کالم : بزمِ درویش – حسین ابنِ علی :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
حسین ابن علی ؓ

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

روز اول سے لے کر آج تک ہر دور میں کرہ ارض پر ایک سے بڑھ کر ایک انسان اپنی پوری توانائیوں اور شان و شوکت سے طلوع ہوا، اپنی شخصیت آن بان اور کارناموں سے پوری دنیا کو لرزا براندام کر دیا۔

خالق کائنات نے معاشرے اور مختلف قوموں کی ضرورت اور توازن کے لیے غیر معمولی انسان پیدا کئے اِن عظیم ترین شخصیتوں میں بعض تو مسند علم کی وارث ٹھہریں کچھ طبعیات اور سائنس کی امام بنیں، معاشروں کی اصلاح کے لیے کچھ دنیا کی مرشد قرار پائیں کسی نے آرٹ میں کسی نے فلسفے میں کسی نے شاعری اور ادب میں اپنا نام بنایا، لیکن گردش لیل و نہار اور تاریخ کے دھارے میں بہت ساری یہ عظیم شخصیتیں بہہ گئیں کچھ کو زمانے کی کروٹیں نگل گئیں کچھ حوادث شب و روز کی نذر ہو گئیں کئی عالمی تبدیلیوں کی ہوا میں تحلیل ہو گئیں کچھ تو کتابوں اور تاریخ کے کوئزبکس میں زندہ رہیں، جبکہ اکثر یاد ماضی کا حوالہ داستان پارینہ یا قصہ بن گئیں اِن میں سے اکثریت صدیوں کے غبار میں دھندلا گئیں۔اربوں انسانوں کے ہجوم میں ایک بڑی تعداد ایسی شخصیات کی بھی ہے کہ گردش لیل و نہار اور زمانے کی کروٹیں بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں یہ دنیا میں پوری شان و شوکت سے جلوہ گر ہوئیں اور پھر اِس ابدی شہرت اور شان سے دنیا سے رخصت ہوئیں کہ قیامت تک امر ہو گئیں، یہ وہ شخصیات تھیں جنہوں نے وقت سوچ دل و دماغ جذبات تاریخ اور سمت کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے کر اِس طرح خود کو مقام امر پر فائز کر لیا کہ صدیوں کے غبار میں دھندلا ہو نے کی بجائے اِن کا نام اور کام اور نکھرتاجارہا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ اِن کی شان و شوکت اور روشنی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے انہی میں ایک نام جناب حضرت حسین کا ہے، آپ کا نام تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر اِس آب و تاب سے چمک رہا ہے کہ ہر گزرے دن کے ساتھ آپ کی شان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، چودھاں صدیاں بیت جانے کے باوجود ہر دور میں حسین کی شان اور ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔دنیا نے مروجہ اصولوں کے مطابق کسی بھی شخص کی عزت و احترام کے لیے حوالہ بہت اہمیت رکھتا ہے وہ کسی بڑے روحانی خاندان کا چشم و چراغ ہو کسی اونچے معاشرتی خاندان کا سپوت ہو کسی بڑے سیاسی گھرانے یا لیڈر کا بیٹا ہو کسی بڑے شاعر ادیب کا بیٹا ہو اِس طرح کی کوئی نسبت کسی شخص کے لیے شان و شوکت کی دائمی سند رکھتی ہے، کسی بڑے انسان کے بعد آنے والی نسلیں اسی احساس تفاخر سے معمور رہتی ہے اور اگر کوئی اِن بڑے ناموں یا حوالوں کے ساتھ جو بھی ادبی، روحانی، معاشرتی، علمی، سیاسی مقام کا حامل ہو تو خاندانی شہرت کا چارچاند لگ جاتے ہیں، اِسی اصول کے تحت جب ہم حضرت امام حسین کی تاریخ ساز شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ امام حسین اپنی دیگر خصوصیات کی طرح اِس خصوصیت میں بھی الگ اور نرالی انفرادی شان کے مالک نظر آتے ہیں، کیونکہ جو عظمتیں شان اور نسبتیں امام حسین کے مقدر میں آئیں وہ نسل انسانی کے کس نواسے، کس نورنظر، کس کے لختِ جگر اور کس کے بھائی یہاں پر ایک سے بڑھ کر ایک ایسی شاندار لازوال اور عظیم بزرگی اور نسبت کہ دیکھنے کے لیے کوہ ہمالیہ جیسا قد کاٹھ چاہیے پھر بھی ممکن نہیں۔حضرت امام حسین کو سرتاج الابنیا سرورِ کائنات کا نواسہ ہو نے کا لازوال شرف عظیم حاصل ہے، حسین کے نانا ﷺ جو وجہ تخلیق کائنات، جن کی نسبت معراج انسانیت ہے، جن کا وجود برہان الہی ہے، جن کی بشریت آبروئے آدمیت ہے، جن کے نور سے شبستان عالم چمک اور جن کے رنگ و بو سے چمنستان دہر مہک رہا ہے، جن کا خیال الہام اور جن کا نطق وحی ہے وہی حسین کے عظیم نانا ﷺ جن کے قدموں کی آہٹ سن کر کوئی خضر بنا اور جن کے در کی بھیک پا کر کوئی سکندر کہلایا۔ حضرت حسین کا عظیم بابا جن کی پیشانی کبھی غیراللہ کے سامنے نہیں جھکی، جن کو باب العلم کا لازوال خطاب حاصل ہے، جو ہر جنگ میں حیدرِ کرار کہلایا، جس کی روحانیت ہر سلسلہ تصوف کی منزل ٹھری، جس کو کعبے میں ولادت اور مسجد میں شہادت ملی، پھر حسین کو آغوش کونسی نصیب ہوئی خاتون جنت کی آغوش جس کے گھر کا طواف جبرائیل امین نے بار بار کیا، جس کو محبوب خدا نبیوں کے سردار ﷺ نے بار بار لخت جگر اور گوشہ دل کہا اور جن کے نام لینے کے لیے زبان کو ہزاروں بار مشک و گلاب سے وضو کرنا پڑتا ہے۔جن کی ناراضگی کا کبھی رسولؓ بھی متحمل نہیں رہا، جس کے گھر میں کبھی سورج کی شعاع نے بھی جھانکنے کی جرات نہ کی جس کے نام کے دو نفل پڑھ کر دنیا کا گناہ گار سے گناہ گار انسان بھی جب بارگاہ رسالت میں معافی کی عرضی دیتا ہے تو فوری درجہ قبولیت نصیب ہوتی ہے، اور پھر حسین بھائی کس کے پانچویں خلیفہ راشد کے، جس کے ایثار نے ملت کا وقار بڑھایا جنہوں نے حکومت پر وحدت امت کو ترجیح دی، جن کی طبع صلح پسند نے قوم رسول ہاشمی ﷺ کو شیرازہ بند رکھا ورنہ خلافت بھی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی۔ امام حسین کی شان اور الھ خوبی یہ ہے کہ کائنات کی عظیم ترین ہستیوں اور حوالوں سے جڑے ہوئے ہیں، اکثر اوقات ایسے عظیم حوالوں سے جڑے ہو نے سے ایک طرف اگر بہت اونچا مقام ملتا ہے تو یہ خطرہ بھی موجود ہوتا ہے کہ وہاں اس کا نام گم ہونے کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے، امام حسین ان حوالوں سے ایک لافانی شہرت اور پہچان کے حامل تو ہیں ہی اِس کے ساتھ ساتھ تاریخ میں ان کا اپنا ایک الگ اونچا مقام اور باعزت نام بھی موجود ہے۔نبیوں کے سردار ﷺ کا نواسا ہونا، ولیوں کے سردار کا بیٹا ہونا، عظیم ماں کا فرزند ہونا سعادت اور اعزاز تو ہے ہی مگر یہ آزمائش بھی کم نہیں عظیم نانا اور باپ کی عظمت کی لاج رکھنا، عظیم مقدس ماں کی آغوش کا حق ادا کرنا کوئی معمولی آزمائش نہیں اور اِس کے ساتھ ہی اپنی الگ منفرد شناخت بنانا بھی اور پھر جب اسلام پر مشکل وقت آیا تو امام حسین نے ملوکیت یزید کے مقابلے میں جرات اور استقامت دکھا کر میدان کربلا میں باطل کے سامنے کھڑا ہو کر نہ صرف اپنے عہد میں باطل کی قوتوں کو پاش پاش کیا بلکہ قیامت تک انسانی تاریخ کا رخ موڑ دیا اور مشعل راہ بنے، واقعہ کربلا کے بعد بہت ساری موروثی حکومتیں قائم رہیں لیکن کسی دور میں بھی انہیں جواز نہ مل سکا۔سانحہ کربلا کے بعد سے آج تک کسی دور میں بھی ملوکیت کے خلاف آواز بلند ہوئی، تحریک چلی، انسانی حقوق کے لیے لہر اٹھی، معاشی انصاف اور حق خودارادیت کی آواز ٹھی، ظلم و جبر کے خلاف نفرت کا جذبہ پروان چڑھا تو یہ شہادت حسین کا ثمرہ ہے۔ کسی بھی دور میں جب بھی کسی فرعون یزید نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر حق کی زبان دبانے کی کو شش کی تو ہر دور میں ہر اسلامی تحریک یا انقلاب کے وقت ضرورت پڑی تو امام حسین کے کردار کی نظرئیے کی، سچ کی، باطل کے خلاف کھڑے ہونے کی ہر دور کی ضرورت امام حسین ہیں۔
انسان کو بیدار تو ہولینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

Share
Share
Share