روداد حج (1) – جو کچھ میں نے دیکھا :- ڈاکٹر سیّد احمد قادری

Share
ڈاکٹر سیّد احمد قادری

روداد حج (1)
جو کچھ میں نے دیکھا

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ: 99348391101

بے شک حج بیت اللہ ایک سعادت ہے۔ اللہ پاک جسے اس سعادت سے نوازے۔ میں اللہ پاک کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس سال یہ سعادت بخشی اور اب بس اللہ پاک سے یہ دعاء ہے کہ میرے حج قبول کرے۔

یوں تو ایک صحافی ہونے کے ناطے میں نے دوران سفر بہت کچھ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی اور جو کچھ دیکھا اور سمجھا۔ان میں سے چند باتوں کا اظہار اس لئے ضروری جانا کہ آئندہ حج پر جانے والوں کے لئے مذید آسانیاں پیدا ہوں اور میں جن دشواریوں سے گزرا، ویسی دشواریوں کو انھیں سامنا نہ ہو۔ یوں تو ہر سال حج سے واپسی کے بعد حج کمیٹی آف انڈیا کے ناقص انتظامات پر شکایت اور احتجاج ہوتا ہے اور ہر سال حج کمیٹی وقتی غم و غصّہ سمجھ کر پلّہ جھاڑ لیتی ہے۔ لیکن اس بار حج کمیٹی ایک صحافی کی روداد حج پر اگر توجہ دیتی ہے تو میں سمجھونگا کہ میری یہ کوشش کام آئی۔
حج پر جانے سے قبل اگر مختلف شہروں میں دی جانے والی ٹریننگ اور حج کمیٹی آف انڈیا کی جانب سے فراہم کردہ حج گائیڈ(اگر حج کمیٹی گائیڈ بر وقت مہیا کرا دے) کا بغور مطالعہ کر لیا جائے اور بخوبی سمجھ لیا جائے تو میرا خیال ہے کہ قیام مدینہ منوّرہ اور مکّہ المکرمہ اور حج کے پانچ روز میں زیادہ دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ حج کمیٹی آف انڈیا کی جانب سے جانے والے عازمین حج کی بڑی تعداد مالی اعتبار سے کمزور اور ناخواندہ ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں زیادہ پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہے۔ ویسے دوسرے ممالک کے عازمین حج کو دی جانے والی سہولیات دیکھ کر بہت شدّت سے حج کمیٹی آف انڈیا کی جانب سے دی جانے ’سہولیات‘کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ خاص طور پر زیارت، طواف اور سعی وغیرہ کے وقت جس طرح سے عازمین حج کے ساتھ ساتھ ان کے معلم کے رضاکار ساتھ ساتھ رہتے ہیں،اور اپنے عازمین حج کے ساتھ ٹولی بنا کر آگے آگے چلتے ہیں، مختلف اوقات اور مقامات پر پڑھی جانے والی دعائیں بہ آواز بلند پڑھتے جاتے ہیں اور عازمین حج ان آیات کریمہ اور دعاؤں کو دہراتے جاتے ہیں، اس وجہ کر ان کے طواف اورسعی بہتر طور پر مکمل ہوتے ہیں۔ بیشتر ممالک کے عازمین حج کے اپنے لباس کے اُوپر کوئی جیکٹ یا لبادہ بالکل ایک جیسا ہوتا، ساتھ میں بالکل ایک جیسا بیگ، جس پر ملک کا نام و نشان اور عازم حج کی تصویر اور تفصیل ہوتی ہے، جس کے باعث ان عازمین حج کے گم ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، اگر ادھر اُدھر ہوئے بھی تو پل بھر میں اپنے ملک کے عازمین حج کے لوگوں کے ساتھ آ کر مل جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کی ایسی کوئی ٹولی کو لے کر چلنے والا ہمارے معلم کا کوئی رضا کار نظر نہیں آیا۔ معلم کے سلسلے میں عام طور پرلوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ان کا معلم ان کے ساتھ رہے گا اور ان کی مدد کرے گا۔ دراصل ایشاء کے کئی ممالک سے کوئی سعودی شہری،حج کے انتظامات کا ٹھیکہ لے لیتا ہے۔ ٹھیکہ ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت کی وزارت اقلیتی فلاح اور حج کمیٹی آف انڈیا، ممبئی کے مشوروں سے ہی کسی کو دیا جاتا ہوگا۔ یہ بھی میرا خیال ہے کہ ان ہی تینوں کے درمیان کچھ طےٗ ہوتا ہوگا۔ کہا گیا ہے جتنی چینی ڈالی جائیگی، مشروب اتنا ہی میٹھا ہوگا۔ ٹھیکہ کا جو حال ہمارے ملک میں ہے، وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال ہمارے معلم کا نمبر 57 (Muttawiffy hujjaj South Asia Est)تھا اور معلم کا نام طلال عبدالرزاق محبوب تھا۔ حج کمیٹی آف انڈیا کی جانب سے حج پر جانے والوں کے لئے دو کیٹگیری، عزیزیہ اور گرین ہوا کرتی تھی۔لیکن اب گرین کیٹگیری کا نام بدل کر NCNT یعنی (Non Cooking& Non Transport Zone)کر دیا گیا ہے۔ ہم نے اپنی سہولیات کے پیش نظر گرین کیٹگیری کو ترجیح دی تھی اور ہم نے فی کس (ساتھ میں میری اہلیہ بھی تھیں) تین لاکھ اٹھائس ہزار(3,28000/=) روپئے جمع کئے تھے۔ واضح رہے کہ اس بار مرکزی وزیر اقلیتی فلاح، مختار عباس نقوی کا کئی بار بیان نظر سے گزرا تھا کہ اس سال حج پر جانے والوں کے خرچ میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اب میری کیا کسی کی سمجھ میں یہ بات کیسے آئے گی کہ دو سے ڈھائی لاکھ کی بجائے دو لاکھ اٹھائیس ہزار (کہیں اس سے کچھ کم کچھ زیادہ بھی) فی کس کی ادائیگی کے بعد خرچ کم کیسے ہوا؟ ہاں عازمین حج کی تعداد ایک لاکھ اسّی ہزار میں بیس ہزار کا اضافہ ضرور ہوا۔ جس پر ہمارے وزیر اعظم اور وزیر اقلیتی فلاح نے اپنی پیٹھ کئی بار تھپتپائی۔ کاش کہ عازمین حج کی تعداد میں اضافہ کے بجائے عازمین حج کو کچھ بے حد ضروری سہولیات دینے کی کوشش کی جاتی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یوں بھی آج کی کمر توڑمہنگائی اور حج کمیٹی آف انڈیا کے مالی استحصال کے باعث عازمین حج اب معزوری ظاہر کرنے لگے ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس طرح لگایئے کہ ریاست بہار سے عازمین حج کا کوٹہ ساڑھے دس ہزار ہے۔ لیکن یہ تعداد کم ہوتے ہوتے اب تین ہزار کے آس پاس سمٹ کر رہ گئی ہے۔ یہ بات بار بار سامنے آ رہی ہے کہ ایئر انڈیا کا خسارہ عازمین حج کی رقم سے ہی پورا کیا جا رہا ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے دی جانے والی رعایت(سبسیڈی) کو ختم کر دیا گیا اور اوپر سے جی ایس ٹی بھی لاد دیا گیا۔ ایسے میں حج کمیٹی کو عازمین حج کے فضائی خدمات کے لئے گلوبل ٹنڈر کی آزادی ہونی چاہئے، جس سے حج پر جانے سے قبل عازمین حج جتنی بھاری رقم جمع کرتے ہیں، اس سے ہوائی جہاز کے کرایہ میں کافی کمی آئے گی۔ لیکن حکومت نے اس سہولت پر بھی بندش لگارکھی ہے۔اس مطالبہ کو لے کر چند سال قبل آل انڈیا حج سیوا سمیتی، دہلی کے حافظ نوشاد احمد اعظمی نے ہائی کورٹ میں کیس بھی درج کیا تھا، کامیابی نہیں ملنے پر وہ سپریم کورٹ بھی گئے۔ لیکن افسوس کہ وہاں بھی ان کے حق میں فیصلہ نہیں ہوا۔ بہرحال حج کمیٹٹی کی دی گئی اطلاع کے مطابق اس سال 62 حج افسر اور 203 اسسٹنٹ حج افسروں کی’فوج‘عازمین حج کی خدمات کے لئے تعینات کئے گئے تھے۔ لیکن کاش ان میں سے کسی سے کسی کی ملاقات ہو جاتی۔ یہ سب افسران بس ’دھونڈتے رہ جاوگے‘ہی ثابت ہوئے۔ ہاں مختلف ریاستوں سے خادم الحجاز نظر آیا کرتے تھے اور وقت بے وقت مدد بھی کیا کرتے تھے۔
حکومت ہند اور حج کمیٹی کی جانب سے جو سہولیات ملیں، ان کا حال یہ تھا کہ مدینہ میں دس دنوں کا مرحلہ تھا، جو عبادات میں کیسے گزر گئے، پتا ہی نہیں چلا۔ لیکن مکّہ میں تقریباََ ایک ماہ دس دن کا قیام رہا اور اس پورے عرصے میں ہر شخص پریشان رہا۔ این سی ایند این ٹی(گرین) زون میں جانے والے عازمین حج کو کمرے میں چائے بنانے کی بھی اجازت نہیں تھی تو کھانا بنا ناکیسے ممکن تھا۔ لیکن افسوس کہ حج کمیٹی یا وہاں کے معلم نے لمحے بھر کے لئے بھی اس بات کی فکر نہیں کی کہ ایسے عازمین حج جو اپنی سہولیت کے لئے زیادہ پیسے دے کر آئے ہیں۔ وہ کھانا،ناشتہ کہاں اور کیسے حاصل کرینگے۔ صبح میں کچھ پھل اور بسکٹ وغیرہ کھا کر گزارہ کر لیا جاتا تھا، لیکن دوپہر اور پھر رات کے کھانے کے لئے ظہر کی نماز کے بعد تپتی دھوپ میں عازمین حج ادِھر اُدھربھٹکتے نظر آتے۔ ہماراجہاں قیام تھا اور مذید جن ہندوستانیوں (این سی اینڈ این ٹی) کومسجد جن کے قریب ٹھرایا گیا تھا، دراصل وہ ہوٹل نہیں بلکہ بلڈنگیں تھیں، اس لئے کھانے پینے کاان بلڈنگوں میں دوسرے ہوٹلوں کی طرح کوئی نظم نہیں تھا۔ حج کمیٹی والے اگر ان جگہوں پر کوئی ہندوستانی ریستوراں ہی کھلوا دیتے تو سمجھا جاتا حج کمیٹی نے اپنے عازمین حج کے لئے ایسا کچھ انتظام کیا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں دیکھنے کو نہیں ملا۔ پاس میں ایک پاکستانی اور ایک دو بنگلہ دیشی ریستوراں تھے، لیکن ان کا کھانا بس بھوک مٹانے کیے لئے ہی کیا جاتا تھا۔ Non Transport کا فائدہ مجھے یہ نظر آیا کہ مجھے اس زون کے عازمین حج کو حرم کے قریب ٹھرایا گیا۔ میں چونکہ شروع میں گیا تھا، اس لئے روڈ پر کی ہی ایک بلڈنگ میں جگہ ملی۔ لیکن بعد کے آنے والوں کواونچی اونچی پہاڑیوں پر واقع بلڈنگوں میں ٹھرایا گیا۔ اب سوچئے کہ ضعیف مرد و وعورتوں اور چلنے پھرنے سے معزور لوگوں کو آنے جانے میں کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ پانچ روزہ حج کے موقع پر جس طرح مکّہ سے منیٰ اور منیٰ سے عرفات لے جانے کے لئے ہزاروں عازمین حج کے لئے صرف تین عدد بسوں سے لے جایا گیا۔ نتیجہ میں پوری رات عازمین حج کے درمیان بسوں پر سوار ہونے کے لئے دھکّا مکّی ہوتی رہی۔ ان میں بوڑھے، مجبور اور معذور عازمین بھی تھے۔ جو ان کے لئے یقیناََبہت تکلیف دہ تھا۔ منیٰ میں چار دن کے قیام کے دوران جس طرح کا کھانا ناشتہ دیا گیا، وہ عازمین حج کو بیمار ڈالنے کے لئے کافی تھا۔ فروری 19 ء کا یعنی چھ ماہ قبل کاFrozen (فروزین) کیا ہوا چکن بریانی اور چکن سوپ وغیرہ دیا جا رہا تھا۔ لوگوں کے ہنگامہ اور احتجاج کرنے پر وہاں کے ذمّہ داروں نے بتایا کہ آپ لوگوں کے ملک کی کمیٹی نے یہی خورد و نوش کو اپروو کیا ہے۔ جبکہ بغل میں اسی معلم کی جانب سے بنگلہ دیش کے عازمین کو اچھا کھانا ناشتہ دیا جا رہا تھا۔ منیٰ کے خیموں سے 8 ذی الحجہ کی شب میں عرفات جانے کے لئے مکتب 57 کی بسوں کی کمی کے باعث بھی لوگ پوری رات پریشان رہے۔ جبکہ دوسرے مکتب (معلم) کے لوگوں کے لئے بہت ساری بسوں کا انتظام تھا۔ منیٰ سے پوری رات دھکّا مکّی کرتے ہوئے کسی طرح ہم سبھی فجر بعد عرفات پہنچے۔ عرفات میں بلا شبہ اچھا انتظام تھا۔ مخیر اور اللہ والوں کی جانب سے طرح طرح کی سبیلیں مہیا کی جا رہی تھیں۔ عرفات میں عازمین حج کے لئے خیمہ لگایا گیا تھا۔ 9 /ذی الحجہ کو ظہر کے بعد خوب بارش اور آندھی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بارش کو رحمت کی بارش سے تعبیر کرتے ہوئے، تمام عازمین حج نے طرح طرح سے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ خوب خوب دعائیں کی گئیں۔ دن بھر کی عبادت کے بعد عصر سے مغرب تک دعاؤں کا سلسلہ جاری رہا۔ مغرب کا وقت ہوتے ہی عرفات سے مذدلفہ کے لئے روانگی ہونی تھی۔ لیکن تا حد نگاہ روڈ پر گاڑیوں کا اژدھام نظر آیا۔ یہاں بھی کوئی کچھ بتانے والا نہیں تھا کہ ہم لوگوں کو کس طرح عرفات سے مذدلفہ، جس کی دوری تقریباََ 9 کیلو میٹر تھی، جانا ہے۔ ہم لوگوں میں سے بیشتر لوگ جام دیکھ کر پیدل ہی مذدلفہ کے لئے روانہ ہو گئے۔ عورتوں، مردوں کی پیٹھ اور ہاتھوں میں سامان کا بوجھ تھا اور زبان پر اللہ کا نام تھا۔ بہت زیادہ ضعیف اور معزور لوگوں کو وہاں رات ساڑھے گیارہ بجے تک بسوں کا انتظار کرنا پڑا اور وہ بھی آدھی دور لے جا کر چھوڑ دیا، یہ کہہ کر کہ آگے جام بہت ہے۔ ہم لوگ عرفات سے مذدلفہ کے موڑ پر پیدل پہنچے تو دیکھا کہ گاڑیوں کے اژدھام کو ہٹانے کے لئے انتظامیہ کی جانب سے کوئی شعوری کوشش نہیں تھی۔ دوسرے کئی مملک کے عازمین کے لئے اسٹینڈ سے بسیں نکل رہی تھیں اور یہ بسیں اپنے اپنے ملک کے عازمین کو لے کر مذدلفہ کی جانب بڑھ رہی تھیں اور ہم ہندوستانی لوگ ان جاتی ہوئی بسوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔مغرب کے وقت سے پیدل چلتے ہوئے،راستے میں کئی جگہ تھک کر بیٹھتے ہوئے تقریباََ بارہ بجے رات مذدلفہ پہنچے۔ پیدل چلنے والوں میں کئی معزور اور ضعیف لوگ بھی ملے، جو پریشان حال تھے، لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ ایسے لوگوں کا یہ حال دیکھ کر ہم لوگ اپنی تکلیف اور پریشانیاں بھول جاتے تھے۔ راستے میں جگہ جگہ پانی، جوس وغیرہ دینے والوں کی مہربانیاں شامل تھیں۔ مذدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد کھلے آسمان کے نیچے چٹائی بچھا کر سونے کی کوشش کی۔ ہم لوگ بہت تھکے ہوئے تھے،پھر بھی نیند تو آ ہی گئی۔عرفات سے لوگوں کے قافلہ کے آنے کا سلسلہ بدستورجاری تھا، پیدل چلتے ہوئے آنے والوں میں ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ (بقیہ آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭

Share
Share
Share