افسانہ : سچ بولنے والا…..!
ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ
Email:
میرا نام شاہد ہے میرے والد کا برسوں سے آئینہ کا کاروبار ہے۔ہمارے یہاں ہر طرح کے آئینے خرید و فروخت کیے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں کے آئینے اکثر فوٹو گرافی اور ٹیلی وائز شوز میں سب سے زیادہ استعمال ہوتے تھے۔ اب حالات بالکل بدل چکے تھے۔
اس مہنگائی کے دور میں کسی بھی چیز کی خرید و فروخت سے پہلے یہ جانچا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کے حصے میں کتنا جائے گا اور ہمارا منفع کتنا ہوگا َ؟ میں اب اکُتاہٹ محسوس کرنے لگا ہوں۔یہی حال رہا،تو میرے مستقبل کا کیا ہوگا؟ میں آخر نوجوان تھا میرے ہر کام میں جلدی پن تھا یہی نہیں اب تو میر ا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا وغیرہ سبھی کاموں کوبھی جلدی جلدی کرنے لگا تھا۔ میری عادتیں بدلتی جارہی تھیں۔ میرے والد مجھ سے کئی مرتبہ اصرار کرتے رہے کہ تم میں آئینے کو تراشنے اور اس سے کام لینے کی اچھی صلاحیت موجود ہے،لیکن تم نئے زمانے کے ساتھ گھل مل کر کوئی ایسا کارنامہ کر ڈالو کہ دنیا تم کو تمہارے نام سے جاننے لگے۔
ویسے تو میں اپنے والد کی باتوں کو ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا۔ تھوڑے ہی دنوں میں میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ میرے والد کے انتقال کے بعد حالات نے ایسی کروٹ لی کہ جس دکان سے گھر کا خرچ اور اخراجات اٹھائے جارہے تھے اب اس کے بر عکس گھر سے دکان کے خرچ اور اخراجات سے جوجھنا پڑھ رہا تھا۔ امّی نے اپنے سارے زیورات یک بعد دیگر ایک ایک کرکے بیچ دئیے۔مگر افسوس اس بات کا رہا جب تلک ہمارے پاس پیسے، دھن دولت تھی ہمارے رشتہ دار اور دوست برابر سے ہماری خیر و خبر لیتے رہے، لیکن جب سے حالات خراب ہوئے کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ کیا کوئی ہم سے مدد چاہیے؟ حالانکہ میرے والد نے سبھی کی اچھے بُرے حالات میں فوری طور پر مدد فرمائی تھی لیکن حالات اس قدر جلدی بدل جائے گے کہ ہمارے اپنے ہی ہمیں کب دھوکا دے گئے پتہ بھی نہیں چلا۔
ہائے افسوس….! ہائے افسوس………! کرتے کرتے دن گزر بسر ہورہے تھے۔ میں نے ہمت نہیں ہاری،میں نے طے کر لیا کہ میں ضرور کچھ کر پاؤں گا۔ میں نے کانچ کے ٹکڑوں کو جمع کرکے نئے نئے آئینے بنانے شروع کیے۔ ہماری دکان ذاتی بھی تھی اور بڑی بھی تھی۔ میں نے اس دکان کو دوحصوں میں تقسیم کردیا۔ پہلے حصے میں، میں نے ٹیکنالوجی کی بدولت اُن آئینوں میں ایک کیمیرہ اور چیپ لگا دی اور جیوتشی، مذہبی،نفسیاتی، منطقی، ڈاکٹری وغیرہ کے کئی ایسے آن لائن پروگرام بھی سیٹ کردئیے تھے جس کے باعث آئینے کے سامنے کوئی بھی شخص آتا ہے نیٹ ورک آن ہو کر اس شخص کے بارے میں بتانا شروع کر دیتا تھا لوگوں کو بس یہی لگتا ہے کہ کمرے کے اندر سچ بولنے والا آئینہ ہے دراصل آئینہ کی یہی خوبی ہے کہ وہ سچ بول کر بھی خاموش رہتا ہے لیکن زمانے نے آئینے کے دن بدل دیے کہنا کا مطلب یہ کہ اب آئینہ ظاہر ی اور باطنی دونوں طرح سے بولتا ہے۔ اس دکان کے دوسرے حصہ میں راستہ سیٹ کر رکھا تھا جہاں سے دونوں حصوں میں آنا جانا لگا رہے۔ ان حصوں کو بنانے میں کافی وقت لگنے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا۔
دکان کو شو روم میں تبدیل کرنے سے میری دنیا بدل ہی گئی۔ اس شوروم کا نام ’سچ بولنے والا‘ رکھا تھا۔ پہلے پہل کچھ لوگ نام سُن کر شوروم میں آنے لگے تھے میں نے اس شوروم کے اندر داخل ہونے کی قیمت صرف پانچ (۵) روپے رکھّی ہے۔ لوگوں میں یہ جاننے کا اتسا تھا کہ آخر اس کمرے میں کون ہے جو سچ بولتا ہے۔لوگ یہ تو جانتے تھے یہ محض آئینہ کا کمال ہے جس کو دیکھو وہ اپنے حال سے اتنے تنگ نظر تھاکہ وہ بار بار اپنے حال کو دیکھنے چلے آتا ہے۔میری دکان میں پرکاش دُبے نامی شخص آیا۔وہ جب سے موٹا ہوگیا تب سے اُس نے آئینہ دیکھنا بند کردیا تھا لیکن سچ بولنے والا نام سُن کر اُسے خدشہ ہوا کہ آخر کار اُس نے اپنا قدم بڑھاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوگیا۔کمرے میں داخل ہونے کے ساتھ کمرے میں چھوٹی چھوٹی ایل ای ڈی لائٹ روشن ہوگئی اور ٓواز آئی بیٹھ جاؤ پرکاش دُبے۔ تم نے تو موٹاپے کی ساری سرحدیں توڑ ڈالی۔ یہ سُن کر پرکاش دُبے حقہ بقہ سا رہ گیا۔ لیکن اس کے ستارے اتنے بلند تھے کہ آئینے نے بتایا تم بہت جلد اپنی بڑی پریشانی سے مُکت ہونے والے ہو۔ پرکاش دُبے نے سوال کیا؟ کیا میں زندگی میں کبھی دُبلا نہیں ہو پاؤں گا؟ تب آئینہ نے جواب دیا تمہاری قسمت میں موٹاپے کی ہنسی خوشی زندگی لکھی ہے تم خود کو دُبلا پتلا کرکے تمہارے ہنستی کھیلتی خوشیوں کے دنوں کو رنج و غم میں کیوں تبدیل کرنا چاہتے ہو؟ دنیا کے تم واحد شخص نہیں ہو جو موٹاپے جیسی بیماری میں مبتلا ہو کر اپنی بچی کچی زندگی کو تباہ و بر باد کر ڈالو۔ دنیا میں تم جیسے لاکھوں لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو اجیرن بنا کر ہی دم لیتے ہیں۔ میرے خیال میں تم کو پرہیز کرنا چاہیے۔ پرہیز ہی تم کوتمہاری پریشانی سے نجات دلا سکتا ہے اور شاید تمہیں تمہارے موٹاپے سے بھی نجات دلا دے۔ یہ بات سن کر پرکاش دُبے خوش ہو گیا اور اس کمرے سے باہر نکل گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد اس کمرے میں ایک کم سن لڑکا داخل ہوا۔ وہ یہ سوچ کر آیا تھا کہ اُسے اپنے امتحان کا نتیجہ معلوم کرنا تھا اور وہ ڈر رہا تھا کہ اگر اس بار بھی کم نمبر آئے تو امّی ابّو ناراض اور خفا ہوجائے گے۔اس کم سن لڑکے کا نام ارمان تھا۔ آئینے سے جیسے ہی آواز آئی کہ ارمان بیٹھ جاؤ تو ارمان یک دم ہو کر رہ گیا۔ ارمان نے بے پرواہ ہو کر اپنے دل دماغ کی باتیں کہہ ڈالی۔ کیا میں اس مرتبہ امتحان میں کامیاب ہوجاؤگا؟ تب آئینے نے جواب دیا تم نے جتنی محنت کی ہے اس حساب سے تو تم کامیاب ہی ہو۔ ارمان کہنے لگا یہ کیسا جواب ہے؟ آئینے نے کہا تم سچ جاننا چاہتے تھے اور میں نے تمہیں وہی بتایا۔ رہا تمہارا ڈر تم گھر جاکر ایک کاپی لینا اور اس میں اپنے ڈر کو دس بار لکھنا اور ایک مرتبہ اپنے امّی اور ابّو کو بتانا۔ یہ بات سن کر ارمان تھوڑا ریلیکس ہو گیا۔ آئینہ سچ بولنے کا عادی تھا مگر انسان نے اُسے اتنا استعمال کیا کہ اب وہ جھوٹ بھی بولتا ہے تب بھی انسان سچ ماننے لگتا ہے۔ اتنے میں ایک نوجوان کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے آئینے کو دیکھنے کے ساتھ ہی کہہ دیا اگر آج مجھے کوئی حل نہیں ملا تو میں خود کشی کر لوں گا؟ آئینے نے کہا راجا تم کیسی باتیں کر رہے ہوں؟ راجا تم کو تو اس دیس کو ترقی کی اور لے جانا ہے اور تم احساس کمتری میں مبتلا ہو؟ راجاکہتا ہے تم کیا جانو۔۔۔!اس زمانے کو ٹکنالوجی کی صدی کہتے ہیں لیکن ہر جگہ اس ٹکنالوجی سے بننے والی مشینوں اور روبوٹ نے لے لی ہے۔ میں ایک الیکٹرانک کمپنی میں کام کر رہا تھا لیکن اب ہماری جگہ مشینوں نے لے لی ہے مشین ہماری کی ہوئی ایجاد ہے اور اب یہ ہماری ہی دنیا کو آباد کرنے کے بجائے بر باد کر رہی ہیں۔ آئینے نے کہا دیکھو یہ دنیا اشیور، اللہ کی بنائی ہوئی ہیں اور ہر زمانے میں یہ رہا ہے اچھائی پر برائی حاوی ہوتی ہے لیکن جیت صرف سچائی کی ہوتی ہے تم گھبراؤ نہیں تم انسانوں کی بستی میں رہتے ہو، اور انسان کی اتنی ضرورتیں ہوتی ہیں جو ساری مشینیں بھی یکجا کر لی جائیں تب بھی انسان کی ضرورتیں پوری نہیں کی جا سکتی۔انسان کی ضرورتیں ہر روز بدلتی ہیں۔تم ان ضرورتوں پر دھیان دو۔ یہ جواب سُن کر راجا کو نیا راستہ مل گیا۔ یہ سچ بولنے والا آئینہ واقع میں سچ بولتا ہے یہ کہتا ہوا راجا باہر چلا جاتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے آج تک سُنا تھا کہ آئینہ سچ بولتا ہے مگر آج سچ بولنے والا آئینہ دیکھ بھی لیا۔
اُس کمرے میں نقاب پوش خاتون داخل ہوئی۔ آئینے سے آواز آئی ساجدہ۔ ساجدہ نام سنتے ہی وہ کمرے سے باہرنکل ہی رہی تھی کہ اس کے دل و دماغ پر حاوی اس سوال نے اسُے رو کے رکھا۔ اس نے واپس اپنے قدم لیے اور آئینے کے سامنے سوال کیا؟ کیا لڑکی کا پیدا ہونا عذاب ہے؟ آئینے نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تم بہت خوش نصیب ہوکہ تمہیں نہ صرف زندگی نصیب ہوئی بلکہ عزّت بھی ملی، ورنہ ایک وہ زمانہ بھی تھا لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اسے دفن کر دیا جاتا ہے اور بعض دفعہ تو دودھ میں ڈوبو کر مار دیا جاتا تھا۔ ساجدہ نے دوسرا سوال پوچھا’کیا لڑکیاں بوجھ ہوتی ہیں؟ آئینے نے جواب دیا۔ ہم جس عینک سے دیکھے گے ہمیں وہی نظر آئے گا اگر ہم لڑکیوں کو بوجھ سمجھے گے تو ضرور وہ بوجھ ہی سمجھی جائیں گی۔ ساجدہ نے لڑکیوں کے حوالے سے بہت سارے سوال کیے مگر ہر بار اسے مطمعئن جواب مل جاتے تھے۔ ساجدہ کو آخر میں آئینہ کہتا ہے اخلاقی برائیوں کے سبب اسے مسائل پنپتے ہیں اس لیے ہمیں چاہییں کہ ہم معاشرے میں تعلیم کا اور اخلاقی قدروں کا معیار بڑھائے تب سارے مسائل حل ہوتے جائیں گے۔ساجدہ کے آنسوں نکل پڑے۔ وہ بھی یہی کہنے لگی کہ سچ بولنے والاآئینہ میں نے سُنا تھا لیکن آج دیکھ بھی لیا۔
——–
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676