اذان کا دوسرا کلمہ، اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (4) :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اذان کا دوسرا کلمہ،
اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (4)

مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536

اذان کا دوسرا کلمہ ۔ تیسری قسط کے لیے کلک کریں

اللہ کے عذاب کا ایک بڑا سبب مسلمانوں کا دین کی کچھ باتوں کو ماننا اور کچھ باتوں کو نہیں ماننا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں بیان فرمایا ہے۔ (اَفَتُوء مِنُونَ بِبَعضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرونَ بِبَعضِ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلّاَ خِزْیُ فیِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَومَ الْقِیاَمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذاَبِ وَمَا اللہُ بِغَافِلِ عَمَّا نَعْمَلُونَ)

ترجمہ(کیاتم کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو، اور بعض کا انکار کرتے ہو، پس جو کوئی ایسا کرے اس کی سزا دنیا کی زندگی میں رسوائی ہے اور قیامت کے دن سخت عذاب کی طرف اسے پھیر دیا جائے گا اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔)
مذکورہ آیت میں اگرچہ اولین طور پر بنی اسرائیل مخاطب ہے لیکن موجودہ امتِ مسلمہ بھی اگر یہ گنا ہ کرے تو اس کے لیے بھی یہی سزا ہے۔ افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کی اکثریت اس گناہ میں مبتلا ء ہے خصوصیت کے ساتھ امت مسلمہ کی اکثریت نے میدان سیاست بھی کتاب اللہ کی رہنمائی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کی وجہ سے دنیا کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے عذاب میں مبتلا ہے اس عذاب سے نکلنے کی ایک ہی تدبیر ہے وہ یہ کہ قرآن مجید کی رہنمائی کو مکمل طور پر قبول کریں۔
البتہ جن اہل ایمان پر اللہ کے دین کی سبب مصیبت و پریشانی آ رہی ہے وہ ابتداء وآزمائش ہے، جو قرآن مجید کی اس آیت کے زمرے میں آتی ہے۔ وَلَنَبْلُوَ نَّکُمْ بِشیْءِ مِنْ الْخَوْفِ وَ الْجُوْءِ وَ نفْصِ مِنَ الْاَمْوالِ وَ الْاَ نْفُسِ وَ الثّمَرٰتِ وَ بَشّرِ الصّٰبرِینْ (سورۂ بقرہ۵۵۱)
ترجمہ:( اور ضرور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر، اور بھوک، اور مالوں اور جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے، اور خوشخبری سنا دیجئے، صبر کرنے والوں کو چنانچہ آج دنیا میں بہت سی اسلامی تحریکات اور افراد ایسی ہی آزمائش سے گزر رہے ہیں)
دینی ابتلاء و آزمائش کے متعلق ایک اہم اصول یہ ہے کہ ہر ابتلاء و آزمائش کے ساتھ آسانی اور انعام بھی جڑا ہوا ہے اور کبھی یہ آسانی اور انعام دنیا میں بھی ملتا ہے، اور اگر دنیا میں نہ ملے توآخرت میں تو لازماً مل کر ہی رہے گا، اور یہ اصول قرآن کی یہ آیت سے ثابت ہے۔اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراَ o فَاِنَّ مَعَ الْعُسرِا یُسْراً(سورۂ نشرح آیت ۵۔۶) ترجمہ (پس بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے، بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔) آزمائش کے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ آزمائش جتنی زیادہ بڑی ہوگی۔ اس کا انعام بھی اتنا ہی بڑا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ چونکہ تمام انبیاء میں سب سے زیادہ آزمائش حضرت ابراہیمؑ اور حضرت محمدﷺ پر آئیں، اسلئے انہیں انعام بھی تمام نبیوں سے زیادہ دیا گیا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ان دونوں نبیوں کی زندگی کو خصوصیت کے ساتھ اُسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔یعنی بہترین نمونہ۔
جس طرح اہل ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابتلاء و آزمائش سے گزارنے کا اصول و طریقہ ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک اہل کفر کے لئے حق کی حجت مکمل ہونے تک دنیا میں مہلت و ڈھیل کا اصول ہے، مطلب یہ کہ جب تک کسی فرد اور قوم تک دین کی دعوت نہیں پہنچتی تب تک اس فرد اور قوم پر دنیا میں اللہ کا عذاب نہیں آتا، اور جب کسی فرد اور قوم تک اسلام کی دعوت پہنچ جاتی ہے اور پھر اس فرد اور قوم کی طرف سے اس کا انکار ہوتا ہے، اور مسلسل انکار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس فرد اورقوم کو دنیا میں بھی عذاب دیتا ہے،کبھی یہ عذاب آسمانی بھی ہوتا ہے، اور کبھی یہ عذاب ایک فرد کو دوسرے فرد کے ذریعہ اور کبھی ایک قوم کو دوسری قوم سے لڑا کر بھی دیتا ہے، پھر اسلام کی یہ دعوت چاہے کسی رسول کے ذریعہ پہنچے یا کسی رسول کی امت کے ذریعہ پہنچے، چونکہ حضرت محمدﷺ اللہ کے آخری رسول ہے، اسلئے دیگر اقوام کو دعوت دینا اب محمدﷺ کی امت کے ذمہ ہے، لیکن بد قسمتی سے امت مسلمہ ہی نے پورے طور سے دین کی دعوت کو قبول نہیں کیا ہے، جب کہ قرآن اور حضرت محمدﷺ کی سیرت کے ذریعہ امت مسلمہ تک مکمل دین پہنچ چکا ہے، لیکن اس کے باوجود امت مسلمہ نے دین اسلام کو مکمل دین کی حیثیت سے قبول نہیں کیا ہے، بلکہ صرف عبادات کے دین کی حیثیت سے قبول کیا ہے، اور خصوصاً میدان سیاست میں اسلام کی دعوت کو قبول نہیں کیا ہے، تو پوری دنیا میں ایک طرح سے امت مسلمہ اللہ کے عذاب میں مبتلا ہے، اور یہ صورت حال،عین سنت اللہ کے مطابق ہے، چنانچہ اس سیاسی عذاب سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ امت مسلمہ میدان سیاست میں کافرانہ سیاست کا انکار کرے اور اسلامی سیاست کو قبول کرے، دنیا میں قوموں کو عذاب و ڈھیل دینے کے متعلق قرآن میں بہت سی اصولی آیات ہیں یہاں صرف سورۂ بنی اسرائیل کی دو آیات پیش کی جارہی ہیں۔ ( وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُولاً o وَاِذَا اَرَدْنآَ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَ فِیْھَا فَفَسْقُوا فِیْھَا فَحَقَّ عَلْیْھَا الْقَوْلُ فَدَ مَّرْنٰھَا تَدْمِیْراً (بنی اسرائیل آیت ۵۱۔۶۱) ترجمہ (ور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کسی رسول کو نہ بھیج دے، اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس بستی کے خوشحال لوگوں کو فسق و فجور کی مہلت دیتے ہیں، پس جب ان کا فسق و فجور زیادہ بڑھ جاتا ہے تو ہم اس بستی کو برباد کر دیتے ہیں۔)
مذکورہ دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کسی قوم اور بستی کو عذاب دینے کے متعلق اپنی سنت کو بیان فرمایا ہے، چنانچہ سابقہ قوموں اور بستیوں کی ہلاکت کے متعلق بھی اللہ کا یہی اصول تھا اور حال و مستقبل کی قوموں اور بستیوں کی ہلاکت کے متعلق بھی اللہ کا یہی اصول ہے،صرف فرق یہ ہے کہ چونکہ محمدﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں اس لئے قوموں اور بستیوں کو دعوت دینے کی ذمہ داری امت مسلمہ کی ہے،کیونکہ قیامت تک امتِ مسلمہ، نبیؐ کی وارث امت ہے۔ اس لئے دور حاضر کے فاسق و فاجر ظالم، وجابروں کو جو لمبی مہلت ملی ہوئی ہے، اس میں امت مسلمہ کی دعوتی غفلت و کو تاہی کا دخل ہے۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اہل حق پر آزمائشوں سے متعلق قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ میں اتنی صراحت کے ساتھ تذکرہ ہونے کے باوجود بہت سے نیم علماء اور نیم دینی جماعتوں نے باطل حکمرانوں اور حکومتوں کی طرف سے اہل حق پر آنے والی آزمائشوں کو ان کی ناکامی کی دلیل سمجھ لیا ہیں، اور ان نیم علماء و نیم دینی جماعتوں کو باطل حکمرانوں اور حکومتوں کی طرف سے جو رعایت اور رخصت حاصل ہے، اسے اپنی کامیابی کی دلیل سمجھ لیا ہیں، لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ شیطان کا بڑا حربہ اور ہتھیار ہے کہ وہ کامیابی کو ناکامی دکھاتا ہے اور ناکامی کو کامیابی دکھاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ان نیم علماء اور نیم دینی جماعتوں نے بڑی باریک بینی سے اہل حق پر، باطل حکمرانوں کی طرف سے آنے والی آزمائشوں کو دیکھا اور پڑھا ہے، اور جب ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ ان اہل حق پر باطل حکمرانوں کی طرف سے اسلئے آزمائشیں آئیں،کہ انہوں نے دین کو ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کیا،جس میں سیاست بھی تھی اور اس سیاست میں سب سے بڑا حکم، اور قانون اللہ کا تھا،تو اس سے باطل سردار اور حکمراں ان سے ناراض ہوگئے کیونکہ وہ سیاست میں اپنا حکم اور قانون بڑا سمجھتے تھے، تو ان نیم علماء اور نیم دینی جماعتوں نے بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے اپنی تعلیمی و دعوتی کوششوں سے دین اسلام کی سیاسی فکر وعمل کو خارج کر دیا، تاکہ ان پر باطل سرداروں اور حکمرانوں کی طرف سے کوئی آزمائش نہ آئے جیسے کہ دور ماضی میں انبیاء اور ان کے متبعین پر آئی ہیں، اور حال میں بھی بہت سے اہل حق پر آرہی ہیں، اس لئے کچھ علماء اور جماعتوں نے سرے ہی سے اسلامی سیاست ہی سے انکار کردیا، اور کچھ علماء اور جماعتوں نے اسلامی سیاست کو تسلیم کیا بھی تو اسلامی سیاست کے غلبہ کے بعد، مطلب یہ کہ اسلامی سیاست کے غلبہ سے پہلے باطل حکومت کی حمایت و وفاداری کی جائے۔
اسلام اور اسلامی سیاست کا،اسلام کی ابتدائی دعوت ہی سے کتنا گہرا تعلق ہے چودہویں صدی ہجری کے ایک جلیل القدر عالم دین و مصنف علامہ سید سلیمان ندویؒ کی ایک تحریر سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جو آپؒ نے اپنی معرکۃ الآرا ء کتاب سیرت النبیﷺ کی ساتویں جلد میں تحریر فرمایا ہے۔ چنانچہ اس جلد کی ایک صفحہ کی عبارت قارئین کی خدمت میں من و عن پیش کی جا رہی ہے۔ (یہ حقیقت ہے کہ اسلام جس دن سے مذہب بنا اسی دن سے وہ سلطنت بھی ہے، اس کی مسجد اس کا دیوان، اس کا منبر اس کا تخت تھا، اسلام کے جن بد گمان دشمنوں نے یہ سمجھا کہ محمدﷺ نے پہلے مذہب کی دعوت پیش کی جب وہ کامیاب ہونے لگی اور جنگجو عربوں کا ایک گروہ ساتھ ہو گیا تو آپؐ
کو سلطنت کے قیام کی فکر ہوئی، ان کا یہ خیال سراسر اسلام کی حقیقت سے ناآشنائی پر مبنی ہے، ایسی بادشاہی اور سرداری تو خود قریش کے رئیس آنحضرتؐ کی خدمت میں اس شرط کے ساتھ پیش کر رہے تھے کہ وہ ان کے بتوں کو برانہ کہیں،لیکن آپؐ نے ان کی اس درخواست کو ہمیشہ ٹھکرادیا، کیونکہ آپؐ کی دعوت کا مقصد محمدﷺ کی انسانی بادشاہی نہ تھی، بلکہ روئے زمین پرخدائے واحد برحق کی بادشاہی کا قیام تھا، اسی لئے اسلام دین و دنیا او ر جنت ارضی اور جنت سماوی اور آسمانی بادشاہی اور زمین کی خلافت کی دعوت لے کر اول ہی روز سے پیدا ہوا، اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دو نہیں ہے، ایک ہی شہنشاہ علی الاطلاق ہے، جس کے حدود حکومت میں نہ کوئی قیصر ہے اور نہ کسریٰ اسی کا حکم عرش سے فرش تک اور آسما ن سے زمین تک جاری ہے وہی آسمان پر حکمران ہے، اور وہی زمین پر فرماں رواں ہے۔ وَھُوَ الّذِیْ فِی السَّمآءِ اِلٰہُ وَ فیِ الْاَرْضِ اِلٰہُ (سورۂ زخرف آیت ۰۱) ترجمہ: (اور وہ وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور وہی زمین میں بھی معبود ہے) وہ دیویوں اور دیوتاؤں اور نمرودوں اور فرعونوں کو ایک ساتھ ان کے آستانوں اور ایوانوں سے نکالنے کے لیے آیا تھا اور اس بات کی منادی کرتا تھا کہ آسمان ہو یا زمین دونوں میں ایک ہی خدا کی حکومت ہوگی، اس کے لیے آسمان میں نہ کوئی دیوی ہوگی نہ دیوتا ہوگا، اور نہ اس کی زمین پر کوئی قیصر ہوگا اور نہ کسریٰ جو اس کی دعوت کی راہ کا روڑ ا بنے گا، اس کو راہ سے ہٹایا جائے گا، اور جو اس کو روکنے کے لیے تلوار اٹھائے گا، وہ تلوار سے گرایا جائے گا۔ (منقول سیرت النبیؐجلد۷ صفحہ۰۳)
واضح رہے کہ علامہ سید سلیمان ندویؒ، بر صغیر کی اسلامی تاریخ کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہے، ہندوستان کا ایک بڑاد ینی ادارہ ندوہ العلماء لکھنو کی تاریخ بھی ان کے بغیر نا مکمل ہے، آپؒ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے استاذ ہیں۔ سیرت النبیؐ کی ہی ساتویں جلد میں ایک اور جگہ علامہ سید سلیمان ندویؒ انسانی زندگی میں سیاست کی اہمیت و ضرورت کی واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں، (کسی جماعت کو منظم جماعت بنانے اور اس کی حفاظت کے لیے کسی قانون کو چلانے اور پھیلانے کے لیے ایک قوت عاملہ یا قوت عامرہ کی ضرورت فطرت انسانی کا تقاضہ ہے،اسی لیے جب سے انسانی تاریخ معلوم ہے، کوئی ایسی جماعت نہیں بتائی جا سکتی جو کسی سردار کے بغیر وجود میں آئی ہو، انسانی گروہ جب محض خاندان تھاتو خاندان کا بڑا اس کا سردار تھا، اور اس کی زبان کا ہر حکم قانون تھا، جب خاندان نے جماعت کا روپ بھرا تو جماعت کا چودھری اس کا حاکم و آمر بنا، پھر جماعت نے آگے بڑھ کر قوم کی صورت اختیار کی تو بادشاہوں اور راجاؤں نے جنم لیا) (منقول سیر ت النبیؐ جلد ۷ صفحہ ۷۹) واضح رہے کہ دین اسلام، انسانی زندگی کی مکمل رہنمائی کا پیغام لئے ہوئے ہے اس لیے انسانی زندگی کے جتنے تقاضے ہیں ان تمام تقاضوں میں اسلام کی رہنمائی ہے، اس لحاظ سے انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں دکھایا جا سکتا جس میں اسلام کی ہدایت موجود نہ ہو، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی زندگی میں جو چیز جتنی لازمی اور ضروری ہے وہ اسلام کی تعلیم میں بھی اتنی ہی لازمی و ضروری ہے،چنانچہ انسانی زندگی میں سب سے لازمی چیز اس کا عقیدہ ہے، اسلئے اسلام نے بھی اس کو لازمی قرار دیا ہے، اور اسلام کی بنیاد ہی عقیدہ پرہے، انسانی زندگی میں دوسری اہم چیز کسی کی پوجا پرستش ہے، اسلام نے اس ضرورت کا انتظام عبادات کی تعلیم دیکر کیا ہے، چنانچہ یہ عبادات کا نظام ایساجامع ہے، جو ایک انسان کو مکمل طور سے اللہ ہی کی بندگی سے جوڑے رکھتا ہے،اور غیر اللہ کی بندگی سے دور رکھتا ہے۔ انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت اچھے عمل کو اختیار کرنا، اور برُے عمل سے بچنا ہے، اسلام نے اس ضرورت کا انتظام معروف کا حکم دے کر، اور منکر سے منع کرکے کیا ہے، معروف و منکر کا دائرہ بہت وسیع ہے جو پوری انسانی زندگی کو شامل ہے، اس کو حلال و حرام کے نام سے بھی سمجھا جا سکتا ہے، اسی طرح اچھے اعمال اور برے اعمال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔اسلام میں دینی سیاست و حکومت کی کتنی اہمیت ہے، مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی ایک تحریر سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے، جو آپؒ نے اپنی کتاب سیرت سید احمد شہید ؒ میں تحریر فرمایاہے، چنانچہ سیرت سید احمد شہید جلد اول کے چند صفحات میں وعن نقل کئے جا رہے ہیں۔

Share
Share
Share