قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ
اور خدمات ختم نبوت
(۱۲۶۲ھ/۱۸۴۶ء -۱۳۴۶ھ/۱۹۲۷ء)
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ و مفتی دار العلوم وقف دیوبند
E-mail:
07207326738 Mob:
ٹھیک اس وقت جب کہ ملک ہندوستان غلامی کی زنجیر میں جکڑ چکاتھا،اور ملک کو دوسرا اسپین بنانے کی مکمل سازش تیارہوچکی تھی،عیسائی پادری بلائے جاچکے تھے،مسلمانوں کو نہ صرف ان کی تعلیم وتہذیب سے بے دخل کرنے کی بلکہ ان کے ایمان کو ختم کرنے کی مکمل پلاننگ ہوچکی تھی،
اسلام کا سورج ہندوستان میں گہن میں تھا، اسلامی تعلیمات کا روشن چراغ ٹمٹما رہا تھا، اسلامی شعائر کی آگ بجھائی جاچکی تھی اب صرف دھواں باقی تھا،ٹھیک ایسے وقت میں اسلام کے پاسبانوں کا ایک گروہ تھا جو اسلام کی حفاظت کے لیے کمربستہ تھا، اسلام کی کھوئی ہو شوکت کو بحال کرنے کے لیے پرعزم تھا، اسلامی تہذیب کی بقاء کے لیے آگ و خون میں کھیلنے کے لیے تیار تھا، حمیت اسلامی کی باقی ماندہ دھوؤں کو پھر شرربنانے اور اس شرر کو شعلہ جوالہ بنانے کے لیے اپنی پوری توانائی صرف کررہا تھا،ملت کی پاسبانی اور اسلامی تقدس کی بازیابی کے لیے تن من دھن کی بازی لگاچکا تھا، اس گروہ کے سرخیلوں میں حجۃ الاسلام الامام محمد قاسم نانوتوی ؒ،قطب وقت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، کا نام آتا ہے اسی کاروان عزیمت کے ایک مسافراور قافلہ حریت کے جرنیل اور سالار کا نام قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ ہے۔آپ نے انگریزوں کے ہر فتنہ کے ڈٹ کر مقابلہ کیا، عیسائیوں کے تیغ بے پناہ کا مقابلہ کیا،ان کی طرف سے پھیلائے گئے ہر جال اور ہر فتنہ کی سرکوبی کے لیے سربکف رہے۔
قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ کی پیدائش3 شعبان 1262ھ مطابق 28/جولائی 1846ء کو کان پور میں ہوئی،ابتدائی تعلیم اپنے چچا سید ظہور علی سے پڑھی، درسیات کی تکمیل استاذ الاساتذہ مولانا لطف اللہ علی گڈھی اور مفتی عنایت احمد کاکوروی سے کی،بیشتر کتابیں مولانا لطف اللہ سے پڑھنے کا موقع ملا،حدیث کی تکمیل حضرت مولانا احمد علی سہارن پوری کے پاس کی،اور مولانا فضل حق گنج مرادآبادیؒ کے پاس سلوک کی منزلیں طے کیں اور حضرت گنج مرادآبادی نے عرفان ومعرفت کا پان عطاکرکے خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا۔
خدا و ند قدوس نے غلام ہندوستان میں آپ کو انقلاب کے لیے پیدا کیا تھا، آپ سید گھرانے کے چشم و چراغ تھے، حسینی خون آپ کی رگوں میں تھا،خواجہ عبدالقادر جیلانی سے آپ کو نسبی تعلق تھا، آپ نہ تھکنے والے تھے اور نہ ہی بیٹھنے والے تھے، آپ کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی،آپ کا فیضان غلام ہندستان میں سیلاب کی طرح بہا ہے،آپ جدھر گئے اصلاح عالم کا فلسفہ لے کر گئے، اسلامی اقدارکی بازیابی، مردہ دلوں میں اسلامی روح کی واپسی گویا آپ کا نصب العین تھا، آپ نے غلام ہندوستان میں اسلامی فکر و فلسفہ اور اسلامی تہذیب کی بقاء کے لیے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے، آپ نے ایک طرف تعلیم کے میدان کو کامیابی کی کلید قرار دیتے ہوئے اس وقت جب کہ عربی و عصری تعلیم دو حصوں میں بٹ چکی تھی، ایک نئے تعلیمی نظام کا خاکہ پیش کیا اور نہ صرف خاکہ پیش کیا؛ بلکہ اس کو عملی جامہ پہناکر مقبولیت کے افق پر پہنچایا، ندوۃ العلماء لکھنؤ آپ کے فکروعمل کی زندہ مثال ہے، آپ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بانی اور ناظم اول تھے، آج حضرت قطب عالم کی زندگی موجودہ دور میں نصاب تعلیم پر اور نظام تعلیم پر گفتگو کرنے والوں کے لیے بہترین نمونہ ہے کہ صرف اخباری بیان دے دینا یا تنقیدی مضامین لکھ دینا مرض کی دوا نہیں ہے؛ بلکہ جس طرح حضرت قطب عالم نے نہ صرف ایک نئے تعلیمی خاکہ سے امت کو متعارف کرایا؛بلکہ اس کو عملی شکل میں پیش بھی کیا تھا اور اس کی افادیت کو محسوس کرایا تھا، آج بھی اسی نقش پاپر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
غلام ہندوستان میں عیسائیت کی جدوجہد:
غلام ہندوستان کو عیسائیت کے لپیٹ میں لینے کے لیے جو ناپاک منصوبے بروئے کار لائے جارہے تھے،اس وقت اسلام کی حفاظت و بقاء کے لیے جن عظیم المرتبت شخصیات نے عظیم خدمات انجام دی ہیں ان میں ایک نام حضرت قطب عالم کا ہے، آپ نے عیسائیت کے خلاف بھر پور جد جہد کی ہے،برطانیہ کی پارلیمینٹ میں باضابطہ ایک بل پاس ہواتھا جس میں کہاگیاتھا کہ ہندوستان میں عیسائیت کے فروغ کے لیے جو جاناچاہیں ان کو جانے کی اجازت ہے، اس کے بعد عیسائی مشنریاں بڑی تیزی سے ہندوستان آنے لگیں اور پورے ہندوستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ ہر طرف اسلام کو چیلنج کیا جاتا، اور اسلام پر اعتراضات کئے جاتے اور لوگوں کو عیسائیت میں داخلے کی ترغیب اورطرح طرح کے لالچ دئے جاتے تھے،غرضیکہ لڑکیوں کے لیے مدراس،بچوں کے لیے تعلیم و تربیت گاہیں، مالی اعانت اخبارات ورسائل، تبلیغی وفود ہر طرح سے اس بات کی کوشش کی گئی کہ پورا ملک عیسائی ہوجائے، ایک طرف عیسا ئی مشنریوں کی یہ باخبری،چالاکی،تندہی،تھی ان کے عزائم اس درجہ بلند تھے کہ پورا ملک ایک ساتھ عیسائی ہوجائے گا،دوسری طرف ہمارے لوگو ں کی بے خبری تھی سردمہری تھی،اگر قطب عالم جیسی عالمگیراور انقلابی شخصیتیں نہ ہوتیں تو ہندوستان میں ایمان کی بقاء اور نئی نسل میں ایمان کی شمع جلائے رکھنا مشکل اور دشوار ہوجاتا لیکن خدا کی مشیت اور دل درد مند اور فکر ارجمند کی حامل ان شخصیتوں کی کاوشوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیت اپنے منصوبے میں ناکام ہوگئی اور انگریزوں کا خواب نہ صرف عیسائیت کے تعلق سے بلکہ ملک ہندوستان کے تعلق سے چکنا چور ہوگیا۔
قادیانیت کی منصوبہ بندی:
ہندوستان میں انگریزوں نے اپنی حکومت کو استحکام دینے کے لیے بہت سے منصوبے بنائے اور مختلف مشنریوں کی تجویز کے بعد یہ طے ہوا کہ ہندوستان میں انگریزوں کا سورج اسی وقت تک طلوع رہ سکتا ہے جب تک کہ مسلمانوں سے جذبہ جہاد کو ختم نہ کردیا جائے اور قرآن پر ان کے اعتماد کو متزلزل نہ کردیا جائے،اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک جھوٹے نبی کی ضرورت تھی کیوں کہ کسی خارجی طاقت کے ذریعہ مسلمانوں کے اس اعتماد کو کمزور کرنا ممکن نہیں تھا؛اس لیے ضرورت تھی کہ ایک ایسی جماعت تیار کی جائے جو مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر اسلام کو نقصان پہنچائے اس لیے کہ اس کا مشاہدہ تھا کہ باہری دشمن سے مسلمان ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کرتے آئے تھے اور اسلام کے خلاف صاف صاف بات کرنے والوں کو مسلمانوں نے صاف صاف جواب بھی دیا تھا، اور تیرہ سو سال کی تاریخ اس پر گواہ تھی کہ خارجی اور کھلے ہوئے دشمن اسلام کو کوئی گزند نہیں پہنچاسکے تھے؛بلکہ تاریخ نے ثابت کردیا تھا کہ جب بھی کسی جماعت یا کسی مخالف گروہ نے اسلام کو للکار کر میدان میں مقابلہ کرنے کی جرأت کی تو وہ اس عظیم قوت کو ذرہ برابر بھی کوئی گزند نہ پہنچا سکا بلکہ اس کے مقابلہ میں اسلام اور زیادہ آب تاب سے چمکا اور اجاگر ہوا اس کے نام لیوا اور زیادہ ولولے اور طنطنے کے ساتھ اس کے شیدائی اور فدائی بن گئے (مرزائیت اور اسلام، احسان الہی ظہیر، ص ادارہ ترجمان السنہ، لاہور اپریل ۶۷۹۱ء،:۶۲) اس داخلی دشمن کے لیے انگریزوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کو تیار کیا؛ چنانچہ مرزا غلام احمد نے مختلف ادوار میں کبھی اپنے مسیح ہونے پھر مہدی ہونے اور پھر نبی ہونے کا دعوی کیا،اور اپنے آپ کو امت محمدیہ کے مساوی ایک امت اور ایک نبی کے طور پر پیش کیا،اور اس طرح مختلف کتابوں کے ذریعہ لوگوں کے ایمان کے ڈگمگانے اور ان کے ایمان کو سلب کرنے کی پوری کوشش شروع کردی، ان کو چوں کہ حکومت کی سرپرستی حاصل تھی، وسائل کی کمی نہیں تھی،اس لیے عیسائیت کی طرح قادیانیت نے بھی بڑی تیزی سے ہندوستان میں اپنے بال و پر پھیلائے، اور نہ صرف ملک میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی اس کے ماننے والے پیدا ہوگئے۔
قادیانیت کیا ہے؟
قادیانیت اسلام کے مساوی ایک مذہب ہے، جس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے؛ بلکہ اس کی بنیاد افتراء پردازی پر ہے، یہ امت مسلمہ کے لیے مار آستین ہے جس نے اسلام کے مقدس عقیدے ختم نبوت کو ڈنسنے کی ناپاک کوشش کی ہے،مرزائیت کے بنیادی مقاصد جس کے لیے اس جماعت کی احیاء ہوئی تھی،مسلمانوں سے جذبہ جہاد کو سرد کرنا تھا، چنانچہ پاکستان میں جب باضابطہ علماء اسلام کی طرف سے قادیانی کو کافر قرار دینے کا مقدمہ چلا یا گیا تو علماء اسلام کی طرف سے جو متفقہ موقف عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تھا اس میں ایک یہ بھی تھا کہ:
جہاد کو ختم کرنے کی اس کی کوششیں اسلام کے بڑے بڑے احکام کے خلاف غداری تھیں نیز یہ کہ وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مشن مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا تھا،نیز ان کے پیروکا ر چاہے انہیں کوئی بھی نام دیا جائے مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کرکے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں“(قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف، مرتبین،مفتی تقی عثمانی، مولانا سمیع الحق اکوڑہ، ختم نبوت اکیڈمی لندن، جنوری ۲۰۰۵ء، ص: ۱۳۵)
اس کے علاوہ قادیانیوں نے ختم نبوت کا انکار کیا تھا اورمرزا غلام احمد نے اپنے بارے میں جو بہت سے دعوے کئے تھے اس میں ایک دعوی اس نے یہ کیا بھی تھا کہ میں حضور ﷺ کے بعد اس امت کا نبی ہوں۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کا یہ عقیدہ تھا کہ نبوت کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے؛ بلکہ قیامت تک نبوت کا سلسلہ جاری رہے گا چنانچہ مرزا قادیانی کا بیٹا اور خلیفہ ثانی مرزا میاں محمود نے لکھا ہے کہ: ہمارا یہ بھی یقین ہے کہ اس امت کی اصلاح اور درستی کے لیے ہر ضرورت کے موقع پر اللہ تعالی اپنے انبیاء کو بھیجتا رہے گا۔(الفضل قادیان ۱۹۲۵ء بحوالہ مرزائیت اور اسلام ص: ۳۹)
قادیانیوں کی دسیسہ کاری اور اس کے فروغ کی جد جہد:
شروع میں مرزا غلام احمد نے قادیان اور صوبہ پنجاب کو اپنی محنت کا میدان بنایا، اس کے بعد دوسرے صوبوں میں بھی اس نے اپنے نمائندے بھیجنے شروع کردیے اورا پنے مریدوں کو مالی وسائل استعمال کرنے کی تاکید کی اور اپنے مریدوں کو یہاں تک کہا کہ جو اپنی آمدنی کا کچھ حصہ تین ماہ تک قادیانیت کے فروغ میں صرف نہیں کرتا وہ بیعت سے خارج ہے اس کے نتیجے میں ان کے بیت المال میں لاکھوں روپیے جمع ہوگئے اور ان کا ہر مرید اپنی آمدنی کا کم از کم دسواں حصہ دیتا اور بعض تو ایک تہائی اور ایک چوتھائی قادیان بھیجتے رہے۔(کمالات محمدیہ ص:۰۷۲) یہ لوگ اپنے نو مولود مذہب کی ترویج و اشاعت کے لیے ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار تھے اور ثواب سمجھ کر اس کی اشاعت کی جد جہد کر رہے تھے اورجس طرح عیسائیوں نے اپنے مذہب کی ترویج کے لیے مالی وسائل استعمال کیا تھا اسی سے ٹریننگ پاکر قادیانی بھی سادہ لوح مسلمانوں کو ہرطرح کا لالچ دے کر قادیانی بنا رہے تھے، اس وقت مسلمان معاشی اعتباری سے بڑی آزمائشی دور سے گزر رہے تھے،بلکہ سیاسی طور پر مفلوک الحال تھے اس لیے معمولی لالچ سے بھی کسی کے ایمان کو خریدا جاسکتا تھا۔
مونگیر اور بھاگل پور قادیانیت کی زد میں:
صوبہ پنجاب سے نکل کر قادیانیت نے پورے ہندوستان کو اپنی محنت کا میدان بنالیا اور بڑی تیزی سے قادیانیت ہندوستان کے مختلف صوبوں میں پھیلنے لگا خاص کر انہوں نے پسماندہ علاقوں کو نشانہ بنایا کیوں کہ قادیانیت کا جنم عیسائیت کی کوکھ میں ہوا تھا اس لیے وہ تمام ہٹکنڈے یہاں بھی اختیار کیے گئے جو عیسائی حضرات،عیسائیت کے فروغ کے لیے کررہے تھے اس لیے پسماندہ علاقوں کو پہلے نشانہ بنایا گیا اوراسی منصوبہ کے تحت بہار میں قادیانیت کے فروغ کی بھر پور کوشیشیں کی گئیں، مرزا غلام احمد قادیانی کے خاص سمدھی،اور مرزا بشیر محمود کے خسر مولوی حکیم خلیل احمد باضابطہ مونگیر اور بھاگل پور میں قیام پذیر تھے، اور اپنی ذہانت و ذکاوت اور طلاقت لسانی سے قادیانیت کی تبلیغ و اشاعت میں رات دن صرف کررہے تھے۔ان کی محنت اور جد جہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہار کے ضلع مونگیر اور بھاگل پور میں خاص طو رپر قادیانیت کو خود مقبولیت ہوئی،یہاں کے بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی قادیانی ہوگئے اور قریب تھا کہ یہ دونوں اضلاع مکمل طور پر قادیانی ہوجائیں گے، امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب ؒ نے لکھا ہے کہ بھاگل پور کے ایک جید عالم مولانا عبد الماجد قادیانی ہوگئے تھے، یہ بھاگل پور کے علاقہ پورینی سے تعلق رکھتے تھے،اور اچھے مدرس تھے، منطق و فلسفہ میں بڑی دستگاہ رکھتے تھے، انہوں نے شرح تہدیب پر حاشیہ لکھ کر اس فن سے اپنی مہارت کا ثبوت پیش کیا تھا،لیکن قادیانی ہوجانے کے بعد اپنی پوری صلاحیت قادیانیت کے فروغ میں صرف کررہے تھے۔(مولانا محمد علی مونگیری اور قادیانیت ص:۱۳) آج بھی بھاگل پور میں اس کے اثرات ہیں، ان کی مسجدیں ہیں، کافی تعداد میں بھاگل پور کے برہ پورہ علاقہ میں یہ لوگ آباد بھی ہیں،یہ وہ سنگین صورت حال تھی جس نے قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ کو بے چین کردیا تھا اور حضرت مونگیری نے محسوس کیا کہ اگر پوری قوت کے ساتھ اس تحریک کا مقابلہ نہ کیا گیا تو اس کے بڑے افسوس ناک نتائج ظاہر ہوسکتے ہیں، یہی وہ موڑ تھا جہاں حضرت مونگیری اپنی ساری صلاحیتوں کے ساتھ میدان میں آگئے اور اپنی ساری توانائی اس فتنہ کی سرکوبی میں صرف کردی۔واقعہ یہ ہے کہ اگر حضرت مونگیری کی فتنہ قادینانیت کے تئیں یہ درد مندی اور جانفشانی نہ ہو تی تو صوبہ بہار میں اور خاص طور پر مونگیر اور بھاگل پور میں قادیانیت کے اس سیلاب کو روک پانا بہت مشکل ہوتا جس سیلاب میں عامی ہی نہیں خواص اور اہل علم بھی بہہ رہے تھے، بہت سے وہ لوگ جو دیوبند کے فیض یافتہ تھے بہترین صلاحیت کے مالک تھے، قادیانیت کے دام فریب میں آکران کے ترجمان اور مناظر بن گئے۔ان حالات میں مولانا مونگیری کی ان قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
فتنہ قادیانیت کے سلسلے میں حضرت مونگیری کی ہمہ جہت خدمات۔
فتنہ قادیانیت کے سلسلے میں حضرت مونگیری کی خدمات ہمہ جہت ہیں انہوں نے قادیانیت کے تعاقب کے لیے اور اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے اپنے تمام وسائل کو استعمال کیا، تقریری کیں، لوگوں کو راغب کیا، مناظر ہ کی ضرورت پڑی تو مناظرہ کیا،کتابیں لکھیں، رسالے مفت تقسیم کرائے،اپنے مریدین اور متوسلین کو تربیت دے کر گاؤں گاؤں بھیجا، میلاد کے جلسوں میں قادیانیت کے دجل کو واضح کرنے کی تلقین کی اس کے لیے مالی وسائل استعمال کرنے اور اس جد جہد کا حصہ بننے کو جہاد قرار دیا ان کے بعض تربیت یافتہ اگر کام کرتے تھک جاتے تو ان کو شوق دلانے کے لیے کہتے کہ کام کرو تمہیں جہاد کا ثواب ملے گا۔
تصنیفی خدمات:
آ پ کی جد جہد کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔اس سلسلے میں آپ کا سب سے اہم کارنامہ کتابیں اور رسائل کی تالیف ہے،مرزا غلام احمد قادیانی نے مختلف کتابوں کے ذریعہ اپنی نبوت کو ثابت کرنے اور لوگوں پر اثر ڈالنے کی کوشش کی تھی ئ اسے معلوم تھا کہ وہ خو د ہر جگہ جاکر قادیانیت کا پرچار نہیں کرسکتاہے لیکن اس کی کتابیں ہر جگہ پہونچ جائیں گی، اس لیے اس نے بہت سی کتابیں لکھیں،بعض کتابیں پیسے دے کر لکھوائیں، حضرت مونگیریؒ نے مرزا کی کتابوں کے ردّ میں خوب کتابیں لکھیں، آپ فرض کے بعد سب سے ضروری فرض اسی کو سمجھتے تھے اسی وجہ سے تہجد کے وقت کو آپ نے رسائل لکھنے کے لیے وقف کردیا تھا،آپ ان کتابوں کو لکھتے اور دہلی کانپور میں طبع کراکر اسے تقسیم کراتے تھے، ظاہر ہے دہلی و کانپور سے آنے جانے میں کافی وقت لگتا تھا اس لیے آپ نے اس کا آسان حل یہ نکالا کہ خود مونگیر میں پریس قائم کیا تاکہ کتابیں جلد طبع ہو کر منظر عام پر آجائیں اور لوگوں کو گمراہی سے بچایا جاسکے۔ آپ نے اپنے مریدین کو اس میں بھر پور تعاون کرنے کو کہا اآپ اپنے متوسلین سے چندے کی درخواست کبھی نہیں کرتے تھے لیکن اس موقع پر آپ نے لوگوں سے اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر تعاون کرنے کی اور اسے تحریک کی شکل دے کر بعد میں ا س نہج پر کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔ بھاگل پور کے اپنے ایک مریدحاجی لیاقت حسین صاحب کواس سلسلے کا ایک خط لکھا تھاجس میں ان امور کی طرف توجہ دلائی تھی۔
میں چاہتا ہوں کہ مخالفین اسلام کی بے انتہاء سعی اور کوشش کا جواب دیا جائے بالخصوص مرزائی جماعت کا فتنہ فرو کرنے میں جو کچھ ہو سکے اس سے دریغ نہ کیا جائے اور نہایت انتظام کے ساتھ یہ سلسلہ میرے بعد بھی جاری رہے،اس لیے میری رائے یہ ہے کہ ایک انجمن قائم کی جائے جس کا نظم تم لوگ اپنے ہاتھ میں لو او راس کے لیے ہر وہ شخص جو مجھ سے ربط و تعلق رکھتا ہے وہ اس میں حسب حیثیت التزا م کے ساتھ ماہانہ شرکت کرے ورنہ جو شخص میرے ا س دینی اور ضروری کہنے کی طرف بھی متوجہ نہ ہوگا میں اس سے ناخوش ہوں اور وہ خودیہ سمجھ لے کہ اس کو مجھ سے کیاتعلق رہا(کمالات محمدیہ (۶۷۲)
چنانچہ آپ کے مریدوں نے دل کھول کر مالی تعاون فراہم کیا، کتابوں کی تقسیم کے سلسلے میں آپ کا یہ مقولہ بہت مشہور ہے اتنی کتابیں طبع کرکے تقسیم کرو کہ ہر شخص جب سو کر اٹھے تو اس کے سرہانے میں ردّ قادیانیت پر ایک کتاب ہو۔اس زمانہ میں قادیانی لیٹریچر بڑی تیزی میں شائع ہورہے تھے، حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی نے لکھا ہے کہ اس وقت جو رسائل و اخبارات قادیانیوں کی طرف سے شائع ہورہے تھے اس کی تعداد ۲۶ ہزار تھی،حضرت مولانا مونگیری کا نقطہ نظر یہ تھا کہ جس تیزی سے ان کی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں اسی تیز ی سے اس کے رد پر بھی کام ہونا چاہیے اسی جذبہ نے انہیں قانقاہ میں پریس قائم کرنے پر مجبور کیا۔(مولانامحمد علی مونگیری اور قادیانیت،امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی ص: ۱۴)
قادیانیت کے موضوع پر مولانا مونگیری کی تصنیفات کا جائزہ:
حضرت مونگیری نے قادیانیت کے موضوع پر سو سے زائد کتابیں اور رسائل تالیف کئے جن میں چالیس کتابیں ان کے نام سے ہیں اور باقی کتابیں کچھ تو ان کی کنیت سے اورکچھ دوسرے حضرات کے نام سے ہیں، اس کی وجہ تو نہیں معلوم ہوسکی کہ آخر ایسا کیوں ہوا کہ بعض کتابیں تو خود حضرت کے نام سے ہی ہیں اور بعض ان کے نام سے نہیں ہیں اگر ان کی کنیت کے نام سے ہے تو بھی وہ حضرت کا ہی نام ہے،لیکن اس کے علاوہ دوسروں کے نام سے ہونے کی کیا وجہ ہے؟ بہت ممکن ہے کہ جو کتابیں حضرت کے حکم سے لکھی گئی تھی اس کی نسبت اس کے کا تب کی طرف کردی گئی اور حضرت کے ایماء سے ہونے کی وجہ سے حضرت کی مطبوعا ت کی فہرست میں بھی اس کو شامل کردیا گیا اس لیے یہ تعداد سو سے متجاوز ہوگئی،اسی طرح صحیفہ رحمانیہ کے مضامین کو بھی مستقل رسالہ شمار کرکے یہ تعداد محسوب گئی ہے۔
صحیفہ رحمانیہ:
حضرت مونگیری نے ایک ماہ نامہ صحیفہ رحمانیہ کے نام سے جاری کیا تھا جس کا موضوع بھی رد قادیانیت تھا۔صحیفہ رحمانیہ کی اشاعت دسمبر ۱۹۱۳ء سے شروع ہو کر ۳۰ اگست ۱۹۲۴ء تک جاری رہی ہے گویا دس سال تک اس رسالہ کا دورانیہ ہے، احتساب قادیانیت کے مرتب نے لکھا ہے کہ اس دوران کل چوبیس رسالے شائع ہوئے اس کا مطلب یہ ہے کہ رسالہ ماہ نامہ نہیں تھا، بلکہ سال میں دو تین رسالہ ہی شائع ہوتا تھا، جب کہ حضرت امیر شریعت نے صحیفہ رحمانیہ کو ماہ نامہ رسالہ قرار دیا ہے،(مولانا محمد علی مونگیری اور قادیانیت ص:۴۱) صحیفہ رحمانیہ کے تمام چوبیس رسالے احتساب قادیانیت کی پانچویں جلد میں موجود ہیں،اس میں بعض رسالہ کے مرتب دوسرے حضرات بھی ہیں، بہت ممکن ہے کہ جن لوگوں نے حضرت مونگیری کے سو سے زائد رسائل و کتب کا تذکرہ کیا ہے انہوں نے ان تمام صحیفہ رحمانیہ کو بنیاد بنایا ہو، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صحیفہ رحمانیہ میں تمام رسائل حضرت مونگیری کے نہیں تھے،بلکہ آپ کے تربیت یافتہ، اور شاگردوں کے بھی رسائل شائع ہوتے تھے جو پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے، چنانچہ صحیفہ رحمانیہ کاپہلا رسالہ جو احتساب قادیانیت میں ہے اس کا عنوان ہے ”بھاگل پور کے جلسہ ۲۴ دسمبر ۱۹۱۳ء مطابق ۲۵ محرم ۱۳۲۳ھ کی مختصر کیفیت“ اس کے مرتب عبد العزیر خان،عبد الوحید خان ہیں۔ اس رسالہ میں ایک جگہ لکھا ہے
چوں کہ حضرت مولانا مولوی ابواحمد صاحب رحمانی دامت برکاتہم خلیفہ اعظم قطب وقت حضرت خاتم الاولیاء گنج مرادآبادی قدس سرہ العزیز کی توجہ سے کئی سال ہوئے قادیانی جماعت سے مونگیر میں بڑے پیمانہ پر مناظرہ ہوا اور کئی ضلع کے عوام اور خواص کے سامنے قادیانیوں کی اسی میں شکست ہوئی جس میں مرزائیوں کی کوئی تاویل بھی کام نہ آئی اور جس قدر اس برگزیدہ قوم نے جھوٹ لکھ کر شائع کیا شرکاء جلسہ کو اور نفرت اور ان کے کذب کی دلیل تام ہوگئی (صحیفہ رحمانبہ بحوالہ احتساب قادیانیت ۵/۷)
اس رسالہ میں مولوی ابواحمد صاحب رحمانی سے مراد حضرت مونگیری ہیں، اور آپ کے بعض رسائل اسی نام سے طبع بھی ہوئے ہیں ابواحمد آپ کی کنیت تھی۔ محاسبہ قادیانیت میں کی ایک جلد میں حضرت مولانا ابومحمود محمد اسحق رحمانی مونگیری کا ایک رسالہ اثر مباہلہ عبد الحق غزنوی برغلام غلام احمد قادیانی“نام سے ہے معلوم نہیں یہ بھی حضرت مونگیری کا ہی نام ہے یا ان کے کسی متوسل و مرید کا نام ہے اور ان کے نام سے یہ رسالہ شائع ہوا ہے۔محاسبہ قادیانیت کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان نے مرتب کرکے شائع کیا ہے اس کی متعد دجلدیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
بہر حال اس سوال کا جواب بظاہر یہی ہے کہ جن سو سے زائد کتابوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے وہ صحیفہ رحمانیہ کو شامل کرکے ہے اور اس صحیفہ میں بعض رسائل دوسرے حضرات کے ہیں جسے یہ کہہ دیا گیا ہے کہ بعض آپ کے نام سے شائع ہوئے ہیں اور بعض دوسرے حضرات کے نام سے شائع ہوئے ہیں اس کے علاوہ کوئی دوسری توجیہ مجھے نہیں مل سکی ہے۔فوق کل ذی علم علیم۔شاید کہ اس کے علاوہ کوئی دوسری تو جیہ بھی سامنے آجائے۔
حضرت ابوبکر صدیق کی وراثت:
یہ سب کام حضرت کے انتہائی ضعف و اضمحلال کے زمانہ میں وجود میں آیا،جسم اگر چہ ناتواں ہوچکا تھا لیکن خون میں گرمی باقی تھی،عزم میں پختگی باقی تھی،استقلال اور عزیمت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی گویا کہ صدیقی خون آپ کے رگوں میں دوڑ رہا تھا اور آپ کسی قیمت پر مسیلمہ ثانی کو برداشت کرنا نہیں چاہتے تھے، آپ کا یہ جذبہ بتاتاہے کہ جب تک محمد علی کے جسم میں خون او رروح کا رشتہ باقی ہے آپ اپنی تمام تر طاقتوں کو مرزائیت کی سرکوبی کے لیے صرف کرنا چاہتے تھے۔تاکہ کل قیامت میں حضرت ابوبکر صدیق کے جانشین کے طور پرآپ کانام لیا جاسکے، اور ختم نبوت کے سپہ سالاروں میں آپ کا شمار ہو سکے۔ آپ مرزائیت کی بیخ کنی کے لیے اسی طرح بے تاب تھے جس طرح کہ مچھلی پانی سے باہر بے تاب ہوتی ہے۔آپ کی پوری زندگی کو پڑھ جائیے اس دعوی کی تصدیق ہوجائے گی آپ نے اس سلسلے میں عزیمت کی جو مثال پیش کی ہے وہ بے نظیر ہے،حیرت انگیز ہے،بے مثال ہے، ختم نبوت کے لیے آپ نے اپنے وطن کی بھی قربانی دی ہے، آپ کا اصل وطن مظفر نگر ہے، آپ کی پیدائش کان پور میں ہوئی، لیکن ختم نبوت کی حفاظت کے لیے اس سپاہی نے اپنے وطن سے ہزار کیلو میٹر دور مونگیر کو اپنا وطن بنایا جس طرح آقا ء نامدار محمد عربی ﷺ نے اپنی نبوت کی حفاظت کے لیے ہجرت کی تھی،اسی طرح آپ ﷺکے غلام، محمد علی نے بھی ختم نبوت کی حفاظت کے لیے ہجرت کرکے ایک عظیم سنت نبوی کو زندہ کردکھایا۔
احتساب قادیانیت:
حضرت مونگیری نے قادیانیت کے رد میں بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں،اس وقت جو کتابیں ان میں دستیاب ہیں ان تمام کو احتساب قادیانیت میں جمع کردیاگیا۔احتساب قادیانیت یہ بڑا کارنامہ ہے۔جس میں قادیانیت کے رد پر لکھی گئی چھوٹی بڑی تمام کتب رسائل کو جمع کردیا گیا ہے، اس کی اب تک ۷۵ جلدیں شائع ہوچکی ہیں یہ کام بھی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان نے کیا ہے اور ختم نبوت پر کام کرنے والوں کے لیے عظیم شاہ کار ہے، اس کتاب کی پانچویں اور ساتویں جلد میں حضرت مونگیری کے رسائل کو جمع کیا گیا ہے جو اہل بصیرت کے سرمہ حیات سے کم نہیں ہے۔ اس جلد کے آغاز میں حضرت مونگیری کی خدمات ختم نبوت کو بہترین انداز میں خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا ہے اور حضرت مونگیری کی خدمات جلیلہ کو سنہرے الفاظ میں رقم کیاگیا ہے۔ چنانچہ اس کے مرتب فقیر اللہ وسایا صاحب لکھتے ہیں۔
حضرت مولانا محمد علی مونگیری کا وجود قادیانی امت کے لیے درّہ عمر کی حیثیت رکھتا تھا، ردّ قادیانیت کے عنوان پر کام کرنے والے حضرات کے لیے مولانا سید محمد علی مونگیری ؒکی حیثیت آئیڈیل شخصیت کی ہے۔آپ نے اس عنوان پر وہ گراں قدر خدمات سر انجام دیں ہیں جو رہتی دنیا تک امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ اور فتنہ قادیانیت کے لیے سوہان روح ہیں۔ان کے وجود سے اللہ تعالی نے فتنہ قادیانیت پر اتمام حجت کا کام لیا۔وہ بلا شبہ اپنے دور میں امت مسلمہ کے لیے آیت من آیات اللہ تھے۔(احتساب قادیانیت ۷/۳)
فیصلہ آسمانی:
حضرت مونگیری کی کتابوں میں سب سے اہم کتاب”فیصلہ آسمانی“ ہے یہ حضرت کی پہلی تصنیف بھی ہے،یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے، حضرت مونگیری کی حیات میں ہی متعدد بار زیر طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں یہ وہ کتاب ہے جس کا جوا ب دینے کی آج تک مرزائی جرأت نہیں کر سکے ہیں،کتاب کی زبان انتہائی سہل اور عام فہم ہے اور جب کہ اس پر سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن زبان و بیان میں کہیں فرق محسوس نہیں ہوتا ہے پڑھنے والا پڑھے تو پڑھتا چلا جائے، نہ عبارت گنجلک ہے، نہ ہی استدلال میں پیچیدگی بلکہ کتاب زبان و بیان، قوت استدلال کے اعتبار سے محکم اور مضبوط ہے،اس کے پہلے حصہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کی”منکوحہ آسمانی“ کا بہترین پوسٹ مارٹم کیاگیا ہے،مرزا نے اس کے بارے میں طرح طرح کے دعوے کیے تھے، اشعار میں بھی اپنی نکاح آسمانی کی داستان بیان کی تھی، اس کتاب پر مولانا مناظر احسن گیلانی نے بہترین تبصرہ کیا ہے جس میں کتاب کا خلاصہ آگیا ہے ا س خلاصہ کا خلاصہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں امید کہ کتاب کے طرز بیان سے کسی حد تک واقفیت ہوسکے گی وہ فرماتے ہیں:
اس رسالہ میں نہایت شد مد سے ثابت کیا گیا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی میں ہر گز اس کی صلاحیت نہ تھی کہ کوئی مسلمان اس کی اتباع کرے اور نہ ہی صرف یہ بلکہ اس کی پیروی براہ راست انسان کو گمراہ مقام تک پہنچادیتی ہے،اور اس دعوی کو حضرت مونگیری نے جس طرح مدلل کیا ہے رد قادنیت پر لکھی گئی کسی کتاب میں نہیں مل سکتی ہے فرماتے ہیں:امت اسلامیہ اس وقت تین طائفوں میں منقسم ہے:(۱) صوفیاء کرام،جنہیں خداوند عزیز نے نور باطن،صفاء قلب،روشنی،بصیر ت،فراست ایمانیہ سے نوازا ہے جس کے ذریعہ سے وہ حق و باطل کو الگ الگ کرکے دیکھ لیتے ہیں (۲) علماء عظام جن کے ہاتھ میں قرآن و حدیث، آثار و سنن موجود ہیں جس میں مہدی،عیسی علیہ السلام کی علامات واضح طو رپر بیان کی گئی ہیں (۳) مسلمانوں کا وہ طائفہ جو نہ نور باطن رکھتاہے اور نہ علم ظاہر سے کوئی بہرہ۔اب ظاہر ہے کہ اربا ب باطن میں سے کسی نے مرزا کی تصدیق نہ کی حالاں کہ اگر وہ واقع میں مہدی ہوتا تو سب سے پہلے ان کے قدموں میں سرڈالنے والا گروہ ہوتا، اسی طرح میں بجز چند عبد الدراہم و الطاغوت کے اور سبھوں نے انکار کیا کہ مہدی یا مسیح کی کوئی علامت اس میں نہیں، البتہ عوام بیچارے کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے وہ دل کی بینائی سے محروم ہیں اون کے ہاتھ میں حدیث و آثار کی شمع بھی نہیں ہے۔بے شک ان کے لیے سخت وقت ہے خصوصا اس وقت جب کہ آزادی کا زمانہ ہے مشکلات اور بھی پیچیدہ ہوگئے کیوں کہ آسان طریقہ تو ان کے لیے یہی تھا کہ صوفیہ و علماء کی تقلید کرتے مگر کچھ علماء شرار و صوفیاء بد اطوار اور کچھ اثر زمانہ نے ان کی تقلید سے بازار کو سرد کردیا ہے؛ اس لیے میں نے ان لوگوں کے لیے کسی عالم کانہیں، کسی صوفی کا نہیں، کسی مناظر کا نہیں، کسی فقیہ کا نہیں حتی کہ کسی نبی کا نہیں؛ بلکہ حضرت حق سبحانہ و تعالی کاآسمانی فیصلہ جو آسان بھی ہے اور مختصر بھی ہے مسلمانوں کے ہاتھ میں دیتاہوں ان شاء اللہ ان پر خود حق واضح ہو جائے گا۔تیرہ بختی ہے کہ انسان اپنے مالک یگانہ کے فیصلے سے منہ موڑے اگر انسان کی آراء قابل سماعت نہیں تو نہ ہو لیکن کیا خدا بھی اس قابل نہیں کہ اس کی آواز نہ سنی جائے اور اس کے فیصلے کے آگے گردن نہ ڈال دی جائے۔وہ آسمانی فیصلہ ہم تک بذریعہ خاتم النبیین نسلا بعد نسل تواتر کے ساتھ منتقل ہوتا رہا ہے قرآن میں ہے فلا تحسبن اللہ مخلف وعدہ (ابراہیم)(ہرگز ہرگز خدا کو گمان نہ کروکہ وہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا۔)لا یخلف اللہ وعدہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون، اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔ اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ خدا عموما کسی سے وعدہ خلافی نہیں کرتا اور خصوصا رسولوں سے جیسا کہ ہر ایک شخص کو ان فیصلوں کے بعد سمجھ سکتاہے بس اب تمام دنیا کے علماء اور صوفیاء سے قطع نظر کرکے محض ان فیصلوں کو ہاتھ میں لو، اور مرزا غلام احمد قادیانی پر اسے جاری کرکے دیکھو کہ وہ نبی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو پھر وہ بیچارہ مسلمان بھی تھا یا نہیں؟ اگر مسلمان نہیں ہے تو صرف گمراہ ہے یا گمراہ ہونے کے ساتھ مغضوب اور دوسرے کو گمراہ کرنے والا تھا؟ انشاء اللہ اسی کے ذریعہ تمام سوالوں کا جواب مل سکتا ہے۔
چاہیے کہ تمہارا دماغ اس وقت جب کہ تم انصاف و عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر آسمانی فیصلہ کے ماتحت ہو کر رائے قائم کرنے والے ہو، کسی مولوی یا ملا، یا صوفی کے خیالات سے متأثر نہ ہو محض آزاد و مخلی بالطبع ہو کر سوچو پس سنو:
اگر مرزا قادیانی نبی ہوتا تو آسمانی فیصلہ کے اعتبار سے ضروری تھا کہ خدا اس سے وعدہ خلافی نہ کرتا لیکن معمولی معمولی پیش گوئیاں تو خیر سب سے عظیم الشان منیع القدر پیش گوئی (یعنی دختر احمد بیگ سے نکاح
کی پیش گوئی) جس کے متعلق مرزا قادیانی کو ہر ایک قسم کا بھر وسہ تھااور جس کی صداقت پر اعتماد کرکے آپ کی پنجابی اردو نما الاپ یہ تھی
پیش گوئی کا جب انجام ہویدا ہوگا
قدرت حق کا عجب ایک تماشا ہوگا
جھوٹ اور حق میں جو ہے فرق وہ پیدا ہوگا
کوئی پاجائے گا عزت کوئی رسوا ہوگا
اور جس کے متعلق مرزا قادیانی سترہ (17)برس انتظار کرتا رہا، دھوم مچائی، شور کیا لیکن تمام عالم کو معلوم ہے اور اس وقت کم از کم ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمی گواہ ہیں کہ اس پیش گوئی کے متعلق مرزا قادیانی کا لفظ لفظ حرف حرف غلط ہوا۔بتاؤ!کہ آسمانی فیصلہ فلاتحسبن اللہ مخلف وعدہ رسولہ کا کیا اقتضاء یہ نہیں کہ مرزا قادیانی نبی نہ تھا؟ بلا شبہ ایسا ہی ہے ورنہ لازم آتا ہے کہ خدا تعالی کا قول غلط ہو اور جب کہ نبی نہ تھا تو کیا مسلمان تھا؟ اس کے لیے تمہارے سامنے ایک آسمانی فیصلہ پیش کرتا ہوں و من اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا (اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے خدا تعالی پر جھوٹ باندھا) ا س فیصلہ کا حاصل یہ ہے کہ خدا تعالی پر جھوٹ باندھنے والے سے زیادہ ظالم نہ کافر ہے نہ مشرک ہے نہ بدعتی، نہ فاسق، خدا پر جھوٹ باندھنا بدترین کفر ہے۔(محاسبہ قادیانیت،مضمون مولانا مناظر احسن گیلانی ۸/۵۵۹)
مولانا گیلانی نے بہت ہی لطیف پیرائے میں فیصلہ آسمانی کا خلاصہ پیش کردیا ہے جس سے فیصلہ آسمانی کا مضمون اور مدعی دونوں سامنے آجاتاہے، طرز استدلال اور دلائل کی قوت کا آپ کے باطنی سوز کا اندازہ پڑھنے والا لگاسکتا ہے کہ صرف قرآن کو بنیاد بنایا جارہا ہے جس پر ہر کسی کو اتفاق ہے اور جس پر کسی قسم کے کلام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
حضرت مونگیری کی دوسری تصنیفات:
فیصلہ آسمانی کے علاوہ حضرت مونگیری اس موضوع پر جو کتابیں لکھیں ہیں ان میں چند کتابیں یہ ہیں (۱)ابطال مرزا (۲) شہادت آسمانی(۳)چیلینج محمدیہ (۴) چشمہ ہدایت (۵)معیار صداقت (۶) مرزائی نبوت کا خاتمہ (۷) عبرت خیز (۸) تنگ آمد بہ سب آمد(۹)تنزیہ ربانی (۱۰)آئینہ کمالات مرزا (۱۱)نامہ حقانی(۱۲)معیار المسیح(۱۳) حقیقت المسیح۔ اس کے علاوہ بھی آپ کی تصنیفات اور رسائل ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں مولانا نے جو تنہاکارنامہ انجام دیا ہے، آج وہ پوری اکیڈمی مل کر انجام نہیں دے سکتی ہے،قادیانیت پر کام کرنے والوں کے لیے مولانا کی یہ تحریریں آج بھی آنکھوں کا سرمہ ہیں،ان تصنیفات کا مختصر تعارف سیرت مولانامحمد علی مونگیری میں کیا گیا ہے۔اہل بصیرت کے لیے اس کا مطالعہ مفید ہوگا۔
حضرت مونگیری کی رد قادیانیت پر لکھی گئی کتابوں کا اثر:
حضرت مونگیری کی قادیانیت پر لکھی گئیں کتابیں تیر بہدف ثابت ہوئیں اور جس طرح مرزا کی باطل تحریروں سے اس کے ماننے والے پیداہورہے تھے حضرت مونگیری کی ان اثر انگزیر تحریروں نے کایا پلٹ دی، مرزا ئی حضرت مونگیری کی تحریروں کا جوا ب تو کیا دیتے،جہاں حضرت مونگیری کی تحریر یں پہنچ جاتی،مرزائی وہاں سے اپنا بوریہ بستر باندھ کر راہ فرار اختیار کرلیتے تھے۔حضرت مولانا محمد حسنی، ؒجنہوں نے سیرت مولانا محمد علی مونگیری لکھی ہے،اس میں وہ حضرت مونگیری کی تصنیفا ت کے اثر انگریزی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مولانا کی ان تصنیفات و رسائل اور خطوط و مکاتیب نے اتنا کام کیا کہ بعض اوقات قادیانی مبلغ یہ علم ہوتے ہی کہ مولانا کے رسائل کی فلاں جگہ لوگوں میں عام اشاعت ہورہی ہے وہ جگہ چھوڑ کر چلے گئے، اور جب وہاں بھی ان رسائل نے ان کا تعاقب کیاگیا تو ان کو کسی تیسری جگہ پناہ لینی پڑی، یہا ں تک نوبت آئی کہ مولانا کا نام ہی قادنیوں کی شکست کارمز بن گیا، ان تصنیفا ت بالخصوص فیصلہ آسمانی اور شہادت آسمانی کے مطالعہ سے غیر جانبدار شخص اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ قادیانیت کے رد میں جو لڑیچر اب تک تیار کیا گیا ہے ا س میں یہ کتابیں بہت ممتاز مقام رکھتی ہیں۔انہوں نے تردید قادیانیت میں جو اہم پارٹ ادا کیا ہے اور مسلمانوں کو جتنا فائدہ پہنچایا ہے اسے کوئی مؤرخ نظر انداز نہیں کرسکتا ہے (سیرت مولانا محمد علی مونگیری،مولانامحمد الحسنی ندوی،مجلس نشریات اسلام،ناظم آباد،کراچی، ص: ۵۲۳)
مونگیر کا تاریخی مناظرہ:
حضرت مونگیری نے قادیانیت کے تعاقب کے لیے کسی قسم کے وسائل سے دریغ نہیں کیا، جس وقت جس چیز کی ضرورت محسوس کی اس کے لیے کمر بستہ ہوگئے، ضرورت پڑی تو مناظرہ سے بھی کام لیا۔جن حضرات نے حضرت مونگیری کے سوانح پر کام کیا ہے انہوں نے حضرت مونگیری کے ا س تاریخی مناظرہ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔حضرت امیر شریعت اس تاریخی مناظرہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
یہ مناظرہ ۶۰۹۱ء میں ہوا جس میں تقریبا چالیس علماء شریک ہوئے،مرزا صاحب کی طرف سے حکیم نورالدین وغیرہ آئے اس کی تفصیل یہ ہے کہ مرزا صاحب کے نمائندے حکیم نورالدین صاحب، سرورشاہ صاحب اور روشن علی صاحب،مرزا صاحب کی تحریر لے کر آئے کہ ان کی شکست میری شکست ہے،ان کی فتح میری فتح ہے۔ا س طرف سے مولانا مرتضی حسن صاحبؒ ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند، علامہ انورشاہ صاحب کشمیریؒ، مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ، مولانا عبد الوہاب بہاریؒ، مولانا ابراہیم سیالکوٹیؒ تقریبا چالیس علماء بلائے گئے، لوگوں کا بیان ہے کہ عجیب منظرتھأ صوبہ بہار کے اضلاع کے لوگ تماشائی بن کرآئے تھے، معلوم ہوتا تھا کہ خانقاہ میں علماء کی بارات ٹھہری ہے، کتابیں الٹی جارہی ہیں، حوالے تلاش کئے جارہے ہیں اور بحثیں چل رہی ہیں، سوال پیدا ہوا کہ مولانا محمد علی مونگیریؒ کی طرف سے مناظرہ کا وکیل اور نمائندہ کون ہو؟ قرعہ فال مولانا مرتضی حسن صاحب کے نام پڑا، آپ نے مولانا مرتضی حسن صاحب کو تحریرا اپنا نمائندہ بنایا، علماء کی یہ جماعت میدان مناظرہ میں گئی وقت مقرر تھا۔ اس طرف مولانا مرتضی حسن صاحب اسٹیج پر گئے اور اس طرف آپ سجدہ میں گئے، اور اس وقت تک سر نہ اٹھایا جب تک کہ فتح کی خبر نہ آگئی، بزرگوں کا کہنا ہے کہ میدان مناظرہ کا عجیب منظر تھا مولانا مرتضی حسن صاحب کی ایک ہی تقریر کے بعد جب قادیانیوں سے جواب کا مطالبہ کیا گیا تو مرزا صاحب کے نمائندے جواب دینے کے بجائے انتہائی بدحواسی اور گھبراہٹ میں کرسیاں اپنے سر پر لیے ہوئے یہ کہتے بھاگے کہ ہم جوا ب نہیں دے سکتے۔(مولانا محمد علی مونگیری اور قادیانیت ص: ۱۹)
بہر حال حضرت مونگیری نے اگر چہ مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجا م دئے، آپ نے تعلیم وتدریس، وعظ و نصیحت، ارشاد و سلوک،تصنیف و تالیف، دعوتی اسفار،ہر طرح اسلام کی سربلندی اور عظمت رفتہ کی واپسی کے لیے لاثانی قربانی دی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد جو قائدین تھے، جنہوں نے اس مشکل حالات میں امت کی قیادت کا فرض انجام دیا تھا آپ ان میں صف اول کے لوگوں میں تھے،آپ نے ہر طرح باطل کا مقابلہ کیا، عیسائیت کے رد میں بھی آپ کی زریں خدمات ہیں لیکن قادیانیت کے سلسلے میں آپ کے جو کارنامے ہیں،وہ عدیم المثال ہیں،عظیم الشان ہیں، اور آج بھی اپنی اہمیت کے ساتھ آپ کی کاوشیں باقی ہیں جو اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے نسخہ شفاء ہے۔