آئی اے رچرڈز کے تنقیدی نظریات :- عبدالعزیز ملک

Share
آئی اے رچرڈز

آئی اے رچرڈز کے تنقیدی نظریات

عبدالعزیز ملک

بیسویں صدی ادبی تنقیدمیں کئی رجحانات اور تحریکوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔اسی دور میں جدیدیت کے فکری رجحان کے تحت متعدد تحریکوں نے جنم لیا۔مارکسی تنقید،نفسیاتی تنقید،روسی ہئیت پسندی، ساختیات، مظہریات، وجودیت اور ردِ تشکیل ایسے رجحانات جس دور میں سامنے آ رہے تھے

وہیں امریکا میں نئی تنقید بھی قدم جما رہی تھی جو تاریخی اور مارکسی تنقید کے خلاف تھی۔ بنظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ نئی تنقید متن کا بطور متن جائزہ لینے کی دعوے دار ہے،یہ کسی ایسے تناظر کو رد کرتی ہے جو متن کے باہر سے وارد ہو،یہی وجہ ہے کہ اس نے تخلیق کی ساخت پر زیادہ زور صرف کیا اور مصنف کی شخصیت اور اس کے ذہن کی کارکردگی کو نظر انداز کیا۔نئی تنقید نے اس وقت خوب پذیرائی حاصل کی جب جان کرو رین سم کی کتاب "The New Criticism” منظرِعام پر آئی لیکن اس سے پہلے سپنگارن اس اصطلاح کو اپنے لیکچر میں استعمال کر چکا تھا جو 1910ء میں اس نے کولمبیا یونیورسٹی میں دیا۔یہ لیکچر 1911ء میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔بہ ہر حال نئی تنقید کے دبستان کو امریکا میں 1941ء کے بعد، جان کرورین سم کی کتاب سے ہی پذیرائی حاصل ہوئی۔تنقید کے اس مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والوں میں ایلن ٹیٹ، کلینتھ بروکس،رابرٹ پین وارن،ڈبلیو کے ومساٹ،ولیم ایمپسن، ایف آر لیوس،آر پی بلیک مر اور آئی اے رچرڈ کے نام نمایاں ہیں۔ مذکورہ ناقدین نے تنقید کے اس طریقہ کار میں جان ڈالی اور اسے نقطہ عروج تک پہنچادیا جو ۰۷۹۱ء تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا۔ اس کے بعد اس کی باز گشت دیگر تنقیدی نظریات میں توسنائی دیتی رہی لیکن اس کا وہ زور ٹوٹ گیاجوپچاس اور ساٹھ کی دہائی میں موجود تھا۔
آئی اے رچرڈز نئی تنقید کا اہم نام ہے جس نے نہ صرف پہلے سے موجود تنقیدی نظریات سے ہٹ کر اپنے خیالات کا اظہار کیا بلکہ بعد میں آنے والے ناقدین پر اپنے اثرات بھی مرتسم کیے،جن میں ولیم ایمپسن،ایلن ٹیٹ،کلینتھ بروکس اور ایف۔ آر۔ لیوس کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔جس طرح ایس۔ٹی۔ کولرج کو تنقید کے رومانی دبستان میں فراموش نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح نئی تنقید کے دبستان میں آئی اے رچرڈزسے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں،یہی وجہ ہے اسے نئی تنقید کا باوا آدم خیال کیا جاتا ہے۔۔وہ نہ صرف ادبی نقاد تھا بلکہ،فلسفی،ماہرِ لسانیات اور اعلیٰ پائے کا مدرس بھی تھا۔ان صلاحیتوں کی بنیاد پر،وہ چائنا کے آرتھولوجیکل انسٹیٹیوٹ کا 1936 ء سے 1938 تک ڈائریکٹر بھی رہا۔چین میں قیام کے دوران میں اس نے چینی فلسفے کا بغورمطالعہ کیا اور”MENCIUS ON THE MIND“کے عنوان سے کتاب تحریر کی۔ اسے کنفیوشس کے نظریات سے بھی بطورِ خاص دلچسپی تھی۔بعد ازاں وہ امریکا پہنچا اور وہاں ہاورڈ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر ایماریٹس تدریسی و تحقیقی ذمہ داریاں سر انجام دیں۔رچرڈز نے اگرچہ ڈراما اور شاعری بھی تخلیق کی لیکن اس کی خاص پہچان تنقید اور فلسفہ ہے۔
آئی ور آرمسٹرانگ رچرڈز،چیشائر (Cheshire) انگلستان میں 26 فروری 1893 ء میں پیدا ہوا۔ اس نے کیمبرج کے میگڈالین (Magdalene)کالج سے تعلیم حاصل کی اور1922ء سے 1929ء تک یہیں انگریزی اور اخلاقی سائنس(Moral Sciences)پڑھاتا رہا۔اس دوران چارلس ہکسن سپینس (Charles Hickson Spenceکی صحبتوں نے اس میں انگریزی ادب کا شوق پیداکیااور وہ اس کی تفہیم میں دلچسپی لینے لگا،اسی دور میں اس نے تین اہم تنقیدی کتب تخلیق کیں۔اس کی پہلی کتاب C.K Ogdenکے ساتھ ۳۲۹۱ء میں "The Meaning of Meaning” کے عنوان سے سامنے آئی جو معنیات کی ابتدائی کتب میں شمار ہوتی ہے۔دوسری کتاب "Principles of Literary Criticism”ہے جو ۴۲۹۱ء میں شائع ہوئی،جب کہ تیسری کتاب "Practical Criticism”کے عنوان سے ۹۲۹۱ء میں چھپی جو مؤخر الذکر کتاب کا تسلسل ہے۔ ان کتب میں اس نے شاعری پر تاثرات محفوظ کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ کار متعارف کرایاجسے Close Readingکہا جاتا ہے۔ شاعری کی اس طرز کی قرأت کو نئی تنقید سے وابستہ ناقدین نے سراہا اور متن کی خود مختاری اورخود کفالت کے سلسلے میں اس سے پھر پور استفاضہ کیا۔ان کتب کے علاوہ بھی اس نے متعدد کتب تصنیف کیں جن میں کچھ کے نام یہ ہیں:
"Science and Poetry”, "Mencius on the Mind”, "Coleridge on Imagination”, "The Philosophy of Rhetoric”, "Speculative Instruments”, "Beyond”,and "Commentaries.”
آئی اے رچرڈز کو انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ فلسفے،جمالیات اور نفسیات سے بھی دلچسپی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس کا رجحان تجرباتی اور نتائجی ہے اور اس نے اپنی کتاب Principles of Literary Criticism میں قدر، ہئیت، ردھم، منتشر قرأت،کنایہ اورعمومی احساس کی جو بحث کی ہے وہ اس کا واضح ثبوت ہے۔میتھیو آرنلڈ کے مانند وہ اس بات کا قائل ہے کہ ادب سائنس،فلسفے اور مذہب کے مقابلے میں بر تر حقیقت کا نمایندہ ہے۔جس دور میں آئی اے رچرڈز یہ بات کہ رہاتھا اس دور میں انسان نفسیاتی سطح پہ تقسیم ہوچکاتھا۔صنعتی اور سائنسی ترقی نے انسان کو مشین بنا ڈالاتھا۔اس دور میں یورپ کا خاندانی نظام درہم برہم ہوگیا،بچے مخصوص معاشرتی ماحول میں ماؤں کی شفقتوں سے محروم ہوتے چلے گئے ا،تنہائی،مایوسی اور بے چارگی نے فرد کی ذات میں اذیتوں کی آگ جلا ڈالی۔حیاتیات میں ہونے والی پیش رفت نے عینیت پسندی اور مابعد الطبیعیات کی بنیادیں ہلا ڈالیں۔جدید سائنس اور مادی جدلیات نے فرد سے اس کا آخری سہارا مذہب بھی چھین لیا۔اب زمانے کی تیز دھوپ تھی اور اکیلا فرد تھا جس نے اس کی صعوبتوں کو برداشت کرنا تھا۔مزید براں انسان دوستی اور سائنسی تیقن پردو عالمی جنگوں نے شدید ضرب لگائی،انسان کی اخلاقی اور تہذیبی برتری خاک میں مل گئی۔یہی وجہ تھی کہ اس دور میں انسان کے اس داخلی خلا کو مذہب، سائنس اور فلسفے کی ناکامی کے بعد ادب اور شاعری سے پُر کرنے کی بحثیں جاری تھیں،اسی لیے بیسویں صدی کے آغازمیں ادبی ناقدین ہم عصرثقافتی اور سماجی صورتِ حال کے تناظر میں ادب کے مقصد اور منصب کے تعین میں کوشاں نظر آتے ہیں۔آئی اے رچرڈز کے ہاں بھی یہی رویہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔رچرڈز کی تحریروں کا تجزیہ اس بات کا غماض ہے کہ اس نے میتھیوآرنلڈ کے خیالات سے اثرات قبول کیے اور انھیں اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔تجزیہ اور موازنہ،جسے میتھیو آرنلڈ نے تنقید کا لازمی جز خیال کیا ہے آئی اے رچرڈز کی تنقیدی تحریروں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔
آئی اے رچرڈز نے ’عمیق قرأت‘ یعنی Close Reading کے جس تصور کی بنیادیں اپنی تحریروں میں استوارکیں انھوں نے نئی تنقید کے دبستان پر گہرے اثرات مرتسم کیے۔اس نے اس کام کا سلسلہ 1920ء سے شروع کیا اور مختلف تجربات سے اخذ شدہ نتائج کی روشنی میں 1929ء میں Practical Criticism کی شکل میں انھیں قارئین کے سامنے پیش کیا۔رچرڈز کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ یونیورسٹی کے طلبا کو نظموں کے متن دیتاجن پر مصنف کا نام درج نہ ہوتا اور نہ انھیں یہ بتایاجاتا کہ مذکورہ نظم کا تعلق کس عہد سے ہے۔اس طرح کے تجربات سے وہ طلبا کے تاثرات اور تنقیدی آرا محفوظ کرتا اور ان کے تجزیے سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتا،ان تجربات کو اس نے ’پروٹوکول‘ کا نام دیا ہے۔اس کام کا بنیادی مقصد طلبا کو لفظ کی اہمیت کا احساس دلاناتھا۔ان تجربات میں طلبا کے پہلے سے موجود احساس و فکر کو زائل کیا جاتا اور متن سے متعلق غیر جانب دار اور معروضی رائے قائم کرنے کو کہا جاتا۔رچرڈز کا خیال تھا کہ نظم کی عمیق قرأت اس کے متنوع ابعاد اور قاری پر نفسیاتی اثرات کو منظرِ عام پر لانے کا باعث بنتی ہے۔اچھی شاعری انسان کے جذبات کو جگاتی اور مستحکم کرتی ہے کیوں کہ کوئی بھی ایسا انسان موجودنہیں جو شاعری سے اثر قبول نہ کرے۔ اس نے تنقید کے اس طریقہ کار کے تحت نظم کو مصنف اور اس کے تاریخی تناظر سے جدا کر کے دیکھنے کی طرح ڈالی۔اس سے پہلے بیسویں صدی میں نظم کے تجزیے میں سوانحی اور تاریخی تنقید کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی لیکن رچرڈز نے نظم کو خودد مختار اور خود کفیل اکائی خیال کر کے اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔
آئی اے رچرڈز نے زبان کے دو پہلوؤں پر بطورِ خاص توجہ دی جن میں زبان کاحوالہ جاتی(Referential Language) (جسے سائنسی پہلو بھی کہا جاتا ہے)اور محسوساتی(Emotive Language) پہلو شامل ہیں۔اس بات کا اظہار اس کی کتاب The Principles of Literary Criticismمیں ملتا ہے۔زبان کے سائنسی یا حوالہ جاتی پہلو میں زبان، محض کسی شے کی جانب اشارہ کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہوتی ہے۔مثلا ً لفظ ”کتاب“ کہا جائے اور اس کا مطلب صرف کتاب ہی ہو یہ لفظ کا سائنسی یا حوالہ جاتی استعمال ہوگا۔ اس میں احساسات وجذبات شامل نہیں ہوتے۔ لفظ”کتاب“اگرلغوی معنی کے بجائے کسی اور معنی میں استعمال ہو رہا ہو تو اسے زبان کے احساسی پہلو سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ کتاب سے مراد علم، دانش یا شعور لیا جائے تو وہ زبان کا احساسی استعمال ہوگانہ کہ حوالہ جاتی۔اسی طرح اس جملے پر غور کیجیے ”اس کی بے وفائی سے میرا دل دُکھ رہا ہے۔“اس میں تمام الفاظ لغوی معنی میں استعمال ہوئے ہیں اور حقیقت کو جوں کا توں بیان کر رہے ہیں۔ فرض کیجیے اس کیفیت کو یوں بیان کیا جائے ”اس کی بے وفائی نے میرے دل میں درد کی آگ لگا رکھی ہے۔“ تو یہ زبان کا حوالہ جاتی نہیں بلکہ احساسی پہلو ہے جس میں حقیقت کا بیان احساسی سطح پر ہوا ہے اور ”دل میں درد کی آگ“ کو لغوی معنوں کے بجائے علامتی یا استعاراتی سطح پر جا کر احساسی انداز میں استعما ل کیا گیا ہے۔ آئی اے رچرڈز نے اس پر بطورِ خاص توجہ دی جس نے آگے چل کر نئی تنقید کے ناقدین کو متاثر کیا۔اس حوالے سے اس نے ڈینیل ڈیفو کے ناول ”رابنسن کروسو“ اور سروانتے کے ناول ”ڈان کیہوٹے“ سے مثالیں پیش کر کے اپنے مؤقف کو جان دار بنانے کی کوشش کی ہے۔
آئی اے رچرڈز نے زبان کے سائنسی اور احساسی پہلو ؤں پر گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ دو باتوں پر زیادہ زور دیا،ایک ابلاغ اور دوسرا قدرکا مسئلہ۔ اس کا خیال ہے کہ تخلیقی عمل کے دوران میں ابلاغ فن کار کا بنیادی مقصد نہیں ہوتا۔وہ یا تو حسن کی تخلیق کرنا چاہتا ہے یا پھر محسوسات کے اظہار کا متمنی ہے۔دونوں باتیں نہیں ہیں تو پھر تخلیق کاراپنی ذات کی تسکین چاہتا ہے۔جیسا کہ ٹی ایس ایلیٹ نے بھی کہا ہے کہ تخلیقی عمل کے دوران فنکار ابلاغ کو مدِ نظر نہیں رکھتا،اور رکھے بھی تو اس کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔فنکار کا بنیادی مقصد حسن کی تخلیق ہو،محسوسات کا اظہار ہو یا اس کی ذاتی تسکین، اس کے لیے اسے کوئی نہ کوئی ذریعہ یا میڈیم استعمال کرنا پڑے گا۔ خواہ وہ سنگ ہو یارنگ،ساز ہو یاآوازلہٰذا ترسیل اس میں شامل ہوجاتی ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا کے خیال میں ”یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ فن کار تخلیقی عمل کے دوران اپنے نجی کوائف اورشخصی میلانات کو دبا کر تجربے کے ان پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے جن کی حیثیت عالم گیر ہے اور جو دوسروں کو احساسی سطح پر متاثر کر سکتے ہیں تو اس کا مطلب سوائے اس کے اورکیا ہوسکتا ہے کہ وہ غیر شعوری طور پر خود کو دوسروں تک پہچانے کی کوشش میں ہے۔“رچرڈز اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ فن قابلِ قدر تجربات کی ترسیل سے ہماری زندگیوں کو خوب صورت بنا سکتا ہے۔پیچیدہ اورمبہم تجربات کو بیان کرنا آسان کام نہیں لیکن فن میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ مشکل اور پیچیدہ تجربات کو آسان اور قابلِ فہم بنا سکے۔فن کی اس خصوصیت کی بنیاد پر وہ فنکار کو قابلِ قدر مقام سے نوازتا ہے۔ابلاغ پر بات کرنے کے علاوہ رچرڈز نے قدر کو بھی موضوع بنایا ہے۔اس کے خیال میں فن اس لیے قابلِ قدر ہے کہ وہ منتشر مہیجات کومنظم کرنے کا کام سر انجام دیتا ہے۔رچرڈز نے پہلے سے موجود مخصوص جمالیاتی کیفیت کو رد کیا،جدید ماہرینِ جمالیات،جن کا آغازکانٹ کے جمالیاتی تصورات سے ہوتا ہے،کا خیال ہے کہ جمالیاتی حظ غیر جانبداری،آفاقیت اور عدم منطقیت میں پنہاں ہے،اسے معمولی جذبات اورحسی لذتیت کے ساتھ گڈ مڈ نہیں کیا جانا چاہیے۔ان کا خیال تھا کہ فن سے کشید ہونے والاحظ ایک طرح کامخصوص تجربہ ہے جس کازندگی کے عام معاملات سے حاصل ہونے والی لذت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔وہ یہ سمجھتا ہے کہ جمالیاتی حظ کوئی نیا یا مختلف تجربہ نہیں ہے،یہ عام تجربے کے مماثل ہے۔ جب ہم کوئی نظم پڑھتے ہیں،کوئی خوب صورت تصویر دیکھتے ہیں،اچھی موسیقی سنتے ہیں تو ہم کوئی مختلف یا معمول سے ہٹ کر کام نہیں کر رہے ہوتے بلکہ روز مرہ کے کاموں جیسا ہی ایک کام ہوتا ہے۔کپڑے پہننے،کھانا کھانے اورجوتے پالش کرنے کا کام اور فن کی گیلری میں گھومنے پھرنے کا کام تقریباً ایک جیساہے۔فن کے تجربے کو عا م تجربے کے مانند تجزے کے عمل سے بھی گزارا جا سکتا ہے۔اس عمل کو واضح کرنے کے لیے اس نے دماغ کے کام کرنے کے طریقہ کارپر روشنی ڈالی ہے۔وہ انسانی دماغ کو مہیجات کا نظام گردانتا ہے،جس میں متعدد جبلی خواہشیں،میلانات اور رجحانات ایک دوسرے سے برسر پیکار ہوتے ہیں۔یہ خواہشیں اور میلانات شعوری اور لاشعوری دونوں سطح پر رو بہ عمل ہو سکتی ہیں۔ان کی جدلیت دماغ کے لیے اضطراب کا باعث بنتی ہے۔دماغ ان خواہشات، میلانات و رجحانات کے انتشار کا خاتمہ چاہتا ہے جو صرف اور صرف ان میں ترتیب اور انصرام سے ممکن ہے۔دماغ میں پیدایشی صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ ان منتشر خواہشات کو مرتب کرسکے لہٰذا وہ اس صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے انتشار میں نظم پیدا کرتا ہے۔تخلیق کار کاہر نیا تجربہ دماغ کے پہلے سے مرتب نظام میں ہلچل کا باعث بنتا ہے اور دماغ اسے از سر نو ترتیب دے دیتا ہے۔کیوں کہ مہیجات اور جبلتیں ایک دوسرے کے متضاد ہوتی ہیں اور ان میں ترتیب اسی صورت قائم رہ سکتی ہے جب ان کے اطمینان کا بندوبست ہویا ان کے اخراج کا انتظام موجود ہو۔مثالی صورت وہ ہوگی جب تمام جبلی خواہشوں اور رجحانات کی تکمیل ممکن ہو لیکن ایسا ہونا مشکل امر ہے۔اس کے بعد دوسری بہترین صورت وہ ہو گی جب زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل ہو رہی ہو اور کم سے کم عدم تکمیل سے گزر رہی ہوں۔رچرڈز کے خیال میں فن (شاعری یا تخیلاتی ادب) ہی ایک ایسی شے ہے جو اس صورتِ حال کو حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ادب یا شاعری اس لیے قابلِ قدر اور اہم ٹھہرتی ہے کہ یہ فرد کی ناآسودہ خواہشات اور میلانات کی تسکین کا باعث بنتی ہے۔غور کریں تو مذکورہ خیال ارسطو کے نظریہ کتھارسس کے قریب چلا جاتا ہے، جس میں المیہ افراد کے جذبات کے انخلا کا باعث بن کر انھیں جذباتی تسکین فراہم کرتا ہے۔بقول رچرڈز:
In short, art is a means whereby we can gain emotional balance, mental equilibrium, peace and rest. What is true of the individual is also true of society. A society in which arts are freely cultivated, exhibits better mental and emotional tranquillity than the societies in which arts are not Valued.
فرد تمام عمر ذہنی مہیجات کو منظم کرنے کا کام سر انجام دیتا رہتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دماغ کن خواہشات کی تکمیل کرے اور کن خواہشات کو ناآسودہ چھوڑ دے۔یہاں آئی اے رچرڈز مہیجات کو دو زمروں میں تقسیم کرتا ہے۔ایک وہ جن کی تسکین سے گریز کیا جاتا ہے اور دوسری جن کی تسکین کو ممکن بنایا جاتا ہے۔جن کی تسکین ہوجاتی ہے ان کو وہ Appetencies اور وہ جن کی تسکین ہونے سے رہ جاتی ہے ان کووہ Aversions کا نام دیتا ہے۔ شاعری انسان کے دماغ کی اس کیفیت کا اظہار ہے جب دماغ زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین کر کے جبلی خواہشات کو مرتب کرچکا ہوتا ہے۔شاعری سے مراد یہاں محض شاعری نہیں بلکہ تمام تخیلاتی ادب ہے جو قاری کو جمالیاتی حظ فراہم کرنے کا باعث بنتا ہے۔اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے تخلیق کار کو اپنے کام میں خیال کو مجسم کرنے کا اتنادھیان نہیں ہوتاجتنا ناآسودہ خواہشات کی تسکین کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حظ کے مخصوص لمحے کا اظہارہوتا ہے،تخلیق کار تجربے کے اظہار کا متمنی ہوتا ہے جو تخلیق کی صورت میں سامنے لاتا ہے۔نقاد اس خاص لمحے کو گرفت میں لینا چاہے تو اس کے لیے ممکن نہیں رہتا،جیسے خواب کو سمجھنے کے لیے علامتوں کو تو ڈی کوڈ کیا جا سکتا ہے لیکن خواب دیکھنے کے دوران میں، دماغ کس کیفیت سے گزر رہاتھا، اس کا تجزیہ کرنا نا ممکن ہے۔اسی طرح نقاد اگر تخلیق کو معرضِ تفہیم میں لانے کے لیے تخلیق کار کے دماغ کی اندرونی کیفیت کو گرفت میں لینے کی کوشش کرے تو وہ ٹھوکر کھا ئے گا۔ اس ضمن میں رچرڈز نے ایس ٹی کالرج کی معروف نظم ”قبلائی خان“ کی مثال پیش کی ہے جسے افیون کی حالت میں کالرج نے تخلیق کیا تھا۔اس نظم کے نفسیاتی تجزیے سے اس نے ثابت کیا کہ تخلیق کار کے دماغی تجزیے کے بغیر نظم کے علامتی نظام سے اس کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔دورِ حاضر میں نفسیات نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ دماغ کے وظائف کا بہتر مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور رچرڈز نے دماغ کے وظائف کو جتنا سادہ اور عام فہم خیال کیا تھا،دماغ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ،پر اسرار،ناقابلِ فہم اور مبہم ہے۔
آئی اے رچرڈز نے کہیں بھی سوانحی اورتاریخی حوالے سے انقطاع کا ذکر نہیں کیا لیکن متن کی عمیق قرأت (Close Reading) اور اس کی خود مختاری پر اتنا زور دیا کہ یہ احساس ابھر کر سامنے آیا کہ شاعری میں معنی کے لیے سوانحی اور تاریخی حوالے کی ضرورت نہیں۔رچرڈز نے معنی کے حوالے سے اپنی کتاب Practical Criticism میں چار صورتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔خیال (Sense)،احساس (Feeling)،لہجہ (Tone) اورقصد(Intention)۔یہاں خیال سے مرادہے کہ متن میں کیا کہا گیا ہے یعنی موضوع یا مواد کا موجود ہونا ہے۔احساس سے مرادجو کچھ کہا جا رہا ہے اس سے متعلق خواہشات،رجحانات، میلانات،رویے، دلچسپیاں،ارادے اورجذبات وغیرہ کیا ہیں۔لہجہ وہ انداز یا رویہ ہے جس میں مخاطب سے بات کی گئی ہے۔قصد سے مراد مصنف کا شعوری یا لاشعوری مقصد ہے جو وہ تحریر کی مدد سے قاری یا سامع تک پہنچانا چاہتا ہے۔معنی کی ترسیل میں یہ چاروں صورتیں یا عوامل ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں لیکن مختلف صورتِ حال میں ایک عامل نمایاں ہوکر دیگرعوامل کو پس منظر میں دھکیل دیتا ہے۔ایک سائنس دان جب متن تحریر کرے گا تو اس کے نزدیک خیال کی ترسیل نمایاں ہوگی اور باقی عوامل اس کے پس منظر میں موجود رہ کر اپنا کردار ادا کر رہے ہوں گے۔سیاستدان کے تخلیق کردہ متن میں قصد نمایاں ہوگا اور احساس، لہجہ اور خیال اس کے عقب میں رہ کر معنی کی ترسیل کا فریضہ سر انجام دے رہے ہوں گے۔احساس اور لہجہ نمایاں ہوگا تو شاعری تخلیق ہوگی جس میں خیال اور قصد پس ِ پشت رہ کر معنی کی ترسیل میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔اس کے مذکورہ خیالات نے نئی تنقید کے ناقدین پر دور رس اثرات مرتب کیے۔
زندگی کا مطالعہ اس بات کا غماز ہے کہ اسے اجزا میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ادب زندگی کا نمایندہ اور عکاس ہے تو پھر اسے کس طرح مختلف خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔جس طرح زندگی محض مادیت یا روحانیت نہیں ہے بلکہ ان کا امتزاج ہے۔زندگی محض جذبات، احساسات،معاشیات، جمالیات،نفسیات اور عقلیات سے عبارت نہیں ہے بلکہ ان تمام اجزا کا مجموعہ ہے۔اسی طرح ادب کا مطالعہ کسی ایک خاص انداز یا دبستان کے زیرِ اثر کرنا اس کی مکمل تفہیم کو یقینی نہیں بناتا۔اسے ہر زاویے اور ہر پہلو سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی تاکہ کوئی پہلو معرضِ تفہیم میں آنے سے رہ نہ جائے اور اس کا کلی وجود قاری پر منکشف ہو۔آئی اے رچرڈز اسے اسے کلی تنقید سے موسوم کرتا ہے جسے انگریزی میں Total Criticism کہا گیا ہے۔تنقید کا ایک ایسا انداز جس میں روایت کو بھی مدِ نظر رکھا جائے،رومانی آزادی بھی پیش نظر رہے،جمالیاتی نقطہ نظر بھی ہو، تاثراتی انداز کی جھلک بھی ہو، طبقاتی اور نفسیاتی عناصر سے بھی نقاد صرفِ نظر نہ کرے،اس طرح جو تنقید سامنے آئے گی وہ ادب کی تنقید کے ساتھ ساتھ زندگی کی بھی آئینہ دار ہوگی۔یہی وہ نظریہ تنقید ہے جس کا آئی اے رچرڈز موید ہے۔

——-

عبدالعزیز ملک

Abdul Aziz Malik
Lecturer Urdu
GCU Faisalabad
03447575487

Share
Share
Share