ماہنامہ” ظرافت “ کی ضمیر شناسی – تجزیاتی مطالعہ :- محمد خرم یاسین

Share
محمد خرم یاسین

ماہنامہ” ظرافت “ کی ضمیر شناسی
تجزیاتی مطالعہ

محمد خرم یاسین
فیصل آباد پاکستان

دنیائے ادب کو اپنی مزاحیہ تحاریر سے کشت زعفران بنانے والے سید ضمیر جعفری کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ان کی ظریفانہ تخلیقات نے طنز و مزاح کی دنیا میں جو جولانی پیدا کی اس کے اثرات تا حال اردو ادب پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

ان کی تحاریر کا دائرہ متنوع اصناف ادب پر پھیلا تھا اور وہ بیک وقت نظم و نثر اور صحافت تینوں میدانوں کے شاہ سوار رہے۔ان کی مزاح نگاری کی اہم خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ مزاح طنز پر غالب رہا ناکہ طنز، مزاح پر۔ اسی لیے ان کی تحاریر میں نہ صرف طنز ایسی کڑوی گولی مزاح کے شوگر کوٹ میں لپٹی دکھائی دیتی ہے جسے قارئین با آسانی ہضم کر لیتے ہیں بلکہ اس سے خوب حظ بھی اٹھاتے ہیں۔ ان کے برعکس ابنِ انشا کے ہاں یہ معاملہ الٹ نظر آتا ہے؛ بالخصوص ان کی تخلیق”اردو کی آخری کتاب“میں طنز مزاح پر غالب ہے، مشتاق احمد یوسفی کے ہاں طنز و مزاح ایک دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر چلتے ہیں لیکن اس میں ایک یاسیت کی فضا بیشتر پھیلتی ہوتی محسوس ہوتی ہے اور پطرس بخاری کے ہاں مزاح معانی در معانی جزئیات سمیت کھلتا چلا جاتا ہے۔ سید ضمیر جعفری کی تحاریر میں شوخی اور شرارت کا عنصر نمایاں ہے اور مزاح برائے مزاح کی روش واضح ہے۔و ہ عام طور پر ”بذلہ سنجی“،برجستگی، ”موازنہ و تضاد“،”تشبیہ و استعارہ“، ”صورتِ واقعہ، ”مبالغہ“، ”ایہام“،”مزاحیہ کردار“، ”نوک جھونک،“اور ”لفظی ہیر پھیر“سے مزاح پیدا کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جنس ِ مخالف سے چھیڑ چھاڑ بھی اسی کے عوامل میں شامل رہتی ہے۔
گو کہ سید ضمیر جعفری نے کالم نگاری، سنجیدہ شاعری اور نعت نگاری بھی کی لیکن ان کا طبعی میلان طنز و مزاح ہی کی جانب رہا۔ انھوں نے اردوادب میں جو گراں قدر تخلیقات چھوڑیں ان کی تفصیل سے ان کی تخلیقی بو قلمونی اور مختلف النوع افکار کے ورود کا اظہار بخوبی ہوجاتا ہے۔ ان کی کتبِ شاعری میں ”مافی الضمیر“، ”ولایتی زعفران“، ”ضمیریات“، ”مسدس بے حالی“، ”من میلا“، ”من کے تار“، ”کھلیان“، ”گنر شیر خان“، ”لہو ترنگ(قومی نظموں کا پہلادا مجموعہ)“، ”میرے پیار کی زمین(قومی نظموں کا دوسرا مجموعہ)“، ”ارمغانِ ضمیر“، ”ضمیر ظرافت“، ”بادبان اور بھنور“ اور ”قریہ جاں“شامل ہیں۔ جب کہ ان کی نثری کتب میں‘”کتابی چہرے‘، ”اڑتے خاکے“، ”کالے گورے سپاہی“، ”جنگ کے رنگ“، ”ہندوستان میں دو سال“ اور ”آنریری خسر“و دیگر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے جن اخبارات، رسائل اور جرائد کی ادار ت کی ان میں روزنامہ ”احسان“ لاہور، روزنامہ ”بادِ شمال“راول پنڈی، سہ ماہی ”اردو پنچ“راول پنڈی، سہ ماہی ”ادبیات“اسلام آباد اور ہفت روزہ ”شیرازہ“ لاہور شامل رہے۔ ان کے فکاہی کالم روزنامہ ”مشرق“،روزنامہ ”جنگ“ اور ہفت روزہ ”ہلال“ میں شامل ہوتے رہے ہیں جب کہ بہت سی تخلیقات چ مختلف صوبوں کے نصابوں میں بھی شامل رہیں جن میں ”پرانی موٹر“پنجاب انٹر میڈیٹ، ”میری چھب میری چھاں“پنجاب اور سندھ میں مڈل اور چھٹی جماعت میں، فکاہی خاکے ”کتابی چہرے“ پنجاب یونی ورسٹی کے ایم اے نصاب میں،”ریل کا سفر“اور”اپنا پرچم ایک ہے“سندھ چھٹی جماعت کے نصاب میں شامل رہیں۔ (1)
سید ضمیر جعفری اردو ادب کے ان خوش نصیب ادبا میں شامل ہیں جن کی زندگی ہی میں ان کی قدرو وقیمت کا صحیح اندازہ لگالیا گیا تھا اور ”ضمیر شناسی“ کا آغاز ہوا۔ اس سلسلے میں ان کی تحسین کے لیے تحریر کیے گئے متعدد کالموں اور خطوط کے علاوہ ماہنامہ ”ظرافت“ کراچی کابھی اہم کردار رہا۔اس ماہنامے نے مئی جون ۰۹۹۱ء کو ”ضمیر جعفری نمبر“ (جلد ۲، شمارہ ۶۔۷)شائع کر کے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ یہ ماہنامہ چوں کہ محض ظریفانہ تحاریر ہی کا گلدستہ تھا اس لیے اس کے کے سرورق پر مستقل طور پر اس کا یک سطری تعارف یوں پیش کیا گیا تھا:
”برصغیر پاک و ہند کا طنزیہ و مزاحیہ معیاری ادبی زعفرانی جریدہ“(2)
اس کے اعزازی نگران عطاالحق قاسمی، مدیرِ اعلیٰ ضیا الحق قاسمی اور مشیر اعلیٰ راغب مراد آبادی رہے۔ماہنامہ ظرافت کے ”ضمیر جعفری نمبر“ میں ”جشن ضمیر جعفری“ کو خصوصی اہمیت دی گئی کیوں کہ اس ماہنامے کے منتظمین اس جشن میں پیش پیش رہے تھے۔ اس لیے ضیا الحق قاسمی کی پہلی تحریربھی ”جشنِ ضمیر“ ہی سے معنون اور سترہ صفحات پرمشتمل ہے۔یہ تحریردر اصل جشنِ ضمیر کے سلسلے میں ضمیر جعفری کے اعزاز میں دبئی میں منعقدہ بین الاقوامی مشاعرے کی روداد ہے۔ پاکستان سے بہت سے شاعر اور ادیب اس جشن میں شرکت کے لیے سید ضمیر جعفری کے ساتھ دبئی پہنچے، بہت سے شاعر بھارت سے تشریف لائے اور بہت سے یورپ سے۔ شرکا کے بارے میں معلومات مہیا کرتے ہوئے ضیا الحق قاسمی تحریر کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ دلاور فگار، سید ضمیر جعفری، ان کی اہلیہ، و دیگر مشاہیر کے ساتھ خالد عرفان، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، سرفراز شاہد، سعدیہ حریم اور بیگم ضمیر جعفری وغیرہ محوِ سفر ہوئے، جب کہ دبئی سے: اظہر علی زیدی، راشد لطیف، حبیب خان، دبئی میں مستقل مقیم شعرا میں سے: اسلام عظمیٰ، سعید کوکب، جاوید اکبر، سعید انور، ع س مسلم، برطانیہ سے: اطہرراز، غلام علی، بلبل کاشمیری، حضرت شاہ، بھارت سے: حمایت اللہ،مصطفی علی بیگ، غوث خوامخواہ، صبغت اللہ بمباٹ، احمد شریف،پاگل عادل آبادی، ہلال سیوہاروی، ساغر خیامی شامل ہوئے اور جو علالت و دیگر مسائل کی وجہ سے پہنچ نہ سکے ان میں دلکش آفریدی، اطہر شاہ خان جیدی، کرنل محمد خان اور نجمہ خان شامل رہیں۔ جس ہال کمرے میں جشنِ ضمیر کا اہتمام تھا، اس کا نقشہ یوں پیش کرتے ہیں:
”مشاعرہ گاہ کی تزئین واقعی قابلِ داد تھی۔ اڑھائی ہزار نشستوں کا اہتمام کیا گیا اور ہال کی عظیم الشان چھت کو شوخ رنگوں کے ریشمی سائبان سے آراستہ کیا گیاتھا۔ اسٹیج بڑے ہی قرینے سے سلیقے سے سجایا گیا تھا۔۔۔ایسا لگتا تھا یہاں مشاعرہ نہیں دنیا کا کوئی گریٹ شو سٹیج ہونے والا ہے۔“(3)
ابو ظہبی سے کبیر خان نے ”زندہ پیر“ کے نام سے جو مقالہ پڑھا اس میں سید ضمیر جعفری کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا گیا:
یہ پیری میں چہرے کی رونق تو دیکھو
میرا پیر پھر سے جواں ہو رہا ہے (4)
دوسری جانب راغب مراد آبادی نے بھی سید ضمیر کی تحسین میں با کمال قصیدہ پڑھا،اس کے دو اشعارملاحظہ کیجیے:
سلطنت شعر کی ہے زیرِ نگیں — میری نظروں میں ہیں امیر ضمیر
داد دیجیے کبیر کو راغب — بن گئے آج زندہ پیر (4)
بھارت سے تشریف لائے غوث خوامخواہ نے اپنا منظوم نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے دو اشعارپر خصوصی داد حاصل کی:
پہلے بھی درمیاں میں بھی آخری بھی ہیں — فوجی تو تھے ہی آبروئے شاعری بھی ہیں
کیا کیا صفات ان کے گناؤں میں خوامخواہ — سید بھی ہیں، ضمیر بھی ہیں، جعفری بھی ہیں (6)
سید ضمیر جعفری کوخصوصی نشست پر بلانے کے لیے ضیا الحق قاسمی نے جو تعارفی جملے ادا کیے ان میں سید ضمیر جعفری کا طویل ادبی سفر چھپا ہوا تھا۔ مختصراً مگر جامع انداز میں دعوتِ کلام ملاحظہ کیجیے:
”سید ضمیر جعفری طنز و مزاح نگاری میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی نثر اور نظم دونوں ہی بڑے دلنشین ہیں۔ ان کی پچیس(25) کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ وہ”تمغہ قائد اعظم“اور ”ستارہ ئ خدمت“ وصول کرچکے ہیں۔ صدارتی ایوارڈ بھی ان کو مل چکا ہے۔ سکولوں اور کالجوں کے نصاب میں ان کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ ایم اے کے کورس میں بھی ان کی ایک شامل ہے۔“(7)
”ظرافت“میں ضیا الحق قاسمی کی طویل نظم بحوالہ منظوم نذرانہ عقیدت سید ضمیر جعفری بھی شامل کی گئی ہے۔ اس کے چندتین اشعار ملاحظہ کیجیے:
ہم منانے آئے ہیں جشنِ ضمیر جعفری — جن کو حاصل ہے مزاح و طنز میں اک برتری
ہیں وہ بابائے ظرافت اس میں کوئی شک نہیں — لیکن اس فن میں کوئی بھی ان کا لے پالک نہیں
رشک آتاہے ضمیر جعفری کی شان پر — تیشہ طنز و ظرافت ہے ادب کی سان پر (9)
جہاں سید ضمیر جعفری کے ادبی کارناموں کی تحسین میں شعرا و ادبا پیش پیش نظر رہے وہیں سیاسی شخصیات بھی پیچھے نظر نہیں آئیں۔ اس وقت کے صدرِ مملکت غلام اسحاق خان کی ضمیر شناسی کے حوالے سے تحریر کا اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں انھوں نے بڑے کھلے دل سے سید ضمیر جعفری کی قابلیت اور علم و فن کی تعریف کی ہے۔ لکھتے ہیں:
”سید ضمیر جعفری صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ممتاز ادیب، صاحبِ طرز کالم نگار اور قادر الکلام شاعر۔ مزاح ان کا خاص رنگ ہے اور ان کا یہی وصف میری ان سے شناسائی کا سبب بنا۔ شائستگی اور تہذیب کے دائرے میں، دل آزاری اور ابتذال سے پاک مزاح جو نہ صرف پڑھنے والوں کی طبیعت کو شگفتگی بخشتا ہے بلکہ ان میں اپنے آپ پر ہنسنے کی جرات پیدا کرتا ہے اور لطیف طنز کے ذریعے انھیں اصلاحِ احوال کی دعوت دیتا ہے۔۔۔ وہ ہمارے ادب کا، ہماری تہذب کا بہت قیمتی سرمایہ ہیں۔(9)
اسی ضمن میں مزید لکھتے ہیں کہ دورِ حاضر کے اعصاب شکن تناؤ اور الجھنوں میں ادیب اور شاعر ایسے ہیں جوضمیر جعفری کی طرح مسکراہٹیں بانٹنے کا فن جانتے ہیں۔ اس لیے ان کے فن کی قدرکرنی چاہیے تاکہ وہ اس سلسلے کو کامیابی سے جاری رکھ سکیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ضمیر جعفری ایسے مزاح نگار کے روپ میں سامنے آئے جنھوں نے اکبر الہ آبادی کے رنگِ ظرافت کو آگے بڑھایا۔ ان کی مزاح نگاری نے اردو ادب کے بہت بڑے حلقے کو متاثر کیا اور سر حد پار کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ سید ضمیر جعفری کو ہدیہ محبت و عقیدت پیش کرنے والوں میں صرف ادبا ہی شامل نہیں تھے بلکہ اعلیٰ سیاسی قیادت، افسران اور اساتذہ بھی شامل تھے اس لیے ظرافت میں ایسے لوگوں کے خطوط کو بھی بطور حوالہ پیش کیا گیا ہے جنھوں نے ضمیر شناسی میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی ضمن میں پاکستان ایمبیسی ابوظہبی کی جانب سے سفیر پاکستان علی جنیجو کا انگلش خط شامل کیا گیا ہے۔ اس کا اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں ان کے ادبی کام کو سراہا گیا ہے۔لکھتے ہیں کہ زندگی کے غم و اندوہ کو اس انداز میں بیان کرنا کہ بے اختیار ہنسی آجائے، ضمیر جعفری کے فن کا خاصہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ادب میں ممتاز مقام کے حامل ہیں:
"The expression of agonising and bitter facts of life in a manner that evokes laughter and smile instead of tears is an amazing art of Zamir Jafri undoubtdly excels in this style. He enjoys reputation and respect as a distinguished poet and writer of his class.”(10)
دبئی میں پاکستان کے کونسلیٹ جنرل کی جانب سے شامل کیے جانے والے تہنیتی خط میں بھی اس امر پر نہایت مسرت کا اظہارکیا گیا ہے کہ ایک ایسی ہستی کے اعزاز میں مشاعرہ ”مشاعرہ زندہ دلان“ کا اہتمام کیا جارہا ہے جو نہ صرف بین الاقومی سطح کی شہرت کے حامل ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے طنزومزاح کی چاشنی سے ایک جہان کو اپنا گرویدہ بنایا ہوا ہے۔ لکھتے ہیں:
"It would be honour Mr. Zameer Jafari who has almost single handely kept alive the great tradition of Urdu poetry composed in the lighter vein which at the same time focuecs out attention on some of the serious
problems of our society.”(11)
سید ضمیر جعفری کے ادبی کارناموں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک فضائی مشاعرے کا بھی اہتمام کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اس حوالے سے قومی ہوائی پرواز کے محکمے سے رابطہ کیا گیا تھا۔ اس پر ان کا جوابی خط بھی ظرافت میں شامل کیا گیا ہے جس میں اس انوکھی تجویز کو نہایت پسندیدہ قراردیا گیا ہے لیکن ہواباز ی کے بین الاقوامی قواعدو ضوابط کی وجہ سے اس پر عملی امکانات سے معذرت کا اظہار کردیا گیا۔ سید ضمیر جعفری سے محبت اور ان کے فن کی کھلے دل سے تعریف کرتے ہوئے کرنل شفیق الرحمن کی جانب سے ”اردو شاعری کے ممتاز آل راؤنڈر سید ضمیر جعفری“ کے عنوان کے تحت ان کا تین صفحاتی مضمون بھی ظرافت میں شامل کیا گیا ہے۔ عمومی طو رپر معاصرینِ ادب ایک دوسرے کے مقام و مرتبے کو جلد تسلیم نہیں کرتے اور اسے اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں لیکن روشن دماغ ادبا نہ صرف اپنے معاصرین کی دل جوئی کرتے ہیں بلکہ مثبت انداز میں تنقیدی روش کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔ کرنل شفیق الرحمن ایسے نہایت مشاق مزاح نگار سید ضمیر جعفری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”مقبول شاعر، نثر نگار، کالم نویس اور بذلہ سنج ضمیر جعفری کو کون نہیں جانتا؟ شاید وہ معدودے چند نہ جانتے ہوں جو جان بوجھ کر کسی کو بھی جاننا نہیں چاہتے۔ ضمیر ان خوش نصیب ادیبوں میں سے ہیں جنھیں اردو اد ب کی شاندار روایات کے مطابق مشہور ہونے میں کم از کم نوے سو برس نہیں لگے بلکہ محض ۵۳ سال کے قلیل عرصے ہی میں مقبولیت حاصل کرلی۔“(12)
مضمون کا اختتام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ضمیر جعفری کی خوبیاں ان گنت ہیں اور اگر ان کا بیان کیا جائے تو شاید ضمیر جعفری انھیں پسند نہ کریں مزید یہ کہ ان کے ہاں جو کچھ بین السطور ہے، وہ سب انھیں نہایت پسند ہے۔ سید حضرت شاہ، سیکرٹری ”بزمِ ادب“ بریڈ فورڈ، برطانیہ کی جانب سے ”مسکراتی موجِ رنگ“ کے عنوان سے منظوم نذرانہ عقیدت و محبت پیش کیا گیا ہے۔ اس میں سے تین اشعار ملاحظہ کیجیے :
شاعرِ لفظ آفرین و نکتہ داں قہقہوں میں آنسوؤں کا ترجماں
شاعری کی مسکراتی موجِ رنگ زندگی کی گنگناتی کہکشاں
شاعری کی ایک مینارِ بلند آگہی کا بحرِ نا پیدا کراں
عصرِ حاضر میں ظرافت کی سند بعدِ اکبر،اکبرِ اردو زباں (13)
اردو ادب میں وقائع نگاری کے حوالے سے معتبر حوالہ بریگیڈئیر صدیق سالک نے بھی ”اصلی اور نقلی ضمیر“کے عنوان سے تین صفحاتی مضمون بحوالہ سید ضمیر جعفری پیش کیا ہے۔ اس میں انھوں نے ضمیر جعفری سے اپنے تعلقات، ان کے ادبی مقام و مرتبے کے تعین اور ان کی زندگی کے ایسے نہاں گوشوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے جن سے عمومی طور پر لوگ نا واقف ہیں۔ مثلاً ایک واقعے کا اندراج یوں کیا کہ ایک دفعہ ضمیر جعفری کو دیکھا کہ وہ ایک ادیب کے گھر داخل ہوئے اورکچھ دیر بعد وہاں سے نکلے۔پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ سید ضمیر جعفری اس بے یارو مددگار ادیب کی مالی خدمت کرتے تھے اوراس کی اخراجات پورے کرنے کا واحد ذریعہ بھی تھے۔اس سے سید ضمیر جعفری کی انسان دوستی اور نیک دلی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ لکھتے ہیں:
”پرانے صدر کے علاقے میں ایک شخص کو کمبل کی بکل میں لڑھکتے ہوئے دیکھا۔ یہ شخص ایک ٹوٹی ہوئی حویلی میں داخل ہوگا۔ چال ڈھال سے لگا کہ یہ ضمیر جعفری ہیں لیکن رات گئے انھیں دیکھ کر خیال آیا کہ نہیں جس شخص کی سستی اور غیر ذمہ داری کی اتنی دھاک ہے وہ یوں رات کو ایکٹو نہیں ہوسکتا۔ یہ شخص ایک تنگ زینے سے اوپر گیا جہاں ایک کمرے میں مدھم سی بتی ٹمٹما رہی تھی۔ ضمیر اس کے کمرے میں گئے اور واپس آگئے۔ پتہ چلا کہ وہاں ایک مفلوک الحال ادیب رہتاہے جس کی آمدنی کا واحد ذریعہ ضمیر جعفری ہیں۔“(14)
کہنہ مشق اور ممتاز ادیبہ، شاعرہ ادا جعفری نے بھی سید ضمیر جعفری کے فکر و فن پر بات کرتے ہوئے ان کی خدمات کو سراہا ہے۔ انھوں نے ضمیر جعفری کی نظم و نثر کو ادب کے متنوع زاویے قرا ر دیتے ہوئے ان کے بار ے میں اظہارِ خیال کرتے وقت اپنی کم مائیگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی جید نقاد ہی بہتر انداز میں لکھ سکتا ہے البتہ وہ اپنے عصر کے مقبول ترین شعرا میں شامل ہیں:
”اس فن کار کے اتنے زیادہ اور بھر پور زاویے ہیں کہ ان پر لکھنے کا حق کسی جید تنقید نگار کا قلم ہی ادا کرسکتا ہے۔ سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری اور نثر دونوں میں ان کے کمال ِفن کو تسلیم کرتے ہوئے میں تو ان کی شخصیت کے کمال کی بھی معترف ہوں۔ ضمیر جعفری صاحب کا شمار بلا شبہ اپنے عہد کے مقبول ترین ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے۔“(15)
اس کے بعدسید ضمیر جعفری کے حوالے سے جن مختلف مختصر تحاریر کو خوبصورتی سے ماہنامہ ظرافت کی زینت بنایا گیا ہے ان میں الطاف گوہر، کرنل محمد خان، حکیم محمد سعید، جمیل یوسف، علی احمد تال پور، پروفیسر پریشان خٹک، ڈاکٹر جمیل جالبی، مشتاق احمد یوسفی، ڈاکٹر انور سدید، شامل ہیں۔ الطاف گوہر سید ضمیر جعفری کے حوالے سے ”شاعر ِ شیریں مقال“ سے معنون ہدیہ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ہر عمر اور ہر جنس کی عوام و خواص کے لیے یکساں مقبول و پسندیدہ ادیب ہیں۔ ان کی نظم و نثر دونوں ہی میں وہ نہایت عمدگی سے اپنی قابلیت کے گوہرکو ثابت کرچکے ہیں۔ لکھتے ہیں:
”شاداب سبزہ زار ہے، چمنستان ہے بلکہ ایک مکمل ریشم جان ہے۔ ضمیر کو بچے پڑھیں تو انھیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انھیں کوئی جانسن بے بی لوشن مل رہا ہو۔ خواتین کو ن ضمیر کے نثر پارے نرم اور ملائم لگتے ہیں جیسے شنیل کے تھان پر انگلیاں پھیر رہی ہوں، باقی رہے جملہ اہلِ دل تو وہ تو جہان ضمیر کا نقش قلم دیکھتے ہیں، خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں۔“(16)
ّکرنل محمد خان کے سید ضمیر جعفری کے بارے میں خیالات کو بھی ظرافت میں جگہ دی گئی ہے۔عمومی طور پر معاصرین ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں سردجنگ میں مبتلا رہتے ہیں لیکن کرنل محمد خاں سید ضمیر جعفری کے معاصر اور مزاح نگار ہونے کے باوجود وہ نہ صرف ان کی قابلیت کے معترف رہے بلکہ وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے۔لکھتے ہیں:
ضمیر کے بارے میں یہ کہنا ہر طرح صحیح ہے اور درست کہ انھوں نے ادب، صحافت، شعروسخن اور مزاح، ہر محاز پر عہدِ آفریں اضافے کیے ہیں۔“(17)
ظرافت میں حکیم محمد سعیدنے بھی ضمیر جعفری کے بارے میں نیک تمناؤں اور خیالات کا اظہار کیاہے جس میں جذباتیت بھی ہے اور خلوص بھی۔ ان کے فکر و فن کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی زندگی کے لیے دعا گو ہوتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
”ضمیر اپنی حس مزاح سے زندگی کی جوت جگاتے ہیں، وہ نظم و نثر میں پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں اور شبِ تیرہ میں چراغاں کرتے ہیں۔ خدا کرے کہ ضمیر زندہ رہے کہ اس کے بغیر زندگی بے مزہ ہے، میری بھی اور قوم کی بھی۔“(18)
اس کے بعد سرفراز شاہد کاایک مضمون ”سید ضمیر جعفری“ کو جگہ دی گئی ہے جس میں ان کی حیات اور کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے جب کہ جمیل یوسف نے ان کی”ولایتی زعفرانی شاعری“ کو اردو ادب میں ایک نیا اضافہ قرار دیا ہے۔ظرافت میں ڈاکٹر جمیل جالبی ایسے کہنہ مشق محقق اور نقاد نے بھی سید ضمیر جعفری کے بارے میں تحقیق و تنقید پیش کی ہے۔گوکہ ان کی تنقید زیادہ تر تحسین پر مشتمل ہے لیکن اس تحسین میں بھی انھوں نے ان نکات کی جانب اشارہ کیا ہے جن کی جانب عمومی طورپر ناقدین کی نظر نہیں جاتی۔ ان کے مطابق سید ضمیر جعفری مختلف زاویے سے معاشرے کو دیکھتے اور اسی لیے مزاح کے نئے اور انوکھے زاویوں سے قارئین کو محظوط کرتے رہے۔لکھتے ہیں:
”سید ضمیر جعفری کی تحریروں نے اردو ادب کو تازگی و توانائی بخشی ہے۔ میں ان کی تحریروں کا ہمیشہ سے قائل ہوں۔ آپ نے فرد اور معاشرے کو جس انداز سے دیکھا ہے وہ یقینا اچھوتا اور منفرد ہے اور پھر جس انداز سے مشاہدات کو بیان کیا ہے وہ پر لطف، دلچسپ اور سلیس ہے۔“(19)
اردو دنیا کے بے مثال اور انتہائی باریک بیں مزاح نگارمشتاق احمد یوسفی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہم ”عہدِ یوسفی“ میں رہ رہے ہیں لیکن خود مشتاق احمد یوسفی کی تحریر سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کس درجے سید ضمیر جعفری سے متاثر تھے اور ان کے اسلوب کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔ لکھتے ہیں کہ اگر ان کے تجربات و مشاہدات کا آدھ خزانہ بھی ان کے پاس ہو تو وہ سمجھیں گے کہ مزاح نگاری میں لطف پیدا ہوگیا:
”آپ کے تجربات و مشاہدات کا خزانہ ختم ہونے پر نہیں آتا۔ اگر آپ کی چوتھا ئی بے ساختگی اور شگفتگی بھی ہمیں نصیب ہوجائے تو سمجھیں کہ زندگی سواد ت ہوئی۔“(20)
اسی طرح معروف محقق و نقاد ڈاکٹر انور سدید نے بھی سید ضمیر جعفری کے فکر و فن پر بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس قدر متنوع رنگ تصاویر ان کے علاوہ کسی اور مزاح نگار کی تحاریر میں متحرک نظر نہیں آتیں۔لکھتے ہیں:
”معاشرتی زندگی کی جتنی بہجت آفریں صورتیں ضمیر جعفری نے ابھاری ہیں اتنی کسی اور مزاح نگار کے ہاں نظر نہیں آتیں۔“(21)
ضمیر جعفری کے قلم سے ان کی یادگاروں پر مشتمل ایک مضمون ”میرے اصل تمغے“ بھی ظرافت میں شامل کیا گیاہے۔ ساری زندگی انسان دوسروں سے توجہ چاہتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے کاموں کو سرا ہا جائے لیکن کئی مقامات پر اسے ایسی عزت ملتی ہے کہ وہ اس کے لیے بڑے بڑے قلم کاروں کی تحسین اور محبت سے زیادہ بھاری محسوس ہوتی ہے۔ اس مضمون میں بھی سید ضمیر جعفری نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ان کہ اصل تمغے نہ تو سونے کے ہیں نہ ہی چاندی کے اور نا ہی طلائی۔ بلکہ یہ وہ تمغے ہیں جو ان کی زندگی میں انھیں ان مخلص لوگوں کی جانب سے ملے اور ایسے اچھوتے انداز میں ملے کہ ہمیشہ کے لیے ان کے سینے پر ثبت ہو کر رہ گئے۔ ان کے دوست کرنل قدوسی کا بیٹا جس نے چار سا ل کی عمر میں بولنا سیکھا اور پہلا لفظ انھی کے ایک نغمے کا بول ”لام پہ آئے“، چونڈہ کے مقام پر میجر مسعود اختر کیانی کے جیب سے نکلنے والی ان کی ایک نظم جو انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھی تھی اور ماں باپ کی عظمت کے حوالے سے ان کا شعر جو ان کے ایک دوست کے دوست نے قد آدم آئینے کے نیچے لکھوا یا ہوا تھاان کے تمغے ہیں۔ یہ مضمون جذباتی نوعیت کا ہے اور سید ضمیر جعفری کے فکری پس منظر میں جھانکنے کے لیے بھی اہم ہے۔ ماہنامہ ظرافت میں جہاں سید ضمیر جعفری کی مدح میں بہت سے مضامین او ر جشنِ ضمیر جعفری کا ذکر ہے وہیں ان کے نام اہم شخصیات کے خطوط جن میں مشتاق احمد یوسفی، مشفق خواجہ وغیرہ شامل ہیں، کو شامل کیا گیا ہے جب کہ پروفیسر غلام جیلانی اصغر کا تبصرہ، انور مسعود کامنظوم نذرانہ محبت بھی پیش کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ معروف مزاح نگار دلاور فگار کا منظوم ہدیہ محبت بھی شامل کیا گیا ہے۔معروف مزاح نگار دلاور فگار کا ہدیہ تہنیت ملاحظہ کیجیے جس میں وہ ضمیر جعفری کے فن کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
جعفری جو طنز کے شاعر ہیں طبعاً بذلہ سنج ۔۔ ان کی شوخی سے نہیں پہنچا کسی کے دل کو رنج
طنز میں شاعر کا یوں بھی اپنا اک آہنگ ہے ۔۔ فن غزل گوئی ہے ان کا طنز ان کا رنگ ہے (22)
انور مسعودنے اپنا منظوم نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک کمرہ جماعت کا ماحول تخلیق کیا ہے اور پھر اس میں سوال و جواب کے آئینے میں سید ضمیر جعفری کے فکر وفن کی وضاحت کی ہے۔ ایک شاگرد کے سوال کے جواب میں کہ ضمیر جعفری کون ہیں؟ وہ تحریر کرتے ہیں کہ:
کتنے احساں ہیں اد ب پر اس اکیلے نام کے ۔۔ اک شجر پہ ہوں ثمر جیسے کئی اقسام کے
شاعری اس کی دلِ مایوس کا شافی علاج ۔۔ درد مندی اور ظرافت کا سہانا امتزاج (23)
لندن سے ”نذرِ ضمیر“ عنوان کے تحت بلبل کاشمیری نے سید ضمیر جعفری کو منظوم نذرانہ محبت پیش کیا ہے جس میں تحریر کرتے ہیں کہ:
اوروں کی زباں اور ہے تری طرزِ بیاں ہے اور ۔۔ تو نے ضمیر اپنابسایا جہاں ہے اور
اہل ِ زباں کے منھ میں ہیں حیرت کی انگلیاں ۔۔ نکھری زبان سے تری اردو زباں ہے اور(24)
ظرافت کے آخر میں سید ضمیر جعفری کی یادگاری تصاویر دے کراس کا اختتام کیا گیا ہے جس میں وہ اہم ادبی شخصیات کے ساتھ مختلف مقامات اور مواقع پر موجود ہیں۔مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس رسالے کا ضمیر جعفری نمبر ضمیر شناسی کی روایت کا اہم حوالہ ہے۔
—–
حوالہ جات
1۔ماہنامہ ظرافت، سید ضمیر جعفری نمبر، ضیا الحق قاسمی:مدیر،جلد ۲، شمارہ ۶۔۷، کراچی،مئی جون 1990ء
2۔ایضاً، سرورق
3۔ضیا الحق قاسمی، جشنِ ضمیر، ماہنامہ ظرافت، سید ضمیر جعفری نمبر، ضیا الحق قاسمی:مدیر،جلد ۲، شمارہ ۶۔۷، کراچی،مئی جون 1990ء
4۔ کبیر خان، زندہ پیر، ایضاً،
5۔راغب مراد آبادی،ایضاً
6۔غوث خوامخواہ، ایضاً
7۔ ضیا الحق قاسمی، ایضاً
8۔ضیا الحق قاسمی،جشنِ ضمیر،ایضاً
9۔غلام اسحاق خان، صدرِ مملکت غلام اسحاق خان کا پیغام، ایضاً
10۔علی جینجو، سفیرِ پاکستان، Message، ایضاً
11۔آفتاب حسین سید، کونسلیٹ جنرل آف پاکستان، پیغام، ایضاً
12۔شفیق الرحمن، اردو شاعری کے آل راؤنڈر، ایضاً
13۔سید حضر شاہ، مسکراتی موج رنگ، ایضاً
14۔صدیق سالک، بریگیڈئیر، اصلی اور نقلی ضمیر، ایضاً
15۔ادا جعفری، ایضاً
16۔الطاف گوہر، شاعر ِ شیریں مقال، ایضاً
17۔ کرنل محمد خاں، ایضاً
18۔حکیم محمد سعید، ایضاً
19۔ڈاکٹر جمیل جالبی،عہد حاضر کی ایک بھاری بھرکم شخصیت، ایضاً
20۔مشتاق احمد یوسفی، دورِ یوسفی، ایضاً
21۔انور سدید، ڈاکٹر، ایضاً
22۔دلاور فگار، سید ضمیر جعفری اور مافی الضمیر
23۔انور مسعود، تذکرہ ضمیر صاحب کا کلاس روم میں
24۔بلبل کاشمیری، نذرِ ضمیر، ایضاً
٭٭٭

Share
Share
Share