رسول اکرم – مرکز اتحاد
عظمت علی
9517269196
علمائے اہل سنت کا ماننا ہے کہ رسول اکرم کی ولادت 12 ربیع الاول کو ہوئی جبکہ شیعہ علما نے آنحضرت کی آمد 17 ربیع الاول کو تسلیم کیاہے۔ لیکن یہ کوئی اختلاف نہیں۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ نے کس روز روئے زمین پر آنکھیں کھولیں۔ہمیں تو آپ کے کردار اور تعلیمات سے سروکار ہے۔اس تاریخی ہیر پھیر کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں۔
اسی لیے انقلاب ایرانی کے بانی آیت اللہ خمینی نے ان ایام کو’ہفتہ وحدت’ کے عنوان سے منسوب کیا ہے تاکہ امت میں اختلاف نہ ہو۔اگر تاریخ اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو رسول اعظم کی مکمل حیات ‘امۃ واحدۃ’ کا کامل نمونہ ہے۔آپ نے ہمیشہ لوگوں کو اختلاف سے دور رکھا۔غیب کا علم رکھنے والے نبی کوبہت کچھ معلوم تھا مگر آپ حالات کی نزاکت کے باعث ان سے چشم پوشی کرتے رہتے۔ اللہ کا ارشاد ہے:قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلْ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰـكِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَلَمَّا يَدۡخُلِ الۡاِيۡمَانُ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ
یہ بدوعرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔
(سورہ حجرات 14)
آپ نے بناوٹی مسلمان کو بھی اپنی امت کا حصہ مانا ہے۔فتح مکہ کے بعد کچھ مشرکین نے بادل نخواستہ اسلام کا کملہ پڑھ لیا جبکہ دل میں شرک چھپا ہوا تھامگر آپ نے ان کے حقوق کا بھی احترام کیا۔
دور پیغمبر میں نہ کوئی فرقہ تھا ناہی کوئی گروہ۔ سب ایک تھے، ایک امت۔ ہاں!اتنا تو تاریخی مسلمات میں سے ہے کہ آنحضرت نے اس امت کو تہتر فرقوں میں بٹ جانے کی پیشین گوئی کردی تھی مگر حکم، یکجہتی کا تھا، آپسی اتحاد کا۔نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن اسلام کے نام پر فرقہ بندی بالکل قابل قبول نہیں۔آپ کے بعد ائمہ اور اصحاب کرام کا دور آچلتا ہے، ان کے درمیان بھی نظریاتی نامواقفت تھی مگر آج کی طرح تفرقہ نہ تھا۔ اگر ذہن میں یہ سوال امڈتا ہے کہ ‘وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ہے’ ۔سچ ہے کہ دونوں میں ایک طویل مدت کا فاصلہ ہے لیکن اختلاف سے کنارہ کشی ناممکن نہیں۔ذرا چند لمحے فک کریں کہ بہتری کس میں ہے…؟! ایک ہونے کے رہنے میں یا الگ الگ…. ؟قرآن نے اس کا جواب دیا ہے:وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا
اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو۔
(سورہ آل عمران 103)
یہاں تو ہر قسم کی فصیل ٹوٹ جاتی ہے، وقت اور حالات سے بلند، تاابد کے لیے ایک ہی پیغام، مل جل کے رہو، تفرقہ پیدا مت کرو۔اسی کتاب عظیم میں یہ بھی ارشاد ہے:اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَةٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَ اَخَوَيۡكُمۡ
مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو۔
(سورہ حجرات 10)
اللہ کا اردہ یہی ہے کہ ہم ایک ہوکر رہیں، ایک امت بن کر۔
عصر حاضر کے جید علما کا بھی یہی فرمان ہے کہ ایک سے دو بھلے یعنی الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ جانے سے بہتر ہے کہ ہم ایک ہوجائیں ، ایک قیادت کے ماتحت آجائیں، آخری رسول کی قیادت۔اتحاد سے مراد کوئی یہ نہ سمجھے ہم تاریخی حقائق کو پس پشت ڈال دیں، حقیقت چھپ ہی نہیں سکتی لیکن اتنا ضرور دھیان رہے کہ’ھر سخن جایی و ھر نکته مقامی دارد’ اور یہ طے کرنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں۔اب سوال یہ کہ کیا ممکن بھی ہے یا بس کہنے سننے کی باتیں ہیں۔
جی ہاں! ممکن ہے۔مفید بھی ہے۔سو فیصدی کا خیال تو ذہن سے نکال ہی دیں۔
آپ عالمی منظرنامہ پر نگاہ دوڑائیں، یہودی و عیسائی میں کتنا یکجہتی ہے جبکہ ان کے سلسلے میں اللہ ارشاد فرما رہا ہے:وَقَالَتِ الۡيَهُوۡدُ لَـيۡسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰى شَىۡءٍ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰى لَـيۡسَتِ الۡيَهُوۡدُ عَلٰى شَىۡءٍ
اور یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کا مذہب کچھ نہیں ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودیوں کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
(سورہ بقرہ 113)
یہودی اور عیسائی میں شدید مذہبی اختلاف ہے، مسلم دشمنی ہے، تاریخی حقائق ہیں کہ حضرت عیسٰی مسیح کے قتل میں یہودیوں کا ہاتھ شامل ہے لیکن آج آپ دیکھ لیں کہ زمانہ ہمارے خلاف کس طرح متحد ہوگیا ہے اور ہم ایک ہوکے بھی کتنے مختلف ہیں۔امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:فَيا عَجَبا! عَجَبا! وَاللّهِ يُميْتُ الْقَلْبَ وَيَجْلِبُ الْهَمَّ مِنْ اجْتِماعُ هؤلاءِ الْقَوِم عَلى باطِلِهِم وَتَفَـرُّقُـكُمْ عَن حَقِّـكُمْ.
تعجب ہے! حیرت انگیز بات ہے۔خدا کی قسم! یہ بات دل کو موہ بنادینے والی اورہم و غم کو سمیٹنے والی ہے کہ یہ لوگ اپنے باطل پر مجتمع اور متحد ہیں اور تم اپنے حق پر بھی متحد نہیں ہو۔
(نہج البلاغہ خطبہ 27)
ایک اللہ، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک قبلہ کو تسلیم کرنے والے مسلمان جانے کس راہ کی اور بھٹک گئے ہیں کہ آج مسلمان، مسلمان کا سب سے بڑا دشمن بنا ہوا ہے۔ ہماری حرکات سے ہی دشمن نے فائدہ اٹھایا ہے، اگر ہم غداری پر آمادہ ہی نہ ہوتے تو اس کی اتنی مجال جو ہمارے گریبان تک پہونچ سکتا۔
لہذا__حواس سنبھالنے کی شدید ضرورت ہے، جب جاگیں تبھی سویرا، اس لیے ابھی بھی وقت ہے اور وقت کی سب سے اہم ضرورت یکجہتی ہے اور رسول اکرم کی ذات ہمارے بہترین نمونہ ہے۔