عدم تشدّد کا عالمی دن اور مہاتما گاندھی :- ڈاکٹر سیّد احمد قادری

Share
ڈاکٹر سیّد احمد قادری

عدم تشدّد کا عالمی دن اور مہاتما گاندھی

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ:09934839110

عصر حاضر میں جس طرح عالمی سطح پر تشدد کے بڑھتے سانحات سامنے آ رہے ہیں اور اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسے بڑھتے خونین حالات میں عدم تشدد کے پیغامات، فلسفہ اور نظریات کی اہمیت اور افادیت کافی بڑھ جاتی ہے۔

بابائے قوم مہاتما گاندھی کی اس سال ایک سو پچاسویں سالگرہ بھی ہے اس لئے نہ صرف ہمارے ملک بلکہ بیرون ممالک کے امن پسند لوگوں کے لئے آج کا یہ دن بے حد اہم ہے۔ اس دن کی اہمیت کو ہمارے وزیر اعظم نرریندر مودی نے چند روز قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی واضح کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں کئی روز قیام کے دوران ہیوسٹن پارک میں موجود مہاتما گاندھی کے مجسمہ پر ایک پھول کی مالا پہنانے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی اور نہ ہی اب تک اپنی پارٹی کے لوگوں کو گاندھی کے قاتل کی پزیرائی کرنے والوں کی مذمّت کی ہے۔
عالمی سطح پر بڑھتے تشدد میں نہ جانے کتنے لوگ اب تک قتل کئے گئے ہیں۔ قتل کئے جانے والے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں عام عوام کو اگر ہم کسی قطار و شمار میں نہ رکھیں اور ابراہم لنکن، مارٹن لوتھر کنگ، جان ایف کینڈی،مہاتما گاندھی، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، لیاقت علی خاں،جنرل ضیاالحق، بے نظیر بھٹو وغیرہ جیسی بڑی اور اہم شخصیات کی اگر ہم فہرست مرتب کریں توتشدد کے شکار ایسے لوگوں کی ایک لمبی فہرست تیار ہو جائے گی۔ ایسے حالات میں تشدد سے ہونے والے قتل و غارت گری سے پوری دنیا کے امن پسند لوگوں کا متفکر ہونا فطری عمل ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی تشدد کے متعلق فکر مندی ان الفاظ میں ہمارے سامنے آتی ہے…….
” Non violence means avoiding not only external physical violence but also internal violence of spirit. You not only refuse to shoot a man but you refuse to hate him. "
اسی طر پوری دنیا میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھی جانے والی ایک اہم شخصیت مدر ٹریسانے امن و امان کو انسانیت کے لئے ضروری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ………
….” we do not need guns and bombs to bring peace.we need love and compassion”۔
مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے اس پیام کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ہی جنوری 2004 ء میں ایران کی نوبل امن انعام پانے والی خاتون شیریں عبادی نے اقوام متحدہ کے سامنے مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کو عالمی یوم عدم تشدد کے طور پر منعقد کرنے کی تجویز رکھی تھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 15 جون 2007 ء کو’عدم تشدد کا عالمی دن‘ منانے کی قرارداد پیش کی گئی، جس کی حمایت ایشیا، افریقہ،یوروپ اور امریکہ سمیت تقریباََ ایک سو چالیس ممالک نے کی۔ جسے 27 /جون 2007ء کو منظور کر تے ہوئے یہ اعلان کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کے بموجب اب ہر سال بھارت کے سپوت اور عدم تشدد کے پیامبر مہاتما گاندھی کے یوم پیدائیش پر عالمی سطح پر یوم عدم تشددمنعقد کیا جائے گا۔ اس دن پوری دنیا میں ہونے والے تشدد کے خلاف مختلف طریقے سے ذہن سازی کی ضرورت محسوس کی گئی، تاکہ تشددکے بڑھتے واقعات اورسانحات کوروکاجا سکے۔
اس لحاظ سے آج کا دن یعنی 2 / اکتوبر وہ اہم دن ہے، جو عالمی سطح پر یوم عدم تشدد کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ ویسے یہ بھی ایک المناک حقیقت ہے کہ جس گاندھی نے عدم تشدد کا پیغام عام کرنے کی کوشش کی تھی،وہ خود تشدد کا شکار ہو کر ہلاک ہوا۔اس تناظر میں اب ہم مہاتما گاندھی اور ان کے پیغامات کو عہد حاضر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ جس کے ایک پیغام کو بین الاقوامی سطح پر اتنی زیادہ اہمیت دی گئی۔ 2 / اکتوبر(1869ء) ہی وہ اہم تاریخ ہے، جس دن گجرات کے کاٹھیاواڑ، پوربندر میں موہن داس کرم چند گاندھی نے جنم لیا تھا۔ اپنے اخلاق، کردا ر، تعلیمات، نظریات اور اپنے فلسفہ عدم تشدد کے پیش نظر موہن داس کرم چند گاندھی کو ”مہاتما“ کے لقب سے نوازا گیا۔ اپنے ملک کے لئے ان کی جو خدمات رہی ہیں، وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔
جنھیں بیان کرنے کی اس لئے اب ضرورت نہیں ہے کہ ملک کے لئے دی گئی ان کی قربانیاں،نہ صرف اپنے ملک کے لئے، بلکہ بیرون ممالک کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تاریخ میں درج ہو چکا ہے کہ اپنی ان ہی خصوصیات کی بنأ پر انھیں سینکڑوں لوگوں کے سامنے ملک کی آزادی کے صرف پانچ ماہ بعد یعنی30 / جنوری 1948 کو آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کا حامی ناتھو رام گوڈسے نے گولی مار کر انھیں قتل کیا تھا اور جب اس قاتل پر قتل کا مقدمہ چلا، اس وقت اس نے اپنا جرم قبول کرتے ہوئے عدالت میں کہا تھا کہ گاندھی قیام پاکستان کے لئے ذمّہ دارتھے اور مسلمانوں کی حمایت کیا کرتے تھے۔ اس مقدمہ میں ہندو مہا سبھا کے سابق صدر ونائک ساورکر کو بھی ملزم بنایا گیا تھا۔ لیکن جرم ثابت نہیں ہو سکا تھا۔ اس سلسلے میں مشہور تاریخ داں ایم اے نورانی کا کہنا ہے کہ سردار پٹیل نے وزیر اعظم وقت پندت نہرو کو لکھا تھا کہ قتل کی سازش،جن لوگوں نے تیار کی تھی، ان کی براہ راست سربراہی ساورکر نے ہی کی تھی۔ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آر ایس ایس پر عارضی پابندی بھی لگائی تھی او ر گاندھی جی کے قتل کے جرم کی پاداش میں گوڈسے کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ مہاتما گاندھی کی یہ قربانی رائگاں نہیں گئی اور ملک کے لوگ ہمیشہ ان کی دی گئی قربانی سے خود کو ان کا مقرو ض سمجھا اور ملک کے کونے کونے میں نہ صرف ان کی یادگار قائم کی گئیں بلکہ ملک کے ایک ایک فرد خواہ وہ امیر ہو، غریب ہو، صنعت کار ہو، مزدور ہو سبھی انھیں کرنسی نوٹوں پر آویزاں تصویر کی شکل میں دل سے لگائے رہتے ہیں۔ اس سے بڑا خراج عقیدت اور ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہو سکتا ہے۔
لیکن ان دنوں ان کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ وہ پورے ملک کے لئے خطرناک صورت حال کا پیش خیمہ ہے۔یوں تو پہلے بھی لیکن چھپ چھپا کر وہ لوگ جن کا آزادیئ ہند میں کوئی مثبت رول نہیں رہا، وہ لوگ گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو اپنا ہیرو بنا کر پیش کرتے رہے اور صرف یہی نہیں بلکہ گاندھی جی کے یوم شہادت کو ”شوریہ دیوس“ یعنی یوم افتخار کے طور پر مناتے رہے ہیں۔ لیکن جب سے آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارتی اقتدار میں آئی ہے، ان کے حوصلے کافی بڑھ گئے ہیں اور وہ مہاتما گاندھی کے قاتل، گوڈسے کا،ملک کے دارالسلطنت نئی دلی میں نہ صرف مجسمہ بلکہ اس کے نام پر مندر تعمیر کا بھی منصوبہ بنا کر اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اب آر ایس ایس کی یہ بھی کوشش ہو رہی ہے کہ مہاتما گاندھی کے قتل کی دوبارہ انکوائری کرا کر کر آر ایس ایس کو اس الزام سے بری کر دیا جائے کہ گاندھی کا قتل اسی تنظیم نے کرائی تھی۔ حالانکہ گاندھی جی کے قتل کی سچائی آئینہ کی طرح عیاں ہے۔لیکن سبرامنیم سوامی جو ہمیشہ متنازعہ بیان دینے اور منافرت پھیلانے کے لئے مشہور ہیں، وہ گاندھی جی کے قتل کی انکوائری کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، تاکہ آر ایس ایس کو مہاتما گاندھی کے قتل کے الزام سے بری قرار دیا جا سکے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ ملک کے کرنسی نوٹوں پر سے مہاتما گاندھی کی تصویر ہٹا کر آر ایس ایس اور دوسرے رہنماؤں کی تصویر لگائی جائے۔ اس تناظر میں اب ہم یہ دیکھیں کہ آخر ان فرقہ پرستوں اور متعصب لوگوں کے دلوں میں،مہاتما گاندھی اب تک کانٹے کی طرح کیوں چبھ رہے ہیں۔ دراصل مہاتما گاندھی نے وطن دوستی، حب الوطنی، انسانی اقدار کی جو تعلیمات دی ہے، وہ ملک کے لوگوں کو اب تک اپنے سحر میں لئے ہوئے ہے۔ جس کے باعث ان کے ”ہندوتو“ نظریہ کو نافذ کرنے میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موہن داس کرم چند گاندھی بلا شبہ ایک عظیم شخصیت کا نام ہے۔ جنھوں نے اپنی زندگی میں سچائی، عدم تشدد،انصاف اور رواداری کے اقدار کو اتار کر جو تعلیمات اور نظریات دئے۔ انھیں آسانی سے فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر عدم تشدد، جو ان کی زندگی کا جزولا ینفک تھا، اورجن پر وہ نہ صرف پوری زندگی خود چلے بلکہ دوسروں کو بھی چلنے کی ترغیب دی۔ اس سلسلے میں ان کا خیال تھا کہ ’عدم تشدد سے پیدا ہونے والی طاقت انسان کے ایجاد کردہ ہتھیاروں سے بدجہا بہتر ہے۔‘ مہاتما گاندھی کی شخصیت کی جو سحر انگیزی تھی، وہ ان کے گفتار اور کردار کی ہم آہنگی کی وجہ کرتھی۔ انھیں انسانی، روحانی اور مذہبی افکار ونظریات پر مکمل یقین تھا۔ جس کے باعث وہ محبت، اخوت، مساوات،صداقت، انسانی دوستی اور یکجہتی کے پیکر بنے۔ سماجی نابرابری،ناانصافی اور غیر انسانی عمل و دخل کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے خاردار راستوں سے گزرکر جب سیاست کے میدان میں قدم رکھا، تب بھی انھوں نے سیاست کو مذہب سے الگ نہیں کیا بلکہ سیاست اور مذہب کو ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم قرار دیا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ جہاں بھی، جس جگہ بھی جن کے دلوں میں مساوات اور سچائی کا عنصر ہوگا، وہاں تشددغالب نہیں ہوگا۔ مہاتما گاندھی کی ان ہی بنیادی اصولوں کی علمبرداری اور اوصاف سے متاثر ہو کر رابندر ناتھ ٹیگور جیسی عظیم شخصیت نے ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ”مہاتما“ کا درجہ دیا تھا، جو ہمیشہ کے لئے ان کے نام کا حصہ بن گیا اور اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک موہن داس کرم چند گاندھی، اپنے مہاتما ہونے کا ثبوت دیتے رہے۔ ان کی پوری زندگی انسانی رواداری اور اقدار کے لئے وقف رہی۔ ہندو مسلم اتحاد کو بھی مہاتما گاندھی ضروری قرار دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کا خیال تھا کہ ’اتحاد ایک طاقت ہے، یہ صرف کتابی کہاوت نہیں بلکہ زندگی کا ایک اصول ہے، جو سب سے واضح طور پر ہندو مسلم اتحاد کے سوال پر صادق آتا ہے۔ اگر ہم میں پھوٹ ہوگی تو ہم تباہ ہو جائینگے۔ اگر ہم ہندو مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر تیار رہینگے تو کوئی تیسری طاقت آسانی سے ہندوستان کو غلام بنا لے گی۔ہندو مسلمان اتحاد کا مطلب صرف ہندوؤں اور مسلمانوں ہی نہیں بلکہ ان سب جماعتوں کا اتحاد ہے، جو ہندوستان کو اپنا وطن سمجھتی ہیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں…‘انسانیت کا جذبہئ ایثار جس طرح ہماری زندگی سے غائب ہو رہا ہے، اس ضمن میں مہاتما گاندھی کا خیال تھا کہ ’جو قوم بے شمار قربانیاں پیش کرنے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتی ہے، وہ ترقی کی لا محدود بلندیوں پر پہنچنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ جس قدر قربانی حقیقی ہوگی، اسی قدر کامیابی جلد ہوگی‘۔ نفرت اور عداوت کے تئیں ان کا نظریہ تھا کہ ’ہم اپنے دشمنوں کو محبت سے جیت سکتے ہیں، نفرت سے نہیں۔ نفرت اور تشدد میں بہت باریک سا فرق ہے ‘۔
ہمارے ملک میں جمہوریت جس طرح ان دنوں پامال ہو رہی ہے، اس کے بارے میں مہاتما گاندھی نے کبھی کہا تھا کہ ’’اگر جمہوریت کا صحیح مفہوم پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قوتِ برداشت اور رواداری پیدا کرنا پڑے گی۔“اس کے ساتھ ہی جمہوری نظام حکومت کے سلسلے میں بھی ان کا بہت ہی واضح نظریہ تھا کہ’’جمہوری نظام حکومت کو کسی ایک شخص کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، خواہ وہ شخص کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو۔‘‘اس سیاق و سباق کے ساتھ ہی ان کا ایک خواب یہ بھی تھا کہ ’بھارت کے تمام مذاہب اور نسلوں کے افراد کو ایک ہی جھنڈے کے نیچے لا کر جمع کر دو اور ان میں اتحاد اور یکجہتی کا جذبہ اس شدت کے ساتھ پید اکر دو کہ ان کے ذہنوں سے فرقہ واریت اور تنگ نظری کا نام و نشان تک مٹ جائے۔‘ لیکن افسوس کہ لاکھوں لوگوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر ملک کو انگریزوں کی غلامی اور ظلم وتشدد سے آزاد کرایا، کہ آنے والی نسل خود کو کسی بھی طرح غلام نہ سمجھے، اسے ہر طرح کی آزادی نصیب ہو۔لیکن المیہ یہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں مذہبی منافرت اور تعصب کی ایسی گرم ہوا بہہ رہی ہے کہ ہر وہ انسان جو محبت، اخوت، مساوات اور یکجہتی پر یقین رکھتا ہے، وہ پریشان ہے، ڈرا ڈرا، سہما سہما سا اور خوف زدہ ہے۔ ملک کے گوشے گوشے سے نفرت، عداوت، تشدد اور عدم رواداری کے شعلے بھڑک رہے ہیں، جو ملک کے امن وامان، دوستی، بھائی چارگی اور گنگا جمنی تہذیبی اقدار کو خاکستر کر رہے ہیں۔ سیاست کی ایسی گرم فضا تیار کی جا رہی ہے کہ اقلیت واکثریت جو اس ملک میں برسہا برس سے شیر وشکر کی طرح رہتے آئے ہیں، ان کے درمیان منافرت اور اختلافات کی خلیج پیدا کر ملک کی سا لمیت کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ نام نہادمذہب اور حب الوطنی کاسہارا لے کر دوسرے مذاہب کے لوگوں کو سرے عام ذلیل و رسوا ہی نہیں بلکہ انھیں بڑی بے رحمی سے قتل تک کیاجا رہا ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایسے تمام خونین سانحات پر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ ایسے واقعات کے انجام دینے والو ں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ مہاتما گاندھی کی دور اندیش نگاہیں ان امور پر بھی تھیں اور انھوں نے اس سلسلے میں بھی بہت واضح طور پر کہا تھا کہ…. "Religion is not test of nationality, but a personal matter between man and his god. In the sense of nationality they are Indians first and Indians last, no matter what religion they protess”
ان تمام مذہبی منافرت، عداوت، تشدد، نا انصافی، استحصال، ظلم و بربریت، قتل وغارتگری اور عدم رواداری کو فراموش کر مہاتما گاندھی کے اصولوں اور ان کی تعلیمات و ترجیہات،جو ہر مذہب و ملت کے ماننے والوں کے لئے،اس لئے قابل قبول ہو سکتی ہے کہ ان تعلیمات میں ان تمام مذاہب کی تعلیمات کی روح کو پیش کیا گیا ہے۔ انسانیت اور انسانی اقدار کی حفاظت اور ان پر عمل کرنے کی تاکید اور تعلیم ہر مذہبی کتابوں اور پیامبروں نے دی ہے، پھر ان میں اختلاف کی کہاں گنجائش ہے۔ لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ عدم تشدد کے پیامبر مہاتما گاندھی خود ہی ان دنوں متعصبانہ، فرقہ وارانہ اور جارحانہ ذہنیت کے لوگوں کے نشانے پر ہیں، ایسے میں مہاتما گاندھی کی تعلیمات او رنظریات پرعمل تو دور، ان کی شناخت تک مٹانے پر لوگ درپئے ہیں۔ ان کے قاتل کو نہ صرف بے گناہ بلکہ مسیحا تک قرار دیا جا رہا ہے۔ پورے ملک میں گوڈسے کا مجسمہ لگا کر آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ علامتی طور پر ملک کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اب اس ملک میں مہاتما گاندھی کے عدم تشدد اور آپسی اتحاد و اتفاق کی تعلیمات کے بجائے نفرت، عداوت،عدم رواداری، عدم مساوات اور انتشارو خلفشار ترجیحات میں شامل ہیں۔ 30 / اکتوبر 1948 ء کو مہاتما گاندھی کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کیا گیاتھا اور اب ان کی روح کو قسطوں میں قتل کیا جا رہا ہے۔ ہمارے سامنے جو تاریخی حقائق ہیں، انھیں کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے۔ ملک میں مہاتما گاندھی کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، وہ بہر حال افسوسناک ہی نہیں بلکہ تشویشناک ہے۔ اس تناظر میں ہم یہ دیکھیں کہ جس شخصیت کے عدم تشدد کے پیغام کو قبول کرتے ہوئے ان کی زندگی میں ہی پانچ بار نوبل امن انعام کیے لئے نامزد کیا گیا ان کے قتل کے بعد اقوام متحدہ نے عدم تشددکا عالمی دن، ہر سال ان کے یوم پیدائش پر منانے کا فیصلہ کیا ، اس کے اثرات بین الاقوامی سطح پر کس طرح پڑ رہے ہیں۔گزشتہ دنوں ہمارے صدر جمہوریہ ہند رامناتھ کووند نے بھی اس دن اور اس شخصیت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ”اہنسا وشو بھارتی“ کے ایک سیمنار میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ دہشت گردی، افراتفری،بد عنوانی، غیر اخلاقی، ذات پات اور زبان پر مبنی تفریق اور آب و ہوا میں تبدیلی کے چیلنجوں کا سامنا کرنے میں گاندھی جی کے خیالات پوری طرح منتقی ہیں۔ ان کے بتائے راستے پر چل کر عالمی برادری ان مسائل سے نجات پا سکتی ہے۔ صدر جموریہ ہند کی یہ باتیں عصری تناظر میں بلا شبہ بہت اہمیت رکھتی ہیں، شرط یہ ہے کہ ان باتوں پر عمل کیا جائے۔اس سال کے عالمی یوم عدم تشدد کی تھیم پر مبنی توپ کے دہانے سے نکلتے محبت بھرے پھولوں کی تصویر بھی توجہ مبذول کراتی ہے۔

Share
Share
Share