اذان کا دوسرا کلمہ – اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (7) :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اذان کا دوسرا کلمہ،
اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (7)

مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536

اذان کا دوسرا کلمہ، اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی پانچویں (6) قسط کے لیے کلک کریں

دنیا میں موجودہ انتخابی سیاست کی تائید و حمایت کھلے طور پر سیاست میں ظلم و نا انصافی کی تائید و حمایت ہے، اس لئے کہ اس انتخابی سیاست میں، عالم و جاہل، مومن و کافر، ظالم و عادل کی رائے کی قدر و قیمت برابر رکھی گئی ہے،

جب کہ اسلامی اور انسانی لحاظ سے مومن و کافر، عالم و جاہل، اور ظالم و عادل کی رائے کی قدر و قیمت میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ظاہر ہے جس حکومت کی تشکیل کے عمل میں ہی ظلم و نا انصافی شامل ہو، اس حکومت سے عدل و انصاف کی امید لگانا ہی بے کار ہے، اورپھر جن اسلامی تحریکات و جماعتوں نے حکومتوں کی تشکیل میں موجودہ انتخابی طریقہ کی تائید و حمایت کی ہے، انہوں نے اپنے امیر کے انتخاب کے لئے اس انتخابی طریقہ کو قبول نہیں کیا ہے بلکہ ہر اسلامی تحریک اور جماعت اپنے امیر کے انتخاب کے لئے موجودہ طریقہ انتخاب کو بہت غلط اور برا سمجھتی ہے، مطلب یہ کہ کوئی بھی دینی تحریک و جماعت اپنے امیر کے انتخاب میں مومن و کافر، عالم و جاہل، عادل و ظالم کی رائے کو برابر نہیں سمجھتی، برابر سمجھنا تو درکنار اسلامی تحریکات و جماعتیں اپنے امیر کے انتخاب کے لئے خود اپنے ہزاروں لاکھوں کارکنان، متفقین، ہمدردان اور متوسلین کی رائے کو قبول نہیں کرتی، بلکہ صرف اپنے ارکان کی رائے کو قبول کرتی ہے، اور اگر کوئی ان تحریکات اور جماعتوں کو یہ مشورہ دے کہ اپنے امیر کے انتخاب میں تمام ارکان، کارکنان متفقین، ہمدردان، اور متوسلین کی رائے کو برابر کا درجہ دینا چاہئے تو ان تحریکات اور اور جماعتوں کا یہی جواب ہوگا کہ اس طریقہ سے وہ امیر منتخب نہیں ہوگا، جو تحریک و جماعت چاہتی ہے، مطلب یہ کہ اس طریقہ سے جماعت کا نظم صحیح نہیں چل سکتا بلکہ جماعت کا نظم درہم برہم ہو جائے گا، تو سوال یہ ہے کہ اس طریقہ
انتخاب سے جب جماعت کا نظم صحیح نہیں چل سکتا تو اس طریقہ انتخاب سے کسی ملک کا نظم کیسے صحیح چل سکتا ہے؟ اس لئے بجا طور پریہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جن اسلامی تحریکات و جماعتوں نے حکومت کی تشکیل کے سلسلہ میں موجودہ طریقہ انتخاب کی تائید و حمایت کی ہیں انہوں نے ملک و قوم کے ساتھ بہت بڑی خیانت کی ہے، اسلئے کہ جس انتخابی طریقہ کو وہ اپنی تحریک و جماعت کیلئے مضر سمجھتی ہے، اسی انتخابی طریقہ کو انہوں نے ملک و قوم کے لئے مفید سمجھا ہے، جب کہ ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرو، وہی دوسروں کے لئے پسند کرو، اور جو اپنے لئے نا پسند کرو وہی دوسروں کے لئے نا پسند کرو۔ چنانچہ اسی سیاسی خیانت کی سزا بہت سی اسلامی تحریکات و جماعتیں اپنی سیاسی ناکامی اور ذلت و رسوائی کی صور ت میں بہت سے ممالک میں بھگت رہی ہے، اس ناکامی اور ذلت سے نکلنے کا راستہ یہی ہے کہ جس طرح ہر اسلامی تحریک و جماعت اپنے امیر کی انتخاب کے لئے ہر فرد کی رائے کو برابر کا درجہ دینے کو برا سمجھتی ہے اسی طرح ملک کے سیاسی سربراہ کے انتخاب میں بھی ہر فرد کی رائے کو برابر کا درجہ دینے کو برا سمجھے، اور لوگوں کو اس انتخابی سیاست و حکومت کی خرابیوں سے واقف کرائے، چنانچہ ہندوستان میں آزادی کے بعد سے اب تک صرف ستّر(۰۷)سالوں میں جو ہندو مسلم فسادات ہوئے ہیں،جن میں لاکھوں لوگو مارے گئے ہیں، اور مرنے والوں میں ننانوے فیصد مسلمان ہی ہیں، اس کا بڑا سبب یہی انتخابی سیاست ہے،اسی طرح معاشرہ میں آئے دن روزانہ سینکڑوں ناحق قتل کے واقعات پیش آتے ہیں اس کا بھی بڑا سبب یہی الیکشنی سیاست ہوتی ہے۔
اسلامی جہاد کے متعلق ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ کلمہ اسلام کو بلند کرنے اور کلمہ کفر کو پست کرنے کے لئے جو بھی انتھک کوشش کی جاتی ہے وہ جہاد کی تعریف میں آتی ہے کبھی یہ جہاد نظریہ اسلام کو زبان و قلم کے ذریعہ پیش کرنے میں ہوتا ہے اور کبھی یہ جہاد اسلام کو مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کرنے میں ہوتا ہے، کبھی یہ جہاد اسلام کی دعوت و تعلیم کے دینے میں ہوتا ہے، لیکن یہ بات واضح رہے کہ دین کی سرسری اور آسان کوشش کو جہاد نہیں کہتے، یقینا جہاد کا آخری مرحلہ دین کو سیاسی لحاظ سے غالب کرنے کے لئے جنگ کرنا بھی ہے لیکن اس کی بہت سے شرائط بھی ہیں، ویسے اسلامی جنگ کے لئے قرآن و حدیث میں قتال کا بھی لفظ استعمال ہوا ہے۔
اسلامی جہاد کے متعلق ایک عام غلط فہمی مسلمانوں اور غیر مسلموں میں یہ ہے کہ دین کے لئے صرف کسی کو مارنے ہی کو جہاد کہا جاتا ہے، جبکہ جہاد کا پہلا مرحلہ دین کے لئے دوسروں پر ہاتھ اٹھائے بغیر مار کھانا ہے، اور اسلامی تاریخ میں اہل ایمان نے زیادہ تر عرصہ میں دین کے لئے بغیر ہاتھ اٹھائے ہوئے مار کھانے ہی کا جہاد کیا ہیں، چنانچہ زیادہ تر انبیاء ؑ نے پوری
زندگی بھربغیر ہاتھ و ہتھیار اٹھائے ہوئے اپنے مخالفین کا مار کھانے ہی کا جہاد کیا ہیں، چاہے، حضرت نوحؑ ہو، حضرت ابراہیم ؑ ہو، حضرت ہود ؑ، حضرت صالحؑ ہو، حضرت شعیب ؑ ہو،حضرت عیسیٰ ؑ ہو، اور خود آخری نبی حضرت محمدﷺ اور آپ پر ایمان لانے والوں نے نبوی زندگی کے تئیس (۳۲) سالوں میں سے شروع کے تیرہ (۳۱) سال مکہ میں رہ کر بغیر ہاتھ و ہتھیار اٹھائے ہوئے، مار کھانے ہی کا جہاد ہیں، اور کئی سال مارکھانے کے بعد آپؐ کے ایک مخلص ساتھی حضرت خباب بن ارت ؓنے صرف مار کی شکایت کی اور دعا کی درخواست کی تو اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ ناراض ہوگئے،اور آپؐ نے فرمایا تم جلدی کرتے ہو، اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے آپؐ نے گزرے ہوئے زمانہ کی ایک مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ تم سے پہلے ایسا بھی ہو ا ہے کہ ایک ایمان والے کو لایا جاتا اور زمین میں کمر تک گڑھا کھود کر اسے کھڑا کیا جاتا اور اس کے سر کے بیچ حصہ سے آرا چلا کر اس کے جسم کے دو ٹکڑے کر دئے جاتے، اسی طرح ایک اور شخص کو لایا جاتا اور اسے کھڑا کرکے لوہے کے نو کدار کنگھہ سے اس کے جسم کا گوشت ہڈیوں سے الگ کیا جاتا، لیکن یہ سزا بھی اس کو ایمان سے نہیں ہٹا سکی، پھر آپؐ نے اس موقع پر یہ بشارت بھی دی تھی کہ ائے خباب تو دیکھے گا کہ اسی دین کی بدولت وہ امن و امان بھی قائم ہوگا کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک تنہا سفر کرے گا، لیکن اسے اللہ کے علاوہ کسی اور کا ڈر نہیں ہوگا۔ (ماخوذ، بخاری شریف)
مذکورہ واقعہ میں جہاں دین و ایمان کی خاطر آنے والی تکلیفوں کا تذکرہ ہے وہیں دین و ایمان کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت کا تذکرہ بھی ہے، آج کے دور میں باطل نظام کے خلاف ہاتھ و ہتھیار اٹھائے بغیر مارکھانے کے جہاد کے تصور کو عام کرنا اسلئے ضروری ہو گیا ہے، کہ آج امت کے ایک بڑے طبقہ نے مار کھانے کے جہاد کو بھی افرادی طاقت اور حکومت کی طاقت سے مشروط کر دیا ہے،جب کہ حضرت ابراہیم ؑ اکیلے تھے، لیکن انہوں نے دین کے لئے مار کھانے کا جہاد کیا ہے، اسی طرح فرعون کی بیوی آسیہ کے پاس کوئی سیاسی قوت نہیں تھی، لیکن اس نے بھی دین کے لئے مار کھانے کا جہاد کیا ہے، اسی طرح جن جادوگروں نے حضرت موسیٰ ؑکے معجزہ کو دیکھ کر ایمان قبول کیا تھا، ان کے پاس بھی ہاتھ و ہتھیار اٹھانے کی طاقت نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود انہوں نے دین کے لئے مار کھانے اور مرنے کا جہاد کیا ہیں۔اسلامی تاریخ میں باطل کے خلاف ہاتھ و ہتھیار اٹھائے بغیر دین کے لئے مار کھانے اور جان دینے کا جہاد کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کے صرف ناموں سے ہی کئی کتابیں بھر سکتی ہیں، یہاں صرف چند ناموں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، قرآن مجید کے سورۂ یٰسین کے دوسرے رکوع میں ایک مومن کا تذکرہ ہے مفسرین نے جس کا نام حبیب نجّار، لکھا ہے جب
اس نے ایمان قبول کیا اور قوم کو بھی اس نے رسولوں پر ایمان لانے کی دعوت دی تو قوم نے اس کو شہید کر دیا، اسی طرح نبیﷺ کی نبوت کے آغاز میں جب محمدﷺ نے مکہ والوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو بہت سے مشرکین آپؐ کو مارنے لگے، ایک صحابی حضرت حارثؓ چھڑانے کے لئے آئے تو مشرکین مکہ نے انہیں شہید کردیا، اور دور نبوی کی یہ سب سے پہلی شہادت تھی، اسی طرح حضرت سمیہؓ نے ایمان قبول کیا تو ابوجہل نے شر م گاہ میں نیزہ مار کر شہید کردیا، خلافت بنو عباسیہ کے غیر شرعی کاموں کے خلاف، فقہ کے چاروں ائمہ، امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ امام احمد بن حنبلؒ نے بغیر ہاتھ و ہتھیار اٹھائے مارکھانے ہی کا جہاد کیا ہیں، یہاں تک کہ کچھ ائمہ کی موتیں جیل ہی میں ہوئی ہیں۔ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ نے جہانگیر کی حکومت کے خلاف بغیر ہاتھ و ہتھیار اٹھائے مار کھانے ہی کا جہاد کیا ہے، یہاں تک کہ ان کا جہاد جیل میں بھی جاری رہا، شید قطب شہیدؒ اور حسن البنّاء شہیدؒ نے بھی مصر کی غیر اسلامی حکومت کے خلا ف ہاتھ و ہتھیار اٹھائے بغیر مار کھانے ہی کا جہاد کیا ہے، یہاں تک کہ مصرکی ظالم حکومت نے ان دونوں کو بھی شہید کردیا، مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ نے بھی پاکستان کی غیر اسلامی حکومت کے خلاف ہاتھ و ہتھیار اٹھائے بغیر جہاد کیا ہے، یہاں تک کہ پاکستانی حکومت نے انہیں تین مرتبہ جیل میں ڈال دیا، اور ایک مرتبہ ایک مقدمہ میں انہیں پھانسی کی بھی سزا سنائی، لیکن مسلمانوں کے عالمی سطح کے دباؤ کی وجہ سے پاکستانی حکومت مولانا مودودیؒ کو پھانسی کی سزا دے نہیں سکی۔
در اصل بات یہ ہے کہ موت و زندگی کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آج بھی زیادہ تر ممالک میں باطل کے خلاف ہاتھ و ہتھیار اٹھائے بغیر دین کیلئے مار کھانے کے جہاد سے گزرنے کی ضرورت ہے، ہندوستان میں بھی باطل نظام کے خلاف ہاتھ و ہتھیار اٹھائے بغیر،دین کے لئے مارکھانے کے جہاد سے گزرنے کی ضرورت ہے، اور شاید اس میں صدیاں بھی لگ سکتی ہیں، اس لئے کہ ایک سو کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک میں اسلام کی دعوت کا اتمام اتنا آسان نہیں ہے۔جب کہ خود اس ملک کے بیشتر مسلمان شرک و بدعت میں مبتلاء ہیں، اور بہت سے مسلمانوں نے اسلام کو صرف چند عقائد و عبادات کی رہنمائی کے طور پر قبول کیا ہوا ہے، جب کہ اسلام کی دعوت ایک مکمل نظام زندگی کی دعوت ہے، اور اس کو ایک مکمل نظام زندگی ہی کی حیثیت سے قبول کرنا ضروری ہے۔
دین کیلئے صرف مارنے اور جنگ کے ناقص تصور جہاد نے امت مسلمہ کی اکثریت کو جہادی عمل سے کاٹ دیا ہے، جب کہ پوری دنیا میں ایک بھی مومن ہو تو اس کی پوری زندگی جہاد سے عبارت ہوتی ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے ملک عراق کے اُر، نامی شہر سے جب باطل نظام کے خلاف اپنا جہادی سفر شروع کیا تو وہ اس وقت پوری دنیا میں اکیلے مومن تھے، اسی طرح آخری نبی حضرت محمدﷺ نے مکہ کے باطل نظام کے خلاف جہاد کا آغاز کیا تو اس وقت بھی پوری دنیا میں آپؐ اکیلے مومن تھے، لیکن آپؐ کا جہاد ایک دن کے لئے بھی نہیں رکا، البتہ جب تک آپؐ مکہ میں رہے یہ جہاد صرف قرآنی تلوار سے ہوا، اور اس میں دین کے لئے صرف مارکھانا ہی تھا، لیکن مکہ کے تیرہ سالوں کے بعد جب یہ جہاد مدنی دو ر میں داخل ہوا تو اس میں قرآن کی تلوار کے ساتھ لوہے کی تلوار بھی شامل ہوگئی، اور اس کی اجازت و حکم خود اللہ کی طرف سے تھاچنانچہ پھر اس قتالی جہاد میں دین کے غلبہ کے لئے مارا بھی گیا اور مار بھی کھایا گیا۔
دینی جہاد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پہلے مار کھانے کی جو ترتیب رکھی ہے وہ یوں ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ترتیب عین فطری اور مقصدی ہے، وہ یہ کہ جس شخص میں دین اسلام کے غلبہ کیلئے مارکھانے کی صلاحیت پیدا نہ ہو، اس شخص میں دین اسلام کے غلبہ کے لئے کسی کومارنے کی صلاحیت بھی پیدا نہیں ہو سکتی۔
جہاد کی اہمیت گھٹانے کے لئے اور اسلام دشمنوں کو بے جا خوش کرنے کے لئے کچھ علماء نے اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد کی اصطلاح بھی گڑھ لی ہیں،اور پھر خود ہی یہ فیصلہ بھی سنا دیا، کہ اسلام میں،اقدامی جہاد نہیں ہے بلکہ صرف دفاعی جہاد ہے، اور پھر اس فیصلہ کو نبیﷺ کی جہادی سرگرمیوں پر بھی چسپاں کر دیاکہ آپؐ نے جتنے بھی جہاد کئے ہیں وہ سب کے سب دفاعی تھے، آپؐ نے ایک بھی جہاد اقدامی نہیں کیا، ویسے اگر جہاد کو وسیع تصور کے ساتھ لیا جائے جس میں دین کے لئے پہلے مار کھانا بھی ہے تو جہاد کی یہ تقسیم ہی سرے سے غلط ہے، اور اگر جہاد کو صرف جنگ کے معنی میں لیا جائے اور جہاد کے معترضین کا منشا بھی یہی ہے تو قرآن و حدیث اور سیرت رسولؐ سے اقدامی جہاد بھی ثابت ہے اور دفاعی جہاد بھی ثابت ہے، بلکہ قرآن و حدیث اور سیرت رسولؐ میں اقدامی جہاد کا تصور زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہاں صرف قرآن مجید کے دو مقام کی دو آیتیں پیش کی جا رہی ہیں۔ (اِنَّ اللہ َ یُحبُّ الّذِینَ یُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیلِہِ صَفَّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانُ مَّرْصُوصُ) (سورۂ صف آیت ۴)ترجمہ: (بیشک اللہ محبت کرتا ہے ان لوگوں سے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں، گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے) اسی طرح سورۂ توبہ کی آیت ہے۔ (اِنَّ اللہَ اشْتَریٰ مِنَ المُوْمِنیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاِنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیلِ اللہِ فَیَقْتُلُونَ وَ یُقْتَلُوْنَ وَ عَدََا عَلَیْہِ حَقَّا فِیْ النَّوْراٰ ۃِ وَالْاِنْجِیلِ وَالْقُرآنِ وَمَنْ اَوْفیٰ بِعھْدِہ مِنَ اللہ ِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمْ ُ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِہِ وَ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُالْعظِیمْ۔(سورۂ توبہ آیت ۱۱۱)ترجمہ (بیشک اللہ تعالیٰ نے خرید لیا
ہے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلہ وہ لڑتے ہیں، اللہ کی راہ میں، پس وہ قتل کرتے ہیں، اور قتل کئے جاتے ہیں، یہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، توریت اور انجیل اور قرآن میں، اور اللہ سے بڑھ کر وعدہ کو پورا کرنے والا کون ہے؟ پس خوش ہو جاؤ اپنی بیع سے جوتم نے اس سے کی ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔)
مذکورہ دونوں ہی آیتوں میں کیا اس کا دور، دور کا بھی امکان ہے کہ ان میں دفاعی جنگ کا ذکر ہے؟ بلکہ مذکورہ دونوں ہی آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے ان میں اقدامی جنگ کا تذکرہ ہے، اور اسلام میں صرف دفاعی جنگ کے ماننے سے یہ لازم آتا ہے کہ مومنین کے نزدیک دین سے زیادہ اپنی جانیں عزیز ہیں، جب کہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے، وہ یہ کہ مومنین کے نزدیک اپنی جانوں سے زیادہ دین عزیز ہے، اور اس کا ثبوت مومنین نے ہر دور میں دیا ہے، اور اس وقت بھی دیا ہے، جب ان پر جنگ فرض نہیں تھی، چنانچہ بے شمار مومنین نے جنگ کے مرحلہ سے پہلے دعوتی مرحلہ میں ہی اپنی جانیں قربان کی ہیں۔
تمام انبیاء کی دعوت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حق و باطل کی کشمکش کا آغاز انبیاء کی دعوت ہی سے ہوا ہے، جب تک انبیاء نے دعوت نہیں دی، تب تک حق و باطل کی کشمکش شروع نہیں ہوئی تھی، حضرت محمدﷺ نے جب تک مکہ والوں کو اللہ کی بندگی کی دعوت نہیں دی، تب تک پورے مکہ میں آپؐ صادق و امین کی حیثیت سے جانے اور مانے جاتے تھے، اور لوگ آپؐ کومنصف کی حیثیت سے بھی تسلیم کرتے تھے، اور اس کا ثبوت حجر اسود کے رکھنے کے تنازعہ کے وقت بھی مکہ کے تمام قبیلوں کی طرف سے ملا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگرمحمدﷺ مکہ والوں کے سامنے ایک اللہ کی بندگی کی دعوت نہیں دیتے تو مکہ والے آپؐ کے خواہ مخواہ دشمن نہیں ہوتے، اس سے بھی یہی بات واضح ہوئی کہ اس کشمکش میں اقدام آپؐ کی طرف سے ہوا، اور اس کے دفاع میں پھر سرداران مکہ نے آپ پر مختلف جھوٹے الزامات لگائے، اور آپؐ کو بھی اور آپؐ کے ساتھیوں کو مختلف اذیتیں پہنچائیں، اور پھر یہی حق وباطل کا معرکہ ہجرت کے بعد جنگوں میں تبدیل ہوگیا، جس کے نتیجہ میں جنگ بد ر، جنگ احد، جنگ احزاب اور دیگر معرکہ پیش آئے اور قیامت تک حق و باطل کی یہ کشمکش جاری رہے گی، جس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو کامیاب کرے گا۔اور اہل باطل کو ناکام کرے گا۔
مسلمانوں کو اسلام کے غلبہ کی جدوجہد سے روکنے کے لئے کچھ نام نہاد نیم علماء نے ایک غلط بات گڑھ کے مسلمانوں میں پھیلادی ہے، وہ یہ کہ اسلامی حکومت واقتدار ایک عطائی و وہبی چیز ہے، کسبی نہیں ہے، مطلب یہ کہ اسلامی حکومت و اقتدار کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ خود
بخود بغیر کوشش کے اللہ کی طرف سے عطا ہو جاتی ہے، کاش کہ یہ نام نہاد نیم علماء یہ غلط بات کہنے سے پہلے ذرا بھی سوچتے تو یہ غلط بات کبھی بھی وہ زبان سے نہیں نکالتے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بھلے ہی دینی لحاظ سے انہوں نے اس بات کے متعلق نہیں سوچا ہو،لیکن دنیاوی لحاظ سے انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ بات کہی ہے، وہ یہ کہ اس بات سے وہ باطل حکمرانوں کی مخالفت و دشمنی سے بچ جائیں گے، ساتھ باطل حکمرانوں کی انہیں خوشنودی حاصل ہو جائے گی، لیکن ان نام نہاد علماء کو یہ نہیں بھولنا چائیے کہ ان باطل حکمرانوں پر بھی کوئی حکمراں ہے جو عذاب میں بھی ان سے بہت بڑا ہے، اور جو انعام میں بھی ان سے بہت بڑا ہے اور وہ ہے اللہ جو اَحکَمُ الْحَاکِمینْ ہے،یعنی حاکموں کا سب سے بڑا حاکم، قرآنی لحاظ سے دین کی کوئی بھی چیز صرف وہبی اور عطا ئی نہیں ہے،بلکہ ہر چیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کسب یعنی کوشش کی شرط رکھی ہے، یقینا ہر چیز کا عطا کرنے والا اللہ ہی ہے، لیکن یہ بھی یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ طلب اور کسب کی شرط رکھی ہے، صرف انسان کے جسم کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس کا جسم عطائی ہے، لیکن جسم سے نکلنے والا ہر عقیدہ و عمل کسبی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان اچھے عقیدہ و عمل کی بنیاد پر انعام پاتا ہے، اور غلط عقیدہ و عمل کی بنیاد پر عذاب پاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اسلامی حکومت بھی اللہ کی قدرت و نصرت سے قائم ہوتی ہے، لیکن اس کے لئے خود اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی نصرت کی شرط لگائی ہے۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے۔ یَایُّھاَ الّذِینَ اٰمَنُوآ اِنْ تَنْصُرُوْا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِتْ اَقْدَامَکُمْ۔(سورۂ محمد آیت ۷) ترجمہ (ائے ایمان والوں اگر تم اللہ کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدموں کو مضبوط کرے گا)۔
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے جس مدد کی اپیل کی ہے اس سے اللہ کی کوئی ذاتی مدد نہیں ہے بلکہ اللہ کے دین کی مدد ہے، جس میں خود اہل ایمان ہی کا فائدہ ہے ساتھ ہی مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کے نتیجہ میں اہل ایمان کے قدم مضبوط جمانے کی بھی خوشخبری دی ہے، اس میں اسلامی حکومت و اقتدار بھی شامل ہے اسلئے کہ یہ بھی قدموں کی مضبوطی کا ایک ذریعہ ہے۔ اسی طرح سورۂ نور کی آیت۵۵ میں اللہ تعالیٰ نے اسلامی حکومت و اقتدار کے وعدہ میں، ایمان اور اعمال صالحہ کی شرط لگائی ہے اور ظاہر ہے اسلام میں اعمال صالحہ کا دائرہ بہت وسیع ہے، اس میں اسلامی حکومت و اقتدار کی جدوجہد بھی شامل ہے، اور کیسے شامل نہیں ہو سکتی، جب کہ آخری نبی امام الانبیاء والمرسلین حضرت محمدﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کو اس کے لئے خون و پسینہ بہانا پڑا اور پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، تب مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوئی، اور پھر پورے عرب میں اس کے اثرات پڑے، ایسا نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی جگہ اسلامی حکومت کا تخت سجا کر حضرت جبرئیلؑ کے ذریعہ آپؐ کی تاج پوشی کی ہو،اور کسی طشت میں رکھ کر آپؐ کو اسلامی حکومت عطا کی ہو، جیسا کہ نام نہا د،دنیا پرست، نیم علماء باور کراتے ہیں ہاں یہ بات ہے کہ جب مکہ میں، سرداران قریش کی مخالفت اور ظلم و ستم کے باوجود آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھ رہی تھی تو ایک مرتبہ سرداران مکہ نے آپؐ کو اپنا بادشاہ ماننے کی پیشکش اس شرط کے ساتھ کی تھی کہ آپؐ ہمارے معبودوں کو بُرا کہنا چھوڑ دے، اور ایک خدا کی بندگی کی دعوت چھوڑ دے، لیکن آپؐ نے ان کی یہ پیشکش یہ کہہ کر ٹھکرا دی تھی کہ اگرمیرے سیدھے ہاتھ میں سورج رکھدیا جائے، اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیا جائے، تب بھی میں یہ دعوت نہیں چھوڑوں گا چاہے میں ہلاک ہو جاؤں، یا پھر یہ دعوت غالب آجائے۔اس واقعہ کی روشنی میں ان دنیا پر ست علماء کو سوچنا چاہیے کہ آنحضورؐ نے تو ایسی بادشاہت کی پیشکش کو پورے طور پر ٹھکرایا، جس میں اللہ کے علاوہ معبودوں کی حمایت ہو رہی تھی، اور دین کی دعوت چھوٹ رہی تھی، جب کہ تم محض باطل بادشاہوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خود بھی اسلام کے غلبہ کی جدوجہد سے رک رہے ہو، اور دوسروں کو بھی روک رہے ہو، اور قرآن کی من ما نی تاویلیں کر رہے ہو،قرآن میں اللہ نے اپنے اُصول کے طور پرفرمایا۔(وَاَنْ لّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلّاَ مَا سَعٰیoوَ اَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرٰی o ثُمَّ یُجْزٰہُ الْجزَاءَ الْاَوفٰیo) (سورۂ نجم آیات ۹۳،۰۴،۱۴) ترجمہ: (اور نہیں ہے انسان کے لئے مگر وہی جو اس نے کوشش کیا،اور اس کی کوشش ضرور کچھ مدت کے بعد اسے دکھائی جائیگی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے قوموں کے متعلق اپنے طریقہ کارکو یوں بیان فرمایا۔ اِنَّ اللہ لَا یُغیَّرُ مَا بِقَوْمِ حَتِّی یُغیَرُّ وا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔ (سورۂ رعد ۱۱) ترجمہ (بیشک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلیں)۔

Share
Share
Share