کالم: بزمِ درویش
قاتل
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
صبح کے وقت چند ملاقاتی مُجھ سے ملنے کے لیے آئے ہو ئے تھے میں ایک ملاقاتی کی باتیں سن رہا تھا جب مجھے ملاقاتی کا مسئلہ سمجھ آگیا تو اب میں نے اُس کو بولنے کا موقع دیا تاکہ وہ خوب بول کر اپنا دل ہلکا کر لے کیونکہ اگر میں اُسے ٹوک دیتا تو اُس نے ہر ملا قاتی کی طرح پر زور احتجاج کر نا تھا کہ میں نے اُس کی بات نہیں سنی اب وہ بول رہا تھا میں ہوں ہاں کر رہا تھا کیونکہ اُس کا مسئلہ مجھے پتہ چل گیا تھا
اب میں اُسے مو قع دے رہا تھا میری تو جہ اب اُس کی گفتگو سے ہٹ چکی تھی میں اب اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا وہ بو لے جا رہا تھا اِسی دوران پندرہ بیس میٹر دور ایک دیہاتی شخص نو عمر بچے کے ساتھ مجھے نظر آیا جو بغور میری طرف دیکھ رہا تھا دھوتی اور پگڑی کے ساتھ وہ بیٹھا آرام سے میری طرف دیکھ رہا تھا کیونکہ میری زندگی کا زیا دہ حصہ بھی گاؤ ں میں ہی گزرا ہے میں دیہی کلچر کے لوگوں میں پلا بڑھا ہوں اِس لیے اُس کلچر سے میری انسیت بھی فطری ہے بوڑھا دیہاتی جس کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی مُجھ سے ملنے کے انتظار میں بیٹھا تھا میں اُسے مزید انتظار نہیں کرانا چاہتا تھا سامنے بیٹھے شخص نے جب کافی باتیں کر لیں تو اُسے تسلی حوصلہ دیا خدا جلدی کرم کر ے گا وظیفہ بتا یا تو وہ اُٹھ کر جانے لگا تو میں اُس دیہاتی کی طرف بڑھا جو آرام سے انتظار کر رہا تھا مُجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ بھی تیزی سے اُٹھ کر میری طرف بڑھا۔ جب ہم قریب آئے تو میں نرم شفیق لہجے میں بولا جناب آپ مُجھ سے ملنے آئے ہیں اُس نے ہاں میں سر ہلایا تو میں اُسے پکڑ کر بینچ پر آکر بیٹھ گیا اُس کے ساتھ آیا بچہ بھی بیٹھ گیا جس کی عمر بارہ تیرہ سال ہو گی بوڑھا دیہاتی ممنون نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھاگاؤں کے سادہ لوح لوگ جب شہروں کا رخ کر تے ہیں تو سہمے سہمے خوفزدہ سے ہو تے ہیں یہ بیچارہ بھی اسی کیفیت کا شکار لگ رہا تھا سادگی شرافت انگ انگ سے ٹپک رہی تھی اب میں نے اجنبیت کی چادر چاک کر تے ہوئے کہا چاچا جی آپ کہاں سے آئے ہیں اور میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں تو وہ ممنون لہجے میں بو لا جناب یہ میرا پو تا ہے پڑھائی نہیں کر تا آوارہ لڑکوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے میں اس کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں کہ یہ سیدھے راستے پر آجائے ہم تو اِس کو سمجھا کر مار کر ڈرا کر سب کچھ کر چکے ہیں لیکن اِس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ بچپن میں تو یہ میری ساری باتیں مانتا تھا لیکن اب یہ ڈھیٹ بن گیا ہے اِس کی دادی اور ماں نے خاص تاکید کی ہے کہ اِس کو سیدھا کر دیں یہی تو ہمارے بڑھاپے کا سہارا ہے اگر یہ بھی خراب ہو گیا تو کون ہمارا سہارا بنے گا بزرگ اپنے پو تے کی شکایتیں لگا رہا تھا اور میں ایک اچھے سا مع کی طرح اُس کی باتیں سن رہا تھا میں بزرگ کو اچھی طرح بو لنے کا موقع دے رہا تھا بات سن رہا تھا جب وہ خوب بو ل چکا تو میں بولا اِس کا باپ اِ س کو نہیں سمجھا تا وہ کدھر ہے تو بزرگ بو لا وہ جیل میں ہے وہ جیل نہ ہو تا تو خود اِس کو سنبھالتا اب اُس کے نہ ہو نے سے اِس کو سنبھالنا پرورش کر نا بھی اب میری ذمہ داری ہے اب میں بوڑھا شخص ہوں یہ نوجوان یہ میری قابو نہیں آتا اِس کا باپ جیل کیوں گیا اُس نے کیا جرم کیا تو بزرگ بو لا اُس نے چار بندوں کو قتل کر دیا تھا اُس جرم میں جیل گیا ہے‘ چار بندے قتل کر دئیے‘ بزرگ نے یہ بات کتنے آرام سے بتا رہا تھا بندے نا ہوئے چار درخت کاٹ دئیے ہوں‘ کیوں قتل کیے تو بوڑھا دیہاتی بولا میرے کہنے پر میں نے اپنے بیٹے سے کہا تھا جاؤ سارے خاندان کو قتل کرکے میرے پاس آنا وہ گیااور چاربندے قتل کر دئیے میں نے خود تھانے میں پیش کیا اب وہ جیل میں ہے دیہاتی بزرگ کتنے پر سکون لہجے میں چار بندوں کے قتل کی بات کر رہا تھا میں نے بزرگ کو سر سے پاؤں تک بغور دیکھاہو شرافت اور سادگی کا پیکر لگ رہا تھا اُس کے چہرے کے تاثرات جسمانی ڈیل ڈول یا آنکھوں اور آوازسے کسی بھی طرح یہ احساس نہیں ہو رہا تھا کہ اُس نے چار بندوں کے قتل کا حکم جاری کیا ہو اُس کی وضع قطع بو ل چال سے تو یہ لگ رہا تھا کہ یہ کسی مچھر یا مکھی کو بھی قتل نہیں کر سکتا تو کس طرح چار جیتے جاگتے بندے مار دئیے میں حیران پریشان نظروں سے دیہاتی شخص کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا لیکن اُس کے کسی بھی تاثر یا حرکات سکنات سے یہ نہیں لگ رہا تھا کہ اُس نے چار بندے مروادئیے۔ بزرگ دیہاتی میری حیرانی پریشانی کو بھانپ گیا بولا جناب آپ ٹھیک سوچ رہے ہو کہ کس طرح میں نے چار بندے مروادئیے اِن چار بندوں کے علاوہ ساری زندگی میں نے تو کبھی کسی سانپ بچھو کو نہیں مارا میں تو مرغی ہلال نہیں کر سکتا میں تو کسی کو گالی تک نہیں دے سکتا۔ لیکن میرے جیسا سیدھا سادھا دیہاتی شریف انسان کیوں اِس موڑ پر آگیا کہ اُسے چار بندوں کے قتل کا حکم دینا پڑا کیونکہ اُن چار بندوں کے ساتھ میرا اکلوتا بیٹا بھی تو مارا ہی گیا اب یا تو وہ پھانسی پائے گا یا عمر قید نقصان تو میرا بھی ہوا لیکن میں نے اِس بے درد بے رحم ظالم معاشرے پر احسان کیا۔ جناب میرا تعلق فیصل آباد کے قریبی گاؤں سے ہے میں چھوٹا سا زمیندار ہوں میری ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا یہی میری کل کائنات تھی بیٹا جوان ہوا تو اُس کی شادی کر دی بیٹی جوان ہوئی تو اکیڈمی میں اپنے ٹیچر سے محبت کر بیٹھی پہلے تو میں نے ذات برادری کا رونا رویا لیکن جب بیٹی نے بہت ضد کی کہ میں نے اپنے ٹیچر سے ہی شادی کر نی ہے تو پڑھا لکھا انسان سمجھ کر میں بھی مان گیا اور بیٹی کی پسند کی شادی اُس کے ٹیچر سے کر دی‘ شادی سے پہلے میں نے اُس کے خاندان کا پتہ کرنے کی کو شش کی لیکن داماد نے یہی بتایا کہ اُس کا تعلق کراچی ہے ماں باپ مر گئے تو یتیم خانے میں جوان ہوا وہیں پر پڑھا ئی پھر مختلف نو کریا ں کر تا کر تا فیصل آباد آگیایہاں پر نوکری کے ساتھ ساتھ شام کو اکیڈمی میں پڑھاتا یہاں بیٹی کی محبت میں ہم مان گئے شادی کے بعد تین ماہ بعد تک تو داماد فیصل آباد میں رہا تین ماہ بعد کہا کہ اُسے کراچی میں نوکری مل گئی ہے اِس لیے ا ب وہ میری بیٹی کو لے کر کراچی چلا گیا چند دن تو فون آتے رہے پھر فون آنے بند ہو گئے ہمار ا بیٹی اور داماد سے ہر قسم کا رابطہ ٹوٹ گیا ہم نے بہت کو شش کی لیکن ہمارا رابطہ نہیں ہوا اِس طرح ایک سال کا وقت گزر گیا ہم بیٹی کی جدائی میں نیم پاگل ہو گئے پھر ایک دن ایک لڑکی کا فون آیا کہ آپ کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے اب وہ اِس دنیا میں نہیں رہی آپ نے راز داری سے آکر مُجھ سے ملنا ہے میرا بیٹا حیدر آباد اُس لڑکی کے پتے پر گیا تو اُس لڑکی نے بتا یاوہ سید زادی ہے آپ کا داماد ایک عادی مجرم ہے‘ مختلف شہروں میں جا کر نوجوان خوبصورت لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر شادی کر کے لاتا ہے پھر سندھ کے وڈیروں کو بیچ دیتا ہے یا پھر گھر میں جسم فروشی کا دھندہ کرتا ہے وہاں پر اپنی بیویوں سے جسم فروشی کر اتا ہے اسی طرح ملتان میں مجھے بھی اپنی محبت میں پھنسا کر لایا تو آپ کی بیٹی نے مجھے ساری حقیقت سنا دی آپ کی بیٹی مجھے اُس اڈے سے لے کر بھاگی تو ہم دونوں کو پکڑلیا گیا آپ کی بیٹی کو مار مار کر اتنا زخمی کیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہو ئے مر گئی لیکن اِس دوران میرے گھر والے میری مدد کو آگئے وڈیرے اِن کے ساتھ تھے چند دنوں میں خود کشی کا کیس سنا دیا گیا اب وہ خاندان پھر اُسی طرح معصوم لڑکیوں سے جسم فروشی کا دھندہ کر ا رہا ہے۔ اس کیس کے بعد دوسال تک میں عدالتوں پو لیس تھانوں وڈیروں کے اڈوں پر انصاف مانگتا رہا لیکن مذاق اُڑایا گیا تو آخر کار تنگ آکر میں نے بیٹے سے کہا جاؤ اُس درندے کو اُس کی ماں باپ اور بہن کو قتل کر دو جو یہ دھندہ سر عام وڈیروں کی مدد سے کر رہے ہیں پھر میرے بیٹے نے اُن خون خوار درندوں کو موت کے گھاٹ اُتا ر دیا۔ بوڑھا دیہاتی چٹانی لہجے میں بول رہا تھا کہ میں نے جو بھی کیا ٹھیک کیا اور میں اپنے فیصلے پر آج بھی خوش ہوں وہ چلا گیا لیکن میں سلگ رہا کہ ریاست مدینہ کے دعوے داروں کو نہیں پتہ کہ ہر شہر میں کہاں کہاں جسم فروشی کے اڈے ہیں تھانے داروں کو سب کا پتہ ہے اگر اب بھی یہ ایسے اڈوں کو بند نہیں کر تے تو پھرہر باپ خود اپنے بیٹے کو پستول دے کر کہے گا جاؤ انصاف کر کے آؤ۔