کتاب : کچھ درد سوا ہوتا ہے- مصنف : محمد قمر سلیم – مبصر :- سلمان فیصل

Share

کتاب : کچھ درد سوا ہوتا ہے
(افسانوں کا مجموعہ)
مصنف : محمد قمر سلیم

مبصر : سلمان فیصل
ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن حکومت دہلی

محمد قمر سلیم تعلیم کے میدان میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن صرف تعلیم و تدریس کے راستے سے ہی نہیں گزرتے ہیں بلکہ تخلیقی پگڈنڈیوں پر بھی گامزن ہیں اور ایک سیر اْدھر کی بھی کر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابوں کے درمیان ایک تخلیقی شہہ پارہ بھی وجود میں آتا ہے

جسے محمد قمر سلیم نے "کچھ درد سوا ہوتا ہے” کا نام دیا ہے۔ یہ تخلیقی شہہ پارہ ان کے افسانوں کے مجموعے پر مشتمل ہے جو حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ اس افسانوں کے مجموعے میں محمد قمر سلیم ایک نئے رنگ میں نظر آتے ہیں، تدریس کے گْر سکھانے والے صاحب نظر معاشرے میں در پیش معاصر مسائل کی طرف لوگوں کی توجہ مبذوال کرانے کے لیے افسانوں کا سہارا لیتے ہیں۔ محمد قمر سلیم اپنے افسانوں میں ہندوستانی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں اور سماج میں ناسور کی حیثیت اختیار کرنے والے مسائل اور موضوعات پر بے ساختہ اظہارِ رائے کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں وہ درد بھی بین السطور نظر آتا ہے جومحمد قمر سلیم کے دل میں جاں گزیں ہے اور رہ رہ کر ان کو مضطرب کرتا ہے اور اس درد سوا کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے انھوں نے اپنے افسانوں کو بطور اکسیر استعمال کیا ہے۔
زیرتبصرہ افسانوں کے مجموعے میں کل 19 افسانے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ پروفیسر بیگ احساس کا پیش لفظ اور سلام بن رزاق کا بیک ٹائیٹل پر فلیپ بھی شامل ہے جن میں قمر سلیم کے افسانوں کے متعلق اظہارِ خیال فرمایا گیا ہے. "میں کیا مری کہانی کیا” کے عنوان سے محمد قمر سلیم نے اپنے افسانوی سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے افسانوں پر بھی گفتگو کی ہے، افسانہ نگار کا خود اپنے افسانوں پر اظہار خیال کرنا اور غیر جانب داری سے کرنا ہمت کا کام ہے۔ بہر حال صاحب کتاب نے یہ کام بھی انجام دیا ہے۔ پس نوشت میں کچھ لوگوں کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ کون سا افسانہ کس رسالے کے کس شمارے میں شائع ہوا ہے اس کی بھی تفصیل افسانے کے آخر میں درج کر دی گئی ہے۔ اس افسانوں کے مجموعے کی یہ کل کائنات ہے۔
محمد قمر سلیم نے اپنے افسانوں میں جن موضوعات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ان کو خود افسانہ نگار نے بھی اپنے مضمون میں بیان کیا ہے مثلا اخلاقی قدروں کی پامالی، ڈیجیٹل ترقی سے مادہ پرستی کا عروج اور تہذیبوں کا زوال، رشوت، بے حسی، بے ضمیری کا سماج میں اضافہ، مذہبی، علاقائی، نسلی اور سیاسی تعصب اور دشمنی وغیرہ جیسے موضوعات پر افسانوں کا تانابانا بنا گیا ہے۔. پروفیسر بیگ احساس نے اپنے مضمون میں صاحب کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ”قمر سلیم نے اپنے افسانوں کے موضوعات کا انتخاب ملک کے موجودہ سیاسی اور سماجی منظر نامے سے کیا ہے۔ ایک حساس فن کار کی طرح وہ سماجی نا انصافی اور مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور اپنی تحریر کے ذریعے احتجاج درج کراتے ہیں۔ ان نا انصافیوں اور مظالم سے انسانوں کی زندگیاں کس طرح تباہ و برباد ہوجاتی ہیں اسے کرداروں کے ذریعے پیش کرتے ہیں“۔
محمد قمر سلیم کا بیانیہ بہت سلیس اور رواں ہے۔ افسانے کی زبان میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ زبان شستہ اور آسان استعمال کی گئی ہے۔ افسانے کی قرأت میں کوئی اکتاہٹ پیدا نہیں ہوتی۔ افسانے کی زبان قاری سے افسانہ مکمل پڑھوانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ قمر سلیم کے افسانوں کی زبان کی مثال اور افسانوں کے تعلق سے سلام بن رزاق نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ”قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی شکارے میں بیٹھا سبک خرامی کے ساتھ کشاں کشاں چلا جا رہا ہے۔یہ افسانے ما جرائی حسن کے ساتھ انسانی درد مندی سے بھی سر شار نظر آتے ہیں۔“
زیر نظر افسانوں کے مجموعے میں شامل افسانوں کے عنوانات بھی پر کشش ہیں مثلاً اینا، فرّو، اَسنا، نمبر 13، کفن چور اور نائف وغیرہ۔ ڈیجیٹل ترقی میں مادہ پرستی کی مثال افسانہ ”اینا“ میں نظر آتی ہے۔ اس کہانی میں افسانہ نگار نے معاشرے کی ایک ایسی سنگین صورت حال پیش کی ہے جو رشتوں کی پامالی کی آخری حد کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔”اسنا“ بھی ایک ایسی کہانی ہے جس میں رشتوں کی پیچیدگی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔’نمبر 13“ اسراریت اور تجسس سے بھرپور افسانہ ہے۔”کفن چور“ یوں تو ایک داستان محبت ہے لیکن اس میں کشش پیدا کرنے کے لیے کفن کا سہارا لیا گیا اور عنوان میں بھی اس کااستعمال کیا گیا۔محمد قمر سلیم نے کشمیر کے سلگتے مسائل پر بھی افسانے لکھے ہیں بالخصوص فوج کے جبر و استبداد کی کہانی جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔”فرو“میں فسادات اور کرفیو کے پس منظر میں سسٹم کی خرابیوں اور بدعنوانیوں کا پردہ فاش کرنے کی کوشش ہے۔محمد قمر سلیم نے اپنے افسانوں میں افسانے کے ضروری اجزا کا ا ستعمال بہت خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے کہ ان کے افسانوں سے متاثر ہوکربزرگ صحافی اور افسانہ نگارسید ظفر ہاشمی نے ’گلبن، لکھنؤ‘میں ایک اداریہ ہی لکھ دیا۔اداریے کا کچھ حصہ اس کتاب کے فلیپ پر شائع کیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر ”کچھ درد سوا ہوتا ہے“ اردو افسانوں کے ذخیرے میں ایک مستحسن اضافہ کہا جاسکتا ہے۔ تمام افسانوں میں افسانے کی شعریات کے نمایاں پہلو نظر آتے ہیں۔ ان افسانوں کے پلاٹ، کردار، زبان و بیان اور اسلوب کے تعلق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ محمد قمر سلیم افسانے کی بُنت پر دسترس رکھتے ہیں اور مستقبل میں خوب سے خوب تر افسانے پیش کریں گے۔ کتاب کی باطنی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اس کی ظاہری صورت بھی جاذب نظر ہے۔ سادگی سے پُر دیدہ زیب سرورق کے ساتھ ساتھ طباعت بھی عمدہ ہے۔ امید قوی ہے کہ یہ کتاب اہل علم اور باذوق افراد کے حلقوں میں پذیرائی کی سند ضرور حاصل کرے گی۔
——-
اشاعت: 2018
صفحات: 176
قیمت: 200
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی
——
Salman Faisal
370/6A Zakir Nagar Okhla
New Delhi – 110025
9891681759,

Share
Share
Share