ایک غلط فہمی اقبالؔ کے نام سے
فرہاد احمد فگار
مظفرآباد
صاحبان آج ایک اور شعر ہم اقبال کے کلیات سے خارج کرتے ہیں۔ گزشتہ روز جامعہ فیصل آباد میں ایک بورڈ پر یہ شعر معمولی تحریف کے ساتھ علامہ اقبالؔ کے نام سے درج دیکھا۔
؎ ہنسی آتی ہے مجھ کو حسرتِ انسان پر
گناہ کرتا ہے خود لعنت بھیجتا ہے شیطان پر
علاوہ ازیں کئی جگہوں پر انٹرنیٹ کے ماہرین نے بھی اسے علامہ اقبالؔ کی تصویر کے ساتھ علامہ اقبالؔ کا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ایک دوست تو کہنے لگے یہ اقبال کی نظم ”حضرت انسان” کا شعر ہے۔ہمارے ادارے ہوں یا ہمارے اخبار یا ٹی وی حتیٰ کہ کچھ اساتذہ بھی جو آیا جیسا آیا،جو سنا جیسا سنا آگے بیان کر دیا کلیات اقبال دیکھنے کی ہر گز ضرورت محسوس نہیں کی۔ایم اے اردو کی کلاس میں جب میں نے مست کلکتوی کایہ شعر پڑھا:
؎ مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گل زار ہوتا ہے
ایک شاگرد فوراً بڑے تیقن سے بولے ”سر یہ علامہ اقبال ؔکا ہے“۔میں نے نفی کی تو اپنے کالج پرنسپل کا حوالہ دے کر کہا کہ’:’پرنسپل صاحب اسمبلی میں روزانہ اقبال کے نام سے ہمیں سناتے تھے۔“ میں نے بتایا کہ یہ اقبال کا نہیں بل کہ مست خاں کلکتوی کا شعر ہے۔ اسی طرح وہ شعر جس پر بات ہو رہی ہے ہر گز اقبال کا نہیں بل کہ انشااللہ خان انشا کا ہے۔انشا،میر ماشااللہ خان کے بیٹے تھے،جو ایک ماہر طبیب تھے۔ ان کے بزرگ نجفِ اشرف کے رہنے والے تھے۔ مغلیہ عَہد میں ہندوستان تشریف لائے۔ کئی پشتیں بادشاہوں کی رکاب میں گزارنے کے بعد جب مغل حکومت کو زوال آیا تو ماشاء اللہ خان دہلی چھوڑ کر مرشد آباد چلے گئے۔انشا کی ذہانت اور جدت پسندی انھیں اپنے ہم عصروں میں منفرد نہیں بل کہ تاریخ ادب میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔ غزل،ریختی، قصیدہ اور بے نقط مثنوی اوراردو میں بے نقط دیوان” رانی کیتکی کی کہانی” جس میں عربی فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا۔ یہی نہیں بل کہ انشا پہلے ہندوستانی ہیں جنھوں نے ”دریائے لطافت” کے نام سے زبان و بیان کے قواعد پرروشنی ڈالی -یہ اردو کی سب سے پہلی قواعد کی کتاب ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں اردو زبان کے مختلف نمونے اور قواعد بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرے میں عروض، قافیہ، منطق، علم معانی، علم بیان وغیرہ کا ذکر ہے۔ اندازِ تحریر ظریفانہ ہے۔ مثلا تقطیع میں مفاعیلن مفاعیلن کی بہ جائے پری خانم پری خانم اور مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن کی جگہ بی جان پری خانم بی جان پری خانم درج ہے۔ چوں کہ یہ اردو کی پہلی قواعد ہے اس لیے اس کا درجہ بلند ہے۔۔ انشاکی دیگر تصانیف میں لطائف السعادت: انشانے اِ س کتاب میں نواب سعادت علی خاں کے دربار میں پیش آنے والے روز مرّہ کے دل چسپ واقعات کو یک جا کیا ہے۔ روزنامچہ:انشا کایہ روزنامچہ جو ترکی زبان میں ہے اب ناپید ہوچکا ہے، البتہ اس کے کچھ حصّے متفرق صورتوں میں دست یاب ہیں۔ جن کا اُردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔مطرالمرام: یہ دراصل ”طور الکلام“ کی نہ صرف فارسی زبان میں شرح کی ہے بل کہ اِس میں نئے نئے واقعات اور متعدد علمی پہلووں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ”طور الکلام“ انشا نے حضرت علیؓ کی منقبت میں ایک بے نقط اُردو قصیدہ لکھا تھااِسی نسبت سے انھوں نے اِس شرح کو یہ نام دیا۔کہانی رانی کیتکی اور کنورادے بھان کی: یہ ایک سادہ اور مختصر کہانی ہے۔ اس کی نوعیت بھی تجرباتی ہے۔ یہ اور اُن کی دوسری کہانی ”سلک گوہر“ دونوں مل کر اُستادشاعر انشاکو فکشن رائٹر بھی ثابت کرتی ہیں۔ سلکِ گوہر: یہ انشاکی دوسری کہانی ہے۔ اِس میں انشانے غیر منقوطہ نثر لکھنے کا تجربہ کیا ہے۔۔ انشانے 1817ء میں لکھنؤ میں وفات پائی۔لیکن ادبی دنیا میں انشا اپنے کارناموں کے باعث ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ آپ کے کئی اشعار ضرب المثل کے درجے پر فائز ہوئے جیسا کہ یہ شعر:
؎ نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بے زار بیٹھے ہیں
انشا نے غزل میں الفاظ کے متنوع استعمال سے تازگی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کام یاب بھی رہے۔ تاہم بعض اوقات محض قافیہ پیمائی اور ابتذال کا احساس بھی ہوتا ہے۔ انشاکی غزل کا عاشق لکھنوی تمدن کا نمائندہ بانکا ہے۔ جس نے بعد ازاں روایتی حیثیت اختیار کر لی جس حاضر جوابی اور بذلہ سنجی نے انھیں نواب سعادت علی خاں کا چہیتا بنا دیا تھا۔ اس نے غزل میں مزاح کی ایک نئی طرح بھی ڈالی۔ زبان میں دہلی کی گھلاوٹ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اس لیے اشعار میں زبان کے ساتھ ساتھ جو چیز دِگر ہے اسے محض انشائیت ہی سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔انشا ؔکی شاعری میں خالص لکھنوی انداز جا بہ جا ملتا ہے۔ شوخی،ابتذال،خارجیت وغیرہ کی کئی مثالیں آپ کے کلیات میں با آسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ انشا ؔکا زیرِ بحث شعر ان کے کلیات کی جلد اول سے لیا گیا ہے۔ دوستوں کے ذوق کی خاطر مکمل غزل مع حوالہ پیش ہے۔امید ہے احباب حوصلہ افزائی فرمائیں گے۔
بولے وہ جب ہاتھ رکھا میں نے ان کی ران پر
خیر ہے تم کو اجی لعنت کرو شیطان پر
میں نے کب کی تھی بھلا کچھ اور ڈھب کی بات چیت
قہر ٹوٹے غیب کے بہتان اور طوفان پر
ہونے دیتے ہی نہیں ہیں آنکھ سے اوجھل ذرا
غصہ آتا ہے مجھے صاحب کے باوا جان پر
واقعیٰ ہی صاحب نے دل میرا نہیں ہر گز لیا
ہاتھ تو دھریے نہا دھو کر بھلا قرآن پر
ہاتھ سے صاحب کے گوہم تنگ آویں ہو سو ہو
شکوہ کرنا آپ کا ہم کو نہیں شایان پر
کیا کہیں کہنے کی کچھ منزل نہیں باقی رہی
ہو گئے ہم لوٹ پوٹ ان کی ادا و آن پر
کون سا ہو گا بنی آدم کہ جس سے ہم رکیں
قصد یاں کر بیٹھے ہیں ہم جان ابن الجان پر
ہو پری یا حور یا غلمان ہم کو کیا غرَض
آپ بن کوئی گزرتا ہی نہیں کچھ دھیان پر
گھر کیا تھادل میں انشاؔ کے جنھوں نے واہ واہ
دھر گئے وہ آج اپنے ہاتھ دونوں کان پر
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر
فعلِ بد تو ان سے ہو لعنت کریں شیطان پر
کیا بہ موقع اس گھڑی تشریف لائے ہیں بہ جا
میں اگر خط غلامی لکھ دوں اس احسان پر
پر نہ تھے اس پر بھی پروانوں سے پہنچا کچھ پرے
کیا غضب ہوتا اگر پاتا کہیں انسان پر
حوالہ: کلیاتِ انشا،انشااللہ خاں انشاؔ، مرتبہ: خلیل الرحمٰن داودی، مجلس ترقی ادب،لاہور،طبع اول،جولائی1969ء۔
دوستو یہ ایک کوشش تھی۔ ایک غلط فہمی کو دور کرنے کی میں اس میں کس حد تک کام یاب ہوا اس کا فیصلہ آپ کی پسند و ناپسند پر موقوف ہے۔ اگر کسی ایک دوست نے بھی اپنی اصلاح کر لی تو میں اپنے مقصد میں کام یاب ہوا۔