اذان کا دوسرا کلمہ،
اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (6)
مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536
اذان کا دوسرا کلمہ، اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی پانچویں (5) قسط کے لیے کلک کریں
در اصل 1857 ہی میں انگریز حکومت نے یہ سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوں کے جہاد کے مقابلہ میں وہ ہندوستان میں زیادہ عرصہ تک حکومت نہیں کر سکتے، تو انگریزحکومت نے آئندہ کے لیے چار مقاصد طئے کئے تھے، اول یہ کہ انگریزوں کے خلاف مسلح لڑائی بند ہو،
دوسرے یہ کہ انگریزوں کو ہندوستان سے عزت و آزادی کے ساتھ جانے کا موقع ملے، تیسرے کہ ہمارے جانے کے بعد ہندوستان کا نظام حکمرانی مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ آئے بلکہ ہندوؤں کے ہاتھ میں آئے، مطلب یہ کہ مسلمانوں کو سیاسی، تعلیمی، دینی لحاظ سے کمزور کیا جائے، چوتھے یہ کہ ہمارے جانے کے بعد ہندوستان میں انگریزی تہذیب وتمدن نہ صرف باقی رہے، بلکہ ہندوستانیوں کے ہاتھوں ترقی کرے، چنانچہ انگریز حکومت کو بڑی آسانی کے ساتھ مذکورہ چار مقاصد حاصل ہوگئے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ۷۵۸۱ء کے فوراً بعدکچھ علماء کی طرف سے انگریز حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو حرام قرار دیا گیا، اور انگریز حکومت کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیا، اور ۷۴۹۱ء میں آزادی ہند کے بعد انگریز کے بڑے بڑے عہد یدار جب یہاں سے گئے تو انہیں پھول ہار پہنا کر روانہ کیا گیا، اور جب یہاں کی حکومت کا نظام تشکیل دیا گیا تو اس میں سب سے کمزور اور بے بس قوم مسلمان ہی تھی، اور جہاں تک انگریزی تہذیب و تمدن کی حفاظت و ترقی کی با ت ہے تو وہ ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش میں پورے طور پر محفوظ ہے اور ترقی کی طرف رواں دواں ہے، اور یہ بات دعوے اور دلیل کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان تینوں ہی ممالک میں انگریزی تہذیب خود انگریز حکمرانی کے دور میں بھی اتنی محفوظ اور ترقی پر نہیں تھی، جتنی کہ اب محفوظ اور ترقی پر ہے، انگریز حکومت نے ضمناً ایک مقصد اور بھی طئے کیا تھا،وہ یہ کہ مسلمانوں پر علماء کرام کا مذہبی و سیاسی لحاظ سے جو اثر ہے اس کو ختم کیا جائے، چنانچہ ۶۰۹۱ء میں مسلم لیگ قائم کرکے اور اس کو ایک تحریکی شکل دیکر اس نے یہ مقصد حاصل کر لیا، چنانچہ برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ ۶۰۹۱ء تک برصغیر کے مسلمانوں پر علماء کرام کا جو اثر تھا، وہ بہت حد تک ختم ہو گیا، اس کے بعد خلافت تحریک اور جمعیۃ العلماء نے ضرور کچھ حد تک سیاست میں علماء کا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن ان دونوں تحریکات سے بنیاد ی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے سیاست میں کانگریس کی حمایت وتائید کرڈالی، جس کی بناء پر تحریک خلافت تو فوراً ختم ہوگئی، صرف جمعیۃ العلماء باقی رہی، لیکن غلطی بہر حال غلطی ہوتی ہے، آخرت کے لحاظ سے معاف ہو بھی جائے تو دنیا میں اس کا غلط نتیجہ نکل کر رہتا ہے، چنانچہ اس کے بعد جمعیۃ العلماء کی حیثیت میدان سیاست میں ایک طرح سے کانگریس کے ایک سیاسی ونگ کے طور پر ہو گئی، اور پھر یہیں سے ہندوستانی مسلمانوں کا سیاسی زوال شروع ہوتا ہے، اور پاکستانی مسلمانوں کا سیاسی زوال بھی میدان سیاست میں مسلم لیگ کی تائید و حمایت ہی سے شروع ہوتا ہے،اور اب یہ سیاسی زوال اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے، لیکن افسوس ہے کہ ابھی بھی اس کا احساس نہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہے اور نہ پاکستانی مسلمانوں کو،اور نہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کو، جب کہ یہ سیاسی غلطی کا غلط انجام ایک صدی سے زیادہ، وہ لاکھوں مسلمانوں کی ہلاکت کی صورت میں دیکھتے آرہے ہیں، ہوسکتا ہے کسی قاری کے ذہن میں یہ بات آرہی ہو کہ میں اذان کے دوسرے کلمہ اَشْھَدُ اِنْ لٓا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی تشریح میں بہت آگے نکل گیا ہوں، اور اپنے موضوع سے ہٹ گیا ہوں، لیکن میں ہر قاری کو قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ میں اذان کے دوسرے کلمہ کی تشریح میں نہ آگے نکلا ہوں،اور نہ موضوع سے ہٹا ہوں، کیونکہ کلمہ کے پہلے جز میں اللہ کے علاوہ ہر معبود کا انکار ہے، چاہے وہ معبود میدان عبادت میں ہو یا میدان سیاست میں اور چونکہ میں یہ کلمہ کی تشریح ایک ہندوستانی فرد کی حیثیت سے کر رہا ہوں اس لیے یہ میری دینی ذمہ داری ہے کہ میں ہندوستانی سیاست میں پھیلے ہوئے اللہ کے علاوہ معبود ین سے خود بھی واقف ہوں اور دوسروں کو بھی واقف کراؤں، اور خود بھی بچوں اور دوسروں کو بھی بچاؤں،لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں اس مضمون میں اَشْھَدُ اِنْ لٓا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی مکمل تشریح نہیں کر رہا ہوں، بلکہ لٓا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے چند تقاضے پیش کر رہا ہوں، اور جہاں تک کلمہ لٓا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی مکمل تشریح کی بات ہے تو اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن کے نزول کے ذریعہ اس کی تشریح کی ہے،اور حضرت محمدﷺ نے تقریباً اپنی دس ہزار احادیث اور اپنی تئیس (23) سالہ نبوی زندگی سے اس کی مکمل عملی تشریح کی ہے، اس لیے جو شخص کلمہ لٓا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی مکمل تشریح پڑھنا اور سننا چاہتا ہے اسے ضرور پورے قرآن مجید اور نبیﷺ کی مکمل احادیث اور آپؐ کی مکمل تئیس (23) سالہ نبوی زندگی کو پڑھنا یا سننا چاہیے۔
غیر اسلامی سیاست کے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ کسی غیراسلامی حکمراں کی میدان سیاست میں محکومیت قبول کرلینا ایک طرح سے اس کی بندگی قبول کر لینا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ کی دعوت کے جواب میں فرعون اور اس کی حکومت کے سرداروں نے بنی اسرائیل کے متعلق جو خیال ظاہر کیا اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سیاسی لحاظ سے کسی کی محکومیت قبول کر لینا، اس کی عبادت کے معنی میں آتا ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے۔ (ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسیٰ وَاَخَاہُ ھٰرُوْنَ بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطَانِ مُّبِینِْoََ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۂِ فَا سْتَکْبَرُ وْا وَ کَانُواْ قوماً
عَالِیْنoَ فَقَالُوْآ اَنُوْمِنُ لِبَشَرَ یْنَ مِثْلِنَا وَ قَوْمُھُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ (سورۂ المومنون آیت ۵۴تا۷۴)ترجمہ: (پھر ہم نے بھیجا موسیٰ ؑ اور ان کے بھائی ہاروں ؑ کو ہماری نشانیوں اور کھلی ہوئی دلیل کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف پس انہوں نے تکبر کیا اور تھے ہی وہ بڑا سمجھنے والی قوم سے، پس انہوں نے کہا کیا ہم ہمارے ہی طرح دو انسانوں پر ایمان لے آئے جبکہ ان دونوں کی قوم (یعنی بنی اسرائیل) ہماری عبادت گزار ہے)
ظاہر ہے قوم بنی اسرائیل فرعون اور اس کے سرداروں کے لیے نماز نہیں پڑھتی تھی،بلکہ صرف سیاسی لحاظ سے فرعون اور اس کی حکومت کی محکوم اور غلام بنی ہوئی تھی، تو اسی طرز عمل کو فرعون اور اس کی حکومت کی عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے، اس لیے مذکورہ آیات سے یہ بات واضح ہوئی کہ سیاسی لحاظ سے کسی غیر اسلامی نظریہ اور حکومت کی محکومیت کو قبول کرلینا،یہ کھلے طور پر غیر اللہ کی عبادت ہے، جو اذان کے دوسرے کلمہ اور اسلام کے پہلے کلمہ ٰلاَ اِلٰہ اِلَّا اللہُ کی صریح طور پر خلاف ورزی ہے۔
دشمنان اسلام کی خوشنودی حاصل کرنے اور انہیں بے جا اطمینان دلانے کے لئے چند نام نہاد مسلمانوں نے اسلام کی جن باتوں کی غلط تاویلات کی ہیں ان میں اسلامی جہاد و حکومت بھی ہے بلکہ ان کی غلط تاویلات کا اصل ہدف اسلامی جہاد و حکومت ہی رہے ہیں، کیونکہ اسلامی جہاد و حکومت ہی دشمنان اسلام کی راہ کا سب سے بڑا روڑ ار ہے ہیں، اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دشمنان اسلام نے بڑے زور و شور کے ساتھ ایک سازش کے تحت اسلام پر یہ بے جا الزام لگایا کہ اسلام تلوار اور حکومت کے زور سے پھیلا ہے، انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ جب ہم یہ الزام زور و شور سے پھیلائیں گے تو مسلمانوں میں سے ضرور ایک گروہ رد عمل کے طور پر سامنے آئیگا جو اسلامی جہاد و حکومت کا انکار کرے گا، یا اُس کی غلط تاویل کرے گا، کیونکہ انسانی تاریخ کا مطالعہ رکھنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ جو چیز رد عمل کے طور پر وجود میں آتی ہے، اس میں اعتدال برقرار نہیں رہتا بلکہ وہ دوسرے کنارے پر چلی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قوموں کے بگاڑ کا اصل سبب یا تو افراط رہا ہے یا تفریط رہا ہے اور دین اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ افراط و تفریط سے پاک دین ہے۔ چنانچہ دشمنان اسلام کے اس بے جا الزام کا جواب دینے کے لئے رد عمل کے طور پر کچھ نام نہاد علماء نے اسلامی جہا دو حکومت ہی کا انکار کر دیا، اور کچھ نام نہاد علماء نے اسلامی جہاد و حکومت کی غلط تاویلیں کرڈالیں، تاکہ دشمنان اسلام کی خوشنودی حاصل ہو جائے، اور وہ مطمئن ہو جائے، جب کہ نہ اسلامی جہاد و حکومت کے انکار کی ضرورت تھی، اور نہ یہ بات تسلیم کرنے کی کوئی ضرورت تھی کہ اسلام تلوار اور حکومت کے زور پر پھیلا ہے،بلکہ اسلامی جہاد و حکومت کی صحیح و ضاحت پیش کر نے کی ضرورت تھی، اور اس بے جا الزام کی حقیقت واضح کرنے کی ضرورت تھی، وہ یہ کہ ہر دور میں اسلام اپنی حقانیت اور دعوت کے سبب پھیلا ہے، اور اسلام کے پھیلانے میں کبھی بھی تلوار اور حکومت کی طاقت استعمال نہیں کی گئی،اور ویسے بھی تلوار اور حکومت کے زور پر دل کی کیفیت نہیں بدلی جا سکتی، جب کہ ایمان کے صحیح ہونے کے لئے دل کی تصدیق بھی ضروری ہے۔ البتہ دین اسلام کا ایک مقصد دنیا سے ظلم و ستم اور فتنہ و فساد کے خاتمہ بھی ہے اور اس کی جگہ اللہ کے دین کے مطابق عدل و انصاف قائم کرنا ہے،اس لئے اُس کے لئے اسلام نے تلوار اور حکومت کے طاقت کے استعمال کی اجازت بھی دی ہے اور حکم بھی دیا ہے، لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں، ان میں سے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جس قوم اور فرد کے خلاف ہتھیاراٹھانے کی اجازت اور حکم ہے، اس تک اہل ایمان نے اسلام کی دعوت پہنچا دی ہو، اور قوم نے نہ صرف یہ کہ اسلام کے قبول کرنے سے انکار آیا ہو، بلکہ اسلامی حکومت کی ماتحتی میں زندگی گزارنے بھی انکار کیا ہو، اور دوسری شرط یہ کہ اہل ایمان کے پاس مخالف قوم کی تعداد سے کم از کم دس فیصد افرادی تعداد ہو، اور اہل ایمان کی یہ تعداد ایک ہی دینی امیر کے حکم کے تحت ہو۔ اس تعداد کا ثبوت قرآن مجید کے سورۂ انفال کی ایک آیت سے ملتا ہے۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔
(یَاَیُّھَا الْنَّبیُ حَرِّضِْ الْمُوْمِنِینَ عَلیَ الْقِتَالِْ انْ یّکُنْ مِنّکُمْ عِشرُوْنَ صٰبُروْنَ یَغْلِبُوْا مِائتَیْنِ وَ اِنْ یّکُنْ مِّنْکُمْ مَا ءَہُ یَغَلِبوُا اَلْفًامِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمُ لَّا یَفْقَھُوْنَ)(سورۂ انفال آیت 65)
ترجمہ (اے نبیﷺ مومنین کو جنگ پر ابھارئیے اگر تم میں بیس (20) صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو (200) پر غالب آئیں گے، اور اگر تم میں ایک سو (100) ہوں گے تو وہ ایک ہزار پر غالب آئیں گے کافروں میں سے کیونکہ وہ نہیں سمجھنے والی قوم ہے۔)
مذکورہ آیت مومنین کے کافروں پر غلبہ کے متعلق کم سے کم افرادی قوت کے سلسلہ میں ایک اصولی آیت ہے، اس سے کم تعداد کا پیمانہ بھی اگر غلبہ کے لئے کافی ہوتا تو اللہ اسے ضرور بیان کرتا، مطلب یہ کہ جس کا فر قوم پر مومنین کو غلبہ حاصل کرنا ہے، اس کا فر قوم کی تعداد سے مومنین کی تعداد کا کم از کم دس فیصد ہونا ضروری ہے، اگر کافروں کی تعداد ایک ہزار ہے تو مومنین کی تعداد کا ایک سو (۰۰۱) ہونا ضروری ہے، اور اگر کافروں کی تعداد ایک کروڑ ہے تو مومنین کا دس لاکھ ہونا ضروری ہے، لیکن یہ تعداد ایک ہی دینی امیر کے تحت ہو اور ساتھ ہی صبر کی صفت سے متصف ہو،ایسالگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تعداد کے متعلق یہ اصولی پیمانہ انسانی نظم کی ضرورت کے تقاضہ کو سامنے رکھ کر بیان فرمایا ہے،وہ یہ کہ کسی بھی انسانی گروہ کے نظم کو صحیح طور پر چلانے کے لئے اس انسانی گروہ کے کم از کم دس فیصد افراد کا ایک نظم سے وابستہ ہونا ضروری ہے، اور اسی اصول کے طور پر دنیا کی حکومتوں کا نظم چل رہا ہے، مطلب یہ کہ اگر کسی ملک کی ایک کروڑ انسانی آبادی ہے تو دس لاکھ ضرور حکومت کے ملازمین ہوں گے جو ایک ہی سربراہ کے حکم سے جڑے ہوں گے، یہاں تک کہ جو دینی جماعتیں معاشرہ میں کام کررہی ہیں، ان جماعتوں کی بھی کم از کم دس فیصد تعداد جماعت کے نظم کو درست کرنے اور درست رکھنے پر مامور ہوتی ہے، یعنی اگر کسی جماعت کے دس ہزار ارکان ہیں تو ایک ہزار ارکان اس جماعت کے نظم کو چلانے پر مامور ہوتے ہیں، اگر اس سے کم افراد جماعت کے نظم کو چلانے پر مامور ہیں تو جماعت کا نظم صحیح نہیں چل سکتا۔ ویسے بھی اسلام میں جنگ برائے جنگ نہیں ہے، بلکہ جنگ برائے اسلامی حکومت کا قیام ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے مومنین کے غلبہ کے لئے مخالف قوم کی بہ نسبت کم از کم دس فیصدافرادی قوت ضروری قرار دی ہے، تو یہ عین عدل و نظم کا تقاضہ ہے، اور اسی افراد ی پیمانہ سے گذشتہ انبیاء اور ان کی مخالف قوموں کے انجام کو سمجھا جا سکتا ہے، چنانچہ حضرت نوحؑ نے جب قوم پر دعوت کی حجت تمام کردی اور قوم نے دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ اور ان پر ایمان لانے والوں کو قوم سے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ کافر قوم کو آسمانی عذاب کے ذریعہ ہلاک کر دیا، اور نوحؑ اور اہل ایمان کو کشتی میں سوار کر اکر عذاب سے بچا لیا، اس سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ نوح ؑ اور ان پر ایمان لانے والے کافروں سے دس فیصد سے بھی کم تھے، اسلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ اور ان کے ساتھیوں کو کافر قوم سے لڑنے کا حکم نہیں دیا بلکہ بغیر لڑے ہوئے کافر قوم کو ہلاک کر دیا، اور اہل ایمان کو بچا لیا۔ قرآن میں جن انبیاء اور جن قوموں کا تذکرہ آیا ہے ان میں سے زیادہ تر قوموں کو انبیاء کی دعوت کے انکار کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذریعہ ہلاک کر دیا، اور انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچالیا، چاہے صالحؑ کی قوم ثمود ہو،یا ہودؑ کی قوم عاد ہو، یا شعیبؑ کی قوم مدین ہو، یا فرعون اور اس کی قوم ہو، لیکن محمدﷺ کی دعوت کو جھٹلانے والی قوم کو کسی آسمانی عذاب کے ذریعہ ہلاک نہیں کیا گیا، بلکہ محمدﷺ اور ان پر ایمان لانے والوں کو ہجرت کے بعد حکم ہوا کہ وہ کافروں سے جنگ کرے اور یہ جنگ ہی در اصل ان کے لئے عذاب الٰہی تھی، اس فرق سے بھی اللہ کا یہی اصول سامنے آتا ہے کہ چونکہ محمدﷺ کی دعوت کو قبول کرنے والے اہل ایمان کافروں سے دس فیصد سے زیادہ تعداد میں تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے مکہ کے کافروں کو بغیر جنگ کے ہلاک نہیں کیا بلکہ نبیﷺ اور اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ کافروں سے جنگ کریں، چنانچہ جنگ بدر جو سب سے پہلی جنگ تھی اس میں اہل ایمان کا تناسب کافروں کی بہ نسبت تیتیس (۳۳) فیصد کے قریب تھا یعنی ایک ہزار (1000)کافروں کے مقابلہ میں تین سو تیرہ(۳۱۳) اہل ایمان تھے، جب کہ اہل ایمان اگر ایک سو بھی ہوتے تو اللہ تعالیٰ انہیں کافروں سے لڑنے کا حکم دیتا اور غلبہ بھی عطا کرتا۔واضح رہے کہ مذکورہ آیت میں جن دس فیصد مومنین کی تعدادکے لئے کافروں پر غلبہ کی بشارت دی گئی ہے وہ مطلق ایمان والے نہیں ہیں بلکہ وہ ایمان والے ہیں جو ایک ہی امیر کی امارت سے جڑے ہوئے ہوں، اور ساتھ ہی صبر کی صفت سے بھی جڑے ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی ملک کی کل آبادی کی دس فیصد تعداد سے بھی مسلمان زیادہ ہوں، لیکن ایک اسلامی امیر سے وابستہ نہ ہوں، اور نہ ہی صبر کی صفت سے متصف ہوں، تو اس ملک میں اسلام سیاسی لحاظ سے غالب نہیں آسکتا، بلکہ کسی ملک کی سو فیصد آبادی بھی مسلمان ہو، لیکن ایک دینی امیر سے وابستہ نہ ہو، اور نہ ہی صبر کی صفت سے متصف ہو، تو اس ملک میں بھی اسلام سیاسی لحاظ سے غالب نہیں آسکتا، چنانچہ آج خودسو فیصد مسلم آبادی والے ممالک میں بھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں کی دس فیصد تعداد بھی ایک دینی امیر سے وابستہ نہیں ہے اور نہ ہی دینی صبر سے وابستہ ہے۔
فلسطین اور افغانستان میں، حماس اور طالبان تحریک کو اسلامی حکومت کے قیام کے سلسلہ میں جو تھوڑی کامیابی ملی ہے،اس سے ایسا لگتا ہے کہ شاید فلسطین کے کم از کم دس فیصد مسلمان حماس تحریک کی امارت سے وابستہ ہیں اور ساتھ ہی ان میں صبر کی صفت بھی موجود ہے، اسی طرح افغانستان کے کم از کم دس فیصد مسلمان، طالبان تحریک کی امارت سے وابستہ ہیں،اور ساتھ ہی ان میں دینی صبر بھی ہے۔
اخوان المسلمون کو مصر میں اسلامی حکومت کے قیام کے سلسلہ میں اس لئے کامیابی نہیں ملی کہ،مصر کی دس فیصد تعداد اخوان المسلمون کی امارت سے وابستہ نہیں تھی، اگرچہ مصر کی پچاس فیصد سے زیادہ تعداد نے اخوان المسلمون کوووٹ دیا تھا، لیکن زمین و آسمان کا فرق ہے کسی جماعت کو ووٹ دینے میں اور کسی جماعت کی امارت سے وابستہ ہونے میں، کسی جماعت کو ووٹ دینے کے باوجود بے شمار لوگ اس جماعت کی امارت سے آزاد رہتے ہیں، صرف وہی لوگ اس جماعت کی امارت سے وابستہ ہوتے ہیں جو اس کی رکنیت میں داخل ہوتے ہیں۔
اسی بنیادی فرق کو نہیں سمجھنے کی وجہ سے جماعت اسلامی پاکستان، اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش،سے سیاست کے سلسلہ میں غلطی ہوئی ہے، مطلب یہ کہ ان دونوں جماعتوں نے ملک کی دس فیصد تعداد کو اپنی رکنیت میں داخل کئے بغیر سیاست میں قدم رکھ دیا، اور ان ہی جماعتوں کی غلطی کے اثرات، جماعت اسلامی ہند پر بھی پڑرہے تھے، لیکن الحمد اللہ جماعت اسلامی ہند مجموعی لحاظ سے اب تک، اس سیاسی غلطی سے محفوظ ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ آئندہ بھی جماعت اسلامی ہند کو، اس سیاسی غلطی سے محفوظ رکھے،
اور اللہ تعالیٰ سے راقم کی یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ،اخوان المسلمون، اور جماعت اسلامی پاکستان، اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش،کو بھی اپنی سیاسی غلطی کو سمجھنے،اور اس سے رجوع ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
2004 ء میں حماس سے بھی یہی سیاسی غلطی ہوئی تھی، اور اس نے بھی فلسطین کے انتخابات میں حصہ لیا تھا، اور اس میں کامیاب بھی ہوئی تھی، لیکن غلطی،بہر حال غلطی ہوتی ہے، اس کا غلط نتیجہ نکل کر ہی رہتا ہے، چنانچہ باطل حکمرانوں نے حماس کو فوراً اقتدار سے معذول کر دیا، یہ اور بات ہے کہ حماس نے اسلامی جہاد کا راستہ اختیار کرکے صرف غزا میں اپنا اقتدار بحال رکھا، لیکن حماس کی اس سیاسی غلطی کی وجہ سے فلسطین دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، چنانچہ فلسطین کے ایک حصہ پر اسرائیل نواز پارٹی،الفتح کا اقتدار ہے،جس کے سربراہ محمود عباس ہے۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے،کہ اگر حماس ۴۰۰۲ء کے فلسطین کے انتخابات میں حصہ نہیں لیتی، اور اس کا بائیکاٹ کرتی تو اِس وقت پورے فلسطین پر اُس کا اقتدار ہوتا۔