افسانہ : اشک پشیمانی کے
محمد علیم اسماعیل
خون میں لت پت،مجبور و لاچار ہوکر وہ سڑک کے درمیان پڑی تھی۔آنے جانے والے لوگ دور دور سے دیکھ رہے تھے۔ وہ تڑپ رہی تھی اور جانکنی کے عالم میں اپنی پوری قوت مجتمع کرتے ہوئے مدد کو پکار رہی تھی،پر کوئی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا تھا،
اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ پھر ایک کار رکی،اس میں سے ایک شخص دوڑتاہوا آیااور اسے اپنی کار میں ڈال کر اسپتال لے گیا۔روشنی نے سورج کو بہت روکا تھاکہ یوں انجان راہوں میں گاڑی روک کر کسی کی مدد کے لیے بھاگنا اسے پریشانیوں میں مبتلا کر سکتا ہے پر سورج سے رہا نہیں گیااور اس نے اسے اسپتال پہنچا کر ہی دم لیا۔گھر پہنچتے ہی پولیس اسٹیشن سے فون آیا اور سورج کو پولیس تھانے بلایاگیا۔
اس پر روشنی کافی جھلا گئی۔اس نے جھنجلاتے ہوئے اپنے شوہر سورج سے کہا”اس لیے میں نے آپ کو روکا تھا،اب کام کاج چھوڑ کر کاٹو پولیس اسٹیشن اور کورٹ کچہری کے چکر،کہیں یہ مدد کرنا تمہارے گلے کی ہڈی نہ بن جائے۔“
”کسی بھی حادثے کے وقت زخمیوں کوفوراََ اسپتال پہنچانا ہمارا فریضہ ہے،کیا پتا کسی کی زندگی بچ جائے۔قانونی کاروائی میں اگر کچھ پریشانی ہوتی ہے تو کیا ہوا۔انسانیت تو ہر قانون سے اعلی و افضل ہے،جب انسان ہی انسان کی مدد نہیں کرے گا تو کون کرے گا!“
”تم ہر بات میں اپنی چلاتے ہو کبھی میری بات بھی سن لیا کرو“
”تم بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتی ہو اس لیے ہم دونوں میں اکثر بحث ہو جاتی ہے۔“
چند روز بعد روشنی نے سورج سے کہا ”بہت دن ہو گئے ہم کہیں گھومنے نہیں گئے،چلوکہیں گھومنے چلتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے بولوکہاں چلیں“
”ایسا کرتے ہیں،اجنتا ایلورا کے غار دیکھنے چلتے ہیں“
سورج نے ہامی بھرتے ہوئے اپنی کار نکالی، روشنی نے ضر وری سامان ساتھ لے لیااور دونوں مشہور زمانہء غار دیکھنے نکل پڑے۔سفر اچھا کٹ رہا تھا اور ان کی کار ہوا سے باتیں کر رہی تھیں۔اسی دوران راستے میں ایک بکری اپنے چار بچوں کے ساتھ جارہی تھی،اس میں سے ایک بچے کا پیر کہیں پھنس گیااوروہ پیچھے رہ گیا،وہ چلا رہا تھا پر بکری کو اس کی خبر نہ ہوئی۔سورج نے جب یہ منظر دیکھا تو اس نے اپنی کار روکی،اس بچے کا پھنسا ہوا پیر نکالااور اسے آزاد کیا۔
یہ دیکھ کرروشنی بولی”آپ کی یہ بھلائی کی عادت کسی دن بہت بڑی مصیبت میں ڈال دے گی“ سورج نے جواب میں صرف مسکرایا اور کار کا اسٹیرنگ سنبھال کر گاڑی کو بیک کرنے لگا۔اجنتا ایلورہ سے واپسی کے بعد ایک دن روشنی اپنے موبائل میں گم سڑک پار کر رہی تھی۔سامنے سے آنے والی گاڑیوں کا اسے احساس ہی نہ ہوا اوروہ سڑک حادثے کا شکار ہو گئی۔اس کے سر میں گہری و اندرونی چوٹیں آئیں،خون بہت بہہ گیا۔کئی دنوں تک وہ زیر علاج رہی تب کہیں جاکر اسے ہوش آیا۔
جب وہ ہوش میں آئی تو ڈاکٹر نے اسے بتایا”تم بڑی خوش قسمت ہو کہ ایک انجان شخص تمھیں بروقت اسپتال لے آیا۔اگر وہ شخص وقت پر تمھیں نہ لاتاتو آج تم موت کے منہ میں جاچکی ہوتی، اوراگر تمہاری جان بچ بھی جاتی تو تم قوما میں ہوتی۔“
ڈاکٹر نے روشنی کو یہ بھی بتایا کہ وہ شخص اسے اسپتال پہنچا کر چلا گیا۔ یہ سنتے ہی روشنی کو بڑا جھٹکا لگااور اسے اپنے شوہر سورج سے کی جانے والی بحثیں یاد آگئیں۔اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔وہ انجان شخص کون تھا کسی کو نہیں معلوم،روشنی تقریباََ دوماہ بستر علالت پر رہنے کے بعد گھر واپس آگئی ہے لیکن اس کی نگاہیں اب بھی اسی انجان شخص کو ڈھونڈتی ہیں۔ اب روشنی اکثر سوچتی رہتی ہے کہ اگر اس مسیحا نے وقت پر اس کی مدد نہ کی ہوتی تو آج وہ اس دنیا میں نہ ہوتی۔وہ اس سے مل کر ایک مرتبہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہے۔اس حادثے کے بعد اس کی نظروں میں سورج کی اہمیت اب ایک دیوتا کی ہو گئی ہے جو اکثر زمین پر اتر کر مدد کے متمنی افراد کی مدد کرتا ہے۔
٭٭٭
Mohd Alim Ismail (Asst.Teacher)
Ward No.15, Qureshi Nagar,
Nandura-443404 (Maharashtra)