میڈیا سچائی کا دامن تھامے، اپنا کھویا وقار حاصل کرے :- جاوید اختر بھارتی

Share
جاوید اختر بھارتی

میڈیا سچائی کا دامن تھامے،
اپنا کھویا وقار حاصل کرے!

جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
رابطہ 8299579972

ملک میں احتجاج اور مظاہرے کا ماحول ہے ہر ایک کے چہروں پر این آر سی اور سی اے اے کی لکیریں نظر آرہی ہیں اکثر و بیشتر لوگ یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا دستور دنیا کے تمام ملکوں میں سب سے اونچا مقام رکھتا ہے جمہوریت ہی ہمارے وطن عزیز کی خوبصورتی ہے

کیونکہ دستور ہند نے ہر مذاہب، ذات برادری کے لوگوں کا احترام کیا ہے برابری کا حق دیا ہے تو سوال یہ ہے کہ جب اتنا عظیم الشان دستور موجود ہے تو اس میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی کیا ضرورت ہے لیکن بی جے پی حکومت دستور ہند کی دھجیاں اڑا کر جمہوریت کا قتل کرنا چاہتی ہے ملک کے تانے بانے کو منتشر کرنا چاہتی ہے شہریت دینے کی مخالفت نہیں ہورہی ہے بلکہ مذہب کی بنیاد پر جو شہریت دینے کا انتظام کیا جارہا ہے اسکی مخالفت ہورہی ہے کیونکہ شہریت تر میمی قانون سے ملک میں نفرت بڑھے گی اور اس نفرت میں ملک کو جلنے کا خطرہ ہے. وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو سوچنا چاہیے کہ ووٹ دینے کا حق کس کو حاصل ہوتا ہے دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ملیگا کہ جہاں کسی قوم کو شہریت حاصل نہ ہو اور ووٹ دینے کا حق حاصل ہو یعنی ووٹ دینے کا حق اسی کو حاصل رہتا ہے جو اس ملک کا شہری ہوتا ہے تو جب آزادی کے بعد سے اب تک ہندوستان کے لوگ ووٹ دیتے آئے ہیں تو ان پر این آر سی کیوں نافذ کیاجارہاہے کیا ووٹ دینا شہریت کا ثبوت نہیں ہے اور بی جے پی حکومت ووٹ بھی مانگتی ہے اور شہریت کا ثبوت بھی مانگتی ہے تو یہ ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے ملک کے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے اور احتجاج و مظاہروں کو طاقت کے بل پر روکا جا رہا ہے جامعہ کے طلباء آئین ہند کے وقار کو بچانے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں جمہوریت کی خوبصورتی کو سلامت رکھنے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے احتجاج کی ہر ادارے ہر خانقاہ کے لوگ کھل کر حمایت کریں شہریت تر میمی ایکٹ کے خلاف احتجاج ومظاہرے کو کسی مذہب کی عینک لگا کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اس کی مخالفت میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں غرضیکہ ہندوستان کا ہر انصاف پسند و سیکولر مزاج انسان شہریت تر میمی قانون کی مخالفت کر رہا ہے ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ ذرائع ابلاغ جسے ہم میڈیا کہتے ہیں تو میڈیا کو ملک میں ایک بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے بلا شبہ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا معاشرے کی رگ جاں ہے عوام تک ایمانداری، دیانتداری اور سچائی پر مبنی جانکاری فراہم کرنا اس کا اصل مقصد ہے اور عوامی مسائل سے حکومت کو آگاہ کرنا اور پوری طرح غیر جانبدار ہونا میڈیا کے لیے ضروری ہے یعنی عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنے اور عوامی مسائل کو ابھارنے کی ذمہ داری بھی میڈیا کے فرائض میں شامل ہے لیکن آج میڈیا بھی اپنے وقار کو بچانے میں ناکام ہے شہریت تر میمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کو لیکر جس طرح کا کردار میڈیا چینل ادا کرہاہے وہ بہت ہی افسوسناک ہے شہریت تر میمی قانون کے سلسلے میں ہونے والے احتجاج کو ایک رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے مظاہرین کو مجرم قرار دیا جارہا ہے، اور پولیس کی بربریت کو جائز قرار دیا جارہا ہے غرضیکہ آج میڈیا کا کردار ایسا ہے کہ ان کے اوپر عوام کا اعتماد نہیں رہا ان کے اوپر سوال اٹھنے لگے ہیں اس لئے کہ چاہے جیسا بھی وقت آیا ہو لیکن میڈیا نے کبھی اپنے منہج اور کردار سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا اور اسی بنیاد پر میڈیا کو چوتھا ستون کہا گیا ہے اور مانا گیاہے لیکن آج کی میڈیا خود اپنے کردار کو مشکوک کرتی جا رہی ہے بڑے بڑے پونجی پتیوں اور حکومت کے ہاتھوں کھلونا بنتی جا رہی ہے جبکہ انہیں غور کرنا چاہیے کہ جمہوری نظام کی عمارت میں ذرائع ابلاغ یاصحافت کا بہت اونچا مقام ہوتا ہے جس کا کام حکومت وقت کو بہتر مشورہ دینا اور معروضی محاسبہ کرکے عوامی جذبات و عوامی مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے میڈیا کو ملک کا، معاشرے کا چوتھا ستون کہاجاتا ہے یہ اپنی اہمیت تب برقرار رکھ سکتا ہے جب یہ غیر جانبدارانہ راست اختیار کرے اور حقائق سے لبریز خبریں عوام تک پہنچا ئے تبھی یہ عوامی مقبولیت حاصل کرسکتے ہیں اور ان کے اوپر عوام کا اعتماد قائم ہوسکتا ہے لیکن یہاں تو بعض اینکرز اور میڈیا ذاتی اغراض و مقاصد کے حصول کیلئے اپنا کردار مجروح کرنے کے طریقے پر عمل پیرا ہیں جس کی وجہ سے سماج کے باشعور افراد میں بے چینی ہے اور بہت سے صحافی بھی ناخوش نظر آتے ہیں یہ موجودہ وقت کی میڈیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے اب میڈیا کو عوام کا اعتماد اسی حالت میں حاصل ہوگا جب میڈیا کے لوگ اپنے ماضی کے حالات پر غور کریں اور ماضی کے حالات و طور طریقے کو اپنائیں یعنی حقائق کو اجاگر کرنا، دبے کچلے لوگوں کی آواز میں آواز ملانا، عوام کے جائز مطالبات کو فروغ دینا، کسی کے ساتھ حق تلفی ہوتو اسے روکنا، کنکر کو کنکر اور پتھر کو پتھر لکھنا، ہر طرح کے ظلم وجبر کی مخالفت کرنا، ہرطرح کی لالچ کو ٹھوکر مارنا، عوامی مفادات کو ترجیح دینا ان چیزوں کو شیوہ بنانا ہوگا اور یہ ساری چیزیں تبھی ممکن ہیں جب نیک نیتی ہوگی سینوں میں ملک و ملت کے تئیں ہمدردی و سچائی کا جذبہ ہوگا آج کے دور میں تو میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا سے عوام کا اعتماد مکمل طور پر اٹھ چکا ہے –

Share
Share
Share