افسانہ – مَٹھّا
محمدعلیم اسماعیل
”کتنی دفعہ سمجھایا تمھیں۔
کیا کمی چھوڑی تھی میں نے۔
جی جان سے تمھیں پڑھاتاہوں۔
دو سوالات کے جواب نہیں دے سکتے۔
اسکول میں پڑھنے آتے ہو یا ٹائم پاس کرنے۔۔۔مٹھا کہیں کے۔۔۔“
اس روز ان تینو ں پر میں گرج دار آواز میں خوب چلایا کیوں کہ وہ میرے سوالات کے جوابات دے نہیں پائے تھے۔کبھی کبھی مجھے بہت غصہ آتا تھا، ان تینوں پر۔ان کی وجہ سے مجھے کئی بار شرمندگی اٹھانی پڑی تھی۔جب کبھی بھی صدر مدرس یا شعبہء تعلیم کے کسی ادھیکاری کی وزٹ ہوتی تب میں ان سے کہتا میری کلاس میں پچیس بچے ہیں جس میں سے صرف ان تینوں کو چھوڑ کرباقی سب اچھے ہیں۔ پتا نہیں یہ تینوں کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔کتنا بھی سمجھاؤ ان مٹھوں کو لیکن یہ مٹھے ہی رہیں گے۔اور ایسا بھی نہیں کہ دوران تدریس یہ حاضر نہیں رہتے۔۔۔۔ رہتے ہیں۔۔۔۔ اور روزاسکول آتے ہیں۔لیکن نجانے کیوں ان کے دماغ میں کوئی بات نہیں گھستی اور کسی بات کا ان پر اثر بھی نہیں ہوتا۔ویسے تو ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ جب میں پڑھاتا ہوں تو ان تینوں پر توجہ نہیں دیتا۔میں تو سبھی بچوں پر یکساں محنت کرتا ہوں۔جو سب کو پڑھتا ہوں وہی انھیں بھی پڑھاتا ہوں۔اس کے بعد بھی یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ ان کی سمجھ میں کچھ کیوں نہیں آتا۔اور یوں بھی نہیں کہ میں ان بائیس بچوں کو الگ سے پڑھا تا ہوں۔لوگ تو یہی سوچتے ہوں گے کہ میں ان تین بچوں کو نہیں پڑھاتا۔
پچیس میں سے بائیس بچے تو ترقی کر رہے تھے لیکن وہ تینوں میری جماعت کے نام پر کلنک۔۔تھے۔۔ کلنک۔
ایک دن کسی کام سے قریبی دیہات میں جانے کا اتفاق ہوا۔اس دیہات میں میں گیا تو تھاپکے روڈ سے لیکن جب وہاں سے واپس آرہا تھا تو گاؤں کے ایک شخص نے بتایا کہ شہر جانے کا ایک شارٹ کٹ راستہ بھی ہے،جو پگڈنڈی نما ہے اور اس راستے سے موٹرسائیکل آسانی سے جا سکتی ہے۔پکے راستے سے تیس منٹ اور کچے راستے سے دس منٹ ۔۔۔۔ لہذا میں کچے راستے سے نکل پڑا۔
خوبصورت قدرتی نظارے، تا حد نظر سر سبزوشاداب زمین، ہرے بھرے لہلہاتے ہوئے کھیتوں کو دیکھتے ہوئے اور مناظر ِقدرت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک کھیت پر پڑی۔اس کھیت پر سیاہ پلاسٹک کی باریک باریک نلیو ں کا جال بچھا ہوا تھا۔ میں پہلے تو چونک پڑا کہ یہ کیا ہے۔پھر مجھے خیال آیا کہ اسے مراٹھی میں ٹھِبک سِنچن (Drip irrigation)کہتے ہے۔اور اردومیں عمل تقطیر یاقطرہ سنچائی۔
اس کے متعلق تو میں جانتا ہی تھا کہ یہ فصل کی آبپاشی کی ایک ایسی تکنیک ہے جس میں پلاسٹک کی نلیوں کے نظام کے ذریعے پانی آہستہ آہستہ،قطرہ قطرہ،براہ راست،انفرادی طور سے پودوں کی جڑوں تک پہنچایا جاتاہے۔ لیکن پھر بھی میں نے اس کھیت میں کام کر رہے کسان سے اس کے فائدے پوچھے تو اس نے مجھ سے سوال کیا، کیا آپ کو نہیں پتا؟ میں نے کہا ہاں جانتا تو ہوں اتنا، جتنا میں نے پڑھاہے، پر آپ اسے استعمال کر تے ہیں تو آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے، یہ جاننا چاہتا ہوں۔
اس نے مجھ سے کہا گرو جی اس کے تو فائدے ہی فائدے ہیں۔
شاید وہ مجھے پہچانتا ہو گا اسی لئے تو اس نے گروجی کہا لیکن میں اسے نہیں جانتا تھا۔
اس نے مزید بتایااس سے پہلے ایسا ہوتا تھا کہ جب ہم کھیت میں پانی چھوڑتے تھے تو اس وقت پوری فصل اور پورے پودوں کو پانی مل جائے اس طرح نہیں ہوتا تھا۔زیادہ تر تو یوں ہوتا تھا کہ جن پودوں کو پانی کی ضرورت ہوتی تھی انھیں پانی ملتا ہی نہیں تھا۔اور کسی پودے کو ضرورت نہ ہونے پر بھی اچھا خاصا پانی مل جاتا تھا۔جس کی وجہ سے فصل کے کچھ پودے اچھے تو کچھ سوکھ کر لاغر ہو جاتے تھے۔لیکن جب سے میں نے یہ ٹھبک سنچن لگایا ہے تب سے تمام پودوں کو پانی مل رہا ہے اور ان کی ضرورت کے مطابق مل رہا ہے۔ دیکھیے گرو جی یہ جو تین پودے ہیں نا۔یہ دوسرے پودوں کے مقابلے میں تھوڑے کمزور نظر آرہے ہیں لیکن یہ پہلے اتنے کمزور تھے کہ سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے اور دم توڑنے ہی والے تھے کہ اس ٹھبک سنچن نے ان کی ضرورت کے مطابق ان تک پانی پہنچایا اور آج ان کی حالت میں سدھار ہے۔
تین۔۔تین۔۔۔تین پودے۔۔۔ یہ سنتے ہی میرے دماغ میں ہلچل سی مچ گئی اور مجھے اپنی کلاس کے تین کمزور بچے یاد آگئے۔
جو بالکل ان تین پودوں کی طرح دم توڑنے کی ا سٹیج پر تھے اور اسکول سے اکتاہ گئے تھے۔
اس وقت میرے ضمیر کی آواز ابھری اور مجھ سے کہنے لگی جن تین بچوں پر تو نے خصوصی طور پر توجہ دینی تھی، ان کی ضرورت کے مطابق ان پر محنت کرنی تھی،ان تین بچوں کو تو نے کیا دیا؟ ان کو سست،کاہل جیسے ناموں سے پکار کر ان کے حوصلوں کو پست کیا، ہر وقت انھیں ٹارچر کیا۔اگر تو انھیں ہمت دیتا اور ان کی پریشانی کو سمجھ کر حسب ضرورت ان کی رہنمائی کرتا تو ممکن ہے وہ دم توڑنے کی اسٹیج پر نہ ہوتے اور دوسرے پودوں کی طرح وہ بھی تروتازہ اور پر رونق ہو کر کھل کھلا رہے ہوتے۔تو نے حقیقت جانے بناہی ان پر بڑا ظلم کیا ہے۔ہو سکتا ان تینوں کے گھروں کا ماحول پڑھائی کے لیے سازگار نہ ہو۔محنت تو تجھے صرف ان تین بچوں پر ہی کرنی تھی۔باقی کے بچے تو اپنے ساتھ ایک ماحول لے کر آئے تھے۔ اور تونے تینوں کو بے کار،ناکارہ اور نکمے جیسے الفاظ سے نواز کرانھیں احساس کمتری کا شکار بنا دیا۔
ارے ہاں!!! اب مجھے یاد آیا۔ پرسوں کی ہی تو بات ہے۔میں اپنے لڑکے کو ریاضی کا ہوم ورک کروا رہا تھا اور دسیوں مرتبہ سمجھانے کے باوجود وہ غلطیوں پر غلطیاں کیے جا رہا تھا۔ تب جذبات میں آکر میری آواز بلند ہو گئی تھی۔اور میرا ہاتھ اٹھنے کے قریب ہی تھا کہ بیگم نے روکتے ہوئے کہا تھا، اس طرح غصہ کرکے آپ بچوں کو سکھا نہیں پائیں گے۔ آپ کے ایسے رویے سے تو تعلیم ان پر بوجھ بن جائے گی۔ اور میں نے کہا تھا کہ اچھا اب تم مجھے سمجھاؤ گی کہ کیسے پڑھانا ہے!!! تم اپنا کام کرو، مجھے لیکچر مت دو۔ اس کے بعد لڑکا سہم گیا تھا۔۔۔۔ ڈر گیا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی غلطیوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔
ہاں!!! میں نے بیگم کی بات پر اکیلے میں غور کیا۔ وہ صحیح تھی کہ تمام بچوں کے سیکھنے کی رفتار یکساں نہیں ہوتی اور یوں بھی نہیں ہوتا کہ سبھی طلبہ یکساں تعلیمی سطح پر ہوں لیکن اس کے باوجود میرے برتاؤ میں کچھ تبدیلی نہیں آئی تھی۔
اب میں نے من ہی من طے کیا کہ کل اسکول جاتے ہی سب سے پہلے اس بات کا پتہ لگاؤں گا کہ وہ بچے کہاں کمزور ہیں۔تعلیمی مطالعے کی کس سطح پر ہے۔ اور ان کی کمزوری کی وجہ کیا ہے۔ ٹھبک سنچن کی طرح خود ان کے پاس جاکر، ان کی ضرورت کے مطابق ان کی رہنمائی کروں گا۔ ان پر محنت کرکے ان کی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان شاء ا للہ بہت جلد ان تینوں کو دوسرے تمام بچوں کی طرح ہرے بھرے وہ لہلہاتے ہوئے بنادوں گا۔میں صبح سے ہی ان پر کام کرنا چاہتا تھا۔رات بھر پل پل دوڑتے خیالات کا جھنڈ دشمنوں کی طرح میرے ذہن پر وار کرتا رہا۔جانے کیوں طبعیت مغموم ہو گئی تھی۔رنجیدگی نے چاروں طرف کشمکش اور ا ضطراب کا جال بن دیا تھا۔کروٹیں تبدیل ہوتی رہیں۔ کوئی دم سکون نہ ملا اور رات بھرمیں سو نہ سکا۔
دوسرے دن ایک مقصد کے ساتھ میں اسکول گیا۔بچے دھیرے دھیرے اسکول آرہے تھے۔میں پہلے ہی اسکول پہنچ چکا تھا۔ان تمام بچوں میں میری نظریں صرف انھیں ہی ڈھونڈ رہی تھیں۔مجھے آج سے ہی ان پر کام کرنا تھا،محنت کرنا تھا۔تینوں میں سے ایک اسکول کے گراؤنڈ میں داخل ہوا۔اس کے چہرے پر مایوسی اور نا امیدی دیکھ کر مجھے بہت ترس آیا۔آج پہلی بار میں نے اسے ہمدردی کی نظروں سے دیکھا تھا۔اس کے خشک مٹیالے چہرے سے اداسی برس رہی تھی۔بوسیدہ کپڑوں سے غربت ٹپک رہی تھی۔ملگجائی آنکھوں سے معصومیت جھلک رہی تھی۔اور طبعیت سہمی سہمی نظر آرہی تھی جسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے ایک انجانے خوف نے اپنی گرفت میں کر رکھا ہو۔اس کی حالتِ ناداری چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ وہ اسکول اپنی مرضی سے نہیں آیا تھا بلکہ اسے لا کر پٹخ دیا گیا تھا۔
اور میں بار بار انھیں مٹھا۔۔مٹھا۔۔کہہ کر ان کی روح کو جھنجھوڑ رہا تھا۔ وہ تو معصوم تھے، بے بس تھے، ایک بے زبان جانور کی طرح۔جو اپنی بات چاہ کربھی کہہ نہیں سکتے۔اور کوئی سننے کے موڈ میں ہو تب نا۔ میں بھی بچوں کی کہاں سنتا ہوں۔ ایک روز بلیک بورڈ کے سامنے کھڑا ہوکر تھوڑی دیر بک بک کرنے کے بعد میں اپنے اینڈرائڈ موبائل میں کھو گیا تھا۔ اسی وقت ایک بچے نے مجھ سے کہا کہ سر میری سمجھ میں نہیں آیا اور میں اس پر برس پڑا تھا کہ تُو تو پکانا لائق ہے، دکھتا نہیں میں ضروری کام کر رہا ہوں،چپ چاپ اپنی جگہ بیٹھ جا۔ اس کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو میں نے اپنے عتاب کی قبر میں دفن کردیا تھا۔ جبکہ میں ہی تو انھیں کہتا تھا جو جتنا زیادہ پوچھتا ہے اتنا زیادہ سیکھتا ہے۔
پچیس میں سے چوبیس بچے اسکول آچکے تھے۔باقی رہا ایک کمزور بچہ جس کا نام ارمان تھا۔جسے ابھی تک میری نظر یں تلاش کر رہی تھیں، آیا نہیں تھا۔بچے اپنی اپنی کلاسیس میں جا چکے تھے۔جماعتوں میں پڑھائی شروع ہو چکی تھی۔کافی وقت ہو چکا تھا۔ نظریں اس کا انتظار کر رہی تھیں۔جب زیادہ وقت گزر گیا تومیری بے چینی اور بڑھ گئی۔تب میں نے ایک بچے کو اس کے گھر روانہ کیا کہ اسے بلالائے۔ بلانے گیابچہ واپس آیا تو وہ اکیلا ہی تھا۔
میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا؟۔۔۔ کیا ارمان نہیں آیا؟
”نہیں سر۔۔۔۔وہ نہیں آیا اور اس کے ابا نے کہے کہ ارمان ساتویں جماعت میں آگیا ہے لیکن ابھی تک اسے پڑھنا لکھنابھی نہیں آرہا ہے۔اس سے تو بہتر یہی ہے کہ وہ کچھ محنت مزدوری کرے اور ہمارا سہارا بنے۔اس لیے ارمان اب سے کام پرجائے گا،اسکول نہیں آئے گا۔“
٭٭٭
Mohd Alim Ismail (Asst.Teacher)
Ward No.15, Qureshi Nagar,
Nandura-443404 (Maharashtra)