کالم : بزمِ درویش
غرور علم کا
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
تاریخ ِ تصوف کے مطالعے کے دوران ایک تکلیف دہ بات ہر دور میں نظر آتی ہے کہ جب بھی کوئی اللہ کا بندہ عبادت ریاضت مجاہدے اور پھر حق تعالی کے خاص کرم سے جسمانی الائشوں سے پاک ہو کر الٰہی رنگ میں رنگ جاتا ہے تو پھر خدا اسے خاص بندہ شہرت دوام عطا کر تا ہے بہت سارے بزرگ جب اشارہ غیبی کے تحت مرشد کے حکم پر کسی علاقے میں آکر ڈیرے ڈال کر لنگر خانہ قائم کر کے رشد و ہدایت کا چراغ جلاتے ہیں
خدمت خلق کے عظیم جذبے کے تحت ظلم و جبر اور طاقتوں میں پستی عوام کو گلے سے لگاتے ہیں تو عوام ایسے مسیحا کو دل کا تاج بنا کر پروانوں کی طرح اِن کے گرد جمع ہو جاتے ہیں پھر نور معرفت اور اسلام کے یہ چراغ عوام کو گمراہی جہالت کے تاریک اندھیروں سے نکال کر نور معرفت اسلام کے نور سے روشن کر تے ہیں عوام میں ایسے نفوسِ قدسیہ کی شاندار شہرت پذیرائی دیکھ کر ہر دور کے علما ء جن کو اپنے علم کا بہت تکبر ہو تا ہے جو اپنی علمی برتری کے غرور میں خود کو اعلیٰ نسل کا خاص انسان سمجھتے ہیں جن کی خواہش ہو تی ہے کہ عوام صرف اور صرف ان کے آگے غلاموں کی طرح کھڑے ہوں ان کو ہی راہبر و رہنما کا درجہ حاصل ہے لیکن جب کوئی اہل حق ایسے علما ء کرام کے سامنے آکر خدمت خلق اور نور معرفت پیار محبت شفقت کے ساتھ روشن کراتا ہے عوام پروانوں کی طرح اِن پر ٹوٹ پڑتے ہیں تو علماء سوجن کو علمی بخار چڑھا ہو تا ہے وہ تحقیر سے بوریا نشین درویشوں کو دیکھتے ہیں پھر حسد بغض کی آگ میں سلگنا شروع کر دیتے ہیں پھر ہر دور میں اہل دنیا نے دیکھا کہ یہ مختلف بہانوں سے اِن درویشوں کی دل آزاری کر تے ہیں اِن کے بارے میں غلط پروپیگنڈا کر تے ہیں کردار کشی کر تے ہیں تاکہ لوگ ایسے نیک لوگوں سے دور ہو کر اِن کے در پر آئیں یا اِن کی عزت کریں علمی برتری میں مبتلا ایسے عالم پھر مختلف سازشیں کر تے ہیں مختلف لوگوں کو لالچ دے کر اِن خاک نشینوں سے مقابلے کر اتے ہیں بغض حسد کی آگ میں جل کر انسانی حدوں سے گزر کر پستی میں اُتر کر کچھ بھی کر نے سے گریز نہیں کر تے لیکن حیران کن بات یہ سامنے آتی ہے کہ ہر دور کے اولیاء کرام نے ایسے سازشیوں کو نظر انداز کیا اور اگر یہ مقابلے پر سامنے آجائیں تو بھی رواداری محبت کا اظہار کیا اولیا کرام کے حسن اخلاق سے بہت سارے مغرور علما کرام پھر تکبر کی چادر اتار کر اِن اولیاحق کی غلامی میں بھی نظر آتے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ ہمیں بابا فرید ؒ کے تذکروں میں بھی ملتا ہے جب علم کے نام نہاد متکبرانہ گھوڑے پر سوار ایک شخص ہندوستان دندناتا پھر رہا تھا اُس کو اپنے علم کا اِس قدر زعم تھا کہ مغرور لہجے میں کہتا تھا کو ئی ہے جو میرے سوالات کا جواب دے کو ئی ہے جو مُجھ سے علمی بحث کر سکے میرا مقابلہ کر سکے میں تو دنیا کے ملک ملک گھو متا ہوا ہندوستان آیا ہوں لیکن یہاں آکر بھی مجھے مایوسی ہی ہو ئی ہے یہاں پر بھی کسی علم کے شاہسوار سے واسطہ نہیں پڑا سلطان ناصر الدین محمود کے دور حکومت میں ایک متکبر علم و دانش کے دعوے دار دہلی شہر میں آکر ڈیرہ ڈالتا ہے بحث مباحثے اور الفاظ گفتگو کا اِس قدر ماہر اور جادوگر تھا کہ جو بھی اُس کے سامنے علمی مقابلے یا مناظرے کے لیے آیا شکست کھا کرہار مان گیا یہاں تک کے اہل دہلی کے عالموں نے تنگ آکر پانچ علما کا ایک وفد بنا کر اُس سے مقابلہ کرایا پانچوں علما اپنے شعبے میں باکمال تھے اہل دہلی کا شہر تھا کہ متکبر دانش مند فصیح الدین ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا اِن سے علمی بحث ہار جائے گا فصیح الدین اور عالم فاضل پانچ علما کا علمی مناظرہ شروع لیکن فصیح الدین نے ایسے علمی زور الفاظ منطق اور دلیل سے پانچوں علما کو زچ کر دیا دہلی شہر کے مشہور علم و دانش کے مضبوط ستون فصیح الدین کے سامنے ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو گئے فصیح الدین ایک بار پھر ناقابل تسخیر تھا ایک تو چھوڑ پانچ علما دین مل کر بھی اُس اکیلے کو شکست نہ دے سکے حاضرین محفل عرق ندامت میں غرق گردنیں جھکائے فصیح الدین کے سامنے شرمندہ شرمندہ کھڑے تھے کہ فصیح الدین متکبرانہ آواز فضا میں گونجی میں تو دہلی شہر اور اہل شہر کے علم و دانش فلسفہ کے بہت چرچے سن کر یہاں آیا تھا لیکن لگتا ہے دہلی اور دہلی کے قرب و جوار میں ایک بھی شخص ایسا نہیں جو میرے علم کے سامنے ٹہر سکے جو میرے سوالوں کا جواب دے سکے جو مُجھ سے بحث کراسکے کسی کے پاس میرے سوالوں دلیلوں کا جواب نہیں ہے لگتا ہے اب مجھے اِس شہر اور ملک سے مایوس ہو کر کسی دوسرے ملک جانا ہو گا ہندوستان کی مٹی بنجر ہو گئی ہے یہاں پر اب زرخیز انسانوں کی پیداوار رک چکی ہے فصیح الدین کا غرور دیکھ کر ایک بوریا نشین اٹھا اور بو لا اجو دھن میں ایک بزرگ فرید الدین مسعود ؒ ہیں جو تیرے سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں تو فصیح الدین بولا ہاں میں اُس سے مقابلہ کر نے ضرور اجو دھن جاؤں گا پھر چند دن بعد بارگاہِ فریدی میں حاضر ہو ا جہاں پر سلطان اجو دھن اپنے مریدوں کے جھرمٹ میں جلوہ افروز تھے سلام کے بعد فصیح الدین مکاری عاجزی سے بولا جناب کافی عرصے سے چند سوالات میرے دماغ کو پریشان کر رہے ہیں جن کے جواب میں شہر کے تمام عالموں سے پوچھ آیا لیکن میرے سوالوں کے جواب مجھے نہیں ملے اب میں امید لے کر آپ ؒ کے پاس آیا ہو امید ہے آپ ؒ مایوس نہیں کریں گے پھر فصیح الدین نے چالاکی اور مکاری پر مشتمل اپنے تمام سوالات بابا فریدؒ کے گوش گزار کر دئیے معرفت کے سمندر نے فصیح الدین کے تمام سوال آرام تحمل سے سنے آپ ؒ خاموشی سے غور و فکر میں غرق تھے کہ فصیح الدین کو اپنی فتح کا احساس ہو نے لگا کہ دہلی شہر کے باقی عالموں کی طرح بابا فرید ؒ بھی میرے سوالوں کے جواب دینے میں مشکل کا شکار ہیں اِس لیے غور و فکر میں غر ق ہیں اب فصیح الدین گردن اکڑاتے فاتحانہ نظروں سے اہل محفل کو دیکھ رہا تھا کہ میں نے ہندوستان کے آخری دانش مند کو بھی زچ کر دیا ہے لیکن اُس کی یہ خوشی بہت عارضی ثابت ہو ئی جب بابا فریدؒ کے مرید خاص حضرت نظام الدین اولیاء فصیح الدین سے مخاطب ہو کر اُس کے تمام سوالوں کے مکمل جامع سیر حاصل جواب دے دئیے اور کہتے ہیں تمہارے سوالوں کے جواب تو بہت آسان ہیں یہ تو میں مرشد کریم کا ادنیٰ غلام جواب دے سکتا ہوں تم مرشد کریم کو کیوں تکلیف دے رہے ہونظام الدین کے تمام جواب درست تھے جس کی وجہ سے فصیح الدین کا چہرہ اتر گیا شرمندہ شکست خورد ہو کر گردن جھکا کر اعتراف شکست کر کے بیٹھا تھا پھر شکریہ ادا کر کے ہارے ہوئے شخص کی طرح محفل سے اٹھ گیا اُس کے جانے کے بعد بابا فریدؒ نظام الدین سے سخت ناراض ہو ئے کہ تم درمیان میں کیوں بول پڑے میں تو اِس لیے چپ تھا کہ اُس کا دل نہ ٹوٹے وہ شرمسار نہ ہو تم نے اُس کا دل توڑ دیا شرمندہ کر دیا میں اب تم سے اُس وقت تک راضی نہیں ہو نگا جب تک فصیح الدین تم سے راضی نہیں ہو گا۔ نظام الدین ؒ دوڑ کر اُس سرائے میں پہنچے جہاں فصیح الدین ٹھہرا ہوا تھا آپ ؒ کو آتا دیکھ کر فصیح الدین خوش ہوا اور آپ کے علم و دانش کی بہت تعریف کی پھر نظام الدین بو لے تمہاری وجہ سے میرا شہنشاہ مُجھ سے ناراض ہو گیا ہے کہ میں نے تمہارے سوالوں کا جواب دے کر تمہارا دل توڑ دیا ہے شرمندہ کر دیا ہے جو اچھا عمل نہیں ہے تم اُس کو جیتنے دیتے تا کہ وہ خوش ہو تا کہ وہ بہت بڑا عالم ہے یہ سن کر فصیح الدین پر سکتہ طاری ہو گیا کہ میرا دل نہ توڑنے کے لیے بابا فرید ؒ چپ تھے نظام الدین ؒ بولے مجھے معاف کردو اور جاکر میرے شیخ کو بھی کہہ دو کہ تم نے مجھے معاف کردیا پھر ہندوستان کا سب سے بڑا عالم فاضل شخص دربار ِ فریدؒ میں حاضر ہوکر گردن جھکائے کہتا ہے یا شیخ مجھے اپنی غلامی میں لے لیں تو بابا جی ؒ فرماتے ہیں تم تو علم والے ہو تم کو کیسے مرید کر وں تو وہ کہتا ہے وہ علم میرے کس کام کا جس نے غرور و تکبر کے سوا کچھ نہ دیا پھر غلاموں میں شامل ہو کر ساری زندگی بابا جی ؒ کے قدموں میں گزار دی۔