افسانہ : خوشبو ایک چندن کی :- سلیم اقبال

Share
سلیم اقبال

افسانہ : خوشبو ایک چندن کی

سلیم اقبال – محبوب نگر
9949471645

”میں پایا۔ میں پایا۔“
پروفیسر ڈانگے چھوٹی سی گول میز کے گِرد بچوں کی طرح چلاتے ہوئے گھوم رہے تھے۔ ان کی اپنی ایسی بچکانہ حرکات کوئی نئی تو نہیں تھیں کبھی دیوانوں کی طرح شورمچاتے ہیں توکبھی پاگلوں کی طرح گھنٹوں پانی سے بھرے ٹب میں بیٹھے کبھی اپنا توکبھی ٹب کا وزن دریافت کرنے کی فکر میں لگتے رہتے ہیں۔

اُن کی بیوی۔ سلوچنا بازوپڑی ہوئی کرسی پربیٹھی پنٹنگ کررہی تھیں۔ ویسے وہ پروفیسر کی رگ رگ سے واقف تھیں لیکن کوئی کب تک کسی پردھیان دے۔ بچّے تو نہیں جو دن بھرجتن کرنا پڑے۔ کبھی کبھی تو سلوچنا اُوب جاتی اور اُسے محسوس ہوتا جیسے پروفیسر کے سرکے سوکھے اور روکھے بال اُس کے دماغ میں مکڑی کے جالوں کی طرح پھیل گئے ہیں وحشت کی ماری سلوچنا نے غیرارادی طورپر پروفیسر کی جانب ایک اُچٹتی سی نگاہ ڈالی تو اس کی سوئیاں اُس کی انگلیوں میں ایک دم ایسے رک گئیں جیسے کسی بجتے ساز کے تار ٹوٹ کربکھرگئے ہوں جیسے۔
پروفیسر کی یوں تو سبھی عادتیں ایک سی تھیں جیسے ہفتوں سرمیں تیل نہ ڈالنا۔ ایک ہی سوٹ مکمل ایک ماہ تک نہ بدلنا۔ راتوں میں سگریٹ پرسگریٹ جلاکر سجے سجائے ڈرائینگ روم کو رسوئی جیسی حالت میں بدل دینا وغیرہ…… لیکن آج پروفیسر کچھ ہشاش بشاس سا لگ رہاتھا اُس کے جھریوں بھرے گالوں پرمسکراہٹ کی ایک ہلکی سی باریک تہہ جم گئی تھی ایسے لگ رہاتھا جیسے مرجھائے ہوئے پھولوں پرشبنم کے باریک باریک مہین قطرے ٹہرگئے ہوں جسے ……سلوچنا مسکراپڑی۔ لیکن اس کی اس مسکراہٹ میں کچھ فرق ضرور تھا۔ ویسے وہ پروفیسر کا دل رکھنے کوبارہامسکراچکی ہے اس احتمال کے خاطر کہ اگر وہ نہ مسکرائی تو پروفیسر رونا شروع کردے گا۔ اورمحلہ بھر کے لوگ الگ جان کھائیں گے۔ سوئیٹر کولیئے ہی لیئے وہ پروفیسر کے قریب آئی اور بڑے پیار سے بولی‘ اتنی لمبی عمر کے ہوگئے لیکن بچپن نہیں بھولے‘انہیں پھرایک بارپیار بھری نظروں سے دیکھا‘ جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو‘ لیکن بہت جلد اسے یہ احساس ہوگیا کہ اتنے قریب ٹہرے پروفیسر تک پہنچنے کے لیے اسے جانے اور کتنے سال لگیں گے۔یہ توہمالہ کی اُس پر برف پوش چوٹی کی طرح سرد ہے جس تک پہنچنے کے لیے کافی گرمی کی ضرورت ہوتی ہے ایسی گرمی جس کی بھاپ سے برف پوش چوٹیا ں پگھل پگھل کر گنگا بن جائیں۔ اُس نے ایک آہ سرد بھری اوربڑی جتن سے اپنے آپ کو اُس داسی کے روپ میں چھپالیا جوروز پتھرکے بھگوان پرارمانوں کے کومل پھول نچھاور کرآتی ہے۔
پیار پھر بھی پیار ہوتا ہے۔ سلوچنا سب کچھ بھول گئی اور پروفیسر کوپیار بھری ڈانٹ پلاتی ہوئی بولی۔ سیدھے ٹھیرئیے۔ ہاتھ اُوپر نیچے مت کیجئے۔ بعدمیں آپ خود ہی کہیں گے یہ آستین چھوٹی ہے وہ بڑی ہے۔
سلوچنا کی پکّی عمرتھی لیکن جان پڑتاتھا جیسے یہ پھل ابھی تک پکانہیں ہے۔گوری گوری رنگت‘ بھرا بھرا جسم نکھرے نکھرے رخساروں پربیتی بہاروں کے گداز سائے۔ اوران سائیوں میں جھلملاتا اس کا مرعوب سا وقار جواس کی شخصیت کوایک دوامی مسرتوں کا قرینہ سکھاتاتھا۔ اتنی پکّی عمرمیں بھی سلوچنا کی سج دھج میں کوئی فرق نہیں آیاتھا وہ تواکثر کنواریوں سے بھی شوخ کپڑے زیب تن کیا کرتی اور اکثراس عمر میں بھی اسے کئی بار اس پروفیسر ڈانگے کے ساتھ مالابار ہل پرگھومتے ہوئے دیکھاگیا ہے۔
سلوچنا شام کے ہاتھوں میں روشن دیا جلاکرآئی تومبہوت کھڑی کی کھڑی رہ گئی کیونکہ سامنے پام کے سایوں میں ابھی کچھ دیر پہلے ناچتا کودتا پروفیسر سوچ کے اتھاہ ساگروں میں ڈوبا ہوا تہہ در تہہ اندر ہی اندر چلاگیاتھا۔
وہ سہمی ہوئی سی اس کے قریب جا بیٹھی۔یہاں تک کہ شام کے کئی بہارآفریں جھونکے آئے اور چلے بھی گئے۔ اس کی زلفیں اس کے ماتھے پرجھول جھول کر تھک سی گئیں۔ پاؤں تلے بچھی ہوئی نرم ملائم گھاس اس کے تلوؤں میں اب کوئی گدگدگی پیدا نہیں کررہی تھی بلکہ اس کی ہری بھری پتیاں تک اسے چھبتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور پروفیسر ڈوبتا ہی جارہاتھا۔ڈوبتا ہی…………
اچانک پروفیسر نے آواز دی۔ ”سلوچنا“ لمحہ بھر کواُسے یقین نہ آیا کہ یہ آواز پروفیسر ڈانگے کی ہے۔کیونکہ وہ صرف آوازہی نہیں‘ بلکہ اس آواز میں اور بہت ساری آوازوں کی جھنکارتھی بھی جب بہت ساری آوازیں گڈمڈہوکرایک ہی آواز نکالتی ہیں تویہ آواز دِل کے اُفق پراتنی تیزی سے پروازکرجاتی ہے کہ گمان ہوتا ہے جیسے دل کی جگہ دل نہیں ہے بلکہ صرف آواز ہی آواز ہے۔ گونجتی ہوئی‘دور‘دور‘ تک گاتی اٹھلاتی‘سیٹیاں بجاتی ہوئی‘ ہائے اس آواز میں کیسا جادو ہے کیسی بے خودی اورکیسا کیف ہے جو روح کی گہرائیوں میں لوبان کے دھویں کی طرح معطرپھیلتاہی جارہا ہے۔ دور دور تک دھواں ہی دھواں ہے۔ ا وربس۔سلوچنا کا دل دھڑکنے لگا زندگی کی بہاریں توبیت گئیں لیکن کسی نے آج تک اسے اتنی چاہت‘اتنی اپنائیت سے نہیں پکارا۔یہ سنگ دِل انسان جس کے من میں عورت کا وجود ایک بیوفا سے بڑھ کرنہیں اُسی کے سنگ وخشت میں اتنے میٹھے پانی کاجھرنا……اُس کے انگ انگ میں فواروں کی طرح مسرت کے سوتے پھوٹ پڑے‘ وہ ڈگمگاتی شرماتی اُس کے قریب جاکراُس کے قدموں میں بیٹھ گئی اورپھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ یہ کیسی آواز ہے۔میرے ہمسفر‘ یہ کیسا گیت ہے میرے میت آج پہلی بار یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے‘ تم اتنے اُداس‘اِتنے پریشان سے کیوں ہو۔ کہیں میں نے یہ سوئٹر بھی تمہاری پسند کے خلاف تو نہیں بُنا ہے۔کہیں اس کی آستنیں اوپرنیچے تونہیں ہوگئیں ہیں۔
”ہوگئی ہیں“ ایک اُوپر ایک نیچے اورمیں چاہتا ہوں کہ اس اُونچ نیچ کی خلیج کواب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کاٹ دوں‘ آؤمیری اُونچی نیچی باہوں میں سماجاؤ بہت دنوں سے یہ فرق یہ میرے دِل میں انگاروں کی طرح جلتا رہا ہے تم ان انگاروں پراپنے پیار کی شبنم بکھیر دو کہ میں زندگی کی ان بلندیوں کوچھولوں جومیرے نزدیک ایک حقیر سی بساط پھیلائے کھڑی تھیں۔
یہ کیا ہوتا جارہا ہے تمہیں۔یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔ میری طرف دیکھو میں تمہاری ہی بانہوں سے لپٹی ہوں‘ میرے جوڑے میں لگا یہ گلاب کا پھول ابھی تک مہک رہا ہے۔ وہ دیکھو آکاش کی وسعتوں میں کوئی نغمہ ابھی تک ڈول رہا ہے۔ ہوں۔۔۔ “
پروفیسر سلوچنا کی گہری جھیل جیسی آنکھوں میں غوط زن ہوتا ہوابولا۔آج تمہیں پہلی بارشاید پیارکیا ہے نا۔ پہلی بار دنیا کی ہرعورت چاہتی ہے کہ اُس کا چاہنے والا پہلا اور آخری بھی ہو‘اس لیے وہ پہلی ہی نظر میں اپنا سب کچھ نچھاورکردیتی ہے۔ میں نے توتمہارے پیار کے سمندر سے ایک موتی تک چن نہ پایا‘ آج مجھے جی بھر کے پیار کرلینے دو کہ کل کِس نے دیکھا ہے۔“
پروفیسر کی شادی اُس کے عقیدے اور اصولوں کے خلاف ہوئی تھی۔ وہ نہیں چاہتاتھا کہ اپنی زندگی میں کسی عورت کا سایہ بھی پڑے۔ اُسے ہرعورت سے نفرت سی ہوگئی تھی چاہے وہ عورت کا کوئی بھی روپ ہو۔ اس کی نظرمیں پیار کا جذبہ ایک دھوکا‘ایک فریب تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ ہرپیار کے پیچھے غرض‘ فرض‘ ہوس اور خوف کی پرچھائیاں منڈلاتی ہیں۔ اِن پرچھائیوں کے بغیر پیار کے پوتّر روپ کبھی سنورنہیں سکتے۔ یہ دنیااندھی ہے۔ یہ نہیں دیکھتی کہ پیار کا روپ کتنا بھیانک ہے‘ کتنا جانفشاں اور کتنا جانگسل ہے۔ ہرشخص کسی مجسمے کی خوبصورتی پرغورکرتا ہے۔ اُس کے فن اورکلام کی تعریف کرتا ہے۔ اُس کے تخّیل کی داد دیتا ہے لیکن کوئی اُس فنکار سے یہ نہیں پوچھتا کہ یہ تخلیق تمہارے کس کرب اور درد کانتیجہ ہے‘یہ خون یہ حسرتِ پائماں اوراپنی یہ خواہش تشنہ کوتم نے اس مجسمے کے سینے میں کیوں کر دفن کیا ہے؟
ماں اپنے بیٹے سے اس لیے محبت کرتی ہے کہ وہ بڑا ہوکر اس کا سہارا بنے گا۔بیوی اپنے شوہر سے اس لیے پیار کرتی ہے کہ وہ کماکرلاتا ہے۔بھائی اپنی بہن سے اوربہن اپنے بھائی سے اس لیے پیار کرتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے کے سہارے ہیں۔ یہ اس کی شادی کا سمان کرے گا۔ وہ اس کی شادی میں ڈھولک بجائے گی۔ بچے اپنی ماں سے اس لیے پیار کرتے ہیں کہ وہ گھر کی حاکم ہے اُس سے لڑبھڑ کربھوکے مرنا پڑتا ہے۔اگرہربیوی کواپنے شوہر‘ ہربہن کواپنے بھائی سے‘ہرماں کواپنے بیٹے کا مستقبل معلوم ہوجائے کہ وہ آگے چل کر جواری‘ شرابی آوارہ ہوجائے گا تو وہ کون ماں ہے جواپنی اولاد سے‘ کون بیوی ہے جواپنے شوہر سے پھربھی پیار کرے گی تم کہو گے توپھریہ دنیا آج اتنی پھیلی ہوئی کیوں ہے اس دنیا میں آج بھی محبت کے ترانے کیوں گائے جاتے ہیں تومیں کہوں گا کہ یہ پیار کے گیت‘ یہ دنیا کی ریت مجبوری کے ایک ایسے دھاگے سے بندھی ہے جواپنے ہی خواہشات کے تاربنانا‘اپنی ہی موت کا باعث بنتا ہے جیسے ریشم کا کیڑا اپنے ہی لعاب سے بنائے گھرمیں گھٹ گھٹ کر مرجاتا ہے۔مجھے کالج میں کی گئی اس کی تقریر کاایک ایک لفظ یاد ہے اوراس نے یہ بھی کہاتھا کہ ”میں ٹالسٹائی کے ان عظیم جملوں پراپنی بات ختم کرنے سے پہلے یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ دنیا کا پہلا خون اِسی عورت کی وجہ سے ہواتھا‘ اِسی عورت کی خاطر ہابیل اورقابیل نے اپنی جانیں دی تھیں۔ ٹالسٹائی نے کتنا سچ اورکتنا درست کہاتھا کہ ”اگرمیرا بس چلے تومیں تمام عالم کی عورتوں کوپھلوں کی طرح درختوں پراُلٹے لٹکادوں“ تمام ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا اور لڑکے سیٹیاں بجارہے تھے۔ سب لڑکیوں کی سُبکی ہوگئی تھی۔ کسی کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ کوئی ڈانگے کی تقریر کا جواب دے۔ آہ۔ اُس دن میری آنکھوں میں صرف خون اُتر آیاتھا۔
بیس برس پہلے کے وہ دن سلوچنا کویادآئے۔ وہ دن بھی یاد آیا جب ڈانگے کسی بپھرے ہوئے شیر کی طرح”وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“ کے عنوان کا مخالف حریف بنا تقریر کررہاتھا۔ اس کی ہیبت ناک روانی اور اُس کی گرجدار آواز سارے ہال میں ایک عجیب سی پراسرار خاموشی پھیلاگئی تھی۔
اورآج یہ نفسیات کا پروفیسر ہوگیا ہے اورکل تک یہ اپنے اصولوں پرقائم رہا ہے اُس نے زندگی بھر اپنے اصول کی ایک گرہ تک نہ کھولی اور جس نے اپنے اصول کواپنی زندگی جانا‘اپنی زندگی کوکبھی کسی اصول کے تابع نہ کیا ہو وہ کیسے کوئی گرہ کھول سکتا ہے۔!!
مجھے ان دنوں ڈانگے سے سخت نفرت سی ہوگئی تھی۔میں توڈانگے سے ڈرنے بھی لگی تھی۔ کالج کے سبھی لڑکے مجھ سے پیار کرنا چاہتے تھے۔لیکن ڈانگے کیسا لڑکا ہے؟ کسی سے کچھ بولتا ہی نہیں۔ اس کا کوئی دوست ہے نہ رفیق۔ کلاس میں بیٹھتا بھی ہے توایسا جان پڑتا ہے جیسے وہ ڈانگے نہیں پتھر کی کوئی مورت ہوجیسے۔
پھر قسمت کے پھیر کو کس نے دیکھا ہے۔ ڈانگے کے پتا اور میرے ڈیڈی میں خوب چھنتی تھی۔ ایک دن باتوں باتوں میں میرے رشتے کی بات پکّی ہوگئی۔ ڈانگے ہزار انکار کرتا رہا لیکن اس کے پتا نے ایک نہ مانی۔ لاکھوں ہندوستانی لڑکیوں کی طرح میرے لبوں پربھی تالے پڑگئے۔ میری خواہش اور تمنّا کا کسی نے نوٹس تک نہ لیا۔پھرنجانے کیسے دھیرے دھیرے مجھ میں ڈانگے سے خوف کے بجائے مقابلے کا جذبہ جاگا۔ اورمیں نے کیسے طئے کرلیا کہ میں ڈانگے کے ہراصول کا ناش کردوں گی جو اِس کے دماغ میں پتھر کے لکیروں کی طرح جمے پڑے ہیں۔
شادی کی بہت ساری خوشیاں شہنایوں مدھرآواز کے ساتھ ہی رخصت ہوگئیں دوسرے دن سے ہم ایک دوسرے کے حریف تھے۔ ساتھی نہیں دشمن تھے۔زندگی کے تیس برس اس شخص نے میرے ساتھ ایسے گذارے جیسے کوئی دو اجنبی مسافرایک ساتھ کسی خالی ریلوے کمپاٹمنٹ میں سفر کرنے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔ میں نے اس سے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اُس سے نفرت کرتی ہوں‘میں نے یہ بھی نہیں کہاکہ میری ضرورت ہی نہ تھی توجسے بیاہ کرکیوں لائے۔میں توبس کاغذ کی ایک ناؤتھی جونفرت کے دریا میں بہتی جارہی تھی۔
پھرنجانے یہ کیسے ہوگیا کہ میں نفرت کے مد سے مفاہمت کے جذر کی جانب بہتی چلی گئی۔ میں تواب اس کے اصولوں کی پابند ہوچلی تھی۔ گھنٹوں بحث کے دوران میں اُسی کے خیال کی تائید کرتی وہ خوش ہوجاتا لیکن کہتا دیکھوسلوچنا تم میرے خیالات کی تائید کرکے مجھے خوش توکرسکتی ہولیکن مجھے دھوکا نہیں دے سکتیں۔ اور وہ چلاجاتا مجھے چتا کی آگ میں ڈھکیل کر روز میں روتی بلکتی اپنے آنسو جمع کرتی جاتی کیونکہ مجھے یقین ہوچلاتھا کہ ایک دن انہیں آنسوؤں سے چراغ چلے گا ڈانگے کے اندھیرے دل میں اس کے دماغ میں اس کی زندگی کی اندھیری راہو ں میں۔
گلشنِ زیست میں کوئی پھول تونہ کھل سکا۔ لیکن میں نے اس کی ایک ایک ڈال کواپنے خون دِل سے سینچا ہے۔ اس کے ایک ایک پھول میں میری حسرتوں کا رنگ بھرا ہے۔ کبھی کبھی کوئی چڑیا ان درختوں پرپھدکتی گاتی نظرآجاتی تومیری آنکھیں ساون بھادوں ہوجاتیں اورمیں اپنے دِل میں ایک نئی زندگی کی امید لیے اپنے خیالات کی دنیا سے نکل آتی۔
ڈانگے اب اپنے کالج کا ایک مشہورپروفیسر ہے۔ اس کے سوتیلے ماں باپ دونوں گذرچکے ہیں۔ اب وہ اِس بھری دنیا میں اکیلا ہے جیسے کوئی خاموش گمبھیر آسمان کی وسعتوں کو گھورتا ہوا تنہا بے سایا درخت اس کی آنکھیں بے نور اور چہرے پربرسوں کی تھکن سی جمی ہے۔
آج ڈانگے لان کی خاموش فضا میں سسکیاں بھررہا ہے۔ شام کی سرمئی لٹیں پام۔انجیر اورسیوتی کے پھولوں پربکھرگئی ہیں۔ فضا‘معطر ہے بھنور بھنبھنارہے ہیں اور دور پہاڑوں کی گود میں مدماتی سلونی شام شفق کی چادر اوڑھے جاتے سورج کووداع کرنے شرمائی شرمائی سی کھڑی ہے لیکن پروفیسر ہے کہ رورہا ہے اورمیں اس کے لیے سوئٹر بن رہی ہوں۔ اب اس کی آستین بھی ہوگئی ہیں صرف کالر بنانا باقی ہے۔ میں کتنی محنت اور محبت سے اس سوئٹر کوبن رہی ہوں یہ میں ہی جانتی ہوں۔ یہ سوئٹر میں اب سے نہیں شادی کی دوسری تاریخ سے ہی بن رہی ہوں۔ میں نے اِس میں سوئیاں چلاچلاکرگویا اس کا سارازہر نکال دیا ہے۔ یہ اب کتنا خوبصورت لگ رہا ہے لیکن ڈانگے ابھی اُداس ہے۔میں جلدی جلدی سوئیاں چلارہی ہوں تاکہ شام ڈھلنے سے پہلے یہ سوئٹر پورا ہوجائے اوراِسے پروفیسر ڈانگے کوپہنا کرمالابار کی ان پہاڑیو ں پرلے جاؤں جہاں اُس نے ایک باربڑی نفرت سے مجھے زندگی کا فلسفہ سمجھایاتھا۔

Share
Share
Share