کوکن میں بچوں کا ادب
ایم مبین
3/106′ تلسی نگر’ بھیونڈی (مہاراشٹر)
دنیا کی ہر زبان اور ادب کے نصف قارئین اگر خواتین ہیں تو ہر زبان و ادب کے قارئین کی بنیادرکھنے والے بچے ہیں۔ بچوں میں پڑھنے کا شوق ہی انہیں مستقبل کا قاری بناتا ہے اور بچے اپنی درسی کتابوں کے علاوہ انہی کتابوں کو پڑھتے ہیں جن میں ان کی دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لیے بچوں کو پڑھنے کے لیے ان کے ذوق اور پسند کی چیزیں مہیاکرانے پر ہی کسی بھی زبان کی ترقی کا دارومدار ہے۔
ظاہر سی بات ہے بچے ادبِ عالیہ نہیں پڑھ سکتے۔ وہ اپنی ذہنی سطح اور عمر کی مناسبت سے اپنے ذوق کی تحریروں کو پڑھنا پسند کرتے ہیں اس لیے بچوں کے مزاج، مذاق، ذہنی سطح اور شوق کو مدِ نظر رکھ کر جو ادب لکھا جاتا ہے وہ ادبِ اطفال کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میں شاعری، کہانیاں، ناول، ڈرامہ اور مضامین تمام اصناف شامل ہوتی ہیں۔
عام طور پر کسی بھی ملک یا خطہ کا ادیب ادبِ اطفال تخلیق کرتا ہے تو وہ ساری دنیا کے بچوں کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بچوں کی یہ نفسیات ہوتی ہے کہ وہ مانوس اور شناسا چیزیں، ماحول، واقعات اور کردار کے پس منظر میں لکھی تحریروں کو زیادہ پسند کرتے ہیں یا انہیں پڑھنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اس لیے ہر خطے یا علاقے کے لکھنے والے ادبِ اطفال کو تحریر کرتے وقت اپنے علاقے کی نمائندگی، وہاں کی طرزِ معاشرت، عوامی عادات و اطوار، تاریخ، واقعات، مقامات کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ادبِ اطفال کی اس پس منظر کو ہم آسانی سے کوکن میں بچوں کے ادب کو دیکھ سکتے ہیں۔
خطہ کوکن ایک ایسا علاقہ ہے جس کی مماثلت ہندوستان کے دیگر علاقوں اور خطوں میں ملنا بہت مشکل ہے، کوکن کا سمندر، پہاڑیاں، جنگلات، موسم، قدرتی مناظر، لوگوں کی طرزِ معاشرت ملک کے دوسرے علاقوں سے کافی مختلف ہے۔ اس لیے اس علاقے کے ادیب و شاعر چاہے وہ کسی بھی زبان کے کیوں نہ ہوں اپنی تحریریوں میں اپنے خطہ کوکن کی ضرور نمائندگی کرتے ہیں۔ کیونکہ اس علاقے کی زبان مراٹھی ہے اور مراٹھی زبان میں ایسے بے شمار ادیب ہیں جن کا تعلق کوکن سے ہے۔ ادیبوں نے اپنی تحریروں میں کوکن کو بہت اچھی طرح پیش کیا ہے۔
اردو کوکن کی دوسری سب سے بڑی زبان ہے اور اردو زبان کو اس علاقے کے شاعروں، ادیبوں نے بھی اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔ اس طرح ہم آسانی سے کوکن کے ادیب شاعروں کی تحریروں میں خطہئ کوکن کے خطوط دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک کوکن میں لکھے گئے ادبِ اطفال کا تعلق ہے تو یہ اثر اس صنفِ ادب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔
ویسے دیکھا جائے تو کوکن کے جنوبی حصے میں ادبِ اطفال تخلیق کرنے والے ادیب و شاعر خال خال ہی ہے لیکن جہاں تک تھانہ ضلع کا تعلق ہے اس ضلع میں ادبِ اطفال تخلیق تخلیق کرنے والے کئی فنکار ہیں۔ جنہوں نے ناصرف باقاعدگی سے بچوں کے لیے لکھا ہے بلکہ آج بھی باقاعدگی سے ادبِ اطفال میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ کیونکہ تھانہ ضلع میں بھیونڈی، ممبرا اور میرا روڈ اردو زبان اورادب کے سب سے بڑے مراکز ہیں اس لیے ادبِ اطفال تخلیق کرنے والے قلم کاروں کا تعلق بھی انہی علاقوں سے ہیں اور انہوں نے ادبِ اطفال کو بھی تحریریں دی ہیں۔ ادبِ اطفال کے اس تذکرے کو اگر ہم بدیع الزماں خاورؔ سے شروع کریں تو غلط نہ ہوگا۔ بدیع الزماں خاورؔ کس پائے کے شاعر تھے اس سے سارا اردو جہاں اچھی طرح واقف ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں سے نہ صرف اردو زبان میں اپنی شناخت بنائی تھی بلکہ کوکن کی بھی شناخت بنائی تھی۔
بدیع الزماں خاورؔ کا تعلق رتناگری کے بانکوٹ سے تھا۔ ان کا پورا نام بدیع الزماں پرکار تھا۔ ان کے والد محمد ابراہیم صوفی بانکوٹی بھی اردو کے اچھے شاعر تھے۔ ظاہر سی بات ہے بدیع الزماں کو شاعری وراثت میں ملی تھیاس لیے ان کی شاعری کا لب و لہجہ بھی منفرد اور معیاری تھاانہیں اسکول کے زمانے سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور وہ خاورؔ بانکوٹی کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ ”حروف“ 1972ء میں شائع ہوا۔ ان کے کل سات شعری مجموعے ہیں جن میں ”بیاض“، ”لفظوں کا پیرہن“، ”سات سمندر“، ”میرا وطن ہندوستان“ اور ”امرائی“ اہم ہیں۔
”میرا وطن ہندوستان“ حب الوطنی پر مبنی نظموں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے کی زیادہ تر نظمیں بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں۔ بچوں کے لیے بدیع الزماں خاورؔ نے مراٹھی سے کئی نظموں کا ترجمہ بھی کیا جو ہندوستان کے معروف رسائل و جرائد میں شائع ہوئیں۔ چونکہ بدیع الزماں خاورؔ پیشے سے ایک مدرس تھے اس لیے وہ بچوں کی نفسیات کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے۔ بچوں کے مزاج اور ذہنی سطح سے اچھی طرح واقف بھی تھے۔ اس لیے انہوں نے بچوں کے لیے جو بھی تحریریں لکھیں وہ بچوں کے معیار کی ہیں اور کوکن میں ادبِ اطفال کی نمائندگی بھی کرتی ہیں۔
بدیع الزماں خاورؔ کے بعد کوکن سے جو ایک نام اردو ادب میں ابھرا وہ انجم عباسی کا ہے۔ انجم عباسی ایک ہمہ جہت قلمکار ہیں۔ وہ نقشِ کوکن اور ترسیل جیسے رسائل سے وابستہ رہے۔ جہاں ان کی ذہنی تربیت ہوئی اور ان کے ذریعہ انہیں اردو ادب کے پس منظر کو سمجھنے کا موقع ملا۔ وہ نہ صرف ایک اچھے شاعر، مضمون نگار، افسانہ نگار ہیں بلکہ اچھے مترجم بھی ہیں۔ انہوں نے مراٹھی زبان کی کئی نایاب تحریروں کو اردو زبان سے آشنا کروایا۔ انہیں بچوں کے ادب میں بھی خاص دلچسپی ہے۔ انہوں نے نہ صرف بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھی بلکہ مراٹھی اور دیگر زبانوں کی کئی اچھی تحریروں کو بچوں کے لیے اردو میں منتقل کیا۔ ان کی نظمیں بچوں کے رسائل ”پیامِ تعلیم“، ”کھلونا“، ”کلیاں“ اور ”نور“ وغیرہ میں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہتی ہیں۔
وقار قادری بھی اردو ادب کا ایک جانا پہچانا نام اس لحاظ سے ہے کہ انہوں نے مراٹھی زبان کی عمدہ تحریروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ وقار قادری کا تعلق داپولی (رتناگری) سے ہے۔ وقار نے نہ صرف مراٹھی زبان سے افسانے اور نظموں کا ترجمہ کیا بلکہ انہوں نے بچوں کے لیے مراٹھی زبان کی عمدہ کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کی بچوں کی لیے مراٹھی سے ترجمہ کی گئی کہانیوں کا ایک مجموعہ منظرِ عام پر آچکا ہے۔ اس مجموعہ کا نام ”پرندے پرندے“ ہیں۔
اس طرح وقار نے بچوں کے ادب کو اپنے مراٹھی زبان کے تراجم سے مالامال کیا ہے کیونکہ وقار نے جو بھی کہانیاں ترجمہ کے لیے منتخب کی ہیں وہ نہ صرف اعلیٰ معیار کی ہیں بلکہ مراٹھی کے نامور قلمکاروں کی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ان کا ایک منفرد کام ہے۔
عبدالرحیم نشترؔ کا تعلق علاقہئ ودربھ سے ہے۔ ان کی پیدائش ناگپور کے کامٹی شہرمیں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اور ثانوی تعلیم ناگپور میں حاصل کی اور اردوادب میں پیروڈی کے عنوان پر ناگپور یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ حاصل کی۔ اس طرح وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ ان کا ادبی ذوق بھی اعلیٰ ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں اپنی ایک منفرد شناخت بنائی ہے۔ ان کی شاعری میں گھن گرج کے ساتھ ایک انقلابی آواز کی جھلک پائی جاتی ہے جو جوش ملیح آبادی کے یہاں ملتی ہے۔ نشترؔ صاحب نے 1986ء میں تلاشِ روزگار کے سلسلے میں کوکن کا رخ کیا اور ایک سال تک دیگھی ہائی اسکول میں درس تدریس کے فرائض انجام دئیے۔ 1987ء سے سبکدوشی تک انہوں نے امبیت ضلع رائے گڑھ کے ساوتری مادھیمک ودھیا مندر میں درس تدریس کی خدمات انجام دیں۔ اس طرح ان کا اور خطہئ کوکن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
چونکہ عبدالرحیم نشترؔ پیشہئ تدریس سے وابستہ تھے اس لیے ان کا ادبِ اطفال کی طرف توجہ دینا بھی فطری تھا۔ انہوں نے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی خوب لکھا۔ ان کی بچوں کی نظمیں پیامِ تعلیم، امنگ، بچوں کی نرالی دنیا، گلشنِ اطفال اور گل بوٹے وغیرہ بچوں کے رسائل میں مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں۔ عبدالرحیم نشترؔ نے بچوں کے ادب کو چار شعری مجموعے دئیے ہیں۔ وہ ”بچارے فرشتے“، ”کوکن رانی“، ”موتی چور کے لڈو“ اور گل چھرے“ ہیں۔
”بچارے فرشتے“ 1994ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس مجموعہ میں ان کی بچوں کے لیے مختلف موضوعات پر لکھی ہوئی ۰۳ / نظمیں شامل ہیں جس میں انہوں نے بچوں کے متعلق تقریباً تمام موضوعات پر مشقِ سخن کی ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس لحاظ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب پر انہیں نہ صرف مہاراشٹر اردو ایکاڈیمی کا ایوارڈ ملا بلکہ اتر پردیش اردو ایکاڈیمی کا بھی ایوارڈ ملا ہے۔
بچوں کی نظموں کے لیے ”کوکن رانی“ عبدالرحیم نشترؔ کا دوسرا مجموعہ ہے جو 1997ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں کل 37 / نظمیں شامل ہیں۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے اس کتاب میں شامل زیادہ تر نظموں کا تعلق خطہئ کوکن سے متعلقہ باتوں اور موضوعات سے ہے۔ان کی نظموں کا تیسرا مجموعہ 2005ء میں ”موتی چور کے لڈو“ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں کل 42 / نظمیں شامل تھیں۔ ”گل چھرے“ بچوں کی نظموں کا چوتھا مجموعہ ہے جو ۷۰۰۲ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کی 39 نظمیں شامل ہیں اور تمام نظموں کے موضوعات بچوں کی پسند کے ہیں۔مثلاً مہینوں کے ناموں پر، تہواروں، تقریبات، بچوں کی زندگی کے مسرت آمیز اور مشکل بھرے لمحوں پر، آس پاس کے ماحول اور مزاحیہ کردار وغیرہ۔
عبدالرحیم نشترؔ نے بڑی سلیس زبان میں بچوں کے موضوعات پر نظمیں کہی ہیں۔ ان کی نظمیں نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ سبق آموز بھی ہیں۔ ان کی نظمیں بال بھارتی کی درسی کتابوں میں بھی شامل ہیں۔
اس طرح اردو زبان میں خطہئ کوکن سے عبدالرحیم نشترؔ ہی ایک ایسے منفرد شاعر و ادیب ہیں جنہوں نے ادبِ اطفال کو بچوں کی نظموں کے چار مجوعے دئیے ہیں۔ ”اردو زبان کا سوتیلا بچہ“ ان کی ایسی کتاب ہے جس میں ادبِ اطفال پر مضامین شامل ہیں۔
شکیل شاہجہاں کا تعلق بھی کامٹی ہی سے تھا اور وہ بھی تلاشِ روزگار میں کوکن میں آئے تھے اور مہسلہ کے ایک کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے تھے۔ انہوں نے اردو زبان میں ایک نئی صنف میں طبع آزمائی کی۔ وہ تھی ڈرامہ۔ انہوں نے بچوں کے لیے ڈرامے لکھے۔ ان کے دو ڈراموں کے مجموعے ”جھوٹا سچ“ اور ”قطار میں آیئے“ شائع ہوچکے ہیں اور وہ اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ انہوں نے اس کتاب میں شامل تمام ڈرامے بچوں کے ذہن اور مزاج کو مدِ نظر رکھ کر لکھے ہیں۔یہ تمام ڈرامے اسکول کی تقریبات میں آسانی سے اسٹیج کئے جائیں اس لحاظ سے بھی لکھے گئے ہیں۔ اس طرح انہوں نے خطہئ کوکن سے ادبِ اطفال کو ایک ڈراموں کا مجموعہ دیا ہے۔
نوگل بھارتی بچوں کے لیے نظمیں اور مضامین لکھا کرتے تھے۔ ان کی نظمیں اور مضامین اکثر بچوں کے معروف رسائل میں شائع ہوتی تھیں۔
ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کا تعلق کھپولی سے ہے۔ وہ وہاں ایک کالج میں لیکچرر ہیں۔ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں لکھتی ہیں۔ انہوں نے افسانہ، ناول، ڈرامہ اور شاعری جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی ہیں۔ یہاں تک ادبِ اطفال بھی ان سے اچھوتا نہیں رہا ہے۔ صادقہ صاحبہ نے بچوں کے لیے کئی نظمیں اور ڈرامہ لکھے ہیں۔ نظمیں بچوں کے رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں اور ڈرامے اسکولوں میں کھیلے جاتے رہے ہیں۔ ان کی ایک نظم پانچویں جماعت کی بال بھارتی کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک ڈرامہ مغربی بنگال کی دسویں جماعت کی درسی کتاب میں شامل ہے۔ ان کا بچوں کے لیے نظموں کا مجموعہ ”پھول سے پیارے جگنو“ ۳۰۰۲ء میں شائع ہوچکا ہے۔ اس مجموعے میں بچوں کی زندگی، ان کی ضروریات، عادات واطوار کے تعلق سے پچاس سے زائد موضوعات پر نظمیں شامل ہیں۔
سلام بن رزاق کا تعلق پنویل سے ہے۔ وہ فی الحال میرا روڈ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بھی بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب پر خاص توجہ دی ہے۔ ان کی کہانیاں درسی کتابوں میں شامل ہیں اور بچوں کے ر سائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ بچوں کے لئے ان کا ایک ناول ”کھلاڑی“ شائع ہوچکا ہے۔
کلیم ضیاء میرا روڈ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے نہ صرف کہانیاں لکھی ہیں بلکہ مراٹھی کہانیوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ بچوں کی کہانیوں کا ایک مجموعہ ”لالچی بیرا“ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔
سید نوشاد بیگم کا تعلق تھانہ سے ہے۔ وہ مسلسل بچوں کے لیے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھ رہی ہیں اور بچوں کے لیے ضروری کتابوں کے ترجمے بھی اردو میں کر رہی ہیں۔
خالد شاہین کا تعلق ممبرا سے ہے۔ انہوں نے بچوں کے ادب میں ڈراموں پر خاص توجہ دی ہے اور ان کے کئی ڈراموں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ جن میں ”اے میرے دل کہیں ……“ ایک اہم مجموعہ ہے۔
رفیق گلاب کا تعلق کلیان سے ہے۔ ان کے بھی بچوں کے ڈراموں کے دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ان میں ایک ”آؤ چاند پر جائیں“ ہے۔ بھیونڈی کے محمد رفیع انصاری مسلسل بچوں کے لیے نظمیں لکھ رہے ہیں۔ ان کے نظموں کے دو مجموعے ”جگ مگ جگنو“ اور ”زمیں کے تارے“ شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی نظمیں بچوں کے معروف رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر غلام نبی مومن نے بھی بچوں کے لیے لکھا ہے۔ ان کی دو کتابیں ”نئی دنیا کے کھوجی“ اور ”روشن ستارے“ شائع ہوچکی ہیں۔
ساغر ملک ایک اچھے شاعر تھے۔ بچوں کے لیے اچھی نظمیں کہتے تھے۔ ان کی نظموں کے دو چھوٹے چھوٹے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے لکھا گیا ایک چھوٹا سا ناول ”پاگل سائنسداں“ بھی شائع ہوچکا ہے۔
راقم الحروف ایم مبین کی بچوں کے ادب میں بیس سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں دراموں کے مجموعے، کہانیوں کے مجموعے اور ناول شامل ہیں۔ ڈراموں کے ۹ / مجموعے ہیں۔ جلد ہی ان کے ستر ڈراموں کا ایک انتخاب ”ایم مبین کے منتخب ڈرامے“ کے نام سے شائع ہونے والا ہے۔ اردو ادب میں اور خاص طور پر ادبِ اطفال کی صنفِ ڈرامہ میں شاید اب تک شائع یہ سب سے ضخیم کتاب ہوگی۔
(مشمولہ : کوکن میں اردو : سمت و رفتار :- مرتب : دانش غنی)