ذہانت اب کسی کی میراث نہیں
فاروق طاہر – حیدرآباد،انڈیا
9700122826
ماہر علم نفسیات جین پیاجے (Jean Piaget) ذہانت کی تعریف کر تے ہوئے لکھتا ہے کہ ”ذہانت ما حول سے مطابقت پیدا کر نے کے عمل کا نام ہے اور فرد کا ذہنی ارتقاء اس کے ما حول سے ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کرنے پر منحصر ہوتا ہے۔ نک وچلر (Wechler)کے مطابق ذہانت،کسی بھی کا م کو بامقصد طریقے سے انجام دینے کی مجموعی لیاقت جیسے گہری فراست و بصیرت،سنجیدہ فکر کے ذریعے ما حول سے موثر طریقے سے نبرد آزما ہو نے کا نام ہے۔
ذہانت افراد کی اکتساب کی صلاحیت اور حاصل کر دہ علم کے استعمال کے نا م سے بھی معنون ہے۔اسکول،کالج میں بعض بچے ذہین سمجھے جا تے ہیں تو بعض خود اپنے آپ کو ذہین سمجھتے ہیں لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ جو طالب علم دانشور اور عقل مند کہلانا چا ہتے ہیں وہ کبھی اپنی قابلیت اور علم سے آسودہ خاطر نہیں رہتے۔ذہانت اور دانشوری کوئی جنس نہیں کہ بعض کو مل جائے اور چند اس سے محروم رہ جا ئیں۔ذہانت کو نہ خریدنا ممکن ہے اور نہ ہی خطیر رقوما ت کو خرچ کر کے بطور نذرانہ یا تحفہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ذہا نت کے حصول کو صرف اور صرف اخذ و اکتساب کے میدان میں ثابت قدمی کے ذریعے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔کسی بھی فرد کی شخصیت کی تعمیر میں ذہانت کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اگر چیکہ آدمی ذہانت کے بغیر بھی مختلف کا م انجام دیتا رہتا ہے لیکن ذہانت کے بغیر صورتحال میں حسب منشاء تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔طلبہ اگر کارکردگی کو بہتر بنا نا چا ہتے ہیں تو ذہانت ان کے کام کو نمایا ں اور آسان بنا نے میں مددگار ہوتی ہے۔اپنے مضامین کاگہرائی و گیرائی اور انہماک سے مطالعہ،حقائق کی چھان بین اور باریک بینی طلبہ میں ذہا نت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔طلبہ کی ادنی سی کوشش اور مستقل و مسلسل عمل ذہانت کو بہتر سے بہتر بناتی ہے۔ذہانت ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو اللہ تعالی کی جانب سے ودیعت کی گئی ہے انسان اس میں اپنی سعی و کا وش سے کسی حد تک اضافہ بھی کرسکتا ہے بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ اس کے استعمال کو بہتر بنا سکتا ہے۔ایک عام ذہنی سطح کے انسان کو اگر ذہین نہیں بنا یا جاسکتا ہے تو کم از کم ذہانت کی عطا کر دہ دولت کے ذریعے اس کی صلاحیتوں کو بہتربنایا جاسکتا ہے۔ذہانت کے با رے میں ما ضی بعید میں کچھ غلط تصورات بھی پا ئے جا تے تھے کہ یہ ایک موروثی شئے ہے،مرد عورتوں سے،پڑھے لکھے ان پڑھوں سے،امیر غریبوں سے،شہری دیہاتیوں سے،اعلی سمجھی جا نے والی ذات ادنی ذاتوں سے،گورے کالوں سے،مغربی اقوام مشرقی اقوام سے زیادہ ذہین ہیں۔ان تصورات کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔دراصل مردوں،پڑھے لکھے افراد،امیروں،شہریوں،اعلی ذاتوں، سفید فاموں اور اہل مغرب کو دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع زیادہ ملتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی صلاحیتیں زیادہ نمایا ں ہوکر سامنے آتی ہیں لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں خواتین،غرباء اور دیگر طبقات کو ان کی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا ہے ان کی ذہانت ابھر کر سامنے آئی ہے۔جدید علم نفسیات نے بھی ااوپر پیش کردہ مفروضات کو یکسر رد کر دیا ہے۔ماہرین نفسیات نے ذہا نت کو مختلف عناصر کا مرجع گردانا ہے۔ای۔ایل تھارن ڈائیک کے مطابق ذہانت کی چار قسمیں پائی جا تیں ہیں۔
(1)طبعی یا فطری ذہانت Natural Intelligence
(2)میکانکی ذہانتMechanical Intelligence
(3)معاشرتی یا سماجی ذہانتSocial Intelligence
(4)تجریدی ذہانتAbstract Intelligence
وہ افعال جو قدرت کی عطاکردہ پانچ حسوں کو استعمال کرتے ہوئے انجام دیئے جاتے ہیں طبعی ذہانت کے زمرے میں آتے ہیں جیسے کھانا،پینا،دیکھنا،سیکھنا،بات کرنا،محسوس کرنا،سونگھنا،چکھنا وغیرہ۔یہ ذہانت فرد، والدین اور سماج سے حاصل کرتا ہے اور آگے چل کر اسی ذہانت کو موقع و محل کی مناسبت سے تبدیل کرتے ہوئے بروئے کار لاتا ہے۔مخصوص آلات،مشینوں کو چلانا اور ان میں مہارت رکھنا میکانکی ذہانت کہلاتی ہے۔جیسے سیکل چلانا،کارچلانا،کمپیوٹر پر کام کرنا،الکٹرانک اشیاء کا استعمال جیسے واشنگ مشین،مکسر،گیزرکااستعمال اور ان آلات کے خطرات سے محفوظ رہنا میکانکی ذہانت کہلاتی ہے۔سماجی ذہانت انسان کو معاشرتی معاملات کی انجام دہی کے قابل بناتی ہے۔آدمی کو کب،کیوں اور کیسے بولنا معاشرتی یا سماجی ذہانت ہی سکھاتی ہے۔گفت و شنید (Communication skills) کی مہارت سے اپنے آپ کو لیس کر تے ہوئے آدمی ا پنی خاطر خواہ پوزیشن اور مقام کو با آسانی حاصل کر لیتا ہے۔سماج میں اپنے مقام و مرتبے کے حصول کے لئے آدمی کو ثابت قدمی سے کام لینا ضروری ہو تا ہے۔تمام ذہانتوں میں سب سے اہم مقام انسان کی دانشوری کو حاصل ہے۔سماج میں اپنی جہد مسلسل کے ذریعہ اگر کو ئی آدمی اپنا پسندیدہ مقام و مر تبہ پا لیتا ہے تو یہ دانش مندی کی اعلی مثال کہلاتی ہے۔اگر ایک آدمی ٹائپ رائٹنگ میں فی منٹ 30 حروف ٹائپ کر سکتا ہے تو وہ با قاعدہ مشق کے ذریعہ چند دن میں 60حروف فی منٹ ٹائپ کرنے کے لائق بنسکتا ہے بلکہ فی منٹ100 حروف بلکہ اس سے بھی زیادہ ٹا ئپ کر سکتا ہے۔ اسی طرح سے ایک جلاہااگر ایک ساڑی کو تین دن میں بن سکتا ہے جب کہ ایک اور جلاہا اس کو ایک دن میں اور کوئی جلاہا اس کو دیڑھ گھنٹے میں بھی بن سکتا ہے یہ ہنر مندی کی مثالیں ہیں اور ہنر مندی بھی ذہانت کے تابع ہی رہتی ہے۔
1908 ء تک ذہانت کی پیمائش اور جانچ کے لئے کو ئی مبسوط سائنسی طریقہ رائج نہیں تھا۔الفرائیڈ بنے (Alfried Binnet) فرانس کے ایک ما ہر تعلیم و نفسیات نے ذہانت کی پیمائش کے لئے ذہانتی میقاس آئی۔کیو (Intelligence Quotient I.Q) جانچ کو ایجاد کیا۔اس مقیاس کے ذریعہ کسی فرد کی ذہنی قابلیت (ذہانت)کا اس کی طبعی عمر اور ما حول کے مطابق اندازہ قائم کیا جا تا ہے اور فی زمانہ یہ امتحان بہت ہی مقبول ہے۔ایک اور ماہر تعلیم اور نفسیات سائمن نے بنے کی زیر نگرانی چند سوالات ذہانت کی جانچ کے لئے وضع کیے جن کی مدد سے ذہانت کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔بنے کاسوالنا مہ جس سے تین سال کے بچہ کی ذہنی سطح کا اندازہ قائم کر نے کے لئے اس نے جو سوالات قائم کیے وہ یہ ہیں
(1) آپ کا نام کیا ہے؟
(2)آپ کی ماں کا کیا نام ہے؟
(3)آپ کے والد کا کیا نام ہے؟
(4)اپنی ناک بتاؤ
(5)اپنا منہ بتاؤ۔
مذکورہ سوالات کے علاوہ بنے کی جا نچ میں کتاب میں دیکھ کر دس تک گنتی یا حروف تہجی(alphabets) کی شناخت، تصویریں دیکھ کر جانوروں،پھلوں اور پھولوں کی پہچان شامل ہے۔ان سوالات کے ذریعے بچہ کی ذہانت کا امتحان لیا جاتا ہے اگر بچہ ان سوالات کے جوابات دیتا ہے تو اس کی ذہانت نارمل تصور کی جا تی ہے۔اگر بچہ سوالات کے جواب دینے سے قا صر رہ جاتا ہے تو بچہ میں کسی ذہنی نقص کا پا یا جا نا یقینی ہو تا ہے۔لیکن ما ضی میں بچے کے سوالات کے جوابا ت نہ دے پا نے کو ہم زیادہ لاڈ پیار اور شرم سے محمول کر تے تھے جو کہ نہا یت ہی خطرناک رجحان ہے جس قدر جلد مر ض کی شنا خت ہو گی اتنی ہی سر عت سے اس کا علاج بھی تجویز کیا جا سکتا ہے۔اس کام میں تساہل سے کا م لینا بچہ کی آئندہ زندگی کے لئے تباہ کن ہو تا ہے۔چھ سالہ بچہ کی ذہانت کی جا نچ کے لئے بنے نے جن سوالات کو وضع کیا وہ یہ ہیں
(1)تصویر بتا کر اس میں غائب شدہ حصہ کو بتانے کو کہئے جیسے بغیر ناک کی تصو یر بتا کر پوچھا جا سکتا ہے کہ تصویر میں کون سا حصہ غائب ہے۔
(2)بچہ کو تیرہ یا پندرہ سکے دے کر ان کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے گنے کو کہا جائے۔
(3)بچہ کو تارے یا ایک مربع کی تصویر دے کر اس کو اتارنے کے لئے کہا جائے۔
(4)تصویر میں مناسب رنگوں کو بھر نے کے لئے کہا جائے۔
(5)10تا 100تک گنتی لکھ کر اس میں سے کسی 4اعداد کو غائب کر دیجئے اور بچہ کو ان اعداد کو مکمل کر نے کو کہا جا ئے۔
(6)بچہ کو جانوروں اور گاڑیوں کی تصاویر دے کر ان کو علیحدہ کر نے کو کہئے۔
اگر بچہ مذکورہ سوالات کے جوابات دینے میں کا میاب ہو جا تا ہے تو اس کی ذہانت نارمل تصور کی جائے گی اور اگر وہ سوالات کے جوابات نہیں دے پاتا ہے تو اس کی ذہانت کو فروغ دینے اور بہتر بنانے کے قوی امکانا ت پا ئے جا تے ہیں۔یہ بچہ کے والدین اور ذمہ داران کا اولین فریضہ ہے کہ وہ بچوں کی ذہانت اور صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لئے منا سب ما حول فراہم کر یں۔ما ہرین تعلیم اور نفسیا ت نے مذکو رہ ٹسٹ کو ثقافتی بنیادوں پربحث کر تے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔مذکورہ امور کی جا نچ اعلی اور متوسط خاندانوں میں ممکن ہے جب کہ یہ آزمائش پچھڑے ہوئے،پسماندہ طبقات اور اقلیتی طبقات میں ناکام ہو جا تی ہے۔مذکورہ آزمائش کو تین بنیادوں پر ناکام گردانا گیاہے
(1) ذہانت کی جانچ اور پیمائش کے لئے کوئی واضح پیمانہ مقرر نہیں کیا گیا ہے۔
(2)ذہنی آزمائش کے لئے کامل تجربہ کار اور تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے ہر کوئی یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔
(3)آئی۔کیو آزمائش کے نشانات (اسکور) اکثر مجموعی ذہانت کے بجائے کامیاب ترغیب و تحریک کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے خیال میں آئی۔کیو سوال ناموں کو افراد کے ماحول جس میں وہ پروان چڑھا ہو،اس کے معاشی،سماجی،اور ثقافتی پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جا نا ضروری ہے۔ امریکی اور یوروپی ماہرین کے مرتب کردہ سوالوں کی روشنی میں کونسلنگ کے فرائض انجام دینے والے حضرات ہمارے ملک اور قوم کے لئے بہت ہی خطرنا ک ثابت ہوں گے۔کیونکہ ایک دس سالہ امریکی بچے کی ذہانت ہمارے ملک کے بیس سالہ لڑکے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ہمارے ملک میں شہری اور دیہی علاقوں کے افراد کی ذہانت میں بھی نمایاں فرق پایا جا تا ہے۔مختلف معاشی،سماجی،ثقافتی اور تعلیمی پس منظر رکھنے والے ملک کے افراد کو امریکی اور یوروپی سوالناموں کی روشنی میں جا نچنا منا سب نہیں ہوگا۔جن کی ذہنی آزمائش کا کام انجام دیا جا رہا ہو ان کے معاشی،سماجی ثقافتی اور تعلیمی پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے سوالنامے کو ترتیب دینا ضروری ہے تاکہ بچے کی ذہانت کا ٹھیک اور مناسب اندازہ قائم کیا جا سکے۔آئی۔کیو کی بہتر جانچ کے لئے ایک فارمولہ (ضابطہ) ترتیب دیا گیا ہے جس کی روشنی میں ہم بچے کی ذہنی سطح کا بخوبی اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔
آئی۔کیو= ذہنی عمر/طبعی عمر 100x
فرد کی ذہنی آزمائش کے بعد ایک اور ٹسٹ قابلیت کے ٹسٹ (Aptitude Test) کے ذریعہ کسی خاص مضمون،پیشہ اور زمرے میں دلچسپی کو جانچاجا سکتا ہے اور اسی تناظر میں اس کے مستقبل کی پیش قیاسی بھی کی جا سکتی ہے کہ وہ کس زمرے،مضمون یا پیشے میں کامیابی حاصل کر سکتاہے۔تجربہ کار اساتذہ اور ماہرین علم و نفسیات کی رہبری اور نگرانی طلبہ کے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچانے میں کارآمد ہوتی ہے اور آج ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسے افراد کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔طلبہ کو اپنے مستقبل کو درخشاں اور تابناک بنانے کے لئے دو طرح کی ذہانتوں (1) شخصی ذہانت(Intra Personal Intelligence)(2) بین شخصی ذہانت (Inter Personal Intelligence) کا حصول لازمی ہوتا ہے۔شخصی ذہانت کے بل پر فرد اپنی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے سمجھتا ہے۔اسی ذہانت کے زیر اثر آدمی اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور منصوبہ کی کامیابی کے لئے لائحہ عمل بھی تر تیب دے کر اس پر عمل پیرا ہوتاہے۔بین شخصی ذہانت کے ذریعے دوسرے افراد کی پسند اور نا پسند کا اندازہ قائم کرتے ہوئے ان سے اپنے تعلقات کو مضبوطی فراہم کرتا ہے۔گفت و شنید اور انسانی بر تاؤ بھی اسی ذہانت کے زمرے میں آتے ہیں۔کامیاب زندگی کے لئے گفت و شنید کی مہارت کو کافی اہمیت حاصل ہے انسان اپنی زبان کے ذریعہ سماج اور افراد کے دل میں جگہ بنانے میں کامیابی حا صل کرتا ہے۔انگریزی کی ایک خوب صورت ضرب المثل ہے ”Every thing is already here people and the earth, But it takes a system of thought to make things to work.“درحقیقت یہ ضرب المثل جہاں سادہ اور آسان مفہوم پیش کرتی ہے وہیں یہ کائنات کی نہایت پیچیدہ مساوات (Equation) کو بھی پیش کر تی ہے۔ماہرین تعلیم ونفسیات نے اپنے نظریات کی روشنی میں ثابت کردیا ہے کہ دنیا میں ناممکن اور امر محال اب کوئی شئے نہیں رہی ہے۔اپنی علمی جولانیوں سے انسان نے ا پنی کوتاہیوں اور خامیاں جن کو ماضی میں قسمت کا نا م دے کر پس پشت ڈال دیا جا تا تھا کو دور کر نے میں کما حقہ کامیابی حا صل کرلی ہے۔علوم جدیدہ کی سر مستیوں نے انسان کو کسی بھی بند دراوزے پر اپنے ما تھے کو ٹیکنے کے بجائے حکمت و دانائی کے ذریعے اس کے تا لے کو کھولنے کی ترغیب و تحریک عطا کی ہے جس کی بنا انسان نے ایسے محیر العقل کار نا مے انجام دیئے ہیں جن کو دیکھ کر عقل و دانش دنگ رہ جاتی ہے۔
حصول علم کا ذہانت سے چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن یہ امر اب اہمیت کا حامل نہیں ہے کہ پیدائشی طور پر ذہین طلبہ ہی زندگی میں کامیابی و کامرانی کے علم بلند کر سکتے ہیں۔علم نفسیات کی جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ با ت واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ ایک کند اور سست طالب علم کو بھی مناسب رہبری اور توجہ کے ذریعہ کامیابیوں کی بلندیوں تک پہنچایا جا سکتاہے۔بچوں کی رہبری اور جانچ کا کام بیشک دالدین کا فریضہ ہولیکن ایک فرض شناس معلم اپنے فرض سے کبھی پہلو تہی نہیں کر سکتا۔ایک کسان بارش کی آمد سے قبل جس طر ح اپنی کشت کی زرخیزی اور پھر فصل کی داخت،پرداخت اور نگہداشت پر توجہ کر تے ہوئے ایک صحت مند فصل کو ممکن بناتا ہے بالکل اسی طرح اساتذہ بھی ایک کسان کی مانند نسل نو کی تر بیت ان کی نگہداشت کرتے ہوئے ان کی کوتاہیوں اور خامیوں کی بروقت نشاندہی اور رہبری کر تے ہوئے قوم و ملت کے مستقبل کو درخشا ں و تابناک بناسکتے ہیں۔اپنے مسائل کا رونا رونے کے بجائے محدود وسائل کو ہی اپنا ہتھیار بنائیں کیونکہ اکثر بڑی کامیابیاں وسائل کی تنگی اور عسرت سے ہی جنم لیتی ہیں۔
آب ہو کہ آتش ہو پتھروں کی بارش ہو
کام کرنے والے تو کام کر ہی جاتے ہیں۔