نام کتاب : مضامین ڈاکٹر شیلا راج
مرتب : ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مبصر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل اردو ادب کے ابھرتے محقق مبصر و نقاد ہیں۔انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے پروفیسر فاطمہ پروین کے زیر نگرانی حیدرآباد دکن کی نامور مورخہ اور کائستھ خاندان کی چشم و چراغ ڈاکٹر شیلا راج کی علمی و ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
اردو اقامتی اسکول حیدرآباد میں مدرس ہیں۔ اپنے ادبی ذوق کی تکمیل کے لیے اکثر اردو ادیبوں اور شعراء کی کتابوں پر تبصرے لکھ کر اردو روزناموں اور رسائل میں اہتمام سے شائع کراتے ہیں۔ ان میں تنظیمی صلاحتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اردو کے سمینار منعقد کرانا اور دیگر تنظیموں کو قومی اردو کونسل کی اسکیمات سے استفادہ کرانے اور سمیناروں کے انعقاد کے لیے مکمل رہبری کرتے ہیں۔ اردو کتابوں کی اشاعت کا انہیں اچھا تجربہ ہے۔ اور مجموعی طور پر وہ حیدرآباد دکن سے اردو کے روشن مستقبل کے نقیب ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل کی اردو تحقیق و تنقید اور تبصرہ نگاری میں اب تک آٹھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں ادبی نگینے‘ ڈاکٹر شیلار اج کی تاریخی و ادبی خدمات‘ سماجی علوم کی اہمیت مسائل اور امکانات‘میزان نو‘ مولوی محمد عبدالغفار حیات و خدمات‘ دیار ادب‘ رونق ادب اور فکرنو شامل ہیں زیر تبصرہ کتاب مضامین ڈاکٹر شیلاراج ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل کی نویں کتاب ہے۔یہ ایک مرتبہ کتاب ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹر شیلا راج کے مضامین کو ترتیب دیا ہے۔ چونکہ مرتب نے ڈاکٹر شیلا راج پر تحقیقی کام کیا تھا ان کی نظر سے شیلا راج کی ساری تصانیف اور مضامین گزرے تھے۔ اپنے تحقیقی کام کو وسعت دیتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر شیلا راج کے مضامین کو مرتب کرکے شائع کرانے کا فیصلہ کیا۔یہ کتاب 2019 میں اردو اکیڈمی تلنگانہ اسٹیٹ کہ جزوی مالی تعاون سے شائع ہوئی۔اردو کی قدیم اور اہم کتابوں کو مرتب کرنا یا کسی ادیب کے مضامین یا شعری مجموعے کو اکھٹا کرنا بھی ایک اہم تالیفی‘تحقیقی و تنقیدی کام ہے جس سے ادب کے ذخیرے میں اضافہ ہوتا ہے۔حیدرآباد کی چار سو سالہ قدیم تاریخ میں یہاں کئی ایسی شخصیات گزری ہیں جن کے ادبی کارناموں کو منظر عام پر لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈاکٹر شیلا راج حیدرآباد کے نظام دور حکومت میں گنگا جمنی تہذیب کی علمبردار تھیں۔ ان کا کائستھ گھرانہ نظام دور حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہا۔ڈاکٹر شیلا راج اور ان کے شوہر نارائن راج نے انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی کافی کتابیں اور مضامین لکھے ہیں۔ ڈاکٹر شیلا راج نے اپنے مضامین میں سلاطین دکن خاص طور سے آصف سابع میر عثمان علی خان کی رواداری اور ان کے دور حکومت میں حیدرآباد میں زندگی کے تمام شعبوں میں ہونے والی ترقی کو اجاگر کیا ہے۔ اس طرح ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل نے ڈاکٹر شیلاراج کے مضامین کو ایک بسیط مقدمے کے ساتھ شائع کرتے ہوئے حیدرآبادکی قدیم تہذیب وتمدن کو اردو کی نئی نسل تک پہونچانے کا اہم ادبی فریضہ انجام دیا ہے۔ مرتبہ کتاب مضامین شیلا راج کا پیش لفظ حیدرآباد دکن کی نامور مزاح نگار اور جامعہ عثمانیہ کی استاد ڈاکٹر حبیب ضیاء نے لکھا۔ وہ پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ”ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل نے ڈاکٹر شیلا راج کے لکھے تمام مضامین کا وسیع النظری سے مطالعہ کرکے ان کا تنقیدی جائزہ لیا ہے جس سے ان کے ادبی ذوق‘سچی لگن اور کاوشوں کا اندازہ ہوتا ہے“۔کتاب میں آغاز میں ایک تعارفی مضمون سید رفیع الدین قادری صاحب نے لکھا جس میں انہوں نے ڈاکٹر شیلا راج کا تعارف اور ان کی تصانیف پر اظہار خیال کیا ہے۔ کتاب شاہان آصفیہ کی رواداری اور ہندو مسلم روایات کے ضمن میں انہوں نے لکھا کہ”اس کتاب میں محبوب علی خاں آصف جاہ سادس کی رواداریوں اور وسیع النظری‘روشن خیالی‘دور اندیشی‘محبت و اخوت‘ہندو مسلم اتحاد کو نمایاں کرنے والے مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب کی پورے ملک میں اتنی مانگ ہوئی کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی جانب سے اس کو ہندوستان کی دوسری زبانوں میں شائع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا اور مسلسل اصرار پرآپ کے شوہر ڈاکٹر نارائن راج جو اردو کے سچے بہی خواہ اور شعر و سخن کے دلدادہ اور اپنی شریک حیات سے سچی محبت کرنے والے شوہر‘ہر قدم پر آپ کی رہنمائی‘ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں انہوں نے 2010ء میں اپنے ذاتی صرفے سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ ترجمہ سے اس کتاب کو انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے شائع کروایا“۔ڈاکٹر نارائن راج نے تاثرات کے عنوان سے ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل کے اس تالیفی کام کی ستائش کی اور لکھا کہ ”ڈاکٹر عزیز سہیل نے میری (اہلیہ) ڈاکٹر شیلا راج کے تحقیقی مضامین جو تاریخی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں مرتب کرنے کی مجھ سے اجازت لی۔میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے حیدرآباد دکن بالخصوص آصف جاہی عہد کا احاطہ کرنے والے ان اہمیت کے حامل تحقیقی مضامین کو دوبارہ اردو کے قارئین کے لیے پیش کرنے کی سعی کی تاکہ لوگ حیدرآباد کی تہذیب تمدن‘قومی یکجہتی اور رواداری کو قائم رکھتے ہوئے ریاست میں امن و آمان قائم رکھیں“۔کسی بھی مرتبہ کتاب میں مولف کی جانب سے تحریر کردہ مقدمہ کتاب کی جان ہوتا ہے۔ جس میں کتاب کو مرتب کرنے کی وجوہات اور اگر شخصیت ہو تو اس کے حالات زندگی دور کے حالات اور اس کے فکر و فن اور کتاب میں شامل مواد کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل جو اردو تحقیق و تنقید کی دنیا میں اپنی شناخت بنارہے ہیں انہوں نے مقدمہ نگاری کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے زیر تبصرہ مرتبہ کتاب میں ایک طویل مقدمہ لکھا جس میں ڈاکٹر شیلا راج کے مکمل حالات زندگی اوران کے شامل کتاب مضامین کا تعارف شامل ہے۔کتاب میں شامل مضامین کے انتخاب اور ان مضامین کی نوعیت کے بارے میں ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل لکھتے ہیں کہ”ان مجموعہ ہاے مضامین کے عنوانات پر غور کرنے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شیلا راج نہ صرف اردو زبان و ادب پر قدرت رکھتی ہیں بلکہ تاریخ اور قومی یکجہتی‘بھائی چارہ اور رواداری پر ان کی گہری نظر ہے۔اس کے علاوہ حیدرآبادی تہذیب و تمدن اور آصف جاہی عہد کے متعلق بھی ان کی متعدد تحریرں شائع ہوچکی ہیں۔ انہوں نے آصف جاہی حکمرانوں اور ان کی رواداری پر مضامین لکھے ہیں جن کے مطالعے سے ہمیں ان کے اس موضوع سے دلچسپی اور تحقیق کا اندازہ ہوتا ہے۔قومی یکجہتی اور امن و اتحاد آصف جاہی عہد کا خاص وصف تھا جس کی بدولت حیدرآباد دکن پورے ہندوستان میں اپنی منفرد پہچان اور شہرت رکھتا تھا“۔
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل نے دوران ترتیب اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔حصہ اول کا عنوان شخصیات رکھا ہے جس کے تحت ڈاکٹر شیلا راج کے شخصیات پر تحریر کردہ مضامین مرزا غالب‘ جگر مرادآبادی‘ نواب سر وقار الامرا بہادر ایک خوش سلیقہ شخصیت‘ نواب عماد الملک‘ راجہ شیو راج دھرم ونت بہادر حیدرآباد کی ایک مایہ ناز شخصیت اورڈاکٹر کورین کی ناقابل فراموش خدمات شامل ہیں۔حصہ دوم میں تہذیب و ثقافت کے تحت انہوں نے ڈاکٹر شیلا راج کے جو مضامین منتخب کیے ان میں حیدرآباد کی تہذیب‘ سابق حیدرآباد ہندو مسلم روایات کا امین حصہ اول تا حصہ سوم‘مذہبی رواداری اور دور آصف جاہ سادس‘ حیدرآباد کا پائیگاہ خاندان حصہ اول‘ تاریخ خاندان پائیگاہ آسمان جاہی حصہ دوم‘ دہلی میں ملکہ معظمہ کا دربار‘ زیور ازل تا ابد سنگھار‘ حیدرآباد میں گزشتہ تین سال میں بارش کی دعائیں جیسے مضامین شامل ہیں۔حصہ سوم کا عنوان تاریخی عمارات ہے جس کے تحت تین مضامین شامل کیے گئے ہیں ان میں پرانی حویلی تین فرماں رواؤں کا مسکن‘ کنگ کوٹھی ایک تاریخ ایک تہذیب ایک دور‘ قصر فلک نما امرائے پائیگاہ کی خوش سلیقگی اور حسن و ذوق کا شاہکار ہے چوتھے اور آخر ی حصے میں متفرق کے تحت بہادر یار جنگ نمبر ہفت روزہ تاریخ پربھنی اور دودھ میں سیاست شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل نے کتاب کو مختلف گوشوں میں تقسیم کرتے ہوئے ڈاکٹر شیلا راج کے مضامین کی موضوعاتی طور پر تقسیم کیا ہے۔ انہوں نے کتاب کے مقدمے میں ڈاکٹر شیلا راج کے مضامین کا بھر پور تعارف پیش کیا ہے اور ان پر تنقیدی جائزہ بھی لیا۔ جگر کے تعلق سے لکھے گئے مضمون میں ڈاکٹر شیلا راج کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے مولف کتاب لکھتے ہیں ”ڈاکٹر شیلا راج ارد و ادب کی ممتاز ادیبہ تھیں انہوں نے شعرو ادب کا گہرا مطالعہ کیاتھا وہ شاعری کے مختلف رویوں اور رجحانات سے بھی واقف تھیں۔انہوں نے اپنے اس مضمون میں جگر مراد آبادی کے فن اور شاعری پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ان کی غزلوں کے محاسن و معائب بھی بیان کئے“۔ڈاکٹر شیلا راج کے دیگر مضامین پر بھی مولف کتاب نے اعتدال پسند تنقید کی ہے۔ ان کے اسلوب کے بارے میں مقدے کے آخر میں ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل لکھتے ہیں ”ان مضامین کی زبان سادہ اور رواں ہے اور ان میں واقعات کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ حیدرآباد کی تہذیب و تاریخ کے حوالے سے یہ مضامین اہمیت کے حامل ہیں۔ دکن کی نامور مورخہ ڈاکٹر شیلا راج کے اردو زبان میں لکھے گئے21تاریخی‘تہذیبی‘سماجی اور ادبی موضوعات کے مضامین کے انتخاب پر مبنی یہ گلدستہ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل کی تحقیقی لگن کو اجاگر کرتا ہے ایک ایسے دور میں جب کہ وقت کے حکمران اور حکومتیں ماضی کی عظمتوں کو مٹانے کے ناپاک عزائم کے ساتھ برسرکار ہیں۔ حیدرآبادی تہذیب کے اہم وصف گنگا جمنی تہذیب کی عظیم یادوں کو نئی نسل تک پہونچانا وقت کی اہم ضرورت ہے جو کام ڈاکٹر شیلا راج نے اپنے قلم سے یہ مضامین لکھ کر کیا ہے اسی کام کو ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل جیسے محقق نے کتاب کی تالیف کے ذریعے آگے بڑھایا ہے۔ جس کے لیے مولف کتاب مبارکبادی کے مستحق ہیں اور انہوں نے کتابوں کی تالیف کی جو مثال پیش کی ہے وہ اردو کے دیگر محققین کے لیے ایک اچھی مثال ہے۔200صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز نئی دہلی سے خوبصورت ٹائٹل اور مضبوط جلد کے ساتھ شائع ہوئی ہوئی ہے جسے مصنف سے ان کے فون نمبر 9299655396یا ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
—–