حساس ادیب کی ” الجھن “ لفظوں کا آئینہ :- ڈاکٹر عابد الرحمن

Share


حساس ادیب کی ”الجھن“ لفظوں کا آئینہ

ڈاکٹر عابد الرحمن
(چاندور بسوہ)

کیمسٹری کا لیکچر چل رہا تھا۔ پوری کلاس خاموش اور استاد محترم کی طرف ہمہ تن گوش تھی۔ بس دو ہی آوازیں آرہی تھیں، جو کلاس کا سکوت توڑ رہی تھیں۔ ایک تو استاد محترم کی آواز اور دوسری ٹک ٹک ٹک ٹک کی مسلسل اور ایک مخصوص لئے میں آنے والی آواز۔

کلاس شروع ہوئے ایک مہینہ ہو گیا تھا لیکن یہ آواز اس سے پہلے کبھی سنائی نہیں دی تھی۔ جب خلل اندازی محسوس ہوئی تو سر نے غور کیا اور خاطی پکڑا گیا۔ دراصل وہ آواز ایک طالب علم کے جوتے کو لگی چین سے آرہی تھی۔ جو اس کے مسلسل پیر ہلانے کی وجہ سے پیدا ہو رہی تھی۔ آج اس طالب علم کا اسکول میں پہلا دن تھا۔ سر کے کہنے سے اس نے پیر ہلانا بند کردیا اور اس طرح وہ آواز بند ہو گئی لیکن کسے پتا تھا کہ اس روز بند کروادی گئی وہ آواز کچھ عرصے بعد کوئی اور روپ دھار کر سماج کی سماعتوں کو جھنجوڑے گی۔ وہ دراصل اس طالب علم کے اندرون کا ارتعاش تھا جو پیر میں منتقل ہوکر اس آواز کا سبب بن رہا تھا۔ کچھ سال پہلے جب میں نے اس کی تخلیق کردہ کہانیاں افسانچے اور افسانے پڑھے تومیرے کانوں میں ٹک ٹک ٹک ٹک کی وہی آواز گونجنے لگی جو سولہ سترا سال پہلے اس کے جوتے سے آرہی تھی۔ جو آواز کم سنی کے زمانے میں بند کروادی گئی تھی اب اس نے اپنے اظہار کے لئے نشتر نما افسانچوں اور آئینے کے سے افسانوں کا روپ دھار لیا ہے۔ دراصل یہ اس طالب علم کے حساس دل و دماغ کی آواز ہے جو سماج کی خرابی کو دیکھ مرتعش ہوتے ہیں اور یہ ارتعاش قلم سے ہوتے ہوئے لفظوں کی شکل قرطاس پر بکھر کر سماج کے لئے لفظوں کا ایک آئینہ بن جاتا ہے کہ وہ اس میں اپنی قبیح صورت دیکھ کر اس کے سدھار کا سامان کرے، کم از کم میک اپ ہی کرلے۔ اب اس طالب علم کے افسانچوں اور افسانوں کا مجموعہ ” الجھن“ شائع ہو چکا ہے۔ ایک سو اٹھاوس صفحات کی اس کتاب میں تقریباً پانچ درجن افسانچے اور تیرہ افسانے ہیں جن میں اس نے سماج کے ہر پہلو کو اپنے فن کی روشنی سے منور کر نے کی کوشش کی ہے۔ ہر تخلیق میں کوئی نہ کوئی اصلاحی پہلو پوشیدہ ہے، اس کے لئے کہیں کرارے طنز کا سہارا لیا گیا تو کہیں براہ راست گفتگو کا۔ ہمارے ملی سماجی سیاسی مسائل اس کتاب میں بڑی خوبصورتی سے نشان زد کئے گئے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے اندر کافی ترقی کر چکی برائیوں کی نشاندہی دراصل ان کو سدھارنے کی ایک کوشش ہے جو اس کتاب میں جابجا کی گئی ہے۔ اس کی یہ کتاب ایسی کہانیوں کا مجموعہ ہے جو ہماری اپنی ہیں، ہم روز جن کو بچشم خود دیکھتے ہیں، اس کتاب میں وہ کرب بیان کیا گیا ہے جس سے ہمارا معاشرہ جوجھ رہا ہے۔ اس کتاب میں موجود ساٹھ افسانچے ہمارے سماج کو لاحق ساٹھ ایسے ناصوروں کی نشاندہی کر رہے ہیں جو مسلسل رس کر ہمیں اخلاقی روحانی اور دنیاوی اعتبار سے کمزور کر رہے ہیں۔ وہ طالب علم کوئی اور نہیں ابھرتا ہوا نوجوان افسانہ و افسانچہ نگار محمد علیم اسماعیل ہے۔
مجموعہ ” الجھن“ کے افسانچے سوچ و فکر، معاشرت، سیاست اور عبادات میں ہماری منافقت، ہمارے سماج میں روز بروز بڑھتی جارہی بد عنوانی، کرپشن، بد دیانتی، ترقی کی دوڑ میں تیزی سے گرتے اخلاقی اقدار، عریانیت، فحاشی، کمائی میں حلال و حرام کی تمیز کا فقدان اور کھانے میں حلال چھاننے کے دوغلے پن، ہمارے نوجوانوں کی بے راہ روی، ہمارے امیروں کی کم ظرفی، ہماری منفی سیاست، اور والدین کی طرف ہماری عدم توجہی کو اس طرز سے بیان کیا ہے کہ یہ سارے مناظر ایک کے بعد ایک ہمارے ذہن کے پروجیکٹر سے ہماری آنکھوں کے سامنے حقیقت کی طرح چلنے لگے ہوں۔
افسانوں کا بھی یہی حال ہے۔ ان میں کہیں حرص و ہوس بد نیتی اور بد دیانتی کے آرے سے کٹتے خونی رشتے اور اس سے ہونے والی’الجھن‘کی منظر کشی ہے تو کہیں ملازمت اور مشاہرے کے ’انتظار‘ میں ہمارے تعلیم یافتہ ٖافراد کی مجبوری کی داستان تو کہیں تعلیم کے حصول میں ہماری بچیوں سے سرزد ہو نے والی ’خطا‘ اور پھر اس کے برے نتائج کی نشاندہی ہے تو کہیں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ رشتہ اگر سچا ہو محبت اگر بے لوث ہو تو جن بھوت کا ڈر اور ’رخوف ارواح‘ اس کے سامنے کوئی معانی نہیں رکھتا۔ کہیں انتہائی دل پذیر انداز میں وہ سبب بیان کیا گیا ہے جس سے قوموں کی’شوکت پہ زوال‘ آتا ہے۔ کہیں ہمارے سماج کو جڑ سے کھوکھلا کر نے والے اندھے اعتقاد کو اسطرح پیش کیا گیا ہے کہ جسے پڑھ کر خود بخود اس کی تباہ کاریوں کا ادراک ہو جاتا ہے۔ کہیں اپنے پھٹے لباس سے ’تاک جھانک‘کرتی ہمارے امیروں کو منھ چڑھاتی ہماری اکثریت کی غربت کی کہانی کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ اسے پڑھ کرآنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ کہیں حقیقی رشتوں کے سامنے سوشل میڈیا کی ’خیالی دنیا‘ کی بے وقعتی کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی تو کہیں انتہائی دلچسپ انداز میں یہ بتا یا گیا ہے کہ کمزور طلبہ کے تئیں ہمارے اساتذہ کی غیر ارادی بے توجہی کس طرح انہیں حقیقت میں ’مٹھا‘ بنا کر ان کا مستقبل تاریک کرسکتی ہے۔ کہیں کہانی میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ کس طرح ہمیں پشیمانی کے اشک بہانے سے روک سکتا ہے تو کہیں بچوں کی پرورش اور بہتر نگہداشت میں باپ کی قربانی کو افسانے کا منظر بنا کر بچوں میں باپ سے ’وفا‘ کا جذبہ ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے تو کہیں اپنے بیٹے بہو کے ذریعہ ستائی جارہی ایک ماں کا کرب ہے۔
علیم اسماعیل ایک ایسا نبض شناس افسانہ نگار بن کر ابھرا ہے کہ جس نے فکشن کو لایعنی کہانیوں اور لیلیٰ مجنوں کے قصوں سے نکال کر حقیقت کا جامہ پہنا دیا ہے۔ علیم کی تخلیقات کے فنی پہلو پر تو میں گفتگو نہیں کرسکتا لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ علیم اسماعیل نے اپنی تخلیقات میں سماج کو لاحق عوارض کی نشاندہی نہایت خوبصورت اور دل پذیر انداز میں کی ہے اور ’الجھن‘ کی صورت میں اسے سماج کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب یہ سماج کی ذمہ داری ہے کہ وہ علیم اسماعیل کی ان تخلیقات سے اپنے مرض کی تشخیص کرے اور اس کا شافی علاج ڈھونڈ نکالے۔
—–

Share
Share
Share