مولانا غلام نبی کشمیریؒ :- مفتی امانت علی قاسمی

Share
مفتی امانت علی قاسمی

گلستانِ وادی لولاب کا تازہ گلاب
مولانا غلام نبی کشمیریؒ

مفتی امانت علی قاسمی
استاذ و مفتی دارالعلوم وقف دیوبند
Email:
07207326738 Mob:

فروغ شمع تو باقی رہے گا صبح محشر تک
مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی
حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالی علم کو ایک بارگی اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے سینے اچانک علم سے خالی کردے گا؛

بلکہ علم اٹھانے کی صورت یہ ہوگی کہ اہل علم دھیرے دھیرے اٹھالیے جائیں گے، اس طرح اہل علم کے اٹھ جانے سے علم اٹھ جائے گا۔ آپ ﷺ کی اس پیش گوئی کو موجودہ حالات پر منطبق کیا جائے تو صاف ہوجاتا ہے کہ علم کے اٹھائے جانے کا ایک تسلسل ہے؛ ا س لیے کہ جو لوگ قرآن و سنت کا صحیح علم رکھتے ہیں، جن کے پاس قرآن و حدیث کا صحیح فہم ہے، جن کے سوز دروں میں امت کی فکر، قوم کا درد،اوراسلام کی ترجمانی کا جذبہ ہے،اورجن کے پاس اسلامی علوم کا ذخیرہ ہے اس طرح کے لوگ ہمارے درمیان سے اس طرح غائب ہورہے ہیں جیسے روشن آسمان کے تابندہ ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہو ں۔ آسمان اگر چہ نظام قدرت کے تحت اپنی ظاہر ی روشنی بکھیر رہا ہے لیکن ہمیں جس فکری اور روحانی روشنی کی ضرورت ہے ہم اس سے محروم ہوتے جارہے ہیں، یہ اس وقت کا المیہ ہے اور ہمارے لیے لمحہ فکریہ بھی،حضرت مولانا غلام نبی صاحب کشمیری کی رحلت کو بھی اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔
ابتدائے آفرینش سے ہی جانے آنے کا سلسلہ ہے،اور یہ نظام قدرت کے مطابق بھی ہے،کہ جو بھی اس عالم وجود میں آیا ہے اسے عالم آخرت کا سفر کرنا ہے، اس میں کسی کو شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، موت ایک ایسا مرض ہے جس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ میڈیکل کی ترقیاتی دور میں اس کا دعوی کیا گیا ہے،ہر بیماری کے علاج ڈھونڈنے کا دعوی پایا جاتا ہے لیکن آپ کو کوئی حکیم، طبیب اور سرجن ایسا نہیں ملے گا جو موت کے علاج کا دعوی کرتاہو۔یہ بھی نظام قدرت اور ایک حقیقت ہے کہ آنے والے پر خوشی و مسرت کے شادیانے بجائے جاتے ہیں اور جانے والے پر درد وغم کا اظہار ہوتا ہے۔ بعض کے جانے پر صرف اس کے گھر کے لوگ کراہتے ہیں، بعض کے رخصت ہونے پر اس کے خاندان کے لوگ ماتم کناں ہوتے ہیں، بعض کے عالم لاہوت کا سفر کرنے پر ایک قبیلہ اور ایک شہر غم و اندو ہ میں ڈوب جاتا ہے بعض کے مٹی کی چادر تان لینے پر ایک صوبہ ہی نہیں، بلکہ پورا ملک، اورپوری ملت کو رنج و غم ہوتا ہے، مولانا غلام نبی صاحب کشمیری کا شمار انہی اصحاب فضل و کمال میں تھا جن کے پیوند خاک ہونے پر پوری ملت اسلامیہ نے دکھ کا اظہار کیا ہے، پوری قاسمی برادری نے تکلیف محسوس کی ہے، آپ نے سفر آخرت سے خاص طورپر دارالعلوم وقف کے درو دیوار اوریہاں کے بام و درنے ایک خلا محسوس کیا ہے، جیسے کہ ان کی گنج گراں مایہ گم ہوگئی ہو، یہاں کی فضاء میں سناٹا، اداسی اور خاموشی چھاگئی ہے۔ یہاں کے طلبہ نے محسوس کیا ہے کہ گویا ان کا مربی و سرپرست ان سے بچھڑ گیا ہے، یہاں کے اساتذہ نے محسوس کیا ہے کہ ان کا مخلص،بے ضرر ساتھی،ان کواپنی ظرافتوں اور اپنی ملن ساری و خوش اخلاقی سے محظوظ کرنے والاان کا ہم دم و غمخوار ان سے رخصت ہوگیا۔سچ پوچھئے تو دارالعلوم وقف کے لیے ایک بڑا علمی خسارہ ہے ایک ایسے وقت میں جب کہ درالعلوم وقف کے کبارِ اساتذہ، یہاں کے مہ و انجم، یہاں کی مسند حدیث کے نیر ناتاں،گلستانِ حدیث کے گل بار اور فقہ و فتاوی کے شناور اور علمی اور ملی میدانوں میں عظیم خدمات انجام دینے والی عبقری صفات شخصیات کے رخصت ہوجانے کی وجہ سے یہاں جو ایک بڑا خلا پیدا ہوگیاتھا، مولانا غلام نبی صاحب کی رحلت سے اس میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔
مولانا غلام نبی صاحب کشمیری ؒکی پیدائش صوبہ کشمیرکے مرغزار شہرپونچھ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم علاقہ کے معروف ادارہ میں حاصل کی پھر اعلی تعلیم کے لیے دارالعلوم وقف کا رخ کیا یہاں آپ نے 1938ء میں فراغت حاصل کی، گویا مولانا مرحوم دارالعلوم وقف کے ابتدائی دور کے فضلاء میں ہیں، آپ نے اپنے علاقے میں ابتدائی عصری تعلیم بھی تھی اس کے بعدعلی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے ایم ایے (عربی) اور آگر ہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا۔ پھر 1985ء میں اسی مادر علمی درالعلوم وقف سے اپنی تدریس کا آغاز کیا،او رتاحیات اس سے وابستہ رہے، اگر چہ درمیان کچھ انقطاع بھی رہا ہے۔تاہم تین دہائی سے زائد مدت تک آپ نے درالعلوم وقف کی تعلیمی تعمیر میں گراں قدر خدمات انجام دی ہے۔دوسال قبل مہلک بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے،علاج ہوتا رہا،کبھی افاقہ ہوتا اور کبھی مرض دوبارہ اپنی لپیٹ میں لے لیتا، بیماری و صحت کی یہ آنکھ مچولی قریب دیڑھ دو سال تک جاری رہی بالآخر بیماری کی جیت ہوئی اور اس نے مولانا غلام نبی کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا، 7/نومبر 2019 بروز جمعرات جس وقت کہ آفتاب طلوع ہونا چاہتا تھا کہ علم کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا،جمعہ کی شب رات آٹھ بجے احاطہ مولسری میں آپ کے جنازہ کی نماز اداکی گئی اور مرقد اولیاء،مزار قاسمی میں آپ کو سپرد خاک کردیا گیا،آپ نے گلستان ارضی وادی کشمیر میں آنکھیں کھولی، گلستانِ علم، دیوبند کو اپنا عارضی وطن بنایا،گلستان ِ قاسمی آپ کا مرقد بنا لیکن ہماری دعا ہے کہ گلستان ِ خلدآپ کی دائمی آرام گاہ ہو اور آپ گلستانِ آشیاں ہو ں۔
مولانا مرحوم،علم و عمل کے پیکر، اخلاق و آداب کے خوگر تھے، سادگی آپ کی طبیعت تھی،اور اس کا اظہار آپ کے چال ڈھال، رفتار،و گفتار،لباس و ضع داری ہر چیز سے ہویدہ تھی، آپ کے علم میں گہرائی و گیرائی تھی، فیض کے منتقل کرنے کے بظارہر تین اسباب زیادہ قوی ہیں تدریس، تقریر، تحریر۔ تدریس کے ذریعہ طالبین کو مستفید کیا جاتا ہے، تقریر کے ذریعہ حاضرین و سامعین کے قلوب کو گرمانے او ردل کو مائل حق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور تحریر کے ذریعہ ایک دیر پاانقلاب برپاکیا جاسکتاہے،تحریر کے اثرات دو رتک اور دیر تک محسوس کئے جاتے ہیں، آدمی کے دنیا سے روپورش ہو جانے کے بعد بھی تحریر کی سحر انگیزی برقرار رہتی ہے۔مولانا مرحوم نے انتقال فیضان کے ان تینوں راستوں سے حظ وافرپایاتھا،آپ ایک کامیاب مدرس تھے، ہزاروں کی تعداد میں پھیلے ان کے شاگروں کے حلقے میں ان کی شہرت، بوئے گل کی طرح پھیلی ہوئی ہے،ان کی تقریر یں سحر آگیں ہوتی تھیں،آواز میں لطافت و شیرینی تھی، ایک ٹھہراؤ تھا،ایک پختہ اورقادر الکلام کا انداز تخاطب تھا،اور تحریر کی شہادت تو اب بھی موجود ہے جو چاہے ان کی تحریریں پڑھ لے۔
مولانا کی صلاحیت متنوع تھی، آپ جامع کمالات تھے،آپ کی صلاحیت میں پختگی اور علم میں گہرائی تھی۔اس کا اندازہ آپ کی تحریروں سے ہوتاہے؛اس لیے کہ آپ نے مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی ہے، اور متعدد میدانوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ آپ کی تحریروں پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کی علمی قابلیت اور فکری جامعیت کا اندازہ لگاناآسان ہوگا۔ذیل میں آپ کی تحریری کاوشوں کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔
(۱) التعلیقات علی تنظیم الاشتات:
بنگلادیش کے مولانا محمد ابوالحسن چاٹگامی کی کتاب تنظیم الاشتات نام سے ہے، کتاب کا مقصد نام سے ظاہر ہے کہ حدیث کی جو منتشر چیزیں کتابوں میں ہے اس کو ایک جگہ ترتیب سے محفوظ کر دیا جائے، واقعہ یہ ہے مولف نے مواد کا تو بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا البتہ اس کی تنظیم صحیح طور پر نہیں ہوسکی، کچھ لسانی سقم کی وجہ سے اورکچھ اس وقت کے ماحول کی مناسبت سے؛ اس لیے کتاب میں اغلاق تھااور پڑھنے میں قاری کو دشواری ہوتی،ضبط کرنا مشکل ہوتا تھا، مولانا غلام نبی صاحب کشمیری نے قیمتی اضافات اور مفیدتشریحات کے ذریعہ، ”التعلیقات علی تنظیم الاشتات“ کے نام سے اس کواہل علم کے لیے مفید تر بنانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کتاب پر فخر المحدثین،ابن الانور مولاناسید انظرشاہ صاحب کشمیری کی وقیع تقریظ ہے، جس میں انہوں نے کتاب کے ساتھ، صاحب کتاب کے مقام و مرتبہ کے لیے چند توصیفی کلمات کہے ہیں،ملاحظہ کیجئے جس سے مولانا مرحوم کی علمی اور قلمی قابلیت کاا ندازہ لگانا آسان ہوگا۔فرماتے ہیں:”مولانا غلام نبی صاحب کی استعداد ٹھوس، نگارش آب دار، اور جدید قدیم علمی ذخیرے پر اچھی خاصی بصیرت کے حامل ہیں“(التعلیقات علی تنظیم الاشتات ص:19)

(۲)تسہیل المتنبی:
قصائد منتخہ من دیوان متنبی کی یہ اردو شرح، دیوان متنی ہمارے عربی مدارس میں داخل نصاب ایک اہم کتاب ہے، عربی اشعار پر مشتمل یہ کتاب طلبہ مدارس کے لیے مغلق اور دشورا سمجھی جاتی ہے؛اس لیے مختلف حضرات نے اس کی اردو شر ح لکھی ہے،مولانا نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا اور ایک بہترین شرح اس موضوع پر لکھی ہے،جس سے مولانا کے عربی ادب کے کمال ذوق کا پتہ چلتاہے۔
(۳) بارہ مہینوں کی بارہ تقریریں:
یہ تقریر ی مجموعہ ہے جس میں ہر مہینہ کی مناسبت سے تقریر ہے، زبان سہل اور خطابت کے اسلوب سے ہم آہنگ ہے اور ان کی دیگر تصنیفات کی طرح مقبول بھی ہے۔
(۴)لبرل ازم اور اسلام:
دارالعلوم وقف میں سلسلہ محاضرات کے لیے لکھی گئی ایک اہم کتاب ہے، جس کا موضوع نیا بھی ہے اور اہم بھی،فکری آزادی کے نام پر لوگوں کو الحاد ولادینیت کے جس عمیق دلدل میں ڈالنے کی کوشش اس وقت کی جارہی ہے یہ درحقیقت لبرل ازم کاموضوع ہے، مولانا نے اس کے اسباب اور تدارک کا بہترین جائزہ پیش کیا ہے۔
(۵) حیات طیب:
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کی مکمل سوانح، اور غیر شائع شدہ دستاویزات کو منظر عام پر لانے کے لیے حجۃ الاسلام اکیڈمی نے حیات طیب شائع کرنے کا ارادہ کیا تو اکیڈمی کے جواں سال،جواں مرد اور جواں عزم ڈائریکٹر،اوردارالعلوم وقف کے نائب مہتمم مولانا شکیب قاسمی کی رفاقت اور اشتراک سے مولانا غلام نبی صاحب نے اس کام کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا۔
(۶)تشریح تقریر دلپذیر:
حجۃ الاسلام حضرت الامام محمد قاسم النانوتوی ؒ کے علوم و افکار میں جو گہرائی او رمعنویت ہے وہ اظہر من الشمس ہے اس کی فکری معنویت کا یہ حال ہے کہ اردو کتابوں کو بھی ان کے شاگرد سبقا سبقا پڑھا کرتے تھے، آج ایسے لوگ خال خال ملیں گے جو حضرت نانوتوی کے علوم و افکار کو بڑی آسانی سے سمجھتے ہوں اور لوگو ں کو سمجھا سکتے ہوں،اس لیے ضرورت ہے کہ حضرت نانوتویؒ کے علوم و افکار کی تسہیل و تشریح کی جائے تاکہ ہر شخص اس درّ بیش بہا سے فائدہ اٹھاسکے، حضرت مولانا غلام نبی صاحب کی ژرف نگاہ نے اس فریضہ کو انجام دینے کا بیڑا اٹھایا تھا او رتقریر دلپذیر کی تشریح و تسہیل کا کا م مکمل کیا، جس کی ۷۴ قسطیں ندائے درالعلوم وقف میں شائع ہوچکی ہیں۔
(۷) مجموعہ مقالات:
انہوں نے ایک زمانہ تک لکھا ہے اور ندائے دارالعلوم کے اداریہ کے لیے بھی لکھا اس طرح ان کے مقالات ومضامین کا ایک ذخیر ہ جمع ہوگیا تھا اور غالبا وہ اس کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن،اس کی تکمیل نہیں ہوسکی، اس کے علاوہ بھی ان کے بعض علمی کاموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، یہاں پر ان کی تحریروں کا جائز ہ لینا مقصود نہیں ہے بلکہ قارئین کو ان کی علمی اور قلمی عبقریت کی ایک جھلک دکھانا مقصود ہے کہ آپ کاگہر بار قلم علم حدیث کی وسیع صحرا میں بھی سفرکررہا ہے، تو عربی ادب کی پرشوکت اور پرلطف وادی میں اپنی خوشبو بکھیر رہا ہے،تو کبھی،اردو ادب کے تاج محل میں گل کاری و میناکاری کرتا نظر آتاہے، کبھی فکر اسلامی کے محاذ پر بر سر جنگ ہے تو کبھی بزرگوں کی خانقاہوں میں سلوک کی منزلیں طے کررہا ہے ۔یہ آپ کے قلم کی عظمت کی گواہی ہے۔

Share
Share
Share