سرسیّد اور بچّوں کاادب
ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی
سرسیّداحمد خان (1817۔1898ء) ایک عہدسازشخصیت اور گوں ناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔انتہائی خلوص اور دردمندی کے ساتھ ان میں قوم وملّت کی اصلاح،ہم دردی اورترقّی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا،اور اسی جذبہ وہمّت کے تحت انہوں نے وہ قومی وملّی خدمات انجام دیں،جن کی ہمت ان کے پیش رو بادشاہوں اور حاکموں نے نہیں کی۔
سرسید در اصل ایک سماجی مصلح تھے،اور قوم و ملّت کی فکری،عملی،علمی اور ادبی بے راہ روی اورکوتاہی کی اصلاح و تہذیب کو ایک ہمہ گیر تحریک کی شکل دے کر پوری قوم کی علمی،ادبی اور اخلاقی اصلاح کے لئے ہمہ تن مصروف رہے۔
یوں توسرسید کی علمی وادبی خدمات پوری قوم و ملت کے لئے قیمتی سرمایہ ہیں۔انہوں نے اپنی تحریک اور تقریر وتحریر سے پوری قوم کو متاثّرکیا،جن میں نو خیز نسل بھی شامل ہے،نیز ان کے یہاں فکری و ادبی موضوعات میں بڑا تنوّع ہے،جن میں ادبِ اطفال کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
آج ہم ادبِ اطفال کے حوالہ سے سرسید کی تحریروں کا جائزہ لیں گے۔سرسیدنہ صرف ایک ادیب،انشاء پرداز اور مضمون نگار تھے،بلکہ وہ ادیبوں،شاعروں اور انشاء پردازوں کو صحیح رخ عطا کرنے والے اور ان کی مناسب تربیت و رہ نمائی کرنے والے تھے۔ (۱)انہوں نے اردو نثر کو اجتماعی مقاصد سے آشنا کیا،اور اس کو سہل و سلیس بنا کر اجتماعی زندگی کا ترجمان اور علمی مطالب کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔سرسید کے زمانہ میں نثر میں عموماََطرزِبیان کو اوّلیّت اور مضمون ومعنیٰ کو ثانوی حیثیت دی جاتی تھی،سرسید نے مضمون کو اوّلیّت دی،اور تکلّف،تصنّع،تسجّع،قافیہ بندی اور نری عبارت آرائی کے خلاف آواز بلند کی۔(۲)
بقولِ سرسید:اس وقت اردو نثر میں لفّاظی،عبارت آرائی،جھوٹ اور مبالغہ کے سوا کچھ بھی نہ تھا،سرسید نے مدّعا نگاری پر زور دیا اورعبارت آرائی کو رد کرکے سادہ،مدلّل اور واضح انداز میں اظہارِ خیال کو اپنا کر جدید اردو نثر کی بنیادڈالی۔(۳)
ادبِ اطفال میں بچّوں کی نفسیات،لفظیات،ان کی ذہنی و علمی سطح اوران کی پسند و ذوق کی رعایت کرتے ہوئے باقاعدگی اور شعوری کوشش کے ساتھ بچّوں کا ادب تحریر کرنے والوں میں بلاشبہ محمّد حسین آزاد،خواجہ الطاف حسین حالی اور ڈپٹی نذیر احمد اوّلیّت کا درجہ رکھتے ہیں،لیکن ان تمام شعوری کوشش و کاوش کے پیچھے سرسید اور ان کی تحریک کا بڑا ہاتھ ہے۔(۴)
سر سید کے مضامین کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں بچّوں کی نفسیات،عادات،فطری اور جبلّی خواہشات کا بخوبی علم تھا،اور وہ اپنے مضامین میں بطورِ مثال وتمثیل ان فطری خواہشات کا اظہار کرکے ملک وقوم کے بچوں اور بڑوں کی اصلاح و تہذیبِ نفس کا کام لیتے تھے،چنانچہ اپنے مضمون:,,ٌامّید کی خوشی،، میں کتنے دل چسپ تمثیلی انداز میں امید کی خوشی و مسرّت کا اظہارکیا ہے:
,, دیکھ ناداں بے بس بچہ گہوارہ میں سوتا ہے۔اس کی مصیبت زدہ ماں اپنے دھندے میں لگی ہوئی ہے،اور اس گہوارہ کی ڈوری بھی ہلاتی جاتی ہے۔ہاتھ کام میں اور دل بچے میں ہے اورزبان سے اس کو یوں لوری دیتی ہے۔سورہ میرے بچے سورہ،اے اپنے باپ کی مورت اورمیرے دل کی ٹھنڈک سورہ۔اے میرے دل کی کونپل سورہ۔بڑھ اورپھل پھول،تجھ پر کبھی خزاں نہ آنے پائے۔تیری ٹہنی میں کوئی خار کبھی نہ پھوٹے۔کوئی کٹھن گھڑی تجھ کو نہ آوے۔کوئی مصیبت جو تیرے ماں باپ نے بھگتی تو نہ دیکھے۔سومیرے بچے سو رہ۔میری آنکھوں کے نوراورمیرے دل کے سرورمیرے بچے سورہ۔تیرا کھڑاچاند سے بھی زیادہ روشن ہوگا۔تیری خصلت تیرے باپ سے بھی اچھی ہوگی۔تیری شہرت،تیری لیاقت،تیری محبت جوتو ہم سے کرے گا آخرکارہمارے دل کو تسلّی دیں گی۔تیری ہنسی ہمارے اندھیرے گھرکا اوجالا ہوگی۔تیری پیاری پیاری باتیں ہمارے غم کو دور کریں گی۔تیری آوازہمارے لئے خوش آیند راگنیاں ہوں گی۔
سورہ میرے بچے سورہ۔اے ہماری امّیدوں کے کے پودے سورہ۔،، (۵)
مذکورہ اقتباس کو سرسید کی نثری لوری قرار دیاجاسکتا ہے۔در اصل لوریوں سے ہی بچوں کے ادب کی ابتدا ء ہوئی ہے۔اس اقتباس سے بچے کی نفسیات،بچے کے تئیں ماں کے حسین جذبات اور ماں اور بچے سے متعلّق سر سید کے گہرے مشاہدات کااندازہ ہوتا ہے۔
سرسید نے اسی مضمون میں بچے کے تدریجی نشوونما،اس کے ادھورے الفاظ،مکتب کی تعلیم،رات میں سبق کا اعادہ،ماں باپ کی دینی وروحانی تربیت،معصومیت،خلوص اور بے ریا عبادت کا ذکر نہایت پر کشش تمثیلی اسلوب میں کیا ہے:
,,یہ امّیدکی خوشیاں ماں کواس وقت تھیں جب کہ بچہ غوں غاں بھی نہیں کر سکتا تھا۔مگرجب وہ ذرا اور بڑاہوااور
معصوم ہنسی سے اپنی ماں کے دل کو شاد کرنے لگا اوراماں اماں کہنا سیکھا،اس کی پیاری آوازادھورے لفظوں میں اس کی ماں کے کان میں پہنچنے لگی۔آنسوؤں سے اپنی ماں کے آتشِ محبّت کو بھڑکانے کے قابل ہوا۔پھر مکتب سے اس کو سروکار پڑا۔
رات کو اپنی ماں کے سامنے دن کا پڑھا ہوا سبق غم زدہ دل سے سنانے لگا۔اور جب کہ وہ تاروں کی چھاؤں میں اٹھ کرہاتھ منھ دھو کر اپنے ماں باپ کے ساتھ صبح کی نماز میں کھڑا ہونے لگا اور اپنے بے گناہ دل،بے گناہ زبان سے بے ریا خیال سے خدا کا نام پکارنے لگا۔تو امید کی خوشیاں اور کس قدرزیادہ ہو گئیں۔اس کے ماں باپ اس معصوم سینہ سے سچی ہمدردی دیکھ کر کتنے خوش ہوتے ہیں۔،، (۶)
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید نے اس تمثیل سے نہ صرف امید کی خوشیاں جگائی ہیں،بلکہ اس کے جلو میں بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کی عظیم ذمہ داری سے بھی وہ غافل نہیں ہوئے ہیں۔
سرسید کی ایک تمثیلی کہانی:,,گزراہوا زمانہ،، ہے، جس میں بچوں کو وقت برباد نہ کرنے کی ترغیب دینے لئے ایک بچہ کو خواب میں بوڑھا بنا ہوا دکھایا گیا ہے،وہ بوڑھا اپنی پچھلی زندگی پر افسوس کرتا ہے کہ کاش اس نے وقت کی قدر کی ہو تی،نیکی اور بھلائی کے کام خلوص کے ساتھ کیا ہوتا تو بڑھاپے میں افسوس کا سامنا نہیں کرنا پڑتا،وہ خواب میں رونے لگتا ہے،اس کی ماں اسے پیار سے جگاتی ہے،اور اس بوڑھے کی طرح وقت کی ناقدری کر کے بعد میں پچھتانے سے بچنے کا مشورہ دیتی ہے اورایک نئے حوصلے کے ساتھ زندگی کی شروعات کرنے کی تاکید کرتی ہے۔(۷)
بچوں کی کہانیوں میں اس طرح کا ڈرامائی اورافسانوی انداز بہت متاثّر کن ہوتا ہے،بچے اسے دل چسپی سے پڑھتے اور اثر قبول کرتے ہیں۔ اس تمثیلی کہانی میں بچہ کے لڑکپن سے کر جوانی،اڈھیر پن اور بڑھاپے کی حالت بیان کی گئی ہے،لڑکپن کے زمانہ کی ریوڑھی اور مٹھائی،ماں باپ کا پیار اور مکتب کی شرارت یاد آتی ہے۔جوانی میں ماں باپ کی نصیحت اور نیکی وخداپرستی کی باتوں کو ٹال دینا،ماں کو رنجیدہ رکھنا،باپ کو ناراض کرنا،بھائی بہن سے بے مروّت رہنا،دوست آشنا کے ساتھ ہم دردی نہ کرنایاد آتا ہے۔ادھیڑپن کے زمانہ کی نیکی کو جب وہ یاد کرتا ہے تو دیکھتاہے کہ اس کے ذاتی اعمال کا اسی پر خاتمہ ہوگیا،بھوکے پھر ویسے ہی بھوکے ہیں،مسجدیں ٹوٹ کر کھنڈر ہیں،یاپھر ویسے ہی جنگل ہیں،کنویں اندھیرے پڑے ہیں،نہ پیر نہ فقیر کوئی اس کی آوازنہیں سنتااور نہ مدد کرتا ہے،اس کا دل پھر گھبراتا ہے،اور سوچتا ہے کہ میں نے کیا کیاجو تمام فانی چیزوں پر دل لگایا۔بڑھاپے میں اب اس کو اندازہ ہواکہ اس نے اپنی پچپن برس کی عمرمیں کوئی کام بھی انسان کی بھلائی اور کم سے کم اپنی قومی بھلائی کا نہیں کیا تھا،اس کے تمام کام ذاتی اغراض پر مبنی تھے،خاص قومی بھلائی کے لئے خالص نیّت سے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔کہانی کے آخر میں سرسیدقوم کے بچوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
,,پس اے میرے پیارے نوجوان ہم وطنواوراے میری قوم کے بچو!اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ اخیر
وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچتاؤ۔ہمارا زمانہ تو اخیر ہے۔اب خدا سے دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اورقوم کی بھلائی
کوشش کرے۔آمین۔ (۸)
اس طرح اس تمثیلی کہانی کے ذریعہ سرسید نے بچوں کو بالواسطہ نصیحت و عبرت،دینی و روحانی تربیت اور صدق وخلوص کا درس دیا ہے،اور قومی بھلائی اور فلاح و بہبودِانسانی کے کاموں پر آمادہ کرنے کی مؤثر تلقین کی ہے۔آج جب کہ ہر نوجوان بچوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون ہے،اور وہ اپنے نہایت قیمتی اوقات کو سڑک کے کنارے اور نکّڑ پرٹھہرے اسمارٹ فون پر نگہ جمائے برباد کررہے ہیں،سر سید کی یہ کہانی بڑی مفید اور عبرت خیز ثابت ہو سکتی ہے۔
,,طالبِ علموں کے نام ایک خط،،میں بھی سرسید نے وقت اور موقع کی قدروقیمت کی نصیحت تمثیلی واقعہ کے ذریعہ کی ہے،چنان چہ وہ لکھتے ہیں:
”بہت دفعہ ریلوے اسٹیشن گیا۔ٹرین کو جانے کے لئے تیار دیکھا۔مسافر گٹھری باندھے سوار ہونے کے لئے تیاری کررہے ہیں اور بہت سے اپنی منزلِ مقصود پر پہنچنے کے لئے خوشیاں منارہے ہیں۔اتنے میں انجن نے سیٹی دی اورگھنٹی ٹن ٹن کر ریل یہ جا وہ جا۔اب دیکھا تونہ وہ ٹرین ہے نہ وہ رونق،اسٹیشن پر ایک پژمردگی اور اداسی کا عالم ہے۔ یہ نہ سمجھا کہ یہ ٹرین زندگی کی رفتار سے خبر دیتی ہے۔جو لوگ کہ سوار ہوئے ہیں وہ مسافرِ ملکِ عدم ہوئے اور جو آئے ہیں
وہ واردانِ ملک ِ ہستی ہیں۔اب جب کہ سمجھ آئی اور تجربہ ہوا تو وہ زمانہ رہا نہ وہ طاقت رہی۔اب جب کہ کسی اسکول یا کالج کی عمارت کے پاس سے گزرتا ہوں اورطالبِ علموں کے پڑھنے کی آواز میرے کان میں پڑتی ہے تو کھڑا ہو جاتا ہوں
اور سرد آہ بھر کر کہتا ہوں کہ افسوس اب میں دوبارہ لڑکا نہیں ہو سکتا۔کیا اچھا ہو کہ میں اس تحریر کے ساتھ پھر زندگی کا ازسرِ
نو سفر شروع کروں۔اب کیا ہو سکتا ہے۔پس اے طالبِ علمو!اور میرے ملک کے ہوشیار امیدوارو!میں حسرت کے ساتھ تم
سے مخاطب ہوں کہ میری تلف شدہ عمر تمہارے رستہ میں نوٹس بورڈ ہو جس پر درج ہوکہ۔۔خبردار اس طرف خطرہ ہے
سنبھل کر چلو۔،، (۹)
ٹرین کی تمثیل دینے کے بعد سرسید نے خود کا تجربہ بیان کرکے طالبِ علموں کو درسِ عبرت دیا ہے کہ وہ اسکول اور کالج کے دنوں کو بے کار کاموں میں ضائع نہ کریں،تاکہ اسکول سے نکلنے کے بعد اور بڑے ہونے کے بعد اسکول اور کالج کے پاس سے گزرتے ہوئے حسرت اور آہ بھرنا پڑے کہ اے کاش میں دوبارہ لڑکا بن جاتا اور اب دوبارہ محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کرتا۔
اسی طرح سرسید نے اپنے مضمون:,,بحث و تکرار،، کی تمہید میں کتّے کی مجلس کی آپسی لڑائی کی تمثیل نہایت واضح اور دل نشیں انداز میں بیان کی ہے،سرسید نے بحث وتکرار جیسے سنجیدہ اور خشک موضوع کوتمثیلی پیرایہ سے شروع کرکے اسے نہایت دل چسپ بنا دیاہے،جو کمزور سے کمزور طالبِ علم کے بھی آسانی سے ذہن نشیں ہو جاتا ہے۔
سرسید نے پو ری زندگی قوم کو بیدار کرنے اور خوابِ غفلت سے جگانے میں صرف کی،اور جو نہ جاگے ان سے مایوس بھی نہیں ہوئے،بلکہ یہ امید رکھی کہ اینڈے پڑے پڑے تھوڑی دیر بعد جاگ اٹھیں گے،,,تہذیب الاخلاق،، کے آخری پرچہ میں انہوں نے بہ طورِ تمثیل یہ بات سمجھائی:
,,بچے اٹھاتے وقت یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم کواٹھائے جاؤگے تو ہم اور پڑے رہیں گے۔تم ٹھہر جاؤ ہم آپ ہی
اٹھ کھڑے ہوں گے۔بچہ کڑوی دوا پیتے وقت بسور کر ماں سے کہتا ہے کہ بی یہ مت کہے جاؤ کہ شاباش پی لے۔پی لے۔
تم چپ رہو میں آپ ہی پی لوں گا۔لو بھایؤ!اب ہم بھی نہیں کہتے کہ اٹھو اٹھو۔پی لو۔پی لو۔،، (10)
اس اقتباس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید کو بچوں کی نفسیات وعادات کا بخوبی علم تھا،اور وہ اس نفسیات کے ذریعہ بچوں اور بڑوں دونوں کا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
چوں کہ سر سید کا پیغام پوری قوم و ملّت کے لئے تھا،اس لئے انہوں نے بہ طورِ خاص بچوں کے لئے نہیں لکھا،لیکن انہوں نے جو کچھ لکھا اس کا بالواسطہ اثر بچوں کے ادب پر بھی پڑا،اور ان کے رفقاء میں سے حالی،نذیر احمد،شبلی،محمدحسین آزاد،مولوی ذکاء اللہ اور بعد والوں میں اسماعیل میرٹھی وغیرہ نے اس کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنایا۔چنان چہ ڈاکٹرسیدعبداللہ اپنی کتاب:,,سرسید اور ان کے رفقاء،،کے ضمیمہ میں بعنوان:,,سرسید کا اثرادبیاتِ اردو پر،، کے تحت لکھتے ہیں:
,,سرسید نے اپنے تصوّرات میں نیچر کو جو اہمیت دی،اس کا اثر انجمن ِ پنجاب کی نیچر پرستی سے زیادہ دیرپا اور مستقل ہے،سرسید نے شاعرانہ طور پر ہی نہیں بلکہ علمی اور دینی بنیادوں پر نیچر کے تصور کو پھیلایا ہے۔,,اگر قرآن خدا کا قول ہے تونیچر خداکا فعل ہے۔،،چنانچہ نیچر سے سر سید کے سب رفقاء نے بڑے لگاؤ کا اظہار کیا۔شاعری میں اسمٰعیل میرٹھی نے نیچر کے مظاہرکو اپنے لئے مخصوص کر لیاتھا۔گویا ان کی شاعری سرسید کے مندرجہ بالا قول کا منظوم حاشیہ ہے۔،، (۱۱)
سید عبداللہ کے اس اقتباس میں انجمن ِ پنجاب کا ذکر آیا ہے،جہاں منظّم انداز میں بچوں کے ادب کو وجود بخشنے کی شعوری کوشش کی گئی، محمد حسین آزاد اور حالی اس انجمن کے ناقابلِ فراموش حصہ رہے ہیں،اور اسمٰعیل میرٹھی بچوں کے ادب کے امام ہیں۔
بچوں کے ادب کے پہلے محقق ڈاکٹر خوشحال زیدی نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ سرسید کی تحریک کے زیرِ اثر ان کے رفقاء نے بچوں کے ادب کی طرف اپنی اولین توجہ مبذول کی،چنانچہ ڈاکٹر زیدی تحریر کرتے ہیں:
,,سرسیداحمد کی تحریک کے تحت محمد حسین آزاد،خواجہ الطاف حسین حالی،ڈپٹی نذیر احمد اور مولوی ذکاء اللہ وغیرہ نے اردو میں مختلف اصناف اور موضوعات پر خامہ فرسائی کی،ان لوگوں کی تحریروں میں بچوں کے لئے بھی بہت سی تخلیقات نظم و نثر میں موجود ہیں۔،، (۱۲)
ڈاکٹر خوشحال زیدی نے بچوں کے ادب کے تئیں رفقاءِ سرسید کی خدمات کا جائزہ لینے کے ساتھ ان میں سرسید اور ان کی تحریک کو بھی شامل کیا ہے،چنان چہ وہ لکھتے ہیں:
,,حالی،آزاد،نذیر احمد،شبلی اور ذکاء اللہ کے ساتھ یہاں سرسید احمد خان کا ذکر کرنا ناگزیر ہے،جنھوں نے اپنے رسالے تہذیب الاخلاق کے ذریعہ قوم کی اصلاح اور بیداری کا کارنامہ انجام دیا ہے۔اگرچہ سرسید احمد خان نے بچوں کے لئے اپنے ہم عصروں کی طرح باقاعدہ نہیں لکھا،تاہم,,تہذیب الاخلاق،، میں ان کے قلم سے نکلے ہوئے
ایسے ہلکے پھلکے مضامین بھی ملتے ہیں جو بچوں کے لئے مفید ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نذیر احمد،حالی اور شبلی کے ادبی کارنامے سرسید احمد خان کی تحریک ہی کانتیجہ ہیں۔جس میں,,ادبِ اطفال،، بھی شامل ہے۔بیسویں صدی کے آغاز سے آزادیئ ہند تک بچوں کے ادب پر جس قدر کام ہوا ہے اس پر کسی نہ کسی زاویے سے سرسید تحریک اثرانداز رہی ہے۔،، (۱۳)
برٹینیکا جونیر انسائیکلو پیڈیا،شفیع الدین نیّر اور ڈاکٹر خوشحال زیدی کے مطابق بچوں کا ادب صرف وہی نہیں جو خاص طور پر بچوں کے لئے لکھا جائے،بلکہ نظم ونثر کا وہ ذخیرہ جو اپنی معنویت اور افادیت کے اعتبار سے بچوں کے لئے موزوں ہو،یا جن کو موضوع،زبان اور آسان اسلوب کے اعتبار سے بچو ں کے اسکولی نصاب میں شامل کیا گیا ہو،وہ بھی بچوں کے ادب میں شامل ہے۔ (۱۴)
ان اعتبارات سے بچوں کی درسی کتب میں سرسید کے کئی مضامین ابتداء تا حال شامل کئے جاتے رہے ہیں، (۱۵)
خود راقمِ تحریر نے ان کے مضامین اور تمثیلی کہانی جیسے:خوشامداور گزراہوا زمانہ سرکاری مدرسہ میں بچوں کو پڑھایا ہے،اور بچوں نے دل چسپی سے پڑھاہے۔اس طرح سادگی،سلاست،صراحت،صفائی،بے تکلّفی اور رواں اسلوبِ تحریر پر مشتمل سرسید کے مندرجہ ذیل مضامین بچوں کے ادب میں اوّلیّت کا درجہ رکھتے ہیں:
امّید کی خوشی،جاڑا،بحث وتکرار،ریاکاری،خوشامد،اخلاق،ہماری حالت،تعلیم و تربیت،گزراہوا زمانہ، تہذیب،تربیتِ اطفال،رسم و رواج،نوروز،کارخانہئ قدرت اور طالبِ علموں کے نام ایک خط وغیرہ ۔
——
(۱)سید اسرارالحق سبیلی،ڈاکٹر،بچوں کے ادب کی تاریخ(دہلی؛ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،۲۰۱۶ء)ص۱۲۵
(۲)سید عبداللہ،سرسید اور ان کے ناموررفقاء(علی گڑھ:ایجوکیشنل بک ہاؤس،۲۰۰۱ء)ص ۱۲۔۱۳
(۳) سنبل نگار،اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ (علی گڑھ:ایجوکیشنل بک ہاؤس،۲۰۰۷ء)ص۳۰
(۴)ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی،محولہ بالہ،ص۱۵۱
(۵)سرسید احمد خان،انتخابِ مضامینِ سرسید(علی گڑھ:ایجوکیشنل بک ہاؤس،۱۹۹۶ء)ص ۹۰۔۹۱
(۶)ایضاً،ص۹۱۔۹۲
(۷) ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی،محولہ بالہ،ص۱۵۲
(۸)سرسید احمد خان،محولہ بالہ،ص ۴۸
(۹)سرسید احمد خان،مضامینِ سرسید،مرتب:عزیزالدین اختر(علی گڑھ:ایجوکیشنل بک ہاؤس)ص۴۹۔۵۰
(۱۰)انتخابِ مضامینِ سرسید،ص ۱۲۴
(۱۱)سید عبداللہ،محولہ بالہ،ص۲۰۳
(۱۲)خوشحال زیدی،ڈاکٹر،اردو مین بچوں کا ادب(کان پور؛ادارہ بزمِ خضرِ راہ،۱۹۸۹ء)ص۱۷۴
(۱۳)ایضاً،ص۱۸۲
(۱۴)ایضاً،ص ۲۸۔۳۴
(۱۵)دیکھئے:بچوں کے ادب کی تاریخ،ص۱۲۵،اردو میں بچوں کے ادب کی اینتھولوجی،از:ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی،ص۴۴،بہار میں بچوں کاادب،از:ضیاء الرحمٰن غوثی،ص۴۷،سہ ماہی مژگاں،کولکاتہ،مدیر:نوشاد کامل،ادبِ اطفال نمبر،ص۷
——
Dr.Syed Asrarul Haque Sabeeli
Asst.Professor & Head,
Dept.of udu,
Govt.Degree & P G College (A)
Siddipet- 502103,T.S.
mob.9346651710
——