کہانی : اب ہم کس دیس میں جائیں—؟ :- ڈاکٹر صفیہ بانو اے.شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

کہانی :
اب ہم کس دیس میں جائیں—؟

ڈاکٹر صفیہ بانو اے.شیخ

میں علم الدین ہوں، میرے والد نے میرا یہ نام کیا سوچ کر رکھا تھا؟مجھے میرے والد نے غریبی کے سبب نہیں پڑھایا تھا اس لیے میں ان پڑھ رہ گیا۔ میرا نام علم الدین ہے مگر میرے پاس علم نہیں۔میں اس نوٹس کو لے کر پریشان ہوں۔میں ا ب تک آئے اس نوٹس کو سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس میں کیا لکھا تھا؟

میں اس نوٹس کو لے کر ایک وکیل کے پاس بھی گیا تھا۔اس وکیل نے کہاں تم اس دیس میں نہیں رہ سکتے ہو۔میں نے پوچھا کیوں؟ میں تو اس دیس کا باشندہ ہوں۔وکیل نے کہا ایسا نہیں ہے سرکار نے نیا بل پاس کیا ہے جس کے تحت ان پڑھ انسان اس دیس کا باشندہ نہیں رہا۔اس نئے بل میں صاف طور پر لکھا ہے کہ جو انسان ان پڑھ ہے چاہے وہ کسی بھی قوم کا ہو، وہ اس دیس کا باشندہ نہیں ہوسکتا۔میں نے پوچھا میرے بچے تو پڑھ رہے ہیں پھر؟سرکار نے جو قانون بنایا ہے اس حساب سے تو تم اس دیس کے باشندے نہیں ہو مگر تمہارے بچے اس دیس کے باشندے ہو سکتے ہیں۔مجھے اس دیس میں نہیں رہنے دیا جائے گا آخر سرکار نے ایسا قانون کیوں بنایا؟ سرکار ترقی کرنا چاہتی ہے اور ان پڑ ھ انسان اس ترقی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ میں ہندوستانی ہوں تو اب میں ہندوستانی نہیں رہا؟ وکیل نے کہا ! ہاں تم اب نہ ہی ہندوستانی رہے بلکہ تم اس دیس میں بھی نہیں رہ سکتے۔ اتنے میں ڈورتی ہوئی ایک عورت آئی وہ کہتی ہے میرا نام سریتا ہے میں دہلی سے ہوں اور میرے گھر میرے نام سے یہ نوٹس آیا ہے اس میں لکھا ہے تم اس دیس کی رہنے والی نہیں رہی۔ وکیل کہتا ہے سرکار نے کئی سالوں سے لگاتار کوشش کی کہ ہر انسان کچھ نہ کچھ پڑھ لکھ لے مگر اب حالات بدل گئے کوئی بھی انسان کم پڑھا لکھا ہوگا چل جائے مگر اس دیس میں ان پڑھ نہیں چلے گا۔ اب ہم کس دیس میں جائے؟ آپ ہی بتائے۔میں ایک عورت ہوں میرے بچوں کو چھوڑ کر میں کہاں جاؤں گی؟ میں اس قانون کے خلاف احتجاج کروں گی۔
سریتا کی حالت دیکھ کر علم الدین بول پڑا۔یہ کیسا قانون ہے؟ میں بھی اس قانون کے خلاف احتجاج ضرور کروں گا؟ اتنے میں ایک بیوپاری رتن سیٹھ آیا وہ کہتا ہے میں تو زندگی کے آخری دن گزار رہا ہوں اور میں نے سوچ رکھا تھا کہ اب تو اس ملک کی مٹّی میں ملنے کا وقت آگیا مگر دیکھو اس نوٹس نے مجھے اس دیس کا باشندہ ہونے کا حق بھی چھین لیا۔ میں ان پڑھ ضرور تھا مگر محنت کش تھا۔ میں بڑا بیوپاری ہوتا تو، وکیل نے بات کوکاٹتے ہوئے کہا کہ اس دیس میں جو بھی قانون نافذکیا جاتا ہے وہ سبھی کے لیے ہوتا ہے اس میں کوئی چھوٹا، بڑا، امیر غریب نہیں دیکھا جاتا ہے۔ تم اگر کوئی سیاست کے رکن بھی رہتے اور اگر ان پڑھ ہوتے تو بھی اس دیس میں رہنے کاحق چھین لیا جاتا۔ اتنے میں کم سن عمر کے چار پانچ بچے آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ ہمیں اس قانون کے بارے میں۔وکیل نے کہا دیکھو بچوں یہاں ہر کوئی مجھ سے یہی سوال لے کر کے آرہا ہے اس قانون کو لے کر مجھے سب سے بڑی پریشان یہ دکھائی دے رہی ہے کہ آخر ہندوستان ملک کس دِشا میں جا رہا ہے یہ کونسا سا رخ لے رہا ہے۔ ہاں میں جاتنا ہوں وقت کے ساتھ بدلنا ضروری ہے مگر اس قدر بدلنا، یاتو کچھ مہلت دے دی جاتی مگر یہاں نہ تو مہلت دی گئی اور نہ ہی کوئی سنوائی ہو رہی ہے۔وکیل بابو اب آپ ہی بتائے اب ہم کس دیس میں جائے؟
میں سریندررپوٹر اس قانون کو لے کر لوگوں کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔ میں سویرے نیوز چینل سے سریندر رپوٹر بات کر رہا ہوں، کورٹ کے باہر بہت بھیڑ لگی ہوئی ہے لوگ اپنے ہاتھوں میں اس نوٹس کو لے کر آ رہے ہیں جو سرکار نے قانون بنایا ہے اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہے۔ میں نے ننھی پری نامی لڑکی سے پوچھا کہ تم اپنی ماں کے ساتھ آئی ہو۔اس ننھی پری نامی لڑکی مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ ہاں میری ماں مجھے چھوڑ کر جا رہی ہے سریندر نے کہا یہ کیسا قانون ہے جہاں معصوم بچے اپنے ہی گھر والوں سے بچھڑ رہے ہیں۔ یہ ایک ننھی پری لڑکی کی مانند کئی بچوں کی والدین ایسے ہیں جو کسی وجہ سے ان پڑھ رہ گئے۔اس میں اس نئی نسل کا کیا دوش۔ سارے بڑے سے شہروں میں احتجاج کی خبریں مسلسل آنے لگی تھیں انٹر نیٹ اور میڈیا میں تو گھماشان مچ گیا۔ لوگ سرکار کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ دنیا کا ایک واحد دیس ہندوستان نہیں کہ جہاں ان پڑھ لوگ رہتے ہو اور ان کے سبب ترقی میں رکاوٹ بنتے ہو، دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا قانون نافذ نہیں ہے پھر کیوں اس طرح کاقانون لا کر سرکار لوگوں کا دھیان بھٹکا رہی ہے۔ کسی نے کہا سرکار کو اپنے ووٹ کی پڑی ہے تو کسی نے کہا سرکار کو نوٹ کی پڑی ہے تو کسی نے کہا سرکار انسانیت کا پاٹ بھول چکی ہے، تو کسی نے کہا سرکار اپنے مطلب کی باتیں کرتی ہے، تو کسی نے کہا ایسی سرکار نہیں ہونی چاہیے کہ جس میں انسان اپنی بات نہ کہہ سکتا ہو اور نہ ہی سنا سکتا ہو۔یہاں کسی مذہب کا مسئلہ نہیں ہے یہاں ان پڑھ کا مسئلہ ہے۔اب ہم جائے تو جائے کہاں؟ اب آپ ہی بتائے ہم کس دیس میں جائے؟ کونساسا دیس ہمیں اپنائے گا ہمارا اپنا دیس ہم سے دیس واسی ہونے کا حق چھین رہا ہے تو ہم کس پر بھروسہ کرے۔
یہ سوال عالمی سطح پر اٹھایا گیا کہ پوری دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں انپڑھ انسان ہے ان سے نہ صرف سماج کو خطرہ ہے بلکہ دیس کی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔الکا ڈیسوجانامی عورت کہتی ہے کہ میں پوچھتی ہوں انپڑھ صرف برا انسان ہوتا ہے؟ کیا اس میں اچھائی نہیں ہوئی؟ وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سرکار یہ نہیں دیکھ رہی ہے آپ کس دھرم سے ہیں بلکہ وہ تو ان پڑھ انسان کو اپنے دیس میں رکھنا ہی نہیں چاہتی۔ وہ تو اس کمپیوٹر کی دنیا میں جس طرح کمپیوٹر نے انقلاب برپا تھا بس اب وہ یہ لوگوں پر آزمانا چاہتی ہے۔ سرکار صرف اور صرف انپڑھ کو اس دیس سے نکالنا چاہتی ہے۔ سرکار نے کروڑوں کی تعداد میں نوٹیس بھیجیں۔ پورے ہندوستان میں میں ہا ہا کار مچ گیا۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ اب ہم کس دیس میں جائے؟ سرکار کا کہنا ہے کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے تم کہی بھی جاؤ ہمیں آپ سے کوئی سروکار نہیں۔ قانون اور سرکار کے خلاف آواز بلند ہوگئی۔احتجاج بڑھتا ہی گیا مگر سرکار کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ جن جن لوگوں کو نوٹس دیا گیا تھا اس پر دیس سے باہر جانے کی تاریخ درج کی گئی تھی۔ لوگوں کا رونا دیکھا نہیں جارہا ہے کئی لوگ بدعائیں دے رہے تھے یہ دیس کبھی ترقی نہیں کرے گا جس نے ہماری کوکھ اجاڑ ی۔ جہاں انسانیت دم توڑ دے ایسا دیس کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔
عالمی سطح پر یہ چنتا جتائی جارہی تھی کہ اب لوگ کس طرف رخ کریں گے کیا یہ لوگ سرحد پار ہو کر ہمارے یہاں داخل ہوں گے؟ کوئی بھی دیس ان پڑھ انسان کو اپنانا نہیں چاہتا۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے سرکار نے قانون کے ذریعے اپنی بات منوالی اور لوگ اس قانون کے خلاف آواز اٹھانا چاہتے ہیں مگر اب تو دیس واسی بھی نہیں رہے کون سنے گا۔ اب ہم کس دیس میں جائے؟ اب ہم کو کونسا دیس اپنائے گا؟اس قانون کے تحت سال بھر میں انپڑھوں کو نکال دیا گیا۔ رشتے بکھر کر رہ گئے،کئی زندگیاں موت پاچکی تھیں،تو کئی زندگیاں موت سے جوجھ رہی تھیں۔اب ہم کس دیس میں جائے؟ سوال ذہن اور زبان سے جاتا ہی نہیں اب ہم کس دیس میں جائے؟۔۔۔ اب ہم کس دیس میں جائے؟ ۔۔۔۔۔ اب ہم کس دیس میں جائے؟
——
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676

Share

One thought on “کہانی : اب ہم کس دیس میں جائیں—؟ :- ڈاکٹر صفیہ بانو اے.شیخ”

Comments are closed.

Share
Share