اذان کا دوسرا کلمہ – اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (5) :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اذان کا دوسرا کلمہ،
اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (5)

مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536

اذان کا دوسرا کلمہ، اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی چوتھی قسط کے لیے کلک کریں

”رسول اللہ ﷺ کا دُنیا میں ایک بہت بڑا کام اور آپ ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد انسانوں پر اللہ کی حکومت اور شریعت کا قائم کرنا، زمین میں آسمانی نظام سیاست و اخلاق و معاشرت کا جاری کرنا تھا-

پشاور کے فاتح اور ۳۱ ویں صدی کے امیر المومنین کی زندگی میں اتباع نبوی کی یہ حیثیت بہت نمایاں نظر آئے گی اور اسی چیز نے مشائخ اُمّت میں اس جوان کا سر اُونچا کردیا ہے۔ مصلحین اور علماء و مشائخ نے بلا شبہ اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، اور دے رہے ہیں، ہزاروں بندگان خدا کو ان سے ہدایت ملی، ہزاروں کو ان کی وجہ سے کلمہ نصیب ہوا، ہزاروں کے خاتمے اچھے ہوئے، آج بھی رسول اللہ ﷺ کا یہ فیض ان سے جاری ہے لیکن ان سب کے حلقے اور عمل کے دائرے محدود ہیں۔ سید صاحب ؒ نے اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھا کہ حکومت الٰہی کے قیام اور اسلامی نظام حیات و قوانین و حدود کے اجرا اور ماحول کی تبدیلی کے بغیر یہ سب کوششیں ’کندہ و کاہ برآوردن‘ ثابت ہوں گی صرف چند خاص لوگوں کی اصلاح ہوگی، لیکن ضرورت فضا بدلنے اور جڑ مضبوط کرنے کی ہے، آپ ؒ اسی نقشہ پر کام کرنا چاہتے تھے جس پر رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے خلفاء راشدین ؓ نے کیا، اور تجربہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ اور پائدار کامیابی اسی کو ہوئی اور قیامت تک اسلام کی ترقی کے لئے وہی نظام عمل ہے۔ اسلام صرف خواص کا مذہب نہیں اور چند منتخب لوگوں کا ان پر عمل کرنا کافی نہیں، اسی طرح اسلام عیسائیت کی طرح چند عقائد و رسوم کا نام نہیں، وہ پوری زندگی کا نظام ہے، وہ زمانے کی فضا، طبیعت بشری کا مذاق اور سواداعظم کا رنگ بدلنا چاہتا ہے اور عقائد کے ساتھ ساتھ اخلاق و معاشرت زندگی کے مقاصد و معیار، زاویہ نظر اور انسانی ذہنیت کو بھی اپنے قالب میں ڈھالنا چاہتا ہے، یہ اسی وقت ہوسکتا ہے کہ اس کو مادی و سیاسی اقتدار حاصل ہو، صرف اسی کو قانون سازی اور تنفیذ کا حق ہو، اسی سے صحیح نمائندے دنیا کے لئے نمونہ ہوں، اسلام کے مادی اقتدار کا لازمی نتیجہ اس کا روحانی اقتدار اور صاحب اقتدار جماعت کے اخلاق و اعمال کی اشاعت ہے، اسی حقیقت کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے: اَلَّذِےْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَ آتَوُا الزَّکوٰۃَ وَ اَمَرُوْا بِالمعٰرُوْف وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلِّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۔ (۲۲:۱۴) (یہ مظلوم وہ ہیں کہ اگر ہم نے زمین میں انھیں صاحبِ اقتدار کردیا، (یعنی انکا حکم چلنے لگا) تو نماز قائم کریں گے ادائے زکوٰۃ میں سرگرم ہونگے، نیکیوں کا حکم دیں گے، بُرائیوں سے روکیں گے اور تمام باتوں کا انجام کاراللہ ہی کے ہاتھوں میں ہے۔)
ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ شرعی حکومت کے بغیر شریعت پر پورا عمل بھی نہیں ہوسکتا، اسلام کے نظم ِ عمل کا ایک مستقل حصہ ایسا ہے جو حکومت پر موقو ف ہے۔ حکومت کے بغیر قرآن مجیدکا ایک پورا حصہ ناقابل ِ عمل رہ جاتا ہے۔ خود اسلام کی حفاظت بھی قوت کے بغیر ممکن نہیں، مثال کے طور پر اسلام کا پورا نظام مالی و دیوانی و فوج داری معطل ہوجاتا ہے، اسی لئے قرآن غلبہ و عزّت کے حصول پر زور دیتا ہے، اور اسی لئے خلافتِ اسلامی بہت اہم اور مقدس چیز سمجھی گئی۔ اور اس کو اکابر صحابہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تجہیز و تکفین پر مقدم رکھا، جسے بہت سے کوتاہ نظر نہیں سمجھتے اور اسی کی حفاظت کے لئے حضرتِ حُسین ؓ نے اپنی قربانی پیش کی تاکہ اسکا مقصد ضائع نہ ہو اور وہ نا اہل ہاتھوں میں نہ جانے پائے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام میں جس قدر اہم فریضہ ہے، وہ اس سے ظاہر ہے کہ اُمّت کی بعثت کا مقصد یہی بتایا گیا ہے۔ کُنْتم خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (سورۂ ال عمران آیت ۰۱۱) (تم بہترین قوم ہو جو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔“اور قیامت تک کے لیے مسلمانوں پر یہی فرض قرار دیا گیا ہے:وَلْتَکُمْ مِنْکُمْ اُمَّۃُ یَّدْعُوْنَ اِلیٰ الْخَیْرِ وَیَاْمَرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (۳:۴۰۱)”تم میں ایک ایسی جماعت رہنی چاہیے جو بھلائی کی طرف دعوت دیتی رہے، نیکی کا حکم کرتی رہے اور برائی سے روکتی رہے۔)
لیکن یہ یاد رہے کہ اس کے لیے امر (حکم) اور نہی (ممانعت) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اہل علم جانتے ہیں امر ونہی کے لفظ میں اقتدار اور تحکم کی شان ہے، یہ نہیں فرمایا کہ وہ بھلائی اختیار کرنے کے لیے درخواست و عرض کریں گے، پس امر ونہی کے لیے سیاسی اقتدار اور مادی قوت کی ضرورت ہے اور امت کا فریضہ ہے کہ وہ اس کا انتظام کرے۔ صحیحین کی مشہور حدیث ہے: مَنْ رَأی مِنْکُمْ مُنْکَراً فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ لْاِیْمَانِ ہ(تم میں سے کوئی شخص کوئی برا کام دیکھے، اسے ہاتھ سے روک دے اگرہاتھ سے نہ روک سکے تو زبان سے روکے، اگر زبان سے بھی نہ روک سکے تو دل سے برا سمجھے اور یہ آخری درجہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔)
ظاہر ہے تَغْیِیْرِ بِاْلیَدِ (ہاتھ سے بدل دینے اور عملی اصلاح) کے لیے قوت و اقتدار کی ضرورت ہے، زبان سے روکنے کے لیے قوت و آزادی کی ضرورت ہے، اگر یہ کچھ نہیں تو تیسرے درجہ پر قناعت کرنی پڑے گی، جو ایمان کا آخری درجہ ہے اور جس کے بعد بعض روایات کے مطابق ایک ذرہ برابر بھی ایمان نہیں رہ جاتا، مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ غلامی میں دل سے برا سمجھنا اور زشت و نیک کا احساس بھی جاتا رہتا ہے۔
(منقول: سیرت سید احمد شہید، جلد اول صفحہ ۶۵ تا ۹۵)
سیرت سید احمد شہید ؒ ہی میں ایک اور جگہ مولانا سیدابو الحسن علیٰ ندوی ؒ تحریرفرماتے ہیں۔(اسلام کی خدمت اور نوع انسانی کی سعادت کا ایک ہی لائحہ عمل ہے، جو اس کتاب میں بتایا گیا ہے اور وہ وہی ہے جس کے مطابق جناب رسولﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین اور بعض مجددین امت نے عمل کیا، یعنی دنیا میں اسلامی شریعت اور خلافت کا صحیح نظام قائم کرنا اور اسلام کے اخلاقی، روحانی،مادی، سیاسی غلبہ کی کوشش کرنا، اسی طرح سے مسلمانوں کی منزل مقصود کا بھی صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ وہی راستہ ہے جس سے امت کا پہلا قافلہ منزل تک پہنچا ہے،) لَنْ یُصْلِحَ آخِرَ ھٰذِہِ الْاُمَّہِ اِلّاَمَا اَصْلَحَ اَوَّ لُھَا۔(اس امت کے پچھلوں کی اصلاح صرف وہی چیز کر سکتی ہے جس نے اگلوں کی اصلاح کی تھی، یعنی دین خالص اور اس کی پیروی) (منقوع سیرت سید احمد شہیدؒ جلد اول صفحہ ۳۴)
اسی جلد میں ایک اور مقام پر مولانا علی میاں ندویؒ تحریر فرماتے ہیں، (دین کا قیام سلطنت سے ہے اور وہ دینی احکام جن کا تعلق حکومت سے ہے، سلطنت کے نہ ہونے سے صاف ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، اور مسلمانوں کے کام کی خرابی اور سرکش کفار کے ہاتھ سے ان کی ذلت و نکبت اور شریعت مقدسہ کے شعائر کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے معابد و مساجد کی جو تخریب ہوتی ہے وہ بخوبی ظاہر ہے۔ (سیرت سید احمد شہید جلد۱ صفحہ ۲۲۴)
اسی طرح سورۂ ال عمران کی آیت ۴۰۱ وَلْنکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃُ یَّدْعُوْنَ اِلٰی الْخَیْرِ وَ بَامُرُوْنَ بِالْمَعرُوف وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرْ وَاُولٰٓیِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (ال عمران آیت ۴۰۱) ترجمہ: اور ضرور تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو بھلائی کی دعوت دے، اور معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے) سیرت سید احمد شہیدؒ میں مولانا علی میاں ندویؒ مذکورہ آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں، (لیکن یہ یاد رہے کہ امر (حکم) اور نہی (ممانعت) کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، اہل علم جانتے ہیں کہ امرو نھی کے لفظ میں اقتدار و تحکم کی شان ہے، یہ نہیں فرمایا کہ وہ بھلائی اختیار کرنے کے لئے درخواست وعرض کریں گے، پس امر و نہی کے لیے سیاسی اقتدار اور مادی قوت کی ضرورت ہے اور امت کا فریضہ ہے کہ وہ اس کا انتظام کرے۔ (منقول سیرت سید احمد شہید جلد۱ صفحہ ۷۵)
برصغیر ہندوپاک کے فکری و علمی رہنما شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی ایک تحریر سے بھی اسلام میں، اسلامی سیاست و حکومت کی اہمیت و ضرورت اچھی طرح واضح ہوتی ہے، جو آپؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب حُجَّۃ اللہِ الْبالغہ میں تحریر فرمایا ہے۔چنانچہ وہ تحریر متن و ترجمہ کے ساتھ پیش کی جارہی ہے۔
اِعْلَمْ اَنَّہ‘ یَجِبُ اَنْ یَّکُوْنَ فِی جَمَاعَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ خَلِیْفَۃً لِمَصَالِحٍ لاَ تَتِمُّ اِلَّا بِوُجُوْدِہِ وَھِیَ کَثِیْرَۃ’‘ جِدًّا یَجْمَعُھَا صِنْفَانِ،اَحْدُھُمَا مَا یَرْ جِعُ اِلٰی سِیَاسَۃِ الْمَدِیْنَۃِ مِنْ دَبِّ الْجُنُوْدِ الَّتِیْ تَغْفُرُوْھُمْ وَتُقَھَّرُھُمْ وَ کَفِّ الظَّالِمِ عَنِ الْمَظْلُوْمِ وَفَصْلِ الْقَضَاےَا وََغَےْرِ ذَالِکَ وَقَدْ شَرَحْنَا ھٰذِہِ الْحَاجَاتِ مِنْ قَبْلُ۔ وَثَانِےْھُمَا مَاےَرُجعُ اِلیٰ الْمِلَّۃِ وَ ذٰلِکَ اَنَّ تَنْوِےْۃِ دِےْنِ الْاِسْلاَمِ عَلیٰ سَاءِرِ الْاَدْےَانِ لاَےُتَصَوَّرُ اِلاَّ بِاَنْ ےَّکُوْنَ فِی الْمُسْلِمِےْنَ خَلِےْفَۃََ ےُنْکِرُ عَلیٰ اِفْتِرَاضِہٖ اَشَدَّ الْاِنْکَارِ وَےُذِلُّ اَھْلَ سَاءِرِ الْاَدْےَانِ وَےَأَخُذَ مِنھُمُ الْجِزْےَۃَ عَنْ ےَدِِ وَھُمْ صَاغِرُوْنَ وَ اِلَّا کَانُوْا مُتَسَاوِےْنَ فِی الْمَرْتَبَۃِلاَ ےَظْھَرُ فِےْھِمِ الرُّجُحَانُ اِحْدَالْفِرْقَتَےْنِ عَلیٰ الْاُخْرٰی وَلَمُ ےَکُنْ کَابِحّ ےَکْبَحُ ھُمْ عَنْ عُدْوَانُھِمْ (حجۃ اللہ البالغہ: جلد دوم، صفحہ ۰۷۳) (جان لے کہ مسلمانوں کی جماعت میں کئی مصلحتوں کی وجہ سے ایک خلیفہ ہونا واجب ہے کہ اس کے موجودگی کے بغیر یہ مصلحتیں پوری نہیں ہوسکتی اور یہ مصلحتیں کئی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں ایک وہ قسم ہے جو کہ شہری ریاست کی طرف لوٹتی ہیں۔ یعنی افواج کا دفاع کرنا جو کافروں سے جنگ کریں اور ان کو مغلوب کریں اورظالم کو ظلم سے روکنا اور جھگڑے چکانا وغیرہ ہم ان حاجات کی پہلے وضاحت کرچکے ہیں۔ مصلحتوں کی دوسری قسم وہ ہے جو کہ ملت کی طرف لوٹتی ہے اور وہ یہ کہ دین اسلام کا دوسرے تما م ادیان پر عظمت ظاہر کرنا اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب کہ مسلمانوں میں ایک خلیفہ ہو جو ملت سے خروج و بغاوت کرنے والے کو روکے۔ دین میں جس کو حرام قرار دیا گیا ہے اس کے ارتکاب کرنے والے پر سختی کرے، اور جو فرض قرار دیا گیا ہے اس کے چھوڑنے والے پر سختی سے باز پرس کرے۔ دوسرے تمام ادیان کو نیچا دکھائے اور ان سے جزیہ وصول کرے اور وہ ذلیل ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کافر و مسلم درجہ میں برابر ہوجائیں گے اور ان دونوں فرقوں میں سے کسی ایک کی ترجیح و افضلیت ظاہر نہ ہوگی اور نہ انہیں کوئی سرکشی سے روکنے والاہوگا)
یہاں یہ بات واضح رہے کہ شاہ ولی اللہ ؒ کی مذکورہ تحریر میں جس خلفیہ کا ذکر ہے اس سے مراد وہ خلیفہ نہیں ہے جس کا تصّور بعض دینی حلقوں میں اپنی ذاتی اصلاح و تربیت کے لئے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا پایا جاتا ہے اور جو اسلامی نظام کے قیام کی طاقت و قوت سے بالکل عاری ہوتا ہے، بلکہ مذکورہ تحریر میں جس خلیفہ کا ذکر ہے اس سے مراد وہ خلیفہ ہے جس کے پاس اسلامی نظام کو قائم کرنے اور باطل نظام کو مٹانے کی طاقت و قوت ہو، جیسا کہ شاہ ولی اللہ ؒ نے مذکورہ تحریر میں خلیفہ کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”وہ شہری سیاست کا انتظام سنبھالے اور افواج کا انتظام کرے جو کافروں سے جنگ کرے اور ان کو مغلوب کرے، ظالم کو ظلم سے روکے، جھگڑوں کا فیصلہ کرے اور دین ِ اسلام کو دوسرے تمام دینوں پر غالب کرے“ وغیرہ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ کچھ دین دار اپنی ذاتی اصلاح و تربیت کے لئے کسی کو اپنا خلیفہ بنا کر اسی پر مطمئن و قانع ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے خلافت سے جڑنے کا حق ادا کرلیا، جب کہ شرعی لحاظ سے یہ عمل خلافت سے جڑنے کی تعریف میں آتا ہی نہیں۔
راقم الحروف نے اسلام میں اسلامی سیاست و حکومت کی اہمیت واضح کرنے کے لئے مذکورہ تینوں شخصیات یعنی علامہ سید سلیمان ندویؒ، مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تحریروں کا حوالہ اس لیے دیا، چونکہ بعض اسلامی سیاست و حکومت کے مخالفین و معاندین نے یہ خیال عام کر دیا ہیں،کہ بر صغیر ہندوستان و پاکستان و بنگلہ دیش میں صرف علامہ اقبالؒ اور مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ نے ہی اسلامی سیاست و حکومت کی بات کی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر کے ہزاروں اور لاکھوں علماء کرام نے اسلامی سیاست و حکومت کی اہمیت و ضرورت پر نہ صرف یہ کہ سینکڑوں اور ہزاروں کتابیں لکھی ہیں، بلکہ اسلامی سیاست و حکومت کے قیام کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں، خود شاہ ولی اللہ محدثؒ کے بڑے لڑکے شاہ عبد العزیز محدثؒ نے ۳۰۸۱؁ء میں ہندوستا ن کے دارلحرب ہونے اور جہاد کے فرض ہونے کا فتویٰ ہندوستان میں اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد کے لیے دیا تھا، اور اسی فتوے کی بنیاد پر سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسمٰعیل شہیدؒ نے جہاد کی کمان سنبھالی تھی، چنانچہ ہندوستان میں جہاد کا آغاز صرف انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے نہیں ہوا تھا، بلکہ ہندوستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے ہوا تھا، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسمٰعیل شہیدؒ کی پہلی جنگ قوم پرست پٹھانوں اور سکھوں سے ہوئی تھی، جو ہندوستان ہی کے رہنے والے تھے، یہاں تک کہ ان دونوں حضرات کی شہادت ۱۳۸۱؁ء میں بالا کوٹ کے میدان میں سکھوں اور دین مخالف، پٹھانوں سے لڑتے ہوئے ہوئی ہے، اور اس کے بعد بھی تقریباً ۷۵۸۱؁ء تک علماء کرام، ہندوستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے ہی انگریزوں سے لڑتے رہیں، یہی وجہ ہے کہ ۷۵۸۱؁ء کے بعد انگریزوں نے علماء کرام اور دینی مدارس ہی کو ظلم کو نشانہ بنایا، جس میں تقریباً ستاون (۷۵) ہزار علماء کرام اور لاکھوں دین پسند مسلمان پھانسی کے پھندوں پر لٹکادیئے گئے، اور بندوق کی گولیوں اور توپوں سے بھون دیئے گئے، ان تمام قربانیوں کا اصل محرک ان کا ہندوستان میں اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ اور جدوجہد آزادی ہند کے یہی جذبات و اثرات ۵۸۸۱؁ء تک بھی تھے، اگرچہ اس میں کچھ قومی حکومت کے قیام کے جذبات اور اثرات بھی پیدا ہوگئے تھے، لیکن بہرحال یہ حقیقت ہے کہ۵۸۸۱؁ء تک بھی جدوجہد آزادی ہند کا مجموعی طور پر اصل محرک اور مقصد ہندوستان میں اسلامی حکومت کا قیام ہی تھا، البتہ ۵۸۸۱؁ء میں جب کانگریس پارٹی کے قیام کی بنیاد پڑی تو جدوجہد آزادی ہند کا رخ ہی بدل گیا، اور اسلامی حکومت کے قیام کا مقصد تحریک آزادی ہند سے نکل گیا، اور اس کی جگہ ایک قومی اور ملکی حکومت کا قیام جدوجہد آزادی ہند کا مقصد ٹھہرا، یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ۵۸۸۱؁ء میں ایک انگریز شخص لاوڈڈفرن نے کانگریس پارٹی کی بنیاد رکھکرجدوجہد آزادی ہند کی تحریک کا اغوا ء کر لیا، چنانچہ اس کے بعد کانگریس کی سرپرستی میں آزادی ہند کی جتنی بھی تحریک چلی ہے وہ انگریزوں کے اشارہ پر چلی ہے یہ اور بات ہیکہ انگریز نے کانگریس سے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے بہت سی ایسی چیزیں بھی کروائی، جس سے بہ ظاہر ایسا لگتا تھا کہ کانگریس پارٹی انگریز حکومت کے خلاف ہے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے کوشش کر رہی ہے، اگر کانگریس، ہندوستان کو انگریز حکومت سے آزاد کرنے کے لئے بنائی گئی ہوتی تو اپنے قیام کے باون سال (۲۵) بعد ہندوستان کی آزادی کے صرف دس سال پہلے ۷۳۹۱؁ء میں انگریز حکومت کی ماتحتی میں کچھ اندرونی اختیارات کے لیے انتخابات ہوئے تھے تو کانگریس ان انتخابات میں بڑھ چڑھ کر کیوں حصہ لیتی؟ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان انتخابات میں کانگریس اور مسلم لیگ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔در اصل ہر باطل پارٹی کی یہ تاریخ اور ضرورت رہی ہے کہ اس نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اور لوگوں کو دھوکہ میں رکھنے کے لئے جھوٹ اور الزام کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے اور ہر دور میں عوام کی یہ کمزوری اور مجبوری رہی ہے کہ وہ بڑی آسانی کے ساتھ سازش کا شکار ہو گئے ہیں۔

Share
Share
Share