سلیم محی الدین کی شاعری کے فکری و فنی زاویے :- ڈاکٹر احمد علی جوہر

Share
سلیم محی الدین

سلیم محی الدین کی شاعری کے فکری و فنی زاویے
"وابستہ” کی روشنی میں

ڈاکٹر احمد علی جوہر
اسسٹنٹ پروفیسر (گیسٹ فیکلٹی)
شعبہ اردو, سی, ایم, بی, کالج,
ڈیوڑھ, گھوگھرڈیہہ, مدھوبنی, بہار

سلیم محی الدین عصر حاضر میں اپنے رنگ و آہنگ کے ایک منفرد شاعر ہیں. جدید شعراء میں وہ اپنا مخصوص لب و لہجہ اور اپنی مخصوص شناخت رکھتے ہیں.

ان کے شعری مجموعہ "وابستہ” میں غزلیں, نظمیں, فرد اور قطعات, یہ تمام اصناف دیکھنے کو ملتی ہیں. ان کی شاعرانہ شخصیت کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو نہ تو صرف روایت تک محدود رکھا اور نہ وہ جدیدیت کے اسیر ہوئے بلکہ انہوں نے اردو کی شعری روایت سے استفادہ کرتے ہوئے جدید طرز اظہار کو فنی سلیقہ مندی کے ساتھ اپنایا. یہی وجہ ہے کہ ان کے شاعرانہ لب و لہجہ میں روایت کی خوشبو بھی ہے اور جدت و ندرت کی تازگی بھی-
سلیم محی الدین سرزمین دکن سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ولی, سراج, وجد, قاضی سلیم, بشر نواز, قمر اقبال اور جاوید ناصر جیسے شعراء کو جنم دیا. ان شعراء کے کلام میں جو متانت و سادگی ہے, وہ سلیم محی الدین کے یہاں بھی محسوس کی جاسکتی ہے. ظاہر ہے ہر شاعر کا دنیا کو دیکھنے, برتنے, محسوس کرنے اور اپنے محسوسات کے اظہار کا اپنا مخصوص زاویہ ہوتا ہے. سلیم محی الدین کا بھی اپنا مخصوص زاویہ نظر ہے. انہوں نے دنیا کا مشاہدہ ایک ایسے فرد کی حیثیت سے کیا ہے جس کی نگاہ انسانی سماج کے ظاہری و باطنی دونوں پہلوؤں پر ہے. مشاہدہ کرتے وقت انہوں نے بڑی متانت و سنجیدگی, باریک بینی اور غوروفکر سے کام لیا ہے پھر اپنے مشاہدات کو مخصوص لب و لہجہ میں تراش کر پیش کیا ہے. دیکھنے کی چیز یہ بھی ہے کہ سلیم محی الدین نے جدید طرز اظہار سے ضرور کام لیا ہے مگر کہیں بھی شائستگی کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے. ان کی غزلوں اور نظموں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اردو کی کلاسیکی شعری روایت سے متانت و سنجیدگی اور سادگی و شائستگی کو اپنایا ہے اور جدیدیت سے استفادہ کرتے ہوئے انہوں نے ایسے جدید الفاظ و استعارات کو برتا ہے جس سے کلام میں زور اور حسن پیدا ہو. یہی وجہ ہے کہ ان کا طرز اظہار جدت و ندرت کا حامل بھی ہے اور حسین و دلکش اور موثر بھی-
سلیم محی الدین کی شاعری میں آج کے ماحول, اس کے شب و روز اور انسانی زندگی سے جڑی کیفیتوں کا انعکاس دلچسپ استعاراتی و اشاراتی انداز میں ہوا ہے. چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

کھڑکیوں پر سجے ہیں افسانے
برملا واقعہ ہے دروازہ

یاد کی دھوپ کا اک دریچہ کھلا
نیند کے سائبانوں کو موسم ملے

زندگی سے کوئی تورشتہ ہو
تیر ہونا کمان میں رہنا

کہنے کو ہیں گھر دودو
بھٹک رہا ہے تنہا خواب

ہم بھی سینے میں آگ رکھتے ہیں
کوئی رشتہ کپاس مت کرنا

آئنوں سے الجھ الجھ پڑنا
سایہ سایہ مصالحت کرنا

سلیم محی الدین عصر حاضر کے معاشرہ سے بخوبی واقف ہیں. آج ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ وہ سراب کے پیچھے دوڑ رہا ہے. حقیقت کی تلخیوں کا سامنا کرنا انتہائی دشوار ہورہا ہے. زندگی گھٹن کی شکار ہے. اس میں کوئی رنگ و رونق نظر نہیں آتی. سماج کے ہر شعبہ پر غیر مستحق اور نااہلوں کا قبضہ ہے. اس کے علاوہ تصنع, ریاکاری, بے بضاعتی اور بے معنویت ہماری عصری زندگی کے وہ تلخ حقائق ہیں جن کا انکار ممکن نہیں. دیکھئے شاعر سلیم محی الدین نے غزل کے رمزیاتی پیرائے میں ان تمام باتوں کا اظہار کس خوبصورتی سے کیا ہے:

پھر کسی موج کی تمنا میں
انگلیاں ریت پر بچھائیگا

کشتیوں کے سفر سے ڈرتے ہیں
ہم جزیروں میں جیتے مرتے ہیں

نہ شبنم, نہ موتی, نہ خوشبو, نہ آنسو
کسی آنکھ میں کوئی موسم کہاں ہے

عکس خوشبو نہ آئنے رکھنا
اب دریچوں میں زاویے رکھنا

جن کو بین السطور ہونا تھا
حاشئے پر بنی لکیر ہوئے

چلچلاتی دھوپوں میں برف لے کے بیٹھے ہیں
دل جلے تجارت بھی بے مثال کرتے ہیں

پڑھ رہے تھے کل تک جو مرثئے بصارت کے
تہمت شناسائی آئنوں پہ دھرتے ہیں

چہرہ چہرہ دھول جمی ہے
تصویروں پر شیشہ ہے

آج دیکھئے سماج میں کس قدر اخلاقی گراوٹ آچکی ہے. جدید مغربی مادی تہذیب نے ہماری عظیم تہذیب و ثقافت کو کس طرح تار تار کردیا ہے. رشتوں میں اس قدر جھنجھلاہٹ و بیزاری ہے کہ محبت و اپنائیت کی خوشبو محسوس نہیں ہوتی. قدیم و جدید نسل کے درمیان ایک خلا ہے. رابطہ کی نوعیت بھی لمحاتی ہے. سماج میں ان ظلمتوں کے باوجود روشن و زندہ ضمیری بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے.

بند جس میں تھا اک خوشبوؤں کا جہاں
کھوگیا نہ جانے وہ البم کہاں

ہمارے بیچ ہے نسلوں کی دوری
مگر اک رابطہ ٹوٹا نہیں ہے

بے کماں ہے پہ تیر رکھتے ہیں
ہم کہ زندہ ضمیر رکھتے ہیں

سلیم محی الدین کی شاعری کا ایک مخصوص وصف طنزیاتی عنصر ہے. دیکھئے آج کے بے ضمیر, خود غرض اور مفاد پرست معاشرہ پر انہوں نے اپنے طنزیہ پیرائے میں کس اچھوتے انداز میں چوٹ کی ہے.

بے ضمیری ہزار نعمت ہے
حق تو کردار سے الجھنا ہے

آج کے انسانی سماج میں ہر طرف ترقی کا شور ہے. اب گھروں کو روشن کرنے کے لئے چراغ کی جگہ بلب اور ٹیوب لائٹ نے لے لی ہے. اب گھاس پھوس کے مکانات کا دور ختم ہوا اور اب بڑے بڑے عالیشان پختے مکانات بن رہے ہیں. آج کی نئی نئی کالونیاں بظاہر بہت ہی سجی دھجی نظر آتی ہیں مگر اس کے داخل میں زبردست کھوکھلاپن اور مہیب تاریکی ہے. آج کی ان نئی بستیوں میں اجنبیت و بیگانگی اور بیزاری کی فضا عام ہے اور محبت و مروت کا فقدان ہے. یہی وجہ ہے کہ آج کی نئی نئی کالونیوں کی عالیشان عمارتوں میں گھر کی اپنائیت کا احساس نہیں ہوتا. آج کے امیرترین لوگوں کا مفلوک الحال انسانوں کی جھگی جھونپڑیوں کے تعلق سے جو رویہ ہے, وہ کسی سے مخفی نہیں ہے.

نظر بجھ گئی ہے دھواں اٹھ رہا ہے
چراغوں کے بدلے میں روشن ہوا ہے

مکاں ہیں بہت ان میں گھر ہی نہیں ہیں
نئی بستیوں کا یہی المیہ ہے

فلک بوسیوں پر مبارک سلامت
مرے چار تنکوں پہ دنیا خفا ہے

ہمارے قدیم معاشرے میں بھلے ہی کم ترقی تھی مگر وہاں رشتوں, ناطوں کی جو اہمیت تھی, محبت و یگانگت کی بھینی بھینی جو خوشبو تھی, وہ آج کے سماج میں مفقود ہے. آج ہماری معاشرتی, تہذیبی و ثقافتی قدریں تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہیں. اب انسانیت کی جگہ حیوانیت و بربریت نے لے لی ہے. ہر چہار جانب سنگدلی کی فضا عام ہے. سلیم محی الدین کے غزلیہ رمزیاتی پیرائے میں یہ فضاء ملاحظہ ہو:

زندگی بھول گئی راستہ اپنے در کا
اب نہیں کوئی خریدار ہمارے سر کا

شیشہ دل کو لیے گھر سے کہاں نکلے ہو
تم کو معلوم نہیں شہر ہے یہ پتھر کا

سیر کے واسطے نکلے تھے کسی دن ہم بھی
زخم آنکھوں میں ابھی تک ہے کسی منظر کا

پار دہلیز کا کرنا بھی قیامت تھا سلیم
آج خود ہم کو پتہ یاد نہیں ہے گھر کا

آج ہماری معاشرتی زندگی کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمارے سماج کے رگ رگ میں تعصب اور نفرت و عداوت سماگئی ہے. جھوٹی انا اور تکبر نے ہمارے گھر آنگن کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے. اب انسانیت کی پاسداری, بڑوں کا احترام, چھوٹوں پر شفقت اور اخوت و بھائی چارگی , یہ تمام باتیں قصہ پارینہ بنتی جارہی ہیں.

دلوں میں نفرتیں, ذہنوں میں چیخیں
فصل تیار ہوتی جارہی ہے

سمٹتا جارہا ہے گھر کا آنگن
انا دیوار ہوتی جارہی ہے

تبسم زیر لب ہے اک کہانی
حیا کردار ہوتی جارہی ہے

ہمارے ساتھ یہ بوڑھی صدی بھی
گریباں تار ہوتی جارہی ہے

سلیم محی الدین کی شاعری میں اس نوحہ و غم اور کرب کی کیفیت بھی دیکھنے کو ملتی ہے جو آج کی انسانی زندگی کا مقدر ہے.

مرثیہ دل, نظر حواس کا ہے
آج ماتم مری اساس کا ہے

سلیم محی الدین ہمارے آج کے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں سے نالاں اور دل گرفتہ ضرور ہیں مگر وہ ناامید نہیں ہیں . یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں حوصلوں سے پر اشعار کی کمی نہیں جن میں امید و رجاء کا چراغ روشن نظر آتا ہے.

زندگی جب اڑان بھردینا
حوصلہ آسمان بھر دینا

ہم چراغوں کو زندگی دیں گے
تم ہواؤں کے کان بھر دینا

سلیم محی الدین کی شاعری آسان, عام فہم اور بڑے ہی اچھوتے انداز میں زندگی کا حیرت انگیز درس بھی دیتی ہے.

اختلافات ہوتے رہتے ہیں
اتفاقات ہی نبھالیں ہم

زندگی کیا اسی کو کہتے ہیں
الٹی سیدھی سی چند سانسیں ہم

دشمنی بھی اسی سے کرتے ہیں
دوستی جس سے کچھ نبھاویں ہم

سلیم محی الدین نے فرد اور قطعے بھی کہے ہیں. ان کے قطعات اور فرد میں بھی تجربہ کی پختگی, سلاست و سادگی, روانی اور شعریت کے عمدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں . آج کے انسانی سماج میں جبریت و بہیمیت اس قدر غالب آچکی ہے کہ انسانیت سسک رہی ہے. اب زندگی کے پاس روتے روتے آنکھوں میں آنسو تک نہیں بچا ہے کہ وہ اپنا غم ہلکا کرسکے. جبریت و بربریت کی اس فضاء کا اظہار درج ذیل قطعہ میں ملاحظہ ہو:

کیا نیلم, کیا مرجاں ہے, مرے آنسو لوٹا دو
کہنا کتنا آساں ہے, میرے آنسو لوٹا دو

نہ جگنو, تارا, دیپک, نہ شبنم, موتی, ٹھنڈک
میرا گھر بھی ویراں ہے, میرے آنسو لوٹا دو

معاشرہ میں چھوٹی موٹی رسموں کی کیا اہمیت ہے؟ زندگی میں یہ رسمیں کیا رول ادا کرتی ہیں؟ یہ سب باتیں درج ذیل قطعہ میں ملاحظہ کیجئے:

موسم موسم آتی ہیں
یادیں پھول کھلاتی ہیں

چھوٹی سچی رسمیں ہی
گر جیون کے سکھاتی ہیں

سلیم محی الدین کے فرد بھی شعری بصیرت اور فنی اعتبار سے خاصے قابل توجہ ہیں.

اس کو دشمن ہزار بار کیا
دوستوں میں جسے شمار کیا

کانٹوں میں باتیں پھولوں کی
تہذیب نئی ہے لفظوں کی

سلیم محی الدین کے شعری مجموعہ "وابستہ” میں کئی معرکے کی نظمیں بھی ہیں. اس ضمن میں "بدھا پھر مت ہنسنا”‘ "یااخی”‘ اور "اداس لمحہ” وغیرہ قابل ذکر ہیں. "بدھا پھر مت ہنسنا” نیوکلیائی تجربات کے پس منظر میں کہی گئی نظم ہے جس میں آج کے انسانی سماج پہ نیوکلیائی ہتھیاروں کے منڈلاتے ہوئے خطرے, خوف و ہراس اور موت کی سراسیمگی کی کیفیت کو اس طرح مجسم کیا گیا ہے کہ پورا منظرنامہ روشن ہوجاتا ہے. "یااخی” میں تقسیم ہند کے المیہ اور ہندوستان چھوڑ کر ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں کے دکھ درد, پچھتاوا, حسرت و افسوس, انھیں درپیش سنگین قسم کے مسائل اور ان کی اجیرن ہوتی زندگی کو منعکس کیا گیا ہے. آج مسلمانوں کو قدم قدم پہ مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے, ان کی حب الوطنی شک کے دائرے میں رہتی ہے اور انھیں طرح طرح کی اذیتوں اور ذلتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے, ان تمام باتوں کو شاعر سلیم محی الدین نے مذکورہ نظم میں طنزیہ پیرائے میں بیان کیا ہے مگر نظم "اداس لمحہ” میں شاعر نے مایوسی و افسردگی کو عارضی بتاکر امید ورجا کا حوصلہ دیا ہے کہ غم و اندوہ کے بادل جلد چھٹ جائیں گے اور نفرت کی دیوار جلد محبت میں تبدیل ہوگی. اس لئے سامنے کے ڈراؤنے اور بھیانک منظر سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے. ان نظموں کے علاوہ "منظرنامہ”‘ "آنکھ جزیرہ”‘ "پودوں کا سفر”‘ "گمان”‘ "مراجعت”‘ "وہ اک لمحہ” اور "نمرود” وغیرہ بھی قابل ذکر نظمیں ہیں.
سلیم محی الدین کی شاعری میں "صحرا”‘ "آنکھ”‘ "جزیرہ”‘ "آئینہ”‘ "چہرہ”‘ "شیشہ”‘ "دروازہ”‘ "دریچہ”‘ "کمرہ”‘ "دھوپ”‘ "سایہ”‘ "سورج”‘ "دہلیز”‘ "ہتھیلی”‘ "ریت”‘ "دریا”‘ "برف”‘ "چاندنی”‘ "خواب”‘ "چراغ” وغیرہ وہ کلیدی الفاظ واستعارات ہیں جن سے انہوں نے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے اور آج کی عصری زندگی کے منظرنامہ کو مجسم کیا ہے. کمال کی بات یہ ہے کہ ان الفاظ واستعارات کا استعمال اس شاعرانہ فنی ہنرمندی سے انہوں نے کیا ہے کہ اس سے ان کی شاعری میں معنویت و تہہ داری , گہرائی و گیرائی اور ترسیل کی دلکشی پیدا ہوگئی ہے. سلیم محی الدین کی شاعری میں کلاسیکی رچاؤ, جدت و ندرت, فنی سلیقہ مندی, سلاست وسادگی, اچھوتاپن, غرض اچھی شاعری کی وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو ان کی شاعری کو اعتباروامتیاز بخشتی ہیں. سلیم محی الدین کی شاعری اپنے زمانہ اور ماحول سے سچی وابستگی اور زندگی کی حقیقی صداقت کا اظہار ہے. یہی ان کی شاعری کی خوبصورتی بھی ہے اور طاقت بھی-
—-

ڈاکٹر احمد علی جوہر
Share
Share
Share