امجد حیدرآبادی
بحیثیت صوفی شاعر
ڈاکٹرمحمد عطا اللہ خان ۔ (شکاگو)
فون ۔ 17732405046+
دکن میں حضرت خواجہ بندہ نواز سے لیکر موجودہ دور تک سیکڑوں صوفی شعراء گذرے ہیں ان میں حیدرآباد کے ایک قابل احترام مشہور ومعرف حقیقی صوفی شاعر حضرت امجد حیدرآبادی تھے۔ سید احمد حسین نام امجد تخلص تھا امجد کی ولادت ۷ رجب المرجب ۱۳۰۵ھ بروز شنبہ صبح کے وقت ہوئی اس کا ذکر جمال امجد میں ملتا ہے۔
ابتدائی تعلیم مذہبی نوعیت کی تھی۔ پھرجامعہ نظامیہ میں استاد آغا شوستری سے شافعیہ واسلامیہ تصانیف کا درس حاصل کیا پنجاب یونیورسٹی سے امتحان منشی فاضل اور مولوی فاضل میں امتیازی کا میابی حاصل کی نوجوانی میں ابھی آپ اٹھارہ سال کے تھے کہ والدہ نے علامہ سید قادر الدین صاحب کی بیٹی جمال سلمیٰ سے آپ کا عقد کردیا۔ جب ذمہ داری کا بوجھ آپ پر پڑا ملازت کی فکر دامن گیر ہوئی تلاش معاش میں حیدرآباد سے بنگلور گئے وہاں ایک مدرسہ میں ملازم ہوئے چندماہ بعد ملازمت ترک کی حیدرآباد واپس تشریف لائے اور مدرسہ دارالعلوم میں ایک عرصہ تک مدرس کے فرایض انجام دیتے رہے بعد میں صدر محاسبی میں ملازم ہوگئے اور ترقی کرتے کرتے مددگار محاسب کے عہدہ پرپہنچ گئے اور وہیں سے وظیفہ حسن خدمت حاصل کیا۔ امجد کی صوفیانہ شاعری کا ذکر کرنے سے قبل ان کی حقیقی زندگی صوفی مزاج شاعر ہونے کا ذکر کرنا بے جانہ ہوگا۔ امجد حیدرآبادی سادہ مزاج پر ہیزگاربزرگ نیک وپاکیزہ سیرت متین اور حقیقی صوفی شاعر تھے مزاج صوفیانہ تھا طبیعت کی سادگی ان کی طریقہ زندگی پربھی اثر انداز ہوتی تھی کھانا اور لباس بھی صوفیانہ تھا ظاہری شان وشوکت کے سخت خلاف تھے۔ ایک عرصہ تک دفتر سیکل پرجاتے تھے۔حضرت امجد امیر وغریب ادنیٰ یا اعلیٰ جو بھی ان کے پاس ملنے آتا سبھی سے ایک طرح سے ملتے ہر شخص یہ سمجھتا وہی ان کے سب سے عزیز ترین دوست ہے ان میں صوفیانہ رنگ کوٹ کوٹ کر بھر اتھا وہ بڑے سے بڑے شخص سے مرعوب نہیں ہوتے تھے اور ہر شخص سے انکساری سے ملتے تھے۔ وہ شہرت سے پر ہیز کرتے خود نمائی اور خود ستانی انھیں پسند نہیں تھی۔
امجد کی صوفیانہ شاعری کا عمیق جائیز لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کی مکمل شاعری صوفیانہ تھی ان کی شاعری کاعرفان ایک محور کے اردگر گھومتا ہے اور وہ ہے ذات حق اور عشق رسول پاک ان کے موضوعات ان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ لیکن امجد کی شاعری کا گھرائی سے جائز ہ لیں تو معلوم ہوگا کہ امجد کا زاویہ نگار خالصتاََصوفیانہ رنگ اور اسلام ہی کے دائرہ میں گھومتا ہے انھوں نے کائنات عالم کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اس کی تلخ حقیقت اور تجربات ان سے متاثر تھی اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ عرض کرتا چلوں امجد کہتے ہیں ؎
شاعر اسرار خلق سے ماہر ہے
جو عارف کامل ہے وہی شاعر ہے
شاعر کی صدا تھی رہنما کی آواز ہے
اس خلق سے آتی ہے خدا کی آواز
وہ اپنے کلام کے ذریعہ ایسے پیغام کو ہم کنار کیا جس میں انسان کی فلاح وبہودی ہو اور اس حقیقت کو بھی بے نقاب کردیا ہے جس کے ذریعہ انسان حکم الہیٰ کے تا بے ہوا ہے۔ امجد کے صوفیانہ کلام میں جوانو کھا پن اور جو صنعت گری ملتی ہے وہ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ امجد سچے جذبات او راحساسات کی ترجمانی کرتے ہیں امجد نے زندگی کے ہزاروں نشیب وفراز دیکھے ہیں خوش حالی تنگ حالی بھی حیدرآباد کی تغیانی بھی۔ لیکن دنیا داری یا جاہ وحشم کے لئے انھوں نے کبھی بھی شاعری نہیں کی اور کسی انعام یا صلہ کی خاطر دانستہ یا نا دانستہ طورپر مزاحیہ اشعار کہے ہوں۔ حالانکہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ شاہی حکمران کے عہد میں گذرا۔سوائے اس مالک حقیقی کے جس کی معیت پر وہ ہمیشہ کا مران رہے اس طرح کے مزاج کے شاعر دکن میں بہت کم نظر آئینگے۔ ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر زمانے میں شاعرامراوسلاطین صاحب جاہ مال ودولت کی مدح وستائیش میں شاعر اپنا فن اپنی صلاحیت اور اپنا کردار سب کچھ داؤ پر لگایا اور متاثر کیا۔ امجد کا دامن ہمیشہ ثنائے مولا توصیف رسول پاک نیزہ مدح اولیاء کرام کے لئے رباعیات لکھی ہے امجد کی ایک رباعی میں صوفیانہ رنگ ملاحظہ کیجئے ؎
ہر چیز مسب سبب سے مانگو
منت سے خوشامد سے ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے ہاتھ پہلاتے ہو
بندے ہواگررب کے تو رب سے مانگو
امجد کی شاعری کے بارے میں پروفیسر سید محمد رسالہ سب رس میں لکھتے ہیں کہ امجد کو جہاں اعلیٰ تخیلات کی دولت قدرت سے عطاء ہوئی وہیں ان تخیلات کے اظہار کے لئے ان کی لفظوں کا ایسا موزوں جامعہ بھی ان کو دیاگیا ہے کہ جو شعر اء کی زبان سے نکلا وہ موزوں کے سانچے میں ڈھلاہوانکلا جس کا ن میں اس کی رکعت پڑی وہ اپنی جگہ گھر بنالی۔ امجد کی ایک اور صوفیانہ رباعی کی طرف میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں امجد کاکلام قدرت کی دین اور رسول پاک ؐ کا صدقہ ہے امجد اپنی ساری زندگی اس تگ ودمیں گزاری کہ ان کے قلم سے نکلا ہوا لفظ ان کے دل کی ترجمانی کریں گویا وہ بیک وقت مشاہدہ مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
یہ خورشید وقمر یہ دیکھتے ہو
فضائل بحر و برکیا دیکھتے ہے
کس کے حکم سے سب سے ہورہا ہے
اُدھر دیکھو اِدھر کیا دیکھتے ہو
اس طرح امجد کا کلام زندہ جاوید اور ان کے اشعار زبان زد عام خواص ہوگئے تھے۔ پروفیسر سید محمد کے الفاظ ہیں۔اردو کا یہ سرمد فطرت دل دار آشانہ اور دیدہ بینا کا حامل تھا اس پر قدرت نے خوش نمائی کی نعمت عطاکی تھی۔ امجد حیدرآبادی تصوف کے سلسلہ میں وحدت الوجود کے قائل ہیں اپنے اس جذبہ کا اور عقیدہ کو انھوں نے رباعیات کے ذریعہ عام کیا۔ ایک رباعی ملا حظہ ہو ؎
ذرہ ذرہ میں ہے خدائی دیکھو
ہربت میں ہے شان کبریائی دیکھو
اعداد تمام مختلف ہیں باہم
ہر ایک میں ہے مگر اکائی دیکھو
صوفیانہ رنگ کی شان میں ایک صفت توصیفی الذات کا اعتبار کرتے ہوئے امجد لکھتے ہیں۔
حسن مطلق مقید طور نہیں
خورشید کا عالم میں کہاں نور نہیں
مخلوق سے کچھ الگ نہیں ہے خالق
معنی کا وجود لفظ سے دور نہیں
امجد اپنی ایک رباعی میں تصوف کا پہلو کس خوبی سے برتا ہے ملا حظہ کیجئے ؎
گوبندہ نا ساز ہوں ربی ربی
رحمت پر تری فداہوں ربی ربی
عبدی عبدی ادھر سے آتی ہے صدا
میں دور سے کہہ رہا ربی ربی
امجد نے رباعیات کے علاوہ غزلیں بھی لکھیں ان میں صوفیانہ خیالات اور وحدت الوجود کے فلسفیانہ افکار پائے جاتے ہیں امجد کے ہر شعر میں بجلی کی سی چمک اور تڑپ پائی جاتی ہے وہ سوز گداز کی بولتی تصویر تھے چند غزل کے شعر ملا حظہ کیجئے ؎
یوں تو کیا نظر نہیں آتا
کوئی تم سا نظر نہیں آتا
ہو چلی انتظار میں یہ عمر
کوئی آ تا نظر نہیں آتا
جھولیاں سب کی بھرتی جاتی ہیں
دینے ولا نظر نہیں آتا
زیر سایہ ہوں اس کے اے امجد
جس کا سایہ نظر نہیں آتا
امجد کے یہاں جہاں شاعری کا وافرذخیرہ ہے تمام دواوین میں صوفیانہ کلام ملتا ہے ریاض امجد اس کے دوحصوں پر مشتمل ہے حصہ اول ۱۳۳۷ھ میں زیور طبع سے آراستہ ہوا اور حصہ دوم ۱۳۴۱ھ میں یہ امجد کی ابتدائی نظموں کا مجموعہ ہے اس مجموعہ میں امجد نے دلچسپ واقعات کے ساتھ ساتھ فطری احساسات او رکہیں ہندی دوہوں اور عربی اشعار اور حافظ شیر ازی کے صوفیانہ کلام کی دلکش نظمیں پیش کی ہیں یہ اخلاق عالیہ کا ایک مخزن ہے اس کے علاوہ نذر امجد نام سے ایک کتاب تحریر کی یہ میلادنامہ ہے جس میں رسول پاکﷺ کی ولادت باسعادت او رہجرت کے واقعات کو مسدس کے فام میں بیان کیاہے۔ یہکتاب ۱۳۵۵ھ میں طبع ہوئی”خرقہ امجد“ کے نام سے نظم نگار کا ایک اور کمال خرقہ امجد میں نظر آتا ہے اس کتاب کی ابتدا میں امجد نے اپنی نگارشات پیش کرنے کی وجہہ بتلاتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا ہے۔ رباعیات میں امجدحصہ اول ۱۳۴۴ھ میں شائع کی اور حصہ دوم ۱۳۴۵ھ میں اور حصہ سوم ۱۳۷۵ھ میں ان تمام رباعیات میں صوفیانہ خیالات ملتے ہیں ان ہی دواوین کی وجہہ سے امجد کی شہرت ہندوستان میں بلندیوں کو چھونے لگی تھی۔
امجد حیدرآبادی کے نثری کارنامے کچھ اس طرح ہیں ”جمال امجد“ میں انہوں نے اپنی دوسری بیوی جمال النساء کے بارے میں اپنے قلبی تاثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے یہ نثری تصنیف گیارہ ابواب پرمشتمل ہے ساری کتاب حیرت انگیز بقلم روحانی تزکیہ نفس اور معرفت میں ڈوبی ہوئی ہے اس کتاب کے چوتھے باب میں امجد نے رودموسیٰ کی تغیانی اور اپنی زندگی میں اہل وعیال کی تباہی کا ذکر کیا ہے جو ۲۸/ ستمبر ۱۹۰۸ء میں واقع ہوئی تھی”گلستان امجد“ نام سے ایک کتاب ۱۳۵۴ھ میں شائع کی یہ فارسی ادب کی مشہور تصنیف گلستان سعدی کا ترجمہ ہے اپنی صلاحیت اورروانی اور اثر افرینی اور صوفیانہ اعتبار سے اس کا وہی مرتبہ ہے جو فارسی ادب میں گلستان سعدی کوحاصل ہے۔ نظموں کو اپنی علمی صلاحیت سے نشر میں اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ زبان فارسی کا سوز واثر اس میں آگیا ہے ’حج امجد‘ کے نام سے ایک کتاب انہوں نے ۱۳۴۷ھ میں شائع کی اس سفر نامہ میں امجد نے حج کی وجہہ تحریک سے لیکر سفر کی ساری تفصیلات واپسی کے وقت تک تحریر کیا ہے۔ ”پیام امجد“نام سے ایک کتاب ۱۳۶۷ھ میں شائع کی جس طرح سرسید احمد خان نے حالی کی مسدس مدوجز اسلام کو اپنی طرف سے رسول پاکؐ کی بارگاہ اقدس میں پیش کیاتھا اس طرح پیام امجد کی تحریک او راس کی تکمیل کو اپنی زندگی کا سرمایہ کہا ہے۔ اس کے علاوہ حکایات امجد‘ میاں بیوی کی کہانی‘ ایوب کی کہانی‘مکتوبات امجد بھی لکھی۔ اس سے قبل کہا گیا ہے کہ امجد کی شاعری صوفیانہ ہے آخرمیں ان کی ایک مشہور رباعی جوصوفی شاعر ہونے کی دلیل ہے نمونا تاََ پیش خدمت ہے۔
کثرت میں نظر آتی ہے وحدت دیکھو
کبار یہہ فائدہ اقامت دیکھو
توحید فی الاعمال ہے گرمد نظر
مسجدمیں صلوۃ بالجماعت دیکھو
——