تقسیم ہند کے ہمیشہ مخالف رہے مولانا آزاد
ڈاکٹر سیّد احمد قادری
9934839110
مولانا ابولاکلام آزاد ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ ان کے کارناموں کے جس پہلو پر نظر ڈالئے،وہاں ان کی ایک عالمانہ،مدبرانہ اور دانشورانہ شان جھلکتی ہے۔ ان کے افکار و نظریات پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ وہ ہمیشہ اپنے ملک کی سالمیت،یکجہتی،رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ہمنوا تھے۔
یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ہمیشہ تقسیم ہند کی پر زور مخالفت کی۔انھوں نے تقسیم سے ہونے والے نقصانات کی جانب اپنی دور اندیشی اور دوربینی سے واضح اشارے کئے تھے۔ آج کی تاریخ میں وہ سارے اشارے ان کی پیشن گوئیوں کے طور پر سامنے آ رہی ہیں۔مولانا آزاد کی ایسی دور اندیشی اور دور بینی کو ہمارے اسلاف نے نظر انداز کر اپنی آنے والی نسل کو بے وزن اوربے وقعت ہونے پر مجبور کیا ہے۔ کاش کہ مولانا آزاد کی بات مانی گئی ہوتی، تو ہند و پاک کے مسلمان آج جن مصائب سے گزر رہے ہیں،شائد ایسا نہیں ہوتا اور آج ان دو ٹکڑوں میں منقسم مسلمانوں کی پورے برصغیر میں ایک بڑی حیثیت اور بڑی طاقت ہوتی۔تقسیم ہند سے مسلمانوں کا جو بھاری نقصان ہوا۔اس کا دونوں طرف کے مسلمانوں کو بعد میں بہت شدّت کے ساتھ احساس ہوا۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ پاکستان کے ایک ادیب احمد حسین کمال نے قیام پاکستان کی دو دہائیوں کے بعد مولانا آزاد کی دور اندیشی کا اعتراف کرتے سوال کیا تھا کہ…
”کیا اب وقت نہیں آ گیا ہے کہ برصغیر کی مسلمان ملّت پچیس سال کی محرومیوں اور ذلّتوں کے بعد اپنے مسترد کئے ہوئے مسیحائے ملّت کی فکر و دعوت کی طرف رجوع کرے؟)
(مولانا ابوالکلام آزاد۔تحریک آزادی ویک جہتی: خان عبدالودود خاں، مرتبہ: کتاب والا،دہلی ۳۸۹۱ء،صفحہ: ۲۲)
حقیقت یہ ہے کہ مولانا آزاد نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے ملک کو انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھا۔ انھوں یہ بھی دیکھا کہ ملک پر انگریزوں کے ظلم و ستم بڑھتے جا رہے ہیں، جبر،استبداد و استحصال نے ہندوستانیوں کو بے دست و پا کردیا ہے۔ مولانا آزاد نے یہ بھی دیکھا کہ اس وقت کے گورنر لارڈ کرزن سیاسی سورش کو دن بدن بڑھا رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ انگریزوں نے اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے ہندوستانیوں کے درمیان پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی اپناکر ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ تفرقہ پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ جس سے برسہا برس کا اتحاد و اتفاق، جو ملک کے ہندو،مسلمان کے مابین تھا، وہ انگریزوں کی منظّم اور منصوبہ بند سازش سے شیرازہ بکھرنے لگا ہے۔ ایسے میں مولانا آزاد نے اپنا فرض سمجھا کہ ملک کے مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان انگریزوں کی کوششوں سے بڑھ رہی خلیج کو دور کیا جائے اور مسلمانوں کو ان کے مذہب کے حوالے سے حب الوطنی کے جزبے سے سرشار کیا جائے۔ اس کے لئے انھوں نے اپنی بے پناہ علمی،ادبی، صحافتی،لسانی،سیاسی، سماجی اور مذہبی صلاحیتوں کو بروے کار لایا۔ مولانا آزاد کی یہ بھی سوچ تھی کہ ملک کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اتحاد و اتفاق بے حد ضروری ہے۔وہ ملک کے لوگوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کو عالم انسانیت کے لئے بھی بے حد ضروری قرار دیا کرتے تھے۔اس سلسلے میں بحیثیت کانگریس صدر 1923 ء میں اپنے صدارتی خطبہ میں بہت ہی واضح طور پر کہا تھا کہ…..
”آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں میں سے اُترآئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کرے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے۔بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہو جائے تو میں سوراج سے دستبردار ہوجاؤں گا مگر اس سے دسبردار نہ ہوں گا کیونکہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو عالم انسانیت کا نقصان ہوگا۔“
اس خطبہ صدارت کے بعد رام گڑھ میں ہونے والے کانگریس کے 53 ویں اجلاس میں بھی مولانا آزاد کا خطبہ صدارت تاریخی نوعت کا تھا۔ جس کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ اس تاریخی خطبہ میں مولانا آزاد نے ہندو مسلم کے درمیان فرقہ واریت کے زہر کو پھیلانے والوں کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے ہندوستان کی متحدہ قومیت کو ضروری قرار دیا تھا۔ اپنی ان کوششوں کے لئے مولانا آزاد بعض اوقات کئی ہندو مسلم رہنماوں کے تنقید کے نشانہ بھی بنائے گئے۔ لیکن ان کی استقامت میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اوروہ ایسی تنقیدوں سے بے پرواہ ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد و اتفاق کے لئے سرگرم عمل رہے۔محمد علی جناح نے بہت کوشش کی کہ وہ ایسی کوششوں سے دستبرار ہو جائیں اور ان کا ساتھ دیں۔ لیکن مولانا آزاد ایسے تمام مشوروں کو خاطر میں لائے بغیر اپنے مشن میں آگے بڑھتے رہے اور ہمیشہ اس بات پر مصر رہے کہ مذہب کی بنیاد پر ملک کا بٹوارہ کسی بھی لحاظ سے سود مند نہیں ہوگا۔وہ ہمیشہ اپنے اس مؤقف پر قائم رہے۔ جس کے نتیجہ میں اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے محمد علی جناح نے مولانا آزاد کی بہت سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں یہاں تک لکھا تھا کہ ’آپ ایک دکھاوٹی مسلمان ہیں جس کو کانگریس نے صرف اس لئے رکھ چھوڑا ہے کہ وہ یہ ثابت کر سکے کہ کانگریس مسلمانوں کی بھی رہنمائی کرتی ہے۔اگر آپ میں ذرا بھی غیرت ہے تو کانگریس کو چھوڑ دیجئے….۔‘(جناح کا خط بنام آزاد۔بمبئی 12/جولائی 1904ء)
سچ تو یہ ہے خود مولانا کی دلی خواہش تھی کہ محمد علی جناح ان کے ہمنوا بن جائیں اور متحدہ قومیت کے لئے جاری ان کی کوششوں میں ان کا ساتھ دیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دیکھنے والوں نے دیکھا اور شدّت سے احساس جاگا کہ لمحوں نے خطا کی اور صدیوں نے سزا پائی۔
تقسیم ہند کے باعث ملک کے عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے اردو صحافیوں، ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے حسّاس وجود کو بھی متزلزل کردیا۔ ہر طرف انتشار، خلفشار، بدامنی،بے بسی،بے پناہی،ظلم و تشدد، قتل و غارت گری، افراتفری، خوف وہراس اور سراسیمگی کا ماحول تھا۔ مسلمانوں کے لاکھوں گھروں کی تباہی کی کہانیاں اخباروں کے صفحات پر چھائی ہوئی تھیں۔اجڑے ہوئے مسلمانوں کے سامنے اپنے وجود کی بقاء کے لئے ہجرت (پاکستان) کے سوادوسرا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ پاکستان جانے والوں کو ایک طرف جہاں یہ ملال تھا کہ تحریک آزادی کے اوائل اور درمیانی دورمیں جو اتحاد، یکجہتی، دوستی، اخوت اور بھائی چارگی تھی، وہ مسلم لیگ اور کانگریسی رہنماؤں کی کرسی کی ہوس کے نتیجہ میں تحریک آزادی کے آخری اور فیصلہ کن دور میں قائم نہیں رہ سکی اور پوری فضا کو فرقہ واریت کے زہر سے گویا بھردیا گیا۔ دوسری جانب انھیں اس بات کابھی ملال تھاکہ وہ اپنے اس ملک، اس جگہ کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہیں، جہاں ان کی اپنی تہذیب، معاشرت،روایات، تمدن اور ثقافت کی جڑیں گہرائی تک پیوست ہیں۔
لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے، جن کے راستے ان کے آباداجداد کی قبریں، ان کی یادیں، ان کی وراثت روک رہی تھیں۔ بے سروسامانی کا عالم اور وجود کی بقاء۔ سرحد کے اِس پار جہاں ان کی جڑیں پیوست ہیں، یا سرحد کے اُس پار،جہاں اجنبی لوگ، اجنبی تہذیب، اجنبی جگہ۔ تذبذب کے ان جان لیوا لمحات میں مولانا ابوالاکلام آزاد نے اکتوبر۷۴۹۱ء میں دلی کی جامع مسجد کے منبرسے انہیں للکاراور کہا….
”میں نے ہمیشہ کہا اورآج پھر کہتاہوں کہ تذبذب کا راستہ چھوڑ دو‘ شک سے ہاتھ اٹھالو اور بے عملی کو ترک کردو، یہ تین دھار کا انوکھا خنجر لوہے کی اس دودھاری تلوار سے زیادہ کاری ہے، جس کے گھاؤ کی کہانیاں میں نے تمہارے نوجوانوں کی زبانی سنی ہیں۔ یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے۔ اس پر بھی غور کرو۔تمہیں محسوس ہوگا کہ یہ غلط ہے۔ اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں، آخر کہاں جارہے ہو؟ اور کیوں جارہے ہو؟………………آؤ عہد کروکہ یہ ملک ہمارا ہے۔ہم اس کے لئے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے رہیں گے۔“
(”آزاد کی تقریریں“ مرتبہ: انورعارف،صفحہ170تا173)
مولانا آزاد کی اس تاریخی تقریر نے تذبذب، خوف وہراس، بے یقینی اور مایوسیوں کی دیواریں گرانے میں اہم رول ادا کیا اور پھر مولانا آزاد کی روایتی دوراندیشی نے یہ بھی پیشینگوئی کی کہ:
”آپ مادروطن چھوڑ کر جارہے ہیں،آپ نے سوچا اس کا انجام کیاہوگا؟۔ آپ کے اس طرح فرار ہوتے رہنے سے ہندوستان میں بسنے والے مسلمان کمزور ہوجائیں گے اور ایک وقت ایسا بھی آسکتاہے جب پاکستان کے علاقائی باشندے اپنی اپنی جداگانہ حیثیتوں کا دعویٰ لے کراٹھ کھڑے ہوں، بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچ اور پٹھان خود کو مستقل قومیں قرار دینے لگیں۔
کیا اس وقت آپ کی پوزیشن پاکستان میں بن بلائے مہمان کی طرح نازک اور بے کسانہ نہیں رہ جائے گی؟ ہندو آپ کا مذہبی مخالف تو ہوسکتا ہے، قومی اور وطنی مخالف نہیں۔ آپ اس صورت حال سے نمٹ سکتے ہیں۔ مگر پاکستان میں آپ کو کسی بھی قومی اور وطنی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑ جائے گا، جس کے آگے آپ بے بس ہوجائیں گے“۔
(مولانا ابوالکلام آزاد نمبر“۔ ایوان اردو (دہلی) صفحہ آخر)
مولانا آزادنے گویا ہجرت (پاکستان) پرآمادہ بہت سارے لوگوں کی عقل وفراست کوروشنی بخش دی تھی۔ بہرحال بدلتے وقت اور حالات کے آگے سپرڈالنے کی بجائے اپنے حق اور اپنے وجود کی بقاء کے لئے ان لوگوں نے ہمت اور جرأت کے مضبوط ستون کو تھام لیا۔لیکن دو حصوں میں منقسم ہو کر ان کی بے پناہ طاقت کمزور پڑ گئی، جس کے باعث مسلمانان ہند دن بدن بے وزن اور بے وقعت ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی اپنی شناخت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ کاش کہ مسلم رہنما مولانا آزاد کی دور اندیشی اور دور بینی کی اہمیت کو سمجھ پاتے۔ افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔
٭٭٭٭٭