۷۶) (ترجمہ: ائے رسولؐ پہنچا دیجئے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا، اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اپنی رسالت کو نہیں پہنچایا، اور اللہ لوگوں سے آپ کو بچانے والا ہے، بیشک اللہ کا فرقوم کو ہدایت نہیں دیتا)
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ محمدﷺ کا بحیثیت رسولؐ کے اصل کام اللہ کے کلام کو لوگوں تک پہنچایا تھا، اس مناسبت سے جو بھی محمدﷺ کو اپنا رسول تسلیم کرتا ہے، اس کا بھی اصل کام اللہ کے کلام کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ محمدﷺ کے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ آپؐ کا اللہ سے جو تعلق تھا، وہ صرف قرآن کے ذریعہ تھا، یہاں تک کہ نماز، روزہ، زکٰوۃ، حج اور دیگر دینی اعمال وہ بھی قرآن ہی کے ذریعہ فرض ہوئے، اس لحاظ سے محمدﷺ کے بحیثیت نبی اور رسولؐ کے سب سے اولین کام کو اگر دیکھا جائے تو وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر جو قرآن نازل ہو رہا تھا، اس کو سنا اور سمجھائے، پھر اس پر خود عمل کیا جائے، اور پھر لوگوں کے سامنے اسے پیش کیا جائے، لیکن آپؐ کا سب سے پہلا کام قرآن مجید کو سننا اور سمجھنا تھا، اس لحاظ سے ہر مسلمان کا سب سے پہلا کام، قرآن مجید کو سننا اور سمجھنا ہونا چائیے۔