کالم : بزمِ درویش – فریدی جلال :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
فریدی جلال

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

گلشنِ تصوف کا ہر پھول ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور خوشبودار ہے کہ بندہ پچھلے کو بھول جاتا ہے لیکن کچھ پھول تو ایسے انوکھے خوبصورت اور مہک دار ہیں کہ زمانے گزر گئے آج بھی مادیت پرستی میں غرق معاشرہ اور انسانیت اُن عظیم ترین نفوس قدسیہ کے کردار کی خوشبوسے مہک مہک جاتی ہے

ایسے ہی بابا فرید گنج شکر ؒ تھے پاک پتن تشریف آوری کے بعد قدرت نے آپ ؒ سے مسلسل کرامات کا ظہور کرایا آپ ؒ جس کے لیے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیتے اُس پر دولت ہیرے جواہرات کی موسلا دھار بارش برس پڑتی‘ مٹی کے ٹکڑوں پر توجہ کی تو وہ سونے میں بدل گئے غریبوں مسکینوں محتاجوں بے کسوں کی زندگی پر غربت کے چھائے گھنے بادل آپ ؒ کی نظر سے چھٹتے چلے گئے فاقہ کشوں کے گھروں سے دھواں اٹھنے لگا جہالت غربت بت پرستی میں ڈوبے لوگ دولت اور نور ایمان کے رنگ میں ڈھلتے چلے گئے فیض یافتگان کی تعداد بڑھتی جارہی تھی نذر نیاز کے ڈھیر روزانہ لگتے جو غریبوں میں بانٹ دئیے جاتے‘ غریبوں میں ساری نیاز نذر بانٹ دی جاتی جبکہ اپنی حالت پر آج بھی فاقہ کشی کی چادر تنی ہوئی تھی یہی حال اِن متلاشیان ِ حق کا بھی تھا جو بابا فریدؒ کی زیر نگرانی راہ حق کے مجاہدو ں تذکیہ نفس سے گزر رہے تھے حضرت حسام الدین ؒ پانی بھر کر لایا کرتے تھے پانی کے ساتھ برتنوں کی صفائی بھی کرتے تھے‘ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کھانا بنایا کرتے تھے‘ مولانا بد ر الدین اسحاق لنگر خانے کے لیے لکڑیاں جنگل سے لایا کرتے تھے حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی ؒ لاڈلے مرید جنگل سے جنگلی پھل دیلہ لایا کر تے تھے جس پر نمک اور سرکہ لگا کر اچار بنایا جاتا تھاجسے سالن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھالیکن ان حالات میں بھی خلق خدا کے لیے آستانے کے دروازے ہر وقت کھلے تھے فاقہ کش دن رات فریدی دربار سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے لوگوں کے لیے آپ ؒ مسیحا تھے لیکن خود پر آج بھی فاقہ کشی طاری کی ہوتی تھی آپ ؒ کے پاس ایک ہی کمبل تھا جو اتنا چھوٹا تھا کہ سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا ایک لکڑی کا تکیہ تھا جو سر کے نیچے رکھتے تھے اور اپنے مرشد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کی نشانی ایک عصا تھا ایک مرتبہ جب ہندوستان کا بادشاہ ناصر الدین محمود آپ ؒ کی زیارت کے لیے سلام کرنے حاضر ہوا تو آپ ؒ سے مل کر بہت متاثر ہوا جاکر پانچ گاؤں کی جاگیر اور بڑی رقم نذر کے طور پر بھیجی تو شاہ پاک پتن نے بے نیازی سے کہاہم خاک نشینوں کو ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں یہ اُن کو دو جن کو ضرورت ہے۔ آپ ؒ کی پاک پتن آمد اور خلق خدا کا دیوانوں کی طرح آپ ؒ پر اُمڈ آنا آپ ؒ کی شہرت کی خوشبو جنگل کی آگ کی طرح پھیلی جارہی تھی کہ بہت سارے لوگ آپ ؒ کی مقبولیت دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے لگے اِن میں سر فہرست حاکم اجو دھن تھا وہ آپ ؒ کو مختلف بہانوں سازشوں سے تنگ کرتا تھا کہ آپ ؒ اجو دھن کو چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جائیں تاکہ لوگ بابا فریدؒ کی عقیدت چھوڑ کر پھر اُس کے گرد اکٹھے ہو جائیں اُس نے سازشیں کر کے آپ ؒ کے نو عمر بیٹے عبداللہ کو قتل کرادیا نو عمر صاحب زادے کی موت بابا فرید ؒ کے لیے بہت زیادہ دکھ کا باعث تھی لیکن کیونکہ آپ ؒ کا شمار صابرین میں ہو تا ہے اِ س لیے دنیاداروں کی طرح چیخ و پکار کی بجائے خاموشی سے آنسو بہا کر بیٹے کو مٹی کے حوالے کر دیا تو مریدین اور اہل شہر نے آپ ؒ سے درخواست کی کہ حاکم شہر کی سازش کے نتیجے میں آپ ؒ کا نو عمر صاحب زادہ قتل کر دیا گیا آپ ؒ اللہ تعالی کے برگذیدہ بندے ہیں حاکم شہر کے لیے بد دعا کریں تاکہ اُس کو اپنے کئے کی سزا مل سکے تو زھد الاولیاء بابا فرید ؒ سوگوار لہجے میں بولے میں نے تو اُسے کبھی بھی دکھ نہیں دیا تو دیوانے بو لے لیکن وہ تو آپ کو مسلسل دکھ دیتا رہتا ہے تو اہل دنیا نے سنا بابا فرید ؒ بولے ایک انسان دوسرے انسان کو وہی دے سکتا ہے جو اُس کے پاس ہے وہ مجھے دے رہا ہے جو اُس کی فطرت ہے میں اُسے وہ دے رہا ہوں جو میرے پاس ہے میں نے خدا سے صبر مانگا ہے حق تعالیٰ مجھے صبر ہی دے‘ صبر کے پیکر بابا فریدؒ نے جوان بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت کر لیا لیکن اپنے صبر کا دامن نہ چھوڑا حاکم اجو دھن کے انتقام کی آ گ یہاں بھی سرد نہ ہو ئی تو اُس نے ایک اور چال چلی ایک سوالنامہ تیار کیا اور ملتان کے علماء کرام سے فتویٰ مانگا‘ سوال یہ تھا ایک شخص جو خود کو عالم کہتا ہے مسجد میں بھی رہتا ہے لیکن اِس کے ساتھ ناچ گانا بھی کر تا ہے اُس ظالم نے سماع اور فقیری رقص کو ناچ گانا کہہ کر نئی سازش کر نے کی کو شش کی لیکن جب علماء کرام کو پتہ چلا کہ یہ سازش بابا فرید ؒ کے خلاف کی جارہی ہے تو سب نے انکار کر دیا اور سوال نامے کو پھاڑ دیا کہ ہم تمہاری سازش میں شریک ہیں ہو نگے ظالم حاکم کامنصوبہ یہ تھا کہ علما کرام کے فتوے کے بعد میں بابا فریدؒ کو علاقہ بدر کر دوں گا جب یہاں بھی ناکام ہو اتو ایک خوفناک منصوبہ تیار کیا کہ کسی طرح آپ ؒ کو قتل کر دیا جائے‘ نہ رہے بانس نہ بجھے بانسری اِس ناپاک منصوبے کے لیے اُس نے ایک نشے باز ملنگ کو بڑی رقم دے کر تیار کیا بابا فرید کی عادت تھی کہ آپ ؒ عبادت کے بعد اپنا سر مبارک زمین پر رکھ دیتے یہ آپ ؒ کی خدا کے سامنے عاجزی انکساری تزکیہ نفس کی انتہا تھی سردی کے موسم میں جب آپ ؒ خدا کے حضور زمین پر سر رکھ دیتے تو مریدین آپ ؒ کے سر پر کپڑا ڈال دیتے ایک دن بابا فرید ؒ اِسی طرح جذب و سکر کے عالم میں زمیں پر سر رکھے پڑے تھے کہ وہی ملنگ اند ر داخل ہوا بابا فرید ؒ کی شان میں گستاخی کر نے لگا مرید سانس روکے ملنگ کی بد تمیزی برداشت کر رہے تھے جب ملنگ کی بکواس اور آواز بہت بلند ہو گئی تو بابا فریدؒ نے سر اٹھائے بغیر ہی آواز دی کوئی ہے جو میری آواز سن رہا ہے تو خواجہ نظام الدین اولیاء جو پاس تھے بو لے یا شیخ یہ غلام زادہ حاضر ہے تو بابا فریدؒ سر اٹھا ئے بنا بو لے جو بندہ اندر آیا ہے اِس کی کمر میں زنجیر بندھی ہوئی ہے تو جواب آیا ہاں پھر بابا جی بو لے اِس کے کانوں میں ہاتھی دانت کے سفید حلقے موجود ہیں تو جواب ملا ہاں موجود ہیں ملنگ پھٹی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ آپ ؒ کے چہرہ سر مبارک پر تو چادر پڑی ہے پھر آپ کس طرح سب دیکھ رہے ہیں بابا جی آواز پھر گونجی نظام الدین اِس کی کمر میں چھری بھی بندھی ہے تو نظام الدین بولے ہاں بندھی ہے تو باباجی ؒ بولے اِس شخص سے کہو یہ مجھے قتل کر نے آیا جو نہیں کر سکتا فوری یہاں سے بھاگ جائے ملنگ خوف میں مبتلا ہوکر وہاں سے بھاگ گیا حاکم شہر کے پاس جاکر چھری زمین پر رکھ دی اور بولا میں اُس درویش کو قتل نہیں کر سکتا اور شایدساری دنیا کے قاتل بھی اُسے قتل نہ کر سکیں میں توبہ کرتا ہوں حاکم شہر اپنے ظلموں سے باز نہ آیا دن رات سازشوں پر سازشیں کر تا جارہا تھا عوام جب حاکم کے ظلموں سے تنگ آگئی تو عوام نے گزارش کی کہ ظالم سے چھٹکارے کی دعا دے دیں تو درویش کا جلال حرکت میں آیا بابا فریدؒ نے حالت جلال میں اپنا عصا زمین پر زور سے دے مارا عین اُس وقت حاکم شہر کے پیٹ میں شدید درد اٹھا فوری حکیموں طبیبوں کو بلایا گیا لیکن درد جان لیوا ہو گیا آخر کار اپنا ظلم یاد آیا کہا مجھے فوری بابا فریدؒ کے قدموں میں لے چلو لیکن راستے میں ہی دم توڑ گیا اِس طرح فریدی جلال سے عوام کو ظالم حاکم سے نجات ملی۔

Share
Share
Share