کہانی : شور
ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ
مجھے بالکل بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ شور میرے کانوں سے گزر کر میرے دل و دماغ پر بھی کیوں اثر کر رہا تھا؟ اکبر ابھی کم سن عمر کا لڑکا تھا اسکول اور گھر کا فاصلہ درمیانی تھا اکبر کے گھر میں اس کی ماں اور باپ کے علاوہ اُس کا ایک چھوٹا بھائی اصغر بھی تھا اور ایک بہن نوری تھی۔
اکبر کا مزاج باقی لڑکوں کے مقابلے منفرد تھا وہ ابتداء ہی سے ذہین اور ہوشیار تھا چاہے وہ اسکول کی بات ہو یا پھر گھر کی بات ہو۔وہ سارے کام بہت اچھے سے کرتا تھا۔ اکبر صرف نام کا ہی بڑا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے کام سے بھی بڑا تھا۔ اس کے کام کرنے کے انداز سے گھر کے سبھی افراد اور اسکول کے استاد بھی بہت خوش تھے۔
ایک روز گھر میں اچانک ایک شور برپا۔ وہ شور اکبر کی ماں اور باپ کے درمیان ہواتھا۔مہنگائی کے سبب گھر کا خرچ اور اخراجات اور اکبر اور اُس کے بھائی بہنوں کی پڑھائی کا خرچ دن بہ دن بڑھ رہا تھا۔جب اکبر کی ماں اور باپ دونوں ایک دوسرے سے زور زور سے طعنےٰ کشی کررہے تھے اور جو باتوں کا شور ہو رہا تھا وہ اکبر کے کانوں سے گزر کر اُس کے دل و دماغ تک پہنچ رہا تھا۔ اُس کے ذہن میں کئی سوالات یک بعد دیگر گھومنے لگے۔بعض دفعہ وہ اپنے آپ سے سوال و جواب کر رہا تھا کہ کیا میری ادھوری تعلیم اس مہنگائی کو کم کرسکتی ہے؟ کیا میرا ایک وقت کا کھانا کم کھانے سے مہنگائی کم ہوسکتی ہے؟ ایسے نہ جانے ان گنت سوالات کا شور اُسے نفسیاتی و جذباتی احساس سے گزار رہا تھا۔
اکبر کی اسکول دوپہر کی تھی مگر جلدی اٹھنا اُس کی عادت بن چکی تھی وہ اسکول جانے کے لیے گھر سے رخصت ہوا تو راستے میں اُسے بے تحاشا گاڑیوں کا شور سنائی دیتا ہے اور اکبر کو جونہی اپنے گھر کا وہ شور والا منظر آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگتا ہے۔ وہ اسکول پہنچا تو دوستوں کے ساتھ گفتگو کرنے میں وہ شور کے لمحات کو بھو ل گیا۔کلاس روم میں جب استاد خلیل صاحب آئے تو انہوں نے باری باری سے سب کا ہوم روک چیک کیا،چنانچہ رحیم نامی لڑکا اپنا ہوم روک کرکے نہیں لایا خلیل صاحب نے اُس لڑکے کو ڈانٹنا شروع کیا؛دوبارہ سے اکبر کو وہی شور سنائی دینے لگا وہیں اُس کی ماں اور باپ کی چیخ و پُکار کی آوازیں اکبر کو بے دھیان بنا رہی تھی۔
اسکول سے چھٹّی ہونے بعد اکبر نے اسکول سے نکل کر گھر کا رُخ کیا،تو راستے میں اُسے اُسی کی ہم عمر کم سن لڑکا ملا اور اکبر سے کہنے لگا کہ مجھے کچھ دے دو میں بہت بھوکا ہوں۔اکبر جواب میں کہتا ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔تبھی اکبر اُس سے سوال کرتا ہے کہ تمہاری یہ حالت کیسے ہوئی۔تب اُس لڑکے نے بتایا کہ میرا نام کلیم ہے لیکن اب لوگ مجھے کلّو کہہ کر پُکارتے ہے۔اکبر دوبارہ اُس کلیم نامی لڑکے سے پوچھتا ہے کہ تم بھیگ کیوں مانگ رہے ہوں؟ تب لڑکا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ میں بھی تمہاری طرح اسکول جاتا تھا میرا اپنا گھر تھا۔ تبھی اکبر سوال کرتا ہے کہ ایسا کیا ہواکہ تمہیں بھیک مانگنا شروع کردیا؟ کلیم نے بتایا کہ کرائے دار نے مکان خالی کرایا اور ہم راستے پر آگئے میرے ابّا زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اسلئے انہوں نے بھیک مانگنا شروع کردیا اور میری پڑھائی کا خرچ نہیں اُٹھا سکتے تھے، اسلئے انہوں نے مجھے بھی اس کام پر لگا دیا،میں جس بستی میں رہ رہا ہوں وہاں میری طرح کئی بچوں کا بھی یہی حال ہے۔مجھے بھی اسکول کے دن یاد آتے ہے کاش اگر میں پڑھائی کے وقت فضول کام نہ کرکے پڑھائی میں دھیان لگایا ہوتا تو شاید میرے استاد ہی مجھے پڑھاتے اور ویسے بھی اچھے استاد اچھے بچوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔
اکبر کلیم کے گھر سے بے گھر ہونے کی حالت دیکھ کر تذبذب میں پڑھ جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ وہ کتنا غلط سوچ رہا تھا پڑھائی چھوڑنے سے مہنگائی کم نہیں ہوتی بلکہ پڑھائی حاصل کرنے سے مہنگائی کم کی جاسکتی ہے۔ اکبر کلیم کی باتوں کو سُن کر وہاں سے رخصتی لے کر گھر کی طرف نکل جاتا ہے جونہی وہ گھر پہنچتا ہے تو اپنی ماں کے گلے لگتا ہے اور کہتا ہے امّا میں خوب پڑھنا لکھنا اور بہت ساری تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کل آپ کی اور ابّا کی دونوں کی باتیں سُنی۔مجھے لگا بس اب تو مجھے پڑھنا ہی نہیں ہے۔ تاکہ گھر خرچ کے اخراجات کچھ کم ہوجائے۔تبھی اکبر کی ماں اُسے کہتی ہے کہ اکبر تم ابھی چھوٹے ہوں اور تمہاری ذمہ داری اُٹھانا ہمارا فرض ہے جب تم ہماری عمر کو پہنچو گے تب تمہیں اِس بات کا جواب مل جائے گا۔ایسی باتوں کو سوچنے لے لیے تمہاری عمر بہت چھوٹی ہے۔ تبھی اکبر اسکول کے آتے وقت کلیم سے ہوئی ملاقات کے بارے میں اپنی ماں کو بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ کلیم کی ملاقات نے مجھے ایک نئے شور سے مخاطب کروایا وہ تھا تعلیم حاصل کرنے کا شور، پڑھنے کا شور اور آگے بڑھنے کا شور۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676
Email: