ہندو ازم- تعارف و تجزیہ :- مفتی امانت علی قاسمی

Share
مفتی امانت علی قاسمی

ہندو ازم- تعارف و تجزیہ

مفتی امانت علی قاسمی
استاذ دارالعلوم حیدرآباد
E-mail:
0720732673 Mob:

ہندوستان میں صدیوں سے مسلمان آباد ہیں اور ہر جگہ غیر مسلموں کے ساتھ ان کا اٹھنا،بیٹھنا، کاروبار کرنا، معاملات کرنا ہوتا ہے، زیادہ تر جگہوں میں مسلمان،ہندوؤں کے پڑوسی ہوتے ہیں ہر جگہ ہندو اور مسلمان کی چھتیں ملی ہوئی ہوتی ہیں،عام طور پر مسلمانوں کے پڑوسی ہندو ہوتے ہیں،

اسلام میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے اور جہاں کہیں بھی پڑوسی کے ساتھ اچھے سلوک کی بات کہی گئی ہے، وہاں ہندو یا مسلمان کی کوئی صراحت نہیں ہے، محض پڑوسی ہونے کی بنیاد پر حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ آپ ﷺ کی حدیث ہے کہ جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔دوسری طرف مسلمان ایک داعی قوم ہے جس کی ذمہ داریوں میں اسلام کی دعوت اور پیغام کو عام کرنا اور ہر انسانیت تک پہنچاناہے،اسلام کا آفاقی پیغام،اسلام کی زندہ وجاوید تعلیمات، اسلام کی امن و آشتی او رحفظ و امان کی کوششیں،اسلام کے بنیادی عقائد، توحید و رسالت و آخرت جیسے بنیادی و ضروری باتوں کو عام انسانوں تک پہنچانا یہ اس امت کا فرض منصبی ہے۔ جسے قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کنتم خیر امۃ اخرجت للناس کے ذریعہ بیان کیا ہے۔ہندوستان مین مسلمان زیادہ تر ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہیں؛اس لیے ضروری ہے کہ اس عالمی و آفاقی پیغام کو اپنے ہندو پڑوسیو ں اور بھائیوں تک پہنچائیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہندوؤں کے مذہبی رسم و رواج، ان کے دھر م، ان کی کتابیں، اور ان کی ضروری اور بنیادی باتوں سے واقفیت حاصل کریں تا کہ ان کے درمیان اپنی بات رکھنے اور ان کو انہیں کے انداز میں سمجھانے میں سہولت پیدا ہو اس کے علاوہ بھی جب دو قومیں ایک ساتھ رہتی ہیں تو ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھیں، ان کے عقائد کو معلوم کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا معاملہ کریں اس لیے بھی ہندوازم کو سمجھنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ساتھ گفتگو اور بحث و مباحثہ میں ان کی باتوں کے حوالے سے ہی ان کومطمئن کیا جاسکے اس وقت ملک کا جو ماحول بنا ہے اور جس طرح نفرت پیدا کرکے دونوں قوموں کو بانٹ کر حکومت کرنے کی سازش کی جارہی ہے اس حیثیت سے اس کی زیادہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ نفرت کے اس ماحول میں پیار و محبت کے دیپ جلانے کے لیے اورالفت و محبت کے بیچ بونے کے لیے، ہندوازم کو سمجھنا چاہیے۔ذیل میں ہندوازم کا مختصر تعارف، ان کی بنیادی کتابوں اور ان کے مخصوص عقائد و نظریات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
لفظ ہندو ازم کی تحقیق
اٹھارویں صدی سے پہلے ہندوازم کی جگہ سناتن دھرم یا ویدک دھرم کا لفظ استعمال ہوتا تھا، لیکن سب سے پہلے سناتن دھرم کی جگہ ہندو ازم کا لفظ راجہ موہن رائے نے ۶۱۸۱ء میں کیا، پھر اس کے بعد ایک انگریز محقق john Crawford کاایک ریسرچ پیپر Asiatic Researches کے نام سے ۰۸۹۱ء میں شائع ہواجس میں سناتن دھرم کی جگہ ہندوازم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے بعد ۸۲۸۱ میں کئی انگریز مصنف نے”ہندازم لفظ“ کو سناتن دھرم کی جگہ استعمال کیا اور بالآخر ۸۵۸۱ء میں آکسفورڈ ڈکشنری میں اس لفظ کو شامل کیا گیا اس کے بعد عام طور پر لوگ سناتن دھرم یا ویدک دھرم کے لیے ہندو ازم کا لفظ استعمال کرنے لگے (ہندومت ایک مطالعہ،محمد اشفاق عالم ندوی،مضامین ڈاٹ کام)

ہندو ازم کیا ہے؟
ہندو ازم دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک ہے،ہندوستان اور نیپال میں اس کی اکثریت ہے اس کے علاوہ بنگلہ دیش، پاکستان،انڈونیشیا اور بالی میں بھی ہندو دھرم کے ماننے والے پائے جاتے ہیں،فجی،ملیشیا،سنگاپور، شری لنکا،ماریشش،ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ میں بھی اس مذہب کے ماننے والے بڑی تعداد میں آباد ہوگئے ہیں۔یہاں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندودھرم کیا ہے؟ اس سلسلے میں مختلف باتیں کہی گئیں ہیں جس میں کافی اختلاف بھی پایا جاتاہے۔مولانا عبد الحمید نعمانی صاحب جن کامطالعہ ہندوازم پر کافی وسیع ہے اور اس موضوع پر موصوف کی کتابیں بھی ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ ”ہندو دھرم میں بے پناہ وسعت ہے اوراس کے رخ بہت سے ہیں اور غیر متعین سمت میں ہیں ہے اس لیے اس کی جامع مانع تعریف و تعبیر نہیں کی جاسکتی ہے تاہم اس کے وسیع لٹریچر میں ہندو دھرم کے سلسلے میں جو مختلف بیانا ت ملتے ہیں ان کی روشنی میں جو تقریبی تعریف وہ ہوسکتی ہے وہ یہ ہے:
٭ہندودھرم ہندوؤں کے مطابق زندگی کا ایک طریقہ ہے جس میں ایک طرف لوگوں کو خیالات کی دنیا میں پوری آزادی ہے تو دوسری طرف لوگوں کو ملک کے باضابطہ رسم و رواج کو پورا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے (بھارت کی انتر آتما کی تحریر بہ عنوان ہندو دھرم کا خلاصہ)
ہندو دھرم سماجی و عملی قانون و اصول ہے جو قدیم رشی مُنی کی باتوں پر مبنی ہوں (نانک ہندی کوش ۳/۷۵۱)
٭بھارت ورش میں بسنے والی قدیم قوموں کے دھرم کا نام ہندو دھر ہے (ہندودھرم کوش ص:۲۰۷)
٭شری مدبھاگوت میں ہے کہ جو ویدوں میں کہا گیا ہے وہ ہندودھرم ہے اور اس کے برعکس ادھرم ہے (شری مدبھاگوت)
ڈیوڈاے براؤن لکھتے ہیں:
ہندو ازم ایک لچک دار مذہب ہے۔یہ دوسرے افکار و نظریات کواپنے اندر سمو لینے کی قوت رکھتا ہے اور ان کو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔آزاد ہندوستا ن کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرونے زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کے اصول کو ہندو ازم کی روح قرار دیا ہے وہ اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
بلحاظ عقیدہ ہندوازم مبہم غیر متشکل، پہل دار اور ہر شئے برائے ہر کس ہے۔اس کی تعریف متعین کرنا سخت دشوار ہے، بلکہ مروج معنوں میں اسے دیگر ادیان کی طرح مذہب کہنا بھی مشکوک ہے۔اس نے ماضی میں بھی اور حال میں بھی ارفع و ادنی اور کبھی کبھی تو متضاد رسوم و افکار کو گلے لگایا ہے اس کی اصل روح ”زندہ رہو اور رہنے دو“میں پوشیدہ ہے (ہندو مذہب مطالعہ اور جائزہ مرتب محسن عثمانی،مضمون ڈیوڈ ابے براؤن ص:۱۶)
ان تعریفوں کو غور سے پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ ہندودھرم کی کوئی ایک واضح تعریف ممکن ہی نہیں ہے اس لیے کہ اس دھرم کا نہ کوئی بانی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی بنیادی عقیدہ ہے اور نہ ہی اس کی اتبدا کی کوئی صحیح تاریخ ہے، بلکہ اس کے بعض عقئدے اور نظریات باہم متضاد ہیں جو شخص مندر جائے وہ بھی ہندو ہے اور جس کے مندر جانے سے مندر ناپاک ہوجائے وہ بھی ہندو ہے اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہندو دھرم اور دیگر مذاہب کے فرق کو واضح کردیا جائے تاکہ مذہبی نقطہ نظر سے ہند و دھر م کو سمجھنا آسان ہو۔

ہندو ازم اور دیگر مذاہب میں فرق
ہندو ازم اور دیگر مذاہب میں بنیادی طور پر تین فرق پایا جاتا ہے:
(۱) ہندوازم کا کوئی موجد اور بانی نہیں ہے، ہندوازم کب اور کس طرح وجود میں آیایہ معلوم نہیں اورنہ ہی اس کی کوئی تاریخ پیدائش نہیں ہے،ہزاروں سال سے اپنے ارتقائی مراحل کو طے کیاہے۔
(۲)ہندوازم میں کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جس کی پیروی سب پر لازم ہو اس میں کوئی متفق علیہ اصول یا فلسفہ نہیں ہے۔
(۳) ہندوازم ایک غیر ادارتی مذہب ہے،ہندو ادارے تو یقینا ہیں لیکن خود ہندو ازم کوئی ادارہ نہیں ہے جو لوگوں کو اس بات پر پابند کرے کہ عبادت اس قسم کی ہو، یا اس ضابطے کے تحت ہو۔(ہندو مذہب -مطالعہ او رجائرہ)
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہندوازم کوئی باقاعدہ مذہب نہیں ہے جس طرح کہ عیسائیت اور اسلام وغیرہ ایک دین اور مذہب ہے بلکہ یہ ایک دھرم ہے۔ہندو ازم میں دھرم کا لفظ بہت اہم ہے جس کا مفہوم حق، نیکی، قانون،سچائی اورراست پرستی ہے،دھرم کا انگریزی ترجمہ ڈیوٹی ((duty سے کیا جاتا ہے ہر فرد کا اپنے فرض کو جس کی ادائیگی اس کے ذمہ سماجی اور اخلاقی طور پر واجب ہوتی ہے اس کو اس کی صفت اور خصوصیت کے ساتھ کرنا دھرم کہلاتا ہے مثلا ماں باپ کی خدمت کرنا اولاد کا دھرم ہے،شاگرد کو تعلیم دینا استاذ کا دھرم ہے،جلانا آگ کا دھرم ہے۔دھرم کی ایک تعریف یہ بھی کی ہے کہ:دھرم وہ ہے جس سے سبھی لوگوں کو اس دنیا میں کامیابی کے ساتھ پرلوک کی کامیابی نصیب ہو۔(ہندو ازم تعارف و مطالعہ،عبدالحمید نعمانی،۱/۹)بہرحال ہندومذہب یہ ایک دھرم ہے جس کے کوئی متعین اصول نہیں ہیں یہ کوئی مذہب اور دین نہیں ہے۔
ہندو کون ہے؟
ہندوازم اور ہندو دھرم کے تعلق سے اس ابتدائی بات کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہندو کون ہے؟ ظاہر ہے کہ ہندو ازم کو ماننے والے ہندو ہیں جیسے اسلام کو ماننے والے مسلمان ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تمام باشندگان ہند،جو اسلام،جین مت،بدھ مت سمیت پارسی مذہب، یہودی مذہب یا دنیا کے کسی دوسرے مذہب سے تعلق نہیں رکھتے اور جن کے طریق عبادت،وحدانیت سے لے کر بت پرستی تک وسیع ہوں اور جن کے دینیات کلیۃ سنسکرت زبان میں لکھے ہوئے ہوں وہ ہندو ہیں۔ گوبند داس کی تشریح کے مطابق ہندو ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ خدا پر ایمان رکھا جائے،ویدوں کو مانا جائے، آتمایااوتاروں کو مانا جائے یا ہندو قانون کی پابندی کی جائے بس ہندو ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ جو شخص ہندو ہونے سے انکار نہ کرے وہ ہندو ہے (ہندو ازم تعارف و مطالعہ،عبدالحمید نعمانی،۱/۲۱)
اسلام اور ہندومت میں فرق
اسلام کے کچھ ستون اور بنیادی اصول ہیں جس کی پاسداری ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے جس کے بغیر ایک مسلمان،مسلمان نہیں ہوسکتاہے جیسے کلمہ توحید پڑھنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اسی طرح عملی طورپر بھی بہت سے فرائض ہیں جن کا کرنا ضروری ہے اور بہت سی چیزیں ہیں جن سے رکنا ضروری ہے جب کہ ہندوازم کا کوئی ستون اور کوئی اصول نہیں ہے جن پر عمل کرنا ضروری ہو۔ ایک ہندو کو آزادی ہے کہ وہ جو چاہے عمل کرے اور جو چاہے نہ کرے،کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کے لیے ضروری ہو یا اس کے لیے ممنوع ہو او نہ ہی کسی مذہبی قانون کی خلاف ورزی اسے ہندو مت سے خارج کرتی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک نے ہندو مت میں تصور خدا پر اور اسلام میں تصورِ خدا پر گفتگو کرتے ہوئے دونوں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام اور ہندو مت کے درمیان (S)کا فرق ہے:
٭ہر چیز کا مالک خدا ہے (Every thing is "GOD,S”
٭ہر چیز خدا ہے (Every thing is "GOD)
ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑا فرق یہ ہے ہندو اس فلسفے پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر چیز خدا کا حصہ ہے یعنی ہر چیز خدا ہے —درخت خدا ہے –سورج خدا ہے —چاند خدا ہے —سانپ خدا ہے —بندر خدا ہے —انسان خدا ہے۔جب کہ ہمارے نزدیک ہر چیز خدا کی ہے، خدا نہیں ہے گویا مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان بنیادی فرق کومے والے ”ایس“ کا ہے (اسلام اور ہندو مت ایک تقابلی مطالعہ،ذاکر نائک،۰۱)

ہندو ازم کی مقدس کتابیں
ہندؤں کی مقدس کتابوں کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔بنیادی طور پر ان کی دو قسمیں کی جاتی ہیں (۱) سرتی (۲) سمرتی۔سرتی(شروتی)کا مطلب ہے سنی ہوئی باتیں۔یا گیان کے ذریعہ حاصل کی گئیں باتیں اور اسمرتی (سمرتی)کا مطلب ہے یاد کیا ہوا۔پھر ہر ایک کے تحت مختلف اقسام ہیں جس کو اس طرح تقسیم کرسکتے ہیں۔
سرتی لٹریچر اس میں چاروں وید آتے ہیں:رگ وید، سام وید، یجروید، اتھروید اس کے علاوہ بھی کچھ ویدک لٹریچر ہیں سمیتھا، براہمنہ،ارنیاکاس، اپنشد(اُپنیشد)وغیرہ۔
سمرتی لٹریچر:اس کے تحت مندرجہ ذیل کتب شامل ہیں ویدانگ یعنی وید سے متعلق علوم جیسے لسانیات، گرامر، صرف، نجو، رسومات، نظم وغیرہ سوتر: مذہبی نصائح آمیز اور وجدانی نظمیں۔رامائن:رزمیہ نظم۔مہابھارت:رزمیہ نظم۔پرُان :دیوی دیوتاؤں کے تذکرے۔دھرم شاستر:مذہبی قانون خصوصا منو کا دھرم شاستر
رگ وید
یہ دو لفظ سے بنا ہے رگ =وید۔رگ کا مطلب ہے تعریف کا منتر اور وید کا معنی ہے گیان اور علم۔ اب رگ وید کا مطلب ہوا جس وید میں تحمیدی منتروں کو جمع کیا گیا ہے۔ اس میں مختلف مواقع پر مختلف مقاصد کے لیے مختلف دیوتاؤں کے لیے گن گائے گئے ہیں۔یہ سب سے پرانی وید ہے تقریبا ۰۰۵ ق م میں مرتب ہوا یہ آریوں کے بھجنوں پر مشتمل ہے اور نظم کی صورت میں ہے۔اس کے دس ہزار منتر ہیں اس کازیادہ تر حصہ دیوی دیوتاؤں کی تعریف پر مشتمل ہے
یجروید
یجروید:یجوہ اور وید سے مرکب ہے اور یجوہ کے معنی ہے یجن یگیہ کرنا۔یگیہ کی جگہ،یجر، ان منتروں کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ یگیہ کیا جاتا ہے اور یجروید میں یگیہ کے تفصیلی احکام دئے گئے ہیں رگ وید اور یجر وید میں فرق یہ ہے کہ یجروید کا بیشتر حصہ نثری ہے کچھ حصہ منظوم ہے جب کہ رگ وید مکمل منظوم ہے۔یجرویدمکمل رگ وید سے ماخوذ ہے اور قربانیوں کے وقت اس کے منتروں کا جاب کیا جاتاہے۔
سام وید
سام کے معنی شانتی کے ہیں لیکن سام وید،گیت اور علم نغمات کے معنی میں استعمال ہوا ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ”سا“ کے معنی علم اور ”ام“ کے معنی عبادت یعنی سام وید علم و عبادت کا سنگم ہے اس وید میں راگ اور گیت ہے۔یہ وید، رگ وید کا نصف ہے، کئی منتر رگ وید سے ہی لیا گیا ہے۔ان تینوں ویدوں کا علم رکھنے والے برہمنوں کو ترویدی کہا جاتا ہے یعنی تین وید کا جاننے والا۔
اتھر وید
چوتھا او رآخری وید اتھروید ہے یہ اتھراو روید سے مرکب ہے،یہ اصل میں ارتھ تھا، ارتھ کے معنی ہیں خوش حالی اور فلاح، اتھر و سنسکرت میں آگ کو کہا جاتا ہے او راتھرون کی معنی پجاری ہے۔اتھروید کے منتروں کے مطالعہ کی روشنی میں اتھروید کا مطلب ہے کہ وہ وید جس میں پجاریوں کے ذریعہ،آگ کی مدد سے خبیث،شیاطین اور دوسری طاقتوں سے لوگوں کی مدد کر کے ان کی بھلائی اور خیر خواہی کرنا۔کہا جاتا ہے کہ اتھرو نامی رِشی کے توسط سے یہ وید تیار ہوا ہے اس لیے اس کا نام اتھروید ہے، بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ا س وید میں تمام ویدوں کا خلاصہ آگیا ہے اس لیے یہ بہت اہم ہے۔یہ وید برہمن اورپروہتوں کے بڑے کا م کا ہے اسی لیے اس کو برہمن وید بھی کہتے ہیں۔دوسرے ویدوں کے مقابلے میں اتھرووید کی کچھ خصوصیات اور امتیازات ہیں۔بعض محققین کا کہنا ہے کہ دوسرے ویدوں کے مقابلے میں یہ نیاہے،اس کی زبان بھی کسی حد تک الگ ہے، اس میں منتر تنتر کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ”سرتی“کے ضمن میں جو کتابیں آتی ہیں وہ وید کے متعلقات ہیں ان میں براہمن،آرنیک اور اپنشد ہے براہمن اور آرنیک کا تذکرہ اختصار کی وجہ سے ترک کیا جاتا ہے البتہ اپنشد اہم کتاب ہے اس اس لیے اس کا مختصر تذکرہ کیا جاتاہے اپنیشد اور ویدانت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اپنشد کے معنی ہے علم الہی حاصل کرنے کے لیے استاذ کے پاس جاکر بیٹھنا، اسے اپنشت بھی پڑھا جاتا ہے کچھ دوسرے محققین کا کہنا ہے کہ اپنشد کا مطلب پوشیدہ اور پوشیدہ تعلیم ہے اور خود اپنشدوں کی بہت سی عبارتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے۔اپنشد میں برہما، روح، علم، نظریہ، اصول تناسخ، مکتی وغیر ہ کو موضوع بحث بنا یا گیا ہے۔
سمرتی
اب تک جن کتابوں کا تعارف پیش کا گیا اس کا تعلق سرتی او راس کے متعلقات سے تھا،ہندوؤں کی مقدس کتابوں کی دوسری قسم”سمرتی“ہے، سمرتی کے معنی ذکر اوریاد کے آتے ہیں اس سے مراد وہ تحریر ہے جسے ویدک ادب سے الگ سمجھاجاتاہے؛اس لیے سمرتی کا شمار ان کتابوں میں نہیں ہوتا ہے جوویدک ادب کے ذیل میں آتی ہیں اگر چہ سمرتیوں کو سرتی کی طرح خطاء سے پاک نہیں مانا جاتا ہے تاہم بلند ترین اتھارٹی ہونے کی وجہ سے ان کا ہندو سماج میں بڑا احترام پایا جاتا ہے آریہ سماج کے لوگ سمرتیو ں میں صرف منو سمرتی کو مانتے ہیں دیگر سمرتیوں کو جعلی قراردیتے ہیں لیکن سمرتی کا کلیۃ سماج نے انکار نہیں کیا ہے۔منو سمرتی میں معاشرت، معیشت، اخلاق، قانون اور دیگر بہت سے حکمرانی کے مسائل زیر بحث آئے ہیں،دھرم اور عقائد کے امور پر بھی بات کی گئی ہے۔
پران
وید، اپنشد اور سمرتی کو ہند و سما ج میں چاہے جتنی بھی اہمیت دی گئی ہو لیکن اسے صرف خواص ہی پڑھتے ہیں لیکن عوام جن کتابوں سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں او ر جن کتابوں کا ہندو سماج پر بڑا اثر ہے وہ پران، رامائن اور مہابھارت ہے۔
پرانوں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ ویدوں میں بیان کردہ روحانی صداقتوں کی توسیعات اور تمثیلی تشریحات ہیں جنہوں نے ہزاروں سال سے ہندوستان کی سرزمین میں عوامی زندگی، عقیدہ، طرز حیات کو ایک خاص انداز میں ڈھالا ہے۔پرانوں کو عوامی وید اور مہابھارت کی طرح پانچواں وید کہا جاتاہے ان کی اہمیت ویدو ں کے بعد سمجھی جاتی ہے اور اتنا ہی قدیم بھی سمجھا جاتاہے سب سے زیادہ عوامی حیثیت بھگوت پران کی ہے اور اسے انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔پران کے معنی قدیم کے ہیں اس لیے قدیم حکایات کو بھی پران کہا جاتاہے اوراصطلاح میں اچاریہ ساین کے بقول پران وہ ہیں جو تخلیق کائنات اور عالم کے ابتدائی حالات بیان کرے۔پران میں دیوتاؤں کے اعمال، عظیم شخصیات کے کارنامے اور رشیوں منیوں کے کمالات بیان کئے گئے ہیں اہم پرانوں کی تعداد اٹھارہ ہے کچھ پرانوں میں وشنو کا کچھ میں برہما کا اور باقی میں شیو کا ذکر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دیوتا کے الگ الگ معتقدین بھی رہے ہیں مثال کے طور پر وشنو کے پجاریوں کو ویشنو او رشیو کے پجاریوں کو شیو بھگت کہتے ہیں۔

رامائن
پرانوں کے علاوہ جن کتابوں نے ہندو دھرم کو مقبول بنانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اس میں ایک رامائن ہے۔رامائن اگرچہ رام کی سوانح حیات سمجھی جاتی ہے لیکن رام کو اوتار مانا جاتا ہے (اوتار کا مطلب ہے کسی دیوتا کا انسانی روپ اختیار کرلینا)ان کی شخصیت و کردار میں ہندو خواص و عوام ڈوبے نظر آتے ہیں، ہندمت میں اوتار تو کرشن اور گوتم بدھ کو بھی مانا جاتا ہے لیکن جو عقیدت و محبت ہندوؤں میں رام کے تعلق سے ہے وہ کسی میں نہیں دیکھنے کو ملتا ہے قدیم زمانہ میں تو رام کو بھگوان کے اوتار کا درجہ دیا گیا تھا لیکن بعد کے زمانے میں انہیں خدا کا درجہ دے دیا گیا اور یہ آج تک برقرار ہے۔
رامائن کے نام سے باقاعد ہ بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں سنسکرت زبان میں بیس کے قریب رامائنوں کا ذکر ملتا ہے ان میں بہت سے بعض اب بھی ملتی ہیں لیکن عام طور پر دستیاب اور اہم مشہور رامائن جس میں رام کی کہانی کی گونج ہے وہ رشی والمیکی کی رامائن ہے، اسی طرح اکبر کے درو میں تحریر کردہ تلسی داس کی رام چرت مانس ہے۔والمیکی کی رامائن سنسکرت میں ہے اور تلسی داس کی رامائن ہندی اور بھوج پوری میں ہے۔رام چرت مانس اپنے دور سے والمیکی سے بھی زیادہ مشہور و مقبول ہوئی ہے۔ اب عام طور پر شہرو ں سے گاؤں دیہات تک میں اس کا پاٹھ ہوتا ہے۔ رامائن میں رام کی کہانی ہے جو راکششوں کے راجہ راون کو شکست دے کر دھرتی پر حق کی حکمرانی قائم کرتے ہیں۔رام اور ان کی اہلیہ سیتامرد و عورت کے آئیڈیل تصور کئے جاتے ہیں۔والمیکی کی رامائن اور تلسی داس کی رام چرت مانس میں بڑا فرق ہے پہلا فرق تو زبان کا ہے والمیکی کی زبان سنسکرت ہے اور رام چرت مانس کی زبان اودھی اور بھوج پوری ہے جسے اکبر کے زمانے میں ۵۸۵۱ء میں تحریر کیا گیا ہے، دوسرا فرق یہ ہے والمیکی کی رامائن میں رام کو بھگوان کا درجہ نہیں دیا گیا ہے جب کہ رام چرت مانس میں رام کو بھگوان کا درجہ دیا ہے، رام چرت مانس کا ماخذ والمیکی کی رامائن ہی ہے اس کے علاوہ دوسری کتابوں سے بھی استفادہ کیا گیاہے مثلا پنچ تنتر، اپنشد،منوسمرتی، مہابھارت وغیرہ سے بھی استفادہ کیا گیاہے۔رام چرت مانس میں لکشمن ریکھا کی بات ملتی ہے جب کہ والمیکی میں نہیں ہے۔
رامائن میں رام کے جس داستان کی تفصیل ہے اس کو مختلف طرح سے بیان کیا گیا ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ سیتا،رام کی بہن تھی مجبوری میں رام نے ان سے شادی کر لی تھی جب کہ بعض حضرات نے اس کو بہن نہیں ماناہے۔بہر حال اس کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ اجودھیا کے راجہ دشرتھ کی تین بیویاں تھیں،کوشلیا، کیکئی اور سمترا۔کوشلیا سے رام چندر جی پیدا ہوئے،کیکئی سے بھرت اور سمترا سے لکشمن اور شتروگھن پیدا ہوئے۔رام چندر جی کی شادی راجہ جنک کی لڑکی سیتا سے ہوئی، رام چندر بہت بہادر، سمجھدار اور حکومت کے کام سے واقف تھے اس لیے راجہ دشرتھ نے انہیں اپنا ولی عہد بنا لیا۔رام چندر جی کی سوتیلی ماں کیکئی ان سے ناراض تھی اس نے سازش کر کے ان کو جلا وطن ہونے پر مجبور کردیا اور اپنے بیٹے بھرت کے لیے ولی عہدی کا پروانہ حاصل کرلیا۔ رام چندر جی اپنے بھائی لکشمن اوراپنی بیوی سیتا کے ساتھ بن باس کے لیے جنگل چلے گئے ایک مقام پر راون کی بہن سوپنکھا رام چندر پر عاشق ہوگئی اس نے سیتا کو نیچا دکھانے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوگئی رام چندر اورلکشمن نے اس کے ناک اور کان کاٹ دئے۔راون کی بہن نے اپنے غصے کی آک بجھانے اور ہتک عزت کے بدلہ لینے کے لیے چالیس ہزار راکششوں کے ساتھ حملہ کردیا لیکن شکست کھائی تب وہ اپنے بھائی لنکا کے راجہ راون کے پاس گئی راون نے سیتا کا اغوا کرلیا رام چندر جی نے ہنومان کی مدد سے اسے آزاد کرایا اور راون کو شکست دی۔راون پر فتح کو دسہرے کے تہوار کے طور پر منایا جاتاہے۔

مہابھارت
ہندوستانی نظام و فلسفہ اور تہذیبی روح کو سمجھنے کے لیے مہابھارت کا مطالعہ ناگزیر ہے۔اسے آپ ہندوستانی علوم کی انسائیکلوپیڈیا بھی کہہ سکتے ہیں یہ دنیا کا سب سے بڑا رزمیہ کلام ہے مشہور محقق اے ایل باشم نے لکھا ہے کہ مہابھارت دنیا کے ادب میں اکیلی طویل ترین نظم ہے۔مہابھارت ایک رزمیہ نظم ہے ہندولٹریچر میں اس کا اہم مقام ہے۔یہ ایک طویل تالیف ہے اس کے دولاکھ پندرہ ہزار اشعار ہیں اس کا مؤلف ایک فرد نہیں ہے یہی وجہ کہ اس کے زمانے کا تعین کرنا مشکل ہے۔ زیادہ مؤرخین اس کا زمانہ ۰۰۵ ق م بتاتے ہیں اس میں سب سے آخری اضافہ تیسری صدی عیسوی کے لگ بھگ ہوا۔
مہابھارت کی رزمیہ داستان کورؤں اور پانڈؤں کے درمیان ایک جنگ ہے جو ہستنا پور (دہلی) کے قریب ہوئی۔یہ بھارت اور پنجالہ قوموں کے درمیان ایک جنگ تھی کورو اور پانڈو دونوں ایک ہی چندر ہنسی خاندان سے تھے، کورو سو بھائی تھے جن کا سردار دریودھن تھا یہ دھرت راشٹر کے بیٹے تھے پانڈو کے پانچ بیٹے تھے۔پانڈو کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا یودھشٹر راجہ بنا چوں کہ کوروؤں اورپانڈؤں کے درمیان پرانی دشمنی تھی کوروؤں نے پانڈوؤں کو ملک سے نکال دیا پانڈؤں نے جلاوطنی سے واپس آکر ایک الگ شہر بسایا کو رو راجہ دریودھن اس بات سے سخت ناراض تھا اس نے پانڈوؤں کو جو ا کھیلنے کے لیے راضی اور دھوکے سے جوئے میں سب کچھ جیت لیا شہر پر کورؤں نے قبضہ کرکے ان کو نکال دیا۔سب بھائی جنگلوں میں گھومتے رہے آخر کار مختلف راجوں کی مدد سے دوبارہ کورؤں پر حملہ کیا۔اٹھارہ دن کی لڑائی میں تمام کورو شہزادے مارے گئے یودھشٹر نے دوبارہ تخت حاصل کرلیا۔
مہابھارت کا مذہبی لٹریچر میں نمایاں مقام ہے اس سے انصاف کی فتح اورناانصافی کی شکست واضح کی جاتی ہے۔کئی مقامات پر نصائح آمیز گفتگو ہے پانڈو ایک بیوی کے کئی خاوند کا فلسفہ مانتے تھے ان کے دیوتا کرشن اور واسو دیو تھے۔
گیتا
گیتا میں بڑی فلسفیانہ گہرائی اور توحید، شرک،موکش (نجات) اوتارواد، وحدت ادیان، تخلیق کائنات،معرفت اورروح کی لطیف بحثیں کی گئی ہیں۔ہندوستانی سماج میں سب سے زیادہ اثرات گیتا کے پڑے ہیں اور سب سے مقدس کتاب سمجھی جاتی ہے،عدالتوں میں اس کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔گیتا کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے گاندھی جی لکھتے ہیں۔
گیتا ایک اعلی اور ماورائی کتاب ہے کہ ہر عقیدہ، عمر اور ملک کے لوگ اسے احترام کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں اپنے اپنے مذاہب کے اصول پاسکتے ہیں (ہندودھرم ص ۹۳۱)
گیتا میں کافی تفصیل سے اسلوب بدل بدل کر موت حیات، گناہ، ثواب، نجات،پنر جنم، جہاد،دھرم روح خدا، علم عمل،عبادت و ریاضت کے فلسفے پر روشنی ڈالی گئی ہے اوریہ انداز مکالمہ کا ہے شری کرشن میدان جنگ میں ارجن کے سوالات کے جواب اور ذہنی کشمکش کو دور کرنے کے لیے ایک ماہر نفسیات کی حیثیت سے کوشش کرتے نظرآتے ہیں اور جواب میں بڑی گہرئی اور ذہانت کا ثبوت دیا جاتا ہے۔
سری کرشن جی مہاراج کی کتاب گیتا کہلاتی ہے جس کا زمانہ تیسری صدی ق م ہے آپ کے زمانے میں ویدک دھرم ختم ہو چکا تھا او رظلم و نا انصافی کا دور دورہ تھا کرشن جی متھرا میں پیدا ہوئے جسودھا سے شادی کی اور متھرا کے راجہ کنس سے بچنے کے لیے ان کے والد نے ان کو اپنے دوست نند جی کے پاس گوکل بھیج دیا تھا نند جی گوالے تھے آپ کی اچھی تربیت ہوئی او رجلد ہی عوام میں اپنی عمدہ باتوں سے مشہور ہوگئے راجہ کنس نے ان کو قتل کرنے کے لیے گوکل سے واپس بلایا لیکن اپنے ارادے میں ناکام رہا آپ ظلم و نا انصافی کے خلاف لڑتے رہے کورؤں اور پانڈوؤں کی جنگ میں مظلوم پانڈوؤں کا ساتھ دیا آپ کو ایک فلسفی او رمفکر سمجھا جاتا ہے بھگوت گیتا ان کے فلسفے کی عکاسی کرتی ہے۔بھگوت گیتا مہا بھارت کا ایک حصہ ہے۔

Share
Share
Share