اذان کا دوسرا کلمہ،
اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (9) و آخری قسط
مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536
اذان کا دوسرا کلمہ- اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ آٹھویں قسط کے لیے کلک کریں
مذکورہ کلمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا نام ہی توحید رکھا گیا ہے مطلب یہ کہ اس کلمہ میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ توحید کا لازمی تقاضہ ہے، ان باتوں کو مانے بغیر کسی کی توحید ہی مکمل نہیں ہوتی، اس کلمہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس میں اللہ ہی کے لئے اقتدار و حکومت کی بات کہی گئی ہے
اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی غیر اسلامی سیاست و حکومت کو صحیح سمجھے، اور اللہ ہی کے لئے اقتدار کو ماننے کا لازمی تقاضہ یہ اس کے مخالف اقتدار کا رد کرے، چنانچہ پنجم کلمہ کا نام ہی ردِّ کفر رکھا گیا ہے، اور اس کے الفاظ اس طرح ہیں، پَنْجُمْ کَلِْمہَ رَدِّ کُفْر اَللَّھُمَّ اِنّیِٓ اَعُوذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیئاً وَ اَنَا اَعَلَمُ بِہِ تُبْتُ وَ تَبّراتُ مِنَ الْکُفْرِ وَ الشّرکِ وَ الْکَذِب وَ الْغِیبَۃِ وَ الْبُھْتَانِ وَ الْمَعَاصیِ کُلَِّھَا اَسْلَمْتُ وَ اٰمَنْتُ وَ اَقُولُ لَآ اِلٰہَ اِلّاُ اللہُ مُحَمَّدُ رَسُولُ اللہِ ترجمہ (پانچواں کلمہ کفر کا رد کرناہے، ائے اللہ بیشک میں تیری پناہ چاہتا ہوں، کہ میں تیرے ساتھ کچھ بھی شرک کروں، اور میں اسے جانتا ہوں، میں توبہ کرتا ہوں، اور براء ت اور بیزاری کا اعلان کرتاہوں، کفر اور شرک اور جھوٹ اور غیبت اور بہتان اور ہر طرح کی نافرمانی سے، میں نے فرمانبرداری اختیار کی اور میں ایمان لایا اور میں کہتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں)
مذکورہ کلمہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ کفر کا رد، اس کلمہ کا لازمی تقاضہ ہے، کفر کے رد میں، اللہ تعالیٰ کی ہر نافرمانی کا رد کرنا شامل ہے چاہے وہ کفر عقیدہ و عبادت کا ہو، یا معاملات، معاشرت اور سیاست کا ہو، مذکورہ پنجم کلمہ ایک طرح سے اول کلمہ ٰلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے پہلے جز ٰلَا اِلٰہَ کی واضح تشریح و تقاضہ ہے، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان میدان سیاست میں کفر یعنی اللہ کی نافرمانی کو قبول کئے ہوئے ہیں۔جو صریح طور پر پنجم کلمہ کی خلاف ورزی ہے، اور اسلام کے اول کلمہ کے پہلے جز کی خلاف ورزی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جماعت اسلامی ہند نے بھی اپنے دستور میں ان پانچ کلموں کو بہت اہمیت دی ہے، چنانچہ جماعت اسلامی ہند نے اسلام کے پہلے کلمہ ٰلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُرَّسُولُ اللہ کو اپنا عقیدہ قرار دیا ہے، اسی طرح دوم کلمہ شہادت ٰاَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اِنَّ عَبْدُ ہُ وَ رَسُولَہُکو اپنے نظم میں بڑی اہمیت دی ہے، چنانچہ جب کوئی شخص جماعت اسلامی کارکن بنتا ہے تو تجدید ِشہادت کے نام سے،کسی اجتماع میں اسے دوم کلمہ پڑھایا جاتا ہے، جماعت اسلامی کے نزدیک اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اب تک مسلمان نہیں تھا، اور اب وہ مسلمان ہو رہا ہے بلکہ جماعت اسلامی
بطور یاد دہی اور توجہ کے اسے کلمہ شہادت پڑھاتی ہے،جس طرح اللہ تعالیٰ نے بطور یاد دہی اور توجہ کے، اذان اور نماز میں بہت سے کلمات تکرار کے ساتھ رکھے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند نے اپنے دستور میں ٰلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی گیارہ(۱۱) نکات کے تحت دستور کے دو صفحات میں جو تشریح کی ہے، ایک طرح سے وہ پانچوں کلموں کی تشریح و تقاضہ ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ جن اہل علم حضرات نے۱۴۹۱ء میں جماعت اسلامی کا دستور بنایا ہے، انہوں نے بہت گہرائی سے ان پانچ کلموں کا مطالعہ کیا تھا، اور پھر ان کا پورا نچوڑ اور خلاصہ پہلے کلمہ کی تشریح و تقاضہ میں پیش کر دیا، چنانچہ قارئین کی واقفیت اور یاد دہی کے لئے جماعت اسلامی ہند کے دستور کے دو صفحات من و عن نقل کئے جا رہے ہیں۔
(اس عقیدے کے پہلے جز یعنی اللہ تعالیٰ کے واحد اِلٰہ ہونے اور کسی دوسرے کے اِلٰہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہی اللہ ہم سب انسانوں کا معبود بر حق اور حاکم تشریعی ہے، جو ہمارا اور اس پوری کائنات کا خالق، پرودگار، مدبر مالک اور حاکم تکوینی ہے، پرستش کا مستحق اور حقیقی مطاع صرف وہی ہے اور ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس حقیقت کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ انسان
(۱) اللہ کے سوا کسی کو ولی و کارساز، حاجت روا و مشکل کشا، فریاد رس اور حامی و ناصر نہ سمجھے، کیونکہ کسی دوسرے کے پاس حقیقتاً کوئی اقتدار ہی نہیں ہے۔
(۲) اللہ کے سوا کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے والا نہ سمجھے۔کسی سے تقویٰ نہ کرے، کسی سے خوف نہ کھائے، کسی پر توکل نہ کرے اور کسی سے امیدیں وابستہ نہ کرے، کیونکہ تمام اختیارات کا مالک حقیقتاً صرف اللہ ہے۔
(۳) اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرے، کسی کو نذر نہ دے، کسی کے آگے سر نہ جھکائے، غرض کسی کے ساتھ وہ معاملہ نہ کرے، جو مشرکین اپنے معبودوں کے ساتھ کرتے ہیں، کیونکہ صرف اللہ ہی عبادت کامستحق ہے۔
(۴) اللہ کے سوا کسی سے دعا نہ مانگے، کسی کی پناہ نہ ڈھونڈے، کسی کو مدد کے لئے نہ پکارے، کسی کو خدائی انتظامات میں ایسا دخیل اور زور آور بھی نہ سمجھے کہ اس کی سفارش سے قضائے الٰہی ٹل سکتی ہو، کیونکہ خدا کی سلطنت میں در حقیقت سب بے اختیار رعیت ہیں، خواہ وہ فرشتے ہوں، خواہ انبیاء یا اولیا۔
(۵) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مالک الملک اور مقتدرِ اعلیٰ نہ سمجھے، کسی کو با اختیار خود حکم دینے اور منع کرنے کامجاز تسلیم نہ کرے، کسی کو مستقل بالذات شارع اور قانون سازنہ مانے اور ان تمام اطاعتوں کو صحیح تسلیم کرنے سے انکار کردے، جو ایک اللہ کی اطاعت اور اس کے قانون کے تحت نہ ہو، کیونکہ اپنے ملک کا ایک ہی جائز مالک اور اپنی خلق کا ایک ہی جائز حاکم اللہ ہے،
اس کے سوا کسی کوفی الواقع مالکیت اور حاکمیت کا حق ہی نہیں پہنچتا، نیز اس عقیدے کو قبول کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ انسان
(۶) اپنی خود مختاری سے دست بردار ہو جائے، اپنی خواہش نفس کی بندگی چھوڑ دے او رصرف اللہ کا بندہ بن کر رہے،جسے اس نے اپنا واحد اِلٰہ تسلیم کیا ہے۔
(۷) اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک و مختار نہ سمجھے، ہر چیز حتیٰ کہ اپنی جان، اپنے اعضاء او ر اپنی ذہنی و جسمانی قوتوں کو بھی اللہ کی ملک اور اس کی طرف سے امانت سمجھے۔
(۸) اپنے آپ کو اللہ کے سامنے ذمہ دار اور جواب دہ سمجھے اور اپنی قوتوں کے استعمال اور اپنے برتاؤ اور تصرفات میں ہمیشہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھے کہ قیامت کے روز اسے اللہ تعالیٰ کے حضور ان سب چیزوں کا حساب دینا اور اپنے اعمال کی جزا یا سزا پاناہے۔
(۹) اپنی پسند کا معیار اللہ کی پسند کو اپنی نا پسندیدگی کا معیار اللہ کی نا پسندیدگی کو بنائے۔
(۰۱) اللہ تعالیٰ سے شدید محبت رکھے، اس کی رضا اور اس کے قرب کو اپنی تمام سعی و جہد کا مقصود اور اپنی پوری زندگی کا محور ٹھہرائے۔
(۱۱) اپنے لیے اخلاق میں، برتاؤمیں، معاشرت اور تمدن میں، معیشت اور سیاست میں، غرض زندگی کے ہر معاملے میں صرف اللہ کی ہدایت کو ہدایت مانے اور صرف اسی ضابطے کو ضابطہ تسلیم کرے، جو اللہ کا مقرر کردہ ہو، یا اس کے احکام و ہدایات کے تحت ہو، اور جو اس کی شریعت کے خلاف ہو اسے رد کردے، (منقول دستور جماعت اسلامی ہند صفحہ ۴۔۵)
اسی طرح کلمہ کے دوسرے جز محمد رسول اللہ کی تشریح و تقاضہ بھی جماعت اسلامی نے اپنے دستور میں بڑے جامع انداز میں پیش کیا ہے، جو انشا ء اللہ اذان کے تیسرے کلمہ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللہِ کی تشریح و تقاضہ کے ذیل میں پیش کیا جائے گا۔کلمہ کے پہلے جز لَااِلٰہَ اِلّاَ اللہُ کے ذیل میں جماعت اسلامی ہند نے اپنے دستور میں جو باتیں درج کی ہے، اگر گہرائی اورانصاف سے دیکھا جائے تو یہ باتیں پوری امت مسلمہ کے لیے ایک متفق علیہ نصاب کے طور پر ٹھہرتی ہیں، ویسے بھی علماء کرام نے پانچ کلموں کا جو نصاب ترتیب دیا تھا وہ پوری امت مسلمہ کے لیے ترتیب دیا تھا، اور جماعت اسلامی کے دستور میں پہلے کلمہ کے ذیل میں جو باتیں درج ہیں، ایک طرح سے وہ پانچوں کلموں کی تشریح و تقاضہ ہے۔
پانچ کلموں کے تذکرہ میں اب تک چار کلموں کے الفاظ آچکے ہیں، صرف تیسرے کلمہ کے الفاظ باقی رہ گئے ہیں، تو وہ اس طرح ہیں، سُبْحَانَ اللہ ِ وَ الْحَمْدُ ِللہ ِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلّاَ اللہ ُ، واللہ ُ اَکْبرْ وَلَا حَوْلَ وَلاَ قُوْۃَ اِلاَّ
بِاللہ ِ الْعَلِی الْعَظیِمْ ترجمہ (پاک ہے اللہ اور تعریف اسی کے لئے ہے اور نہیں کوئی معبود مگر اللہ اور اللہ سب سے بڑا ہے اور نہیں کوئی روکاوٹ اور نہیں کوئی قوت،مگر اللہ کی،جو بلند اور عظیم ہے۔اس کلمہ کا نام تمجید ہے، یعنی بزرگی ا ور بڑائی والا کلمہ، چونکہ یہ سوم کلمہ شروع سے لیکر اخیر تک اللہ کی بزرگی اور بڑائی کو لیے ہوئے ہے، اس لئے اس کلمہ کا نام ہی، بزرگی اور بڑائی والا کلمہ ہے۔
مذکورہ پانچ کلموں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ پانچوں ہی کلمے اپنے اندر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ کا کلمہ لئے ہوئے ہیں، اس سے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
راقم الحروف نہیں چاہتے ہوئے بھی اذان کے دوسرے کلمہ اَشْھَدُ اِنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ اور اسلام کے پہلے کلمہ کے پہلے جز کی مختصر تشریح و تقاضہ اس امید پر ختم کر رہا ہے کہ قارئین اس کلمہ کی مکمل تشریح و تقاضہ ضرور قرآن و حدیث سے سمجھیں گے، اخیر میں علامہ اقبالؒ کے دو شعر جو پہلے کلمہ کے متعلق ہیں پیش ہیں۔
خودی کا سرّنہاں لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ
خودی ہے تیغ فساں لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ
یہ نغمہ فصلِ گل ولالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ