بیجاپور میں اردو نثر کے ابتدائی نقوش
دوسری اور آخری قسط
ڈاکٹر حبیب نثار
صدر شعبہ اردو‘ سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد
حیدرآباد ۔ دکن
مضمون کی پہلی قسط کے لیے کلک کریں
شیخ محمود خوش دہاں کے رسالے ”واجب الوجود“ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی زبان اور اسلوب میں مزید ترقی ہوئی ہے۔ اس رسالے میں خوش دہاں نے وجود کے مسائل پیش کئے ہیں۔ لیکن اس رسالے کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں نظم اور نثر کو ملاکر کلاکر لکھا ہے۔
پیشرو رسالوں میں صرف نثر ملتی ہے۔اس رسالے کے بغور مطالعہ سے بھی اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ یہ رسالہ بھی حضرت برہان الدین جانم کی حیات میں لکھاگیا ہے یعنی ۷۰۰۱ہجری سے قبل چنانچہ اپنے پیر کی منظوم مدح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
حقیقتاں سوں باغ بھرائے
معرفتاں سوں لذتاں چکھائے
شاہ برہان جو سو ہیلا گائے
حق کے لوگاں کے من کوں بھائے
شیخ محمود خوش دہاں نے اس رسالے میں وہی مضامین پیش کئے ہیں جو حضرت برہان الدین جانم کے اختراع ہیں جیسے عارف الوجود‘ ممتنع الوجود وغیرہ۔ اس رسالے میں پانچ وجود کا بھی ذکر آیا ہے لیکن اس سے مراد حضرت جانم ہی کا اختراع کردہ فلسفہ ہے اور اس کا کوئی تعلق حضرت امین الدین علی اعلیٰ کے پانچ عناصر سے نہیں ہے۔ اس رسالے سے اقتباس پیش کئے جاتے ہیں۔
(۱)”اے عارف جان کہ ہر ایک انسان کو پانچ وجود ہیں اور اس میں چار وجود بندگی کے ہیں ہور ایک وجود باری تعالیٰ کاہے۔ امان ہرایک وجود کیان شرطاں ولوازمات ہیں سو او سمجھنا ہور عمل کرنا تو مطلوب کوں انپڑے گا پس ایتال اس پانچوں وجوداں کا بیان کرتا ہوں۔“ (۱۵)
(۲) ”اس اندھیارے لک انپڑنا اوس اندہارے کو دیکھنا سو عارف الوجود ہے۔ ممتنع ہور عارف اس دونوں پر شاہد ہے سو اپنا روح ہے۔ اس باب میں حضرت شاہ برہان صاحب فرماتے ہیں۔ راہ حقیقت روح سوں دل تھے کیا کھوج‘ عاشق پڑے حال سزا وار ناکتے۔ اوی بوج ذکر روحی کہے تو کیا یعنی اس روح سوں اپنے پیر کا مشاہدہ دیکھتا۔“ (۱۶)
ڈاکٹر سیدہ جعفر‘ شیخ محمود خوش دہاں اور حضرت برہان الدین جانم کی نثر کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد لکھتی ہیں۔
”محمود خوش دہاں کی نثر سے اندازہ ہوتا ہے کہ زبان ترقی کی ابتدائی منزلوں کی طرف گامزن ہوگئی تھی۔ برہان الدین جانم کی نثر کے مقابلے میں محمودخوش دہاں کی عبارتیں صاف (ہے) اور گنجلک سے پاک نظر آتی ہیں۔ درمیان میں فارسی کے جملے یا دکنی جملوں میں فارسی کی پیوند کاری جو برہان الدین جانم کی نثر میں باربار دکھائی دیتی ہے۔ خوش دہاں کے رسالوں میں بہت کم دکھائی دیتی ہے۔فارسی کے جملے کہیں نظر نہیں آتے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زبان کی قوت اظہار اور طاقت ترسیل میں بتدریج نمایاں تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ جانم کی عبارتوں میں کہیں کہیں جو جھول اور ناہمواری نظر آتی ہے وہ محمود خوش دہاں کے رسالوں میں دکھائی نہیں دیتی۔ زبان کی قدامت اور اجنبیت ضرور محسوس ہوتی ہے لیکن نسبتاً کم۔۔۔“ (۱۷)
شیخ محمود خوش دہاں‘ حضرت برہان الدین جانم کے برادر نسبتی اور خلیفہ تھے وہ حضرت جانم کی نثرسے متاثرہوئے اور خود بھی نثر میں کم ازکم تین رسالے اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ حضرت امین الدین علی اعلیٰ کی تربیت کے فرایض شیخ محمود خوش دہاں نے بخوبی انجام دئیے۔ یقینا حضرت امین کی نظر سے حضرت برہان الدین جانم اور شیخ محمود خوش دہاں کے نثری رسائل گذرے ہوں گے شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت امین نے جب کلمہ طیبہ کے اسرار ضبط تحریر میں لانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اپنی اس اولین تصنیف ”کلمتہ الاسرار“ کے لئے نثر کا انتخاب کیا۔
حضرت امین الدین علی اعلیٰ کا تعلق بیجاپور سے ہے اور بیجاپور کے صوفیا میں حضرت میرانجی شمس العشاق اور آپ کے صاحب زاد ے حضرت برہان الدین جانم نے خانوادہ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تعلیمات کو آگے بڑھایاہے اور اُسے ترقی دی ہے۔ خانوادہ میرانجی شمس العشاق میں مطالعہ وجود کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔ تلاوت وجود کے فلسفہ کو ڈاکٹر جمیل جالبی بیجاپور کے تصوف کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔
”وجود کا فلسفہ بیجاپوری تصوف کا بنیادی فلسفہ ہے۔ ساری عمارت اسی کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے۔ یہ عمل میرانجی سے شروع ہوتا ہے جو عرفان نفس پرزور دیتے ہیں لیکن شاہ جانم اُسے ایک باقاعدہ شکل دے کر آب وآتش‘ خاک وباد کے تعلق سے وجود کامطالعہ کرتے ہیں۔ جانم نے وجود کے چار مدارج مقرر کئے ہیں واجب الوجود‘ ممکن الوجود‘ ممتنع الوجود اور عارف الوجود۔ نفس کا عرفان انہی مدارج کو طے کرنے سے حاصل ہوسکتا ہے۔“(۱۸)
امین الدین علی اعلیٰ نے اپنے والد بزرگوار کے مرتب کردہ اس فلسفہ تصوف میں ”خلا“ کا اضافہ کیا اور فلسفہ وجود کے پانچ عناصر قایم کئے پھر ہر عنصر کے پانچ منفی اور پانچ مثبت عناصر وضع کئے اور اپنے اس اختراعی وجودی فلسفہ کا نام”پانچ عناصر پچیس گن“ رکھا۔اسی وجودی فلسفہ کو حضرت امین الدین علی اعلیٰ اور ان کے خلفاء نے اپنی تحریروں میں بیان کیاہے۔
لیکن کلمتہ الاسرار میں حضرت امین الدین علی اعلیٰ نے بیجاپور کے اس مخصوص فلسفہ تصوف کا بیان نہیں کیاہے بلکہ اپنی اس اولین نثری تصنیف میں کلمہ طیبہ کے اسرارو رموز کو سمجھانے کے لئے تشریح وتعبیر سے کام لیاہے۔ کلمہ طیبہ کی شرح اور اس کے رموز جس انداز سے بیان کئے گئے ہیں اُس سے صاف اندازہ ہوتاہے کہ یہ انداز تفہیم سلسلہ ئ قادریہ سے ملتا جلتاہے۔ حضرت امین الدین علی اعلیٰ نے اپنے ماموں شیخ محمود خوش دہاں سے قادریہ سلسلہ میں بیعت کی تھی اور خلافت بھی پائی تھی۔ ایسے میں قادریہ سلسلہ کے تصوف سے استفادہ کرنا کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔ کلمتہ الاسرار کے متن اور موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر حمیرہ جلیلی لکھتی ہیں۔
”حضرت امین الدین کی ان ساری تصانیف میں کلمتہ الاسرار کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہ ان کاسب سے طویل نثری رسالہ ہے جس میں کلمہ طیبہ اور”نور محمدیؐ“ کی تشریح نہایت سیدھے سادے انداز میں کی گئی ہے دوسری تصانیف کے برخلاف اس نثر پارے میں حضرت امین کی مخصوص اختراعات اور اصطلاحیں نہیں ملتیں۔ اس سلسلے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس رسالہ کا انداز تفہیم سلسلہ قادریہ سے ملتا چلتا ہے۔“(۱۹)
حضرت امین الدین علی اعلیٰ نے اپنے رسالے کو بھی کلمتہ الحقایق کی ٹکنیک ہی میں لکھا ہے یعنی کلمتہ الاسرار بھی مرید کے سوال اور مرشد کے جواب کے انداز میں لکھاگیا ہے لیکن یہاں سوال اور جواب علحٰدہ لکھے ہوئے نہیں ہیں۔مرشد ہی کی زبانی سوال پوچھے جانے کی ہمیں اطلاع ملتی ہے۔ حضرت امین نے سوال جواب کے انداز میں کلمہ طیبہ کے ایک ایک حصہ کو سیدھے سادے اور بڑے واضح انداز میں سمجھایاہے۔ انہوں نے اپنے موضوع کی وضاحت کے لئے اور ”لا“ کی تفہیم وتشریح کی غرض سے دوحکاتین بھی اس رسالے میں لکھی ہیں۔ ایک بڑی مچھلی اور چھوٹی مچھلیوں کی اوردوسری نوشایہ اور سکندر کی حکایت بیان کی ہے۔ حضرت امین نے اپنے موضوع کی بہتر تشریح کی غرض سے قران کی آیتیں‘ احادیث کے علاوہ صاحب عین القضاۃ‘ برہان الدین راز الہی اور شاہ علی جیوگام دھنی کے اشعار سے مددلی ہے۔ کلمتہ الاسرار کے متن سے ایک اقتباس یہاں درج کیاجاتاہے جس سے سوال وجواب کابھی اندازہ ہوتاہے اور موضوع کابھی پتہ چلتا ہے۔
”او مرید نے پوچھا مرشد کامل سوں اے مرشد‘ رہنما‘ والی (ہادی) صاحب زماں کلمہ کامعنا کیاہے سو بولو ہو رمہربانگی کرکے یو رمز مجہ پر کھولو‘ تب مرشد نے فرمایے کہ کلمہ کا ظاہر کامعنا یوہے کہ نہیں کوئی معبود برحق مگر اللہ ہے ہور محمد بھیجے گئے اللہ کے ہمیں ان معنی کوں (برحق) کہہ جاننا اور اللہ کوایک کرماننا تب ظاہر کامسلمان ہوا لیکن کلمہ کاباطنی معنا اور ہے۔ جب لگ اوس باطنی معنی کوں نیں سمجھا تب تلک باطن میں مسلمان نہیں ہوا۔“ (۲۰)
اسی طرز فکر کوانہوں نے مچھلی کی حکایت کے ذریعہ بھی سمجھا یاہے۔ کلمتہ الاسرار اردو نثر کی ابتدائی کوشش ہونے کے باوجود اپنی طرز ادا اور اسلوب کے لحاظ سے ایک منفرد کتاب ہے۔
امین الدین علی اعلیٰ نے اپنے اس فلسفہ کو اپنے نثری رسالے وجود کے علاوہ دوسرے منظوم رسالوں میں بیان کیاہے۔ اپنے اس مخصوص فلسفہ سے ہٹ کر امین الدین علی اعلیٰ نے کلمتہ الاسرار میں کلمہ کے داخلی اور خارجی معنیٰ کو سمجھایاہے۔ یہ نثر کامختصر رسالہ ہے جو ضخامت میں کلمتہ الحقایق سے کم ہے اور ایک ہی موضوع کو بنیاد بناکر لکھا گیا ہے۔ برہان الدین جانم نے اپنے نثری رسالے کلمتہ الحقایق میں خدا اور اس کی قدرت کو بیان کرتے ہوئے اس کے کئی ضمنی موضوعات کی تشریح وتعبیر کی ہے لیکن کلمتہ الاسرار میں جیساکہ رسالے کے نام ہی سے ظاہر ہوتاہے کلمہ طیبہ میں پوشیدہ اسرار کو سمجھایاہے۔ کلمتہ لاسرار حضرت امین الدین علی اعلیٰ کی پہلی تصنیف ہے جو نثر میں ہے۔ اردو نثر کی تاریخ پرہم نظر ڈالتے ہیں توپتہ چلتاہے کہ کلمتہ الاسرار سے قبل صرف تین تصانیف نثر میں لکھی گئیں ہیں یعنی کلمتہ الحقایق از برہان الدین جانم، رسالہ تصوف از شیخ محمود خوش دہاں اور سب رس از ملاوجہی۔۔ ان میں دورسالے بیجاپوری تصوف سے تعلق رکھتے ہیں اور تیسری کتاب ایک تمثیلی داستان ہے جو گولکنڈہ میں ۱۰۴۵ ہجری میں لکھی گئی ہے۔
امین الدین علی اعلیٰ نے اپنی پہلی تصنیف کلمتہ الاسرار بھی تقریباً اسی زمانے میں لکھی ہوگی جب سب رس لکھی گئی ہے چونکہ کلمتہ الاسرارکے صحیح سنہ تصنیف کاعلم نہیں اس لئے یہ اخذ کیاجاتا ہے کہ امیں الدین علی اعلیٰ نے اس کو ۱۰۵۰ ہجری سے قبل لکھا ہوگا۔
کلمتہ الاسرار کی ایک حکایت:
حضرت امین الدین علی اعلیٰ نے کلمہ طیبہ کے اسرار کو سمجھاتے ہوئے متن میں دوحکایات ”لا“ یا عدم کی تشریح وتعبیر کی غرض سے بیان کی ہیں۔ ایک حکایت مچھلیوں کی ہے کہ وہ پانی سے ناواقف ہیں اور پانی کاپتہ لگانے کی غرض سے سمندر کی سب سے بڑی مچھلی سے معلوم کرتے ہیں کہ ہمیں پانی بتاؤ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسا ہوتاہے۔ کلمتہ الاسرار میں بیان کی گئی یہ حکایت یہاں مکمل نقل کی جاتی ہے۔
اس محل میں ایک حکایت یاد آئی ہے۔ اوس حکایت کوں خوب دل سوں سمج کرلا کے معنی دہیان لیا ہور مچہلی نمن لاکا دریا سب (جاگاپایا جاتاہے)۔
نقل ہے مچہلیاں نے اپس میں پانی بیچہ اچہکر فکراں کیاں کے لوکاں کہتے ہیں کہ مچہلیاں کا جیوموں سوپانی ہے ہور ہمیں توپانی کیا ہے کر دیکہیاں نہیں پانی کون دیکہا‘ کہ پانی کیاہے۔؟ ہور پانی ہمارے سوں کیتک دور ہے۔؟ کدہر ہے؟ اپس میں اپیں بہوت فکراں کیاں ہور پانی کوں بہت دہونڈیاں ولیکن پانی اولوکوں نہیں دستا۔
پیچے اونو میں سوں ایک مچہلی بولی کہ یوں پانی ہمنا کوں کہاں دیسے گاچلو فلانی بڑی مچہلی پاس اوہمنا کوں پانی بتلائے گی ہور کہاں پانی کیتک دور ہے سودیکہلائے گی۔ تب اوس بڑی مچہلی پاس اوسب ملکر گیاں ہور اپنی حقیقت بیان وار کہیاں کہ توں سب مچہلیاں سوں بڑی ہور ہم سب مچہلیاں کی سردار ہے۔ تجھے پانی معلوم اچہے گا ہور توں پانی کوں دیکہے اچہے گی توخدا واسطے پانی ہمنا کوں دیکہلا۔کس واسطے کہ لوکاں کہتے ہیں کہ پانی مچہلیاں کاٹہاوٹہکان ہے ہور پانی مچہلیاں کا جیو مول ہے ہور مچہلیاں ہمیشہ پانی بیچ رہتیاں ہیں (ہور پانی ناہوئے تو مچہلیاں تڑ پڑا کرمرجاتیاں ہیں)ہمیں تو پانی کیاہے کر دیکہیاں نیں ہور یو بات کیا کہ اپنے جیومول کوں نادیکہنا ہور جس مکان میں رہتے بستے ہیں۔ اوس مکان کون ناجاننا بڑی بے وقوفی ہور احمقی ہور نادانی ہے۔ بلکہ جوکوئی اپنے جیو مول کوں ناپہچانے تو اوس پر کہانا پینا حرام ہے۔ ہور سب زندگی اوسکی مردار ہے۔
پیچے اوس بڑی مچہلی نے تعجب کرکر ہنسی ہور بولی کے پانی تمنا کوں کیوں دستا نیں۔ تمہاری انہیاں پر کایکا پردا پڑیاہے۔ تمہارا دل کدہر کوں گیا ہے۔ ہور تمنا کوں کیسی غفلت نے گہیری ہے۔جو ایسا پانی تمناکوں دستا نہیں؟ ارے دیوانیاں ہو پانی تمہارے نیچے‘اوپر‘ داوے‘ باوے‘ انگے پیچے تمہارے مومیں‘ تمہارے کان میں انکہیاں میں تمہارے سینے میں دل وجان میں بہریاہے ولیکن تمنا کوں دستا نہیں ایسا پانی کیوں نہیں دستا سو تعجب بات ہے۔ حضرت عین القضاتہ صاحب بولے ہیں کہ
از دروں تا بیرون نشیب وفراز
ازپس وپیش تا یمین ویسار
شاہد لاالٰہ الاہو
پیش تو پردہ کرد از رخسار
پیچے اوس بڑی مچہلی میں یو سب کیفیت کہکر ٹلاتی‘ ٹلاتی کنارے پاس اون (سب مچہلیاں) کو لے گئی ہور ایک چہکولا ایسا دی کہ جو ساریاں مچہلیاں پانی میں سوں ساریاں جاکر باہر پڑیاں ہور تڑپنے لگیاں۔ پیچے پکاریاں کے بیگی سوں ہمنا کوں کہیچ لیو پانی میں وگرنہیں تو ہمیں ترپہڑاکر مرجاتیاں ہیں اب حقیقت پانی کی ہمنا معلوم ہوئی کہ ہمیں پانی باہر پڑیاں ہیں۔ جو پانی بغیر پہڑ پہڑاتیاں ہیں۔ پیچے سے اوس بڑی مچہلی نے دوسرا چہکولا مار کر سب کوں پانی میں کہیچ لی تب اون مچہلیاں نے پانی کی حقیقت معلوم کرکرسب ٹہور پانی کوں سمجھیاں ہور پانی کوں اپنا جیو مول یقین کر بوجیاں۔
مچھلیوں کی اس حکایت کے ذریعہ حضرت امین الدین علی اعلیٰ نے لا کے معنی سے ہماری ناواقفیت یا عدم واقفیت کو عیاں کیاہے۔ اسی طرح نوشابہ اور سکندر کی حکایت بیان کرتے ہوئے لا الہ الا للہ اور محمد رسول اللہ کے معنی اور اس کلمہ میں چھپے ہوئے اسرار کو کنایتہ واضح کیاہے۔
(کلمتہ الاسرار میں حضرت امین الدین علی اعلیٰ نے موضوع کی تفہیم کی غرض سے دو حکایتں لکھی ہیں یہ حکایتں اردو میں کہانی کی ابتدائی صورتیں ہیں خاص طورپر نوشابہ اور سکندر کی حکایت میں افسانے کے خدوخال ملتے ہیں۔ یہاں اس امر کو بھی پیش نظر رکھنا ہے کہ دونوں ہی حکایتں تمثیلی انداز کی حامل ہیں۔)
کلمہ طیبہ کے معنی ومطالب بیان کرتے ہوئے ان حکایات کا بیان کرنے کے بعد پھر سے حضرت امین نے کلمہ کی تعبیر کا بیان شروع کیاہے گو یہاں انہوں نے داستانی اسلوب سے فائدہ اٹھایا ہے کہ ایک مسلۂ ختم ہواکہ داستان کی کہانی کا بیان دوبارا شروع ہوگیا اور اس طرح حضرت امین نے دلچسپی اس رسالے میں برقرار رکھا ہے۔
اردو نثر کے ارتقاء میں بیجاپور کا حصہ
حضرت برہان الدین جانم سے قبل کی نثر میں ہمیں کوئی تحریر دستیاب نہیں ہوئی ہے حالانکہ حضرت برہان سے قبل کی نثری تحریروں کی اطلاعات ہم کو ملتی ہیں البتہ صوفیا کرام کے ملفوظات چند جملوں کی شکل میں ملتے ہیں۔ حضرت برہان الدین جانم نے اپنی مثنوی ”ارشاد نامہ“ کے مضامین کو نثر میں بیان کرتے ہوئے اردو نثر کی پہلی تصنیف ہمیں فراہم کی ہے۔ کلمتہ الحقایق ۹۹۰ ہجری اور۱۰۰۵ ہجری کے درمیان لکھی گئی ہے گویا گیارہویں صدی ہجری کی ابتداء سے اردو نثر کا با قاعدہ آغاز ہوتاہے۔ کلمتہ الحقایق کے بعد شیخ محمود خوش دہاں کے دو مختصر رسالے ہمیں ملتے ہیں یعنی رسالہ تصوف اور رسالہ وجودیہ حضرت خوش دہاں کے یہ رسالے یقینا حضرت امین کے نثری رسالے کلمتہ الاسرار سے قبل لکھے گئے ہیں کہ حضرت خوش دہاں کا وصال ۱۰۲۶ ہجری میں ہوتاہے جبکہ حضرت امین الدین علی اعلیٰ کی عمر تقریباً ۱۹ برس کی ہے۔
ڈاکٹر حسینی شاہد لکھتے ہیں کہ گولکنڈہ کے ملاوجہی کی نظر سے حضرت برہان الدین جانم کا رسالہ کلمتہ الحقایق یقینا گزرا ہوگا یہی وجہ ہے کہ سب رس میں نثر ونظم ملا کر لکھی گئی ہے اور جابجا فارسی کے قول اور عربی کے فقرے موضوع کی تفہیم کی غرض سے لکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر حسینی شاہد کاخیال ہے کہ کلمتہ الاسرار اور سب رس‘ دونوں نے جانم ہی کی شمع سے اپنی شمع روشن کی ہے۔(۲۱)
اس پس منظر میں یہ کہنا مناسب ہوگاکہ حضرت برہان الدین جانم نے کلمتہ الحقایق لکھ کر ملاوجہی کو”سب رس“ جیسی شاہکار تمثیلی داستان لکھنے کی راہ ہموار کی اور اردو نثر کے ارتقاء کو پروان چڑھایا۔
٭٭٭٭
ماخذ و حوالے:
۱۵) شیخ محمود خوش دہاں ”واجب الوجود“ مخطوطہ مخزونہ ۱ے۔پی۔مینوسکرپٹ لائیربری تارناکہ فن مجامع ۲۰۰
۱۶) ایضاً
۱۷) سیدہ جعفر وگیان چند ”تاریخ ادب اردو“ جلدچہارم ص ۳۹۷
۱۸) ڈاکٹر جمیل جالبی ”’تاریخ ادب اردو“ جلد اول ص ۱۹۵
۱۹) امین الدین علی اعلیٰ ”کلمتہ الاسرار“ مرتبہ ڈاکٹر حمیرہ جلیلی ۱۹۷۹ء ص ۲۰
۲۰) ایضاً ص ۵۷
۲۱) ڈاکٹر حسینی شاہد ”کلمتہ الحقایق اردو نثر کا پہلا مستند نقش“ ص ۲۹