کالم : بزمِ درویش – بڑا آدمی :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
بڑا آدمی

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

رات کا آخری پہر کُہر برفیلی ہواؤں سے درجہ حرارت صفر سینٹی گریڈ کے قریب تھاشدید برفیلی سردی سے انسان چرند پرند جانور کونوں بستروں میں جا گھُسے‘ ہر ذی روح نیند کی آغوش میں جھولے لے رہا تھا‘ رات کے 11بجے کے بعد میں بھی نرم و گداز بستر اور رضائی کی حرارت انگیز آغوش میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ مو بائل پر عمر ریاض کی چیخ نما آواز گو نجی‘

سر جاویدصاحب ہاسپٹل میں ہیں ان کا دل کام نہیں کر رہا‘ مجھے لگا تیز دھار خنجر میرے اندر تک اُتر گیا ہے ابھی میں اِس سے سنبھلا نہیں تھا کہ ایک اور دوست کا فون آیا سر ہمارے محبوب ہر دل عزیز جاوید صدیق صاحب اب اِس دنیا میں نہیں رہے‘ ساری مشینیں لگانے اور ڈاکٹروں کی سر توڑ کو ششیں بے کار گئیں ہم لاوارث ہو گئے‘ جاوید صاحب اب اِس فانی دنیا میں نہیں رہے‘ مجھے لگا میری سانس کی نالی پر ہمالیہ رکھ دیا گیا ہو دل و جان دماغ اعصاب عضلات سُن ہو گئے ہیں میں شل سا بیٹھا رہا پھر لگا میرے جسم کو گرم سلاخ پرپرو کر انگاروں پر رکھ دیا گیا آخری امید کے طور پر ایک دو فون کئے شائد معجزہ ہو جائے لیکن میری زندگی کا سب سے پیارا قریبی دوست ہم سے منہ موڑ چکا تھا اور میں حیرت نفرت سے موت کے بارے میں سوچنے لگا کہ موت کس بے رحمی سے ہر انسان پر حملہ آورہو تی ہے موت کی سفاکیت پر غور کر نے لگا‘ کر ہ ارضی پر اربوں جانور نما انسان بستے ہیں لاہور شہر بھی لاکھوں انسانوں سے بھر ا ہوا ہے آخر جاوید صدیق ہی کیوں آخر یہ گلشن کے سب خوبصورت پھو ل کو ہی کیوں نوچتی ہے ایسا پھول جس کے دم سے باغ کی رونق رنگ قائم ہو تی ہے یہ انسانوں میں سے اُس انسان کو کیوں پکڑتی ہے جس کے وجود سے انسانیت کی عمارت کھڑی ہو تی ہے ایسے چراغ کی روشنی کو کیوں تاریک کرتی ہے جس کی روشنی سے معاشرہ زندہ ہو تا ہے حلقہ یاراں کے اُس فرد پر طاری ہو تی ہے جو دوستوں کی جان ہو تا ہے امید کے اُس ستارے کو کیوں توڑتی ہے جو ہزاروں لوگوں کی تاریک زندگیوں کو روشنی سے منور کر رہا ہو تا ہے‘ مادیت پرستی میں غرق کروڑوں جانوروں کو کیوں چھوڑ دیتی ہے جن کے ہو نے نہ ہو نے سے بلکل بھی فرق نہیں پڑتا یہ گندگی کے ڈھیر پر حملہ ہو نے کی بجائے پیکر طور کو ہی کیوں چھین کر لے جاتی ہے موت کی بے رحمی اتنی کہ شاہ کو تخت سمیٹنے اور گداگر کو بو ریا لپیٹنے کا موقع نہیں دیتی کو ئی شاہی بستر پر آخری سانس لے یا فٹ پاتھ پر دم توڑے یہ حملہ کر کے ہی رہتی ہے اِس میں کو ئی شک نہیں کہ جب سے حضرت آدم ؑ نے اِس دھرتی پر پاؤں رکھا موت کی آنکھ مچولی اُس دن سے جاری ہے دور اور محشر تک جاری رہے گی لیکن جاوید صاحب ہماری محفل کا وہ مہکتا گلاب تھے جس کی خوشبوسے ہماری محفل کئی عشروں سے مہک رہی تھی وہ ایک انسان نہیں بلکہ پور ی محفل تھے ایسے لوگ نہ تو آئے روز پیدا ہو تے ہیں اور نہ ہی خدائے بزرگ و برتر روز روز ایسے لوگ دھرتی پر اتارتا ہے یہ خاص وقت کے لیے خاص معاشروں محفلو ں کو تحفے کے طور پر دئیے جاتے ہیں اور پھر سزا کے طو ر پر اٹھا لئے جاتے ہیں اِن کے حسن کردار سے بانجھ معاشرے زندہ ہو تے ہیں اِن کے دم سے ہی بزم ِ جہاں آباد ہیں لیکن کیا کریں جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے اچھے انسان کم ہو تے جار ہے ہیں میری زندگی کا بہترین انسان اگر سادگی شرم و حیا شرافت متانت درویشی فقیری قناعت صبر اور فقر کسی میں ایک جگہ دیکھنی ہو تو یہ جاوید صاحب تھے ایسے خوبصورت لوگ مقدر والوں کو ہی ملتے ہیں جیسے مجھے بھی ملے ان کے بارے میں کہہ سکتا ہو ں۔
بھیڑ میں دنیا کی جانے وہ کہاں گم ہو گئے
کچھ فرشتے بھی رہا کر تے تھے انسانوں میں
مجھے اکثر لوگ پوچھا کر تے تھے کہ جاوید صاحب کون ہیں تو میں انہیں کہتا میری محفل میں اگر آپ کو کو ئی ایسا شخص ملے جو پہلی ملا قات میں ہی اپنا لگے سادگی انکساری عجز و نیاز سے دہراہوا جائے ہونٹوں پر مستقل دل آویز شفیق مسکراہٹ لہجہ ریشم سے نرم آواز شہد کی مٹھاس ٹپکے گردن جھکا کر چلے محفل میں سلام کے بعد سمٹ سمٹا کربیٹھ جائے تو آپ جان لینا کہ یہ جاوید صدیق صاحب ہیں میری پہلی ملاقات جاوید صاحب سے اٹھا رہ سال پہلے کو ہ مری میں ہو ئی جب میں کو ہ مری میں قیام پذیر تھا طویل ریاضت مجاہدے کے بعد حق تعالیٰ کے کرم خاص کے بعد ہزاروں لوگ مُجھ حقیر فقیر سے ملنے آیا کر تے تھے ان دنوں جاوید صاحب بھی کسی مسئلے سے دوچار تھے میرے کسی جاننے والے نے میرا بتا یا تو مُجھ سے ملنے مری آگئے اتوار کا دن تھا ہزاروں ملاقاتی آئے ہو ئے تھے میں نے رات کا وقت دیا جب سارے لوگ چلے گئے تو جاوید صاحب پہلی بار مُجھ سے ملنے میرے گھر آئے‘ سامنے آکر صوفے پر بیٹھ گئے میں سارا دن ہزارو ں لوگوں سے مل کر تھک کر چور ہو چکا تھا لیکن جاویدصاحب کا انداز کشادہ پیشانی روشن آنکھیں گھنگھریالے بال چہرے پر صوفیانہ نور لہجے میں صوفیانہ مٹھاس عاجزی انکساری ادب و احترام پہلی ملاقات میں ہی لگا جیسے ہم بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں پھر تو
ایک دن ان کے کو چے سے گزرا تھا میں
پھر یہی روز کا مشغلہ بن گیا
میں جو ساری زندگی اچھے انسانوں کی تلاش میں رہا ان میں وہ تمام خوبیاں تھیں جن کی مجھے تلاش تھی جتنا عرصہ میں مری رہا یہ میرے پاس وقتا فوقتا آتے رہے پھر جب میں ایک سال بعد ٹرانسفر ہو کر لاہور آیا تو مجھے پورے لاہور میں کو ئی بھی جاننے والا نہ تھا میں فقیر لاہور آیا تو میرے پاس سائیکل تک نہ تھی پہلے دن دفتر گیا تو واپسی پر جاوید صاحب اپنی موٹر سائیکل لے کر کھڑے تھے کہ آج سے صبح شام دفتر لانے اور گھر چھوڑنے کی ذمہ داری میری ہے میں لاہور میں پردیسی تھا اب جاوید صاحب ان کی موٹر سائیکل تھی اور ہم دونوں کتابوں کی تلاش لوگوں کو فری دینے کے لیے دوائیوں کی تلاش میں اور جاوید صاحب لاہور کی سڑکوں پر فراٹے بھرتے رہے میں نے کہیں بھی جانا ہوتا کوئی کام ہو تو جاوید صاحب شفیق مسکراہٹ کے ساتھ حاضر ہو تے تھے مجھے جاوید صاحب کی تلاش تھی اور جاوید صاحب کو شاید مجھ فقیر کی میں کئی سالوں سے راہ فقر کا طالب علم تھا اب جاوید صاحب بھی میرے ہمرکاب ہو گئے میں نے کہا جاوید صاحب بہت سارے غریب لوگ دوائی نہیں لے سکتے تو انہوں نے ڈھیر ساری ہر بل ہو میو پیتھی کی دوائیاں لانی شروع کر دی پھر میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ میرے پاس شوگر بلڈ پریشر وغیرہ کے کامیاب نسخے ہیں تو انہوں نے یہ دوائیاں لانی شروع کر دیں جو ہم فری لوگوں میں تقسیم کر تے رہے اسطرح ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب یہاں تک کہ ایک دوسرے کے عاشق ہو گئے میرے منہ سے کوئی بات نکلتی تو اُن کی جان پر بن جاتی جب تک وہ پوری نہ ہو جاتی ان کو سکون نہ ملتا اب انہوں نے دنیا داری چھوڑ کر راہ فقر قرب الٰہی کا سفر شروع کر دیا اب مجھ فقیر حقیر کو جو آتا تھا انہوں نے وظائف وغیرہ شروع کر دئیے سالوں پر سال گزرنے لگے عبادت ریاضت مجاہدے کے بعد اب وہ بھی الٰہی رنگ میں ڈھل گئے تھے ان وہ مادیت پرستی کے رنگ سے نکل کر الٰہی رنگ میں رنگے گئے تھے میرے پاس آنے سے پہلے وہ شہر لاہور کے مشہور کامیاب ترین کمپیوٹر ٹیچر تھے اپنی مثال آپ‘ علم کے سمندر تھے اپنا سار ا علم طالب علموں پر لٹاتے کسی کو چار لفظ آجائیں تو وہ اکڑ کر چلتا ہے جاوید صاحب عاجزی انکساری کا پیکر تھے الٰہی رنگ کے بعد اب انہیں خدمت خلق کی عادت پڑ چکی تھی اب انہوں نے اپنی زندگی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی بطور استاد دوست بھائی محلے دار جو بھی اُن کی لپیٹ میں آیا انہوں نے اُس کی رسائی کی بھر پور کو شش کی اب ان کی کمائی لاکھوں میں تھی اب وہ ضرورت کے پیسے رکھ کر باقی ضرورت مندوں میں بانٹ دیتے کسی کے گھر کا کرایہ کسی کے بچوں کی فیس کسی کا علاج کسی کے کپڑے راشن جہاں کو ئی ضرورت مند ملتا یہ فوری اُس کی مدد کر تے کچھ ضرورت مندوں نے جب اُن سے قرضے کے طور پر لاکھوں روپے لے لیے تو میں اُن قرضہ داروں سے پوچھتا آپ اب جاوید صاحب سے ہی ادھار لیتے ہیں تو وہ جھکی نظروں سے کہتے سر وہ کبھی طعنہ نہیں دیتے بلکہ خاموشی سے اور پیسے دے دیتے ہیں خوشیا ں آسانیاں بانٹنے کا یہ عمل دو عشروں سے جاری تھا یتیموں مسکینوں غرویبوں کی روپے کے ساتھ اپنے ٹیلنٹ سے بھی بھر پور مدد کر تے وقت کے ساتھ ساتھ جب مجھے شہرت اور ہجوم نے گھیر لیا تو انہوں نے میری آسانی کے لیے ایک اور کام کیا ایک نیا نمبر لیا اور لوگوں کے فون سننے شروع کر دئیے اب دکھی پریشان لوگ پو ری دنیا سے جاوید صاحب کو فون پر ای میل پر اپنا مسئلہ بتاتے وہ نوٹ کر تے اگلے دن مُجھ سے مل کر جواب لے کر جاکر اُن کو بتاتے لوگوں کی پریشانی پر بھیگی نظروں اور آواز سے کہتے فلاں بہت بیمار ہے پریشان ہے کسی کا مسئلہ حل ہو تا تو بہت خوش ہو تے کسی کو پریشان دیکھ کر اُس وقت تک سکون کا سانس نہ لیتے جب تک اُس کا مسئلہ حل نہ کر دیتے اور یہ سارا عمل وہ اتنی خاموشی سے کر تے کہ ساتھ والے کو پتہ بھی نہ چلتا وہ انسان نہیں فرشتہ تھا جو کچھ وقت کے لیے مادی جانوروں کے درمیان رہنے آگیا تھا میں ساری زندگی اچھے انسان کی تلاش میں رہا اور لاکھوں انسانوں عالموں خدمت خلق کے دعوے داروں سے ملا لیکن جاوید صاحب جیسا بڑا آدمی ایک بھی نہ ملا یہ وہ پہاڑی کا چراغ تھا جو لوگوں کے لیے مشعل راہ تھا امید کی کرن تھا حوصلہ تھا امید تھی آج جاوید صاحب کے چاہنے والے خود کو یتیم محسوس کررہے ہیں خدا بھی کیا بے نیاز ہے جاوید صاحب جیسے لوگوں کو اٹھا لیتا ہے جن کے وجود سے معاشرے زندہ ہو تے ہیں گاجر مولی جیسے انسانوں کو چھوڑ دیتا ہے جاوید صاحب کی وفات پر ان کے گھر والوں کے ساتھ افسوس نہیں بلکہ ان کے چاہنے والوں کو اپنے آپ سے تعزیت کر نی چاہیے کیونکہ ایسے لوگ کسی ایک خاندان کے لیے نہیں بلکہ زمین کا نمک پہاڑی کا چراغ محفلوں کی پہچان ہوتے ہیں‘ یہ رہتے تو ایک گھر میں ہیں لیکن بستے سب کے دلوں میں ہیں اِسی طرح جب تک ہماری زندگیاں ہیں وہ ہمارے دلوں میں شفیق دوست محسن کے طور پر زندہ رہیں گے جاوید صاحب کی یادوں کی آندھی سمند ر بن کر ہر دوست کی آنکھوں سے آبشار کی طرح بہہ رہی ہے اور بہتی رہے گی۔
کچھ ایسے بھی اِس بزم سے اٹھ جائیں گے جن کو
تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کر ے
سبزہ نور ستہ اِس گھر کی نگہبانی کر ے

Share
Share
Share