افسانہ : ایک آنکھ والی لڑکی
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ
دِشا ہی وہ ایک آنکھ والی لڑکی ہے جو اخباروں کی سرخیاں بٹور رہی ہے۔ دِشا کے بارے میں ابھی معلومات حاصل کی جارہی ہے دِشا پر ایسیڈ اٹیک ہوا تھا۔ دِشا محض پندہ سال کی لڑکی ہے لیکن قدرتی طور پر وہ بلا کی خوبصورت تھی۔ دِشا سیتا پور میں جنمی ہے مگر دہلی میں ماں کے ساتھ مزدوری کرنے آئی تھی۔
دِشا کو ایک رتن نامی سیٹھ نے دِشا کو پہلی نظر میں دیکھ کر اسے پڑھانے کا ارادہ کیا۔ دِشا کے ماں باپ اور دِ شا بہت ڈرے ہوئے تھے کیونکہ انہیں شہر کے اور شہری لوگوں کے بارے میں بہت کچھ پتہ تھا وہ مزدوری کرنے آئے مگر دِ شا کی تو جیسے دَشاہی بدل گئی۔ رتن سیٹھ نے کئی منّت مانگی کئی بار بھروسہ دلایا۔ اس کے بعد جاکر دِشا اور اس کے ماں باپ کو رتن سیٹھ پر بھروسہ آیا۔ دِشا پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی بلکہ اس نے کبھی اسکول کا منہ تک نہ دیکھا تھا مگر رتن سیٹھ نے اسے اپنے تعلیمی فاؤنڈیشن میں رکھ کر اسے سال بھر میں گاؤں کی چھوری سے شہری لڑکی میں بدل دیا تھا اس میں نہ صرف رتن سیٹھ کا سہارا ہے بلکہ دِشا ایک محنت کش لڑکی ہے اس نے لگا تار کوشش کی اور آج وہ اپنی ذہانت کے سبب اسکول بھی جانے لگی ہے۔ دِشا اس روز بہت خوش تھی کیونکہ رتن سیٹھ نے نہ صرف دِشا کی زندگی بدل دی بلکہ اس کے ماں باپ کو گھر کے کام کاج سیکھا کر انہیں بھی شہری مزدور بنا دیا ااور تو اور انہیں اپنے ہی بنگلے میں ایک کواٹر دے کر انہیں ہمیشہ کے لیے شہری بنا دیا۔ رتن سیٹھ کو ہر ماہ یا دو ماہ ودیس جانا ہوتا تھا۔ ہمیں ان کے ساتھ رہنے پر کئی معلومات حاصل ہوگئی تھی۔ دِشا اس روز اسکول سے چھٹ کر جلدی آنے والی تھی۔رتن سیٹھ بھی ودیس گئے ہوئے تھے اور ادھر دِشا کے ماں باپ کو فون آیا کہ دِشا ہسپتال میں ہے تووہ پریشان ہوگئے اور فوراً ہسپتال پہنچنے وہاں جانے پر پتہ چلا کہ ایک لڑکا جو کئی دنوں سے دِشا کا پیچھا کر رہا تھا بلکہ وہ اسے پسند کرتا تھا مگر دِشا نے صاف انکار کر دیا، اس لڑکے کی حرکتیں دِشا کو پسند نہ آئی اور اپنے اس ڈر کے مارے دِشانے کسی سے کچھ نہ کہا۔ مگر اس لڑکے پر تو جیسے بھوت سوار تھا اس روز جب دِشا جلدی گھر آنے والی تھی تب اس لڑکے نے اس پر ایسیڈ اٹیک کیا جس کے باعث وہ زخمی ہوئی۔ پتہ نہیں چل پا رہا تھا کہ اس کو کہاں کہاں چونٹ آئی ہے وہ تو درد سے کر رہ رہی تھی اسے درد برداشت نہیں ہو پا رہا تھا۔ہسپتال میں جب لایاگیا تھا تب اس کا چہرہ اتنا سرخ اور بھیانک روپ لے چکا تھا جو بھی دیکھتا اپنی آنکھیں پھیر لیتا اور کچھ تو ڈر کے مارے دور جانے لگتے۔ ہسپتال میں دِشا کا فوری علاج شروع ہوا،ہسپتال کے ڈاکٹروں نے پولیس کو بلا لیا۔ دِشا اب بھی درد سے کر رہ رہی تھی وہ بیان دینے کی حالت میں نہ تھی۔ ڈاکٹر پر کاش نے بہت کوشش کی مگر وہ دِشا کی آنکھ کو نہ بچا پائے۔ دِشا کو کچھ بھی پتہ نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا، ہاں مگر کیوں ہوا یہ صرف دِشا کو ہی پتہ تھا۔ دِشا کی حالت دیکھ کر دِشا کے ماں باپ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
ڈاکٹر پر کاش نے آکر دِشا کے ماں باپ کو بتایا کہ دِشا کی حالت بہتر ہے مگر ہم اس کی ایک آنکھ کو نہیں بچا سکے۔ دِشا کی ماں روتے ہوئے کہتی ہے ہائے رام ایک تو پہلے وہ چھوری جات اور اوپر سے یہ نقص، ہائے اب اس کی جندگی کا کیا ہوگا،ہائے ماری دِشا کیا کیا بنے گا۔دِشا کے باپ نے ڈاکٹر پرکاش سے پوچھا یہ کتنے دن میں ٹھیک ہوجائے گی؟ ڈاکٹر پر کاش کہتا ہے ابھی اس کی حالت پر نظر رکھے ہوئے ہیں ہاں مگر کم از کم ایک مہینہ جیسا لگ جائے گا۔ دِشا کے باپ کو تعجب ہوا ایک مہینہ۔ ابھی تو رتن سیٹھ بھی نہیں ہے کہ میں کچھ ادھار مانگ لو، میری بیٹی دِشا کا علاج کرا سکو۔ اتنے میں وہاں ایک سریتا نامی عورت آتی ہے وہ شاید رپوٹر تھی اور اس کے ساتھ ایک اور عورت سیتا آئی تھی جو کسی این جی او سے تعلق رکھتی ہے ان دونوں عورتوں نے ڈاکٹروں اور پولیس سے معلومات حاصل کرنے کے بعد دِشا کے ماں باپ سے ملے اور انہیں آسواسن دیتے ہوئے کہنے لگے کہ دِشا کے علاج کا سارا خرچ گورنمنٹ کی طرف سے ہوگا اس لیے آپ کو چنتا کرنے کی ضرورت نہیں ہے دِشا کے ماں باپ روتے ہوئے بولتے ہیں کیسے چنتا نہ کریں ارے ہمری دِشا کے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا اور وہ تو ابھی بچی ہے اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔سریتا اور سیتا داور پولیس دِشا کے ہوس میں آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
دِشا کو دو روز کے بعد ہوس آیا اور جیسے ہی اسے ہوس آیا تو وہ درد سے کر رہ رہی تھی۔ ڈاکٹر پرکاش نے فوراً اسے آرام کا ایک انجیکشن لگا یا۔ اتنی کم عمر میں اتنا پڑا زخم نہ تو اس کی عمر برداشت کر پانے کی تھی اور نہ ہی وہ جسمانی طور پر اتنی صحت مند تھی کہ وہ جھیل لیتی۔ دِشا ذہنی اور جسمانی دونوں چونٹ سے کر رہ رہی تھی اس کا درد کسی کو دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ڈاکٹر پر کاش نے دِشا کے ہوس آنے پر اسے نفسیاتی طور پر سمجھایا اور پورا واقعہ پوچھا تب اس نے بتایا کہ میں اس روز اسکول سے جلدی آ رہی تھی کیوں کہ ہم ناتال کی چھٹیوں میں گاؤں جانے والے تھے مگر تم پر یہ ایسیڈ کس نے پھینکا؟ تب دِشا کی زبان پرمانو حرف رُک گئے ہو،پوری طرح گھبرا ئی ہوئی حالت کا مظاہرہ کر رہی تھی۔وہ بہت کچھ بولنا چاہتی تھی مگر وہ بولنے کی ہمت نہیں جُٹا پارہی تھی۔ ڈاکٹر پر کاش نے اسے دوبارہ سمجھایا کنوینس کیا اور پتہ لگایا کہ جب وہ اسکول سے چھوٹ کر گھر کی طرف آ رہی تھی تب کیا ہوا تب دِشا نے بتایا کہ ایک ضعیف آنٹی کے ہاتھ سے سبزی کی تھیلی گر گئی اور میں ان کی مدد کے لیے وہاں رُکی اور سبزی ساری سمیٹ کر دینے لگی۔ وہ آنٹی مجھے دعائیں دینے لگی وہ آنٹی جیسے ہی رخصت ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ان کا موبائل فون چھُوٹ گیا ہے میں انہیں لوٹانے کے لیے آواز دے کر انہیں ان کا موبائل لوٹادیا اور تھوڑی دیر کے لیے رُک گئی تبھی وہ لڑکا آیا جو میرا کئی دنوں سے پیچھا کر رہا تھا حالانکہ وہ اس روز بائیک پر آیا تھا اور جب میری اور اس کی توں توں میں میں شروع ہوئی تو اس نے مجھے دھمکی دی کہ اگر تو میری نہ ہوئی تو میں تجھے کسی اور کی بھی نہیں ہونے دونگا۔ اے دِشا سیدھے سے مان جا ورنہ میں تیری دَسا بدل کے رکھ دوں گا۔ میں نے جواب میں کہا تمہیں جو کرنا ہے کر لومگر میں تمہارا ساتھ کبھی نہیں دوں گی۔تبھی اس نے ایک باٹل نکالی او ر مجھ پر مجھ پر بچاؤ بچاؤ کرکے دِشا چیخنے لگی۔ ڈاکٹر پرکاش نے نے اسے پکڑا اور اسے آسواسن دیا۔ دِشا کو ڈاکٹر پر کاش نے بتایا کہ تم پر ایسیڈ پھینکا گیا ہے جس کے سبب تمہاری داہنی آنکھ پوری طرح جلش چکی تھی جس کے سبب اب صرف تم ایک آنکھ سے ہی دنیا دیکھ سکتی ہو۔
دِشا کو ڈاکٹر پرکاش کے یہ جملے چیخنے پر مجبور کردیتے ہیں کیونکہ اس کا خواب تھا کہ وہ بڑی ہو کر ایک نشانے باز بنے اب اس کا خواب ادھورہ رہ گیا وہ اپنے خواب کو ٹوٹتے نہ تو سُن پارہی تھی اور نہ ہی برداشت کر پارہی تھی۔ ڈاکٹر پرکاش کے ساتھ پولیس نے اور سریتا اور سیتا نے اسے دلاسا دیا۔ تم پہلے ٹھیک ہوجاؤ اس کے بعد طے کرینگے کہ کیا کرنا ہے دِشا جب اپنے ماں باپ سے ملی تو اپنا دل ہلکا کرنے کی غرض سے اس نے سارے واقعات بیان کیے۔ دِشا کے بیان کرنے میں بہت دیری ہوچکی تھی پولیس نے تفتیش شروع کر دی۔ بلا آخر وہ لڑکا پکڑا ہی گیا۔ دِشا کا علاج چلتا رہا اور پورا ایک مہینہ بھی گزر گیا۔ڈاکٹر پرکاش نے اس چہرے کی جلدکی سر جری کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ آنکھ کے آس پاس کی جلد پوری طرح لٹک چکی تھی ڈاکٹر پرکاش نے دِشا کے چہرے کی سر جری کی اب دِشا کی شکل و صورت پہلے سے بھلی معلوم ہو رہی تھی مگر سوائے اس کے کہ اب وہ ایک آنکھ والی لڑکی بن چکی تھی۔
دِشا نے اس علاج کے دوران کئیوں سے دوستی کی اور اب اسے ہمت جُٹا کر آئینہ دکھانے جا رہے تھے عورت کاشنگھار کرنا اس کا پیدائشی حق ہے بہر حال جب دِشا نے اس حادثے کے بعد پہلی بار اپنا چہرہ آئینہ میں دیکھا تو وہ چونک گئی۔ اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئی وہ کچھ بولنے اور سننے کی حالت میں نہ رہی لیکن ڈاکٹر پرکاش کی نفسیاتی ٹریک کام آئی۔ انہوں نے دِشا کو اپنی دَشا چُننے کا آسواسن دیا،دِشا کے آنسو رُک نہیں پا رہے تھے اس کی ایک آنکھ پوری طرح بند ہوچکی تھی اور وہ ایک طرف کی ہی دِشا دیکھ پا رہی تھی اور اس کا چہرہ بھی کچھ حد تک بگڑ چکا تھا۔وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے دو ماہ گزر گئے،اتنے میں رتن سیٹھ ودیس سے لوٹ آئے اور فوراً دِشا سے ملنے چلے گئے۔ دِشا کہنے لگی سیٹھ جی اب ہم واپس گاؤں جانا چاہتے ہیں۔ رتن سیٹھ نے کہاں نہیں تم لوگ نہیں جاسکتے۔ مجھے تمہاری اس حالت سے بے حد رنج ہوا ہے تم نہیں جانتی میں تمہارے حق کے لیے لڑوں گا اور جس نے تمہاری یہ حالت کی ہے میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔
کورٹ میں کیس داخل ہوا اور سنوائی ہوئی اس لڑکے نے قبولات کی کہ اُسی نے دِشا کے ساتھ کے یہ سلوک کیا اور اب میں پچھتا رہا ہوں۔ کورٹ میں جج صاحب نے دِشا سے پوچھا کیا یہی وہ لڑکا ہے تب دِشا نے کہا ہاں یہی وہ لڑکا ہے جس نے مجھے ایک آنکھ والی لڑکی بنا دیا۔ لڑکیوں پر ہو رہے ظلم دن بہ دن بڑھ رہے تھے کورٹ میں فیصلہ سُنایا گیا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ۔ اس لڑکے کی ایک آنکھ نکال دی جائے۔ جج صاحب نے جو تاریخ طے کی اس روز اس لڑکے کو لایا گیا اور اس کی ایک آنکھ نکالنے کی ڈاکٹروں کی ٹیم وہاں پہنچ چکی تھی۔ ڈاکٹر نے زہر والا انجیکشن لے کر اس لڑکے کی آنکھ کی طرف بڑھتا ہی جا رہا تھا۔دِشا مضبوطی سے یہ سارا منظر دیکھتی ہے مگر آخر ڈاکٹروں سے اور جج صاحب سے کہتی ہے میں اسے معاف کرتی ہوں۔ میں تو ایک آنکھ والی لڑکی بن گئی مگر میں کسی کو ایک آنکھ والا لڑکا نہیں بنانا چاہتی ہوں۔ میری قسمت میں جو لکھا تھا وہ ہوگیا مگر میری وجہ سے کسی اور کی قسمت خراب ہوجائے مجھے گنوارا نہیں۔ جج صاحب نے دِشا کے اس فیصلے پر شاباشی دی اور اسے زندگی میں آگے بڑھنے کی دِشا بتائی اور کہا اگر اس دیس میں تمہاری طرح ہر کوئی سوچے تو شاید ہر برائی ختم ہو سکتی ہے۔ دِشا نے اپنی دَشا بدل دی اب وہ ان تمام لڑکیوں کے لیے ایک مثال بن چکی تھی جو اس طرح کے حادثات کا شکار ہوئی ہے۔دِشا اپنے نام کی طرح وہ لوگوں کی دَشا کی دِشابدل رہی تھی۔
——-
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676