مرثیوں کی تہذیبی اہمیت :- تقریر : نیر مسعود – ٹرانسکرائبر :- عبدالعزیز ملک

Share
ڈاکٹر عزیز ملک

مرثیوں کی تہذیبی اہمیت

تقریر : نیر مسعود
ٹرانسکرائبر : عبدالعزیز ملک

نیر مسعود اردو ادب میں مرثیہ پر نقد لکھنے والوں میں اہم حوالہ ہیں۔اس حوالے سے ان کی کتب ”انیس“ اور مرثیہ خوانی کا فن“ خاص اہمیت کی حامل ہیں۔” مرثیوں کی تہذیبی اہمیت “ ان کی تقریر ہے جسے ”آواز خزانہ“ کے تحت لطف اللہ خان نے ریکارڈ کیا۔

لطف اللہ خان برِ صغیر کی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے نامور شخصیات کی آوازوں کو محفوظ کرنے کاکام اس لگن اور محنت سے سرانجام دیاکہ لگ بھگ پانچ ہزار اہم اور نامور شخصیات کی آوازیں محفوظ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ڈاکٹر خورشید عبداللہ جو آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور فنونِ لطیفہ سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں، نے نیر مسعود کی تقریر کی ریکارڈنگ کو ۸۱ اگست ۷۱۰۲ء کو یو ٹیوب پر اب لوڈ کیا جسے عبدالعزیز ملک نے قارئین کے لیے تحریری شکل میں پیش کیا ہے،ملاحظہ ہو۔
کربلا کا المناک واقعہ ادب میں ا س لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کہ صنفِ مرثیہ اس کی بدولت وجود میں آئی۔مرثیے کا موضوع میدانِ کربلا میں حق کی خاطرامام حسین اور ان کے رفیقوں کی جنگ اور شہادت اوراس کے ضمنی واقعات ہیں لیکن مرثیہ نگاروں نے واقعاتِ کربلا کو محض تاریخ کی حیثیت سے پیش نہیں کیااور واقعات کے معروضی بیان تک محدود رہنے کے بجائے ان میں اپنے تخیل سے رنگ آمیزی بھی کی،جزئیات اور تفصیلات میں اضافے بھی کیے اور تاریخ کو ادب بنا کر،مرثیے کو اپنی تہذیب کے اہم عناصر میں شامل کر دیا۔مرثیے کی انفرادی حیثیت یہ ہے کہ اردو کی یہ واحد غیرتقلیدی صنفِ سخن ہے۔مرثیہ ایران میں بھی کہا گیا لیکن اردو شاعروں میں فارسی مرثیے کو معیاری نمونے کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی بلکہ تیز ارتقائی رفتار سے بڑھتا ہوااردو مرثیہ فارسی مرثیے کومنزلوں پیچھے چھوڑ گیااور اس کے خدو خال دوسرے اصناف کے برخلاف ایران میں اپنی متوازی صنفِ سخن سے یکسر مختلف ہو گئے۔عجمی اثر سے آزاد اردو مرثیہ دراصل ہندوستان کی مخصوص تہذیبی صورتِ حال کی پیدا وار ہے۔اس طرح مرثیے کا مطالعہ گویا ہندوستانی تہذیب کا مطالعہ ہے،مرثیوں کے ذخیرے پرنظر ڈالیے تو آپ کو ہر عہد اورہر علاقے کے مرثیوں میں اسی عہد اوراسی علاقے کی تہذیب کا انعکاس نظر آئے گا،چناں چہ دکن کے قدیم مرثیے،دہلی کے ابتدائی اورارتقائی دور کے مرثیے،لکھنو کے دورِ عروج کے مرثیے اپنی اپنی مخصوص تہذیبی فضا رکھتے ہیں۔یوں تو ادب بجائے خوداپنے عہد کی تہذیب کا براہِ راست یا بالواسطہ عکاس ہوتا ہے،لہٰذا محض ادب ہونے کی بنا پر بھی مرثیہ تہذیبی اہمیت رکھتا ہے لیکن یہ اہمیت عمومی ہے اور اس میں ادب کے تمام اصناف مرثیے کے شریک ہیں۔ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خصوصی طور پرمرثیے کی تہذیبی اہمیت کیا ہے،شروع میں کہا جا چکاہے کہ مرثیوں کا موضوع واقعاتِ کربلا ہے لیکن مرثیہ خالص تاریخ کا بیان نہیں ہے،یعنی مرثیوں سے عربوں کے رسوم و رواج، عربی طرزِ فکر،عرب کے تہذیبی معیاروں کے متعلق ہمارے علم میں ہمارے کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا۔اس کا سبب یہ ہے کہ مرثیہ نگار عرب کی سر زمین پر رونما ہونے والے واقعہ کربلا کو ہندوستانی پس منظر کے ساتھ بیان کرتا ہے اور عربی کرداروں کو ہندوستانی کردار کے سانچوں میں ڈھال لیتا ہے۔یہ مرثیوں کا واقعاتی نقص ہے لیکن یہی واقعاتی نقص مرثیوں کی تہذیبی اہمیت کا باعث ہے۔ارود مرثیے اپنے اپنے دور کے تہذیبی معیاروں اور مظاہر کو پوری قوت اور شدت کے ساتھ نمایاں کرتے ہیں،حسینی جماعت کے افرادان مرثیوں کے مرکزی کردار ہیں،مرثیہ نگار ان کرداروں کو تہذیب اورشرافت کے اعلیٰ ترین نمونوں کی حیثیت سے پیش کرنے میں، اپنی بہترین ذہنی اور فنی صلاحیتیں صرف کرتا ہے۔اس لیے کہ ایک طرف سے تو یہ اس کے موضوع کا تقاضا ہے دوسری طرف مذہبی لوف کی وجہ سے اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ یہ کردارکامل تہذیب و شرافت کی بلندی سے کسی بھی صورت میں نیچے نہ اترنے پائیں۔ اس وسیلے سے ہر مرثیہ نگاراپنی رسائی کے بقدراپنے عہد کے تہذیبی معیاروں کی عکاسی کر تااور اپنے مرثیوں کو ان معیاروں سے واقفیت کا ایک اہم ذریعہ بناتااور ان کے لیے مثالیں فراہم کرتا ہے۔ خبیر لکھنوی کے ایک مرثیے میں حضرتِ عباس جو امامِ حسین کے چھوٹے بھائی تھے لیکن خود کو ان کا غلام جانتے تھے،اپنے شرف و فضیلت کے اظہار میں فقر و انکسار کو اس طرح اید کر دیتے ہیں:
بھائی فرماتے ہیں شفقت سے شہ عرش مقام
صبح اٹھ کر علی اکبرمجھے کرتے ہیں سلام
امامِ حسین اپنی ایک بیٹی فاطمہ صغریٰ کو مدینے ہی میں چھوڑ گئے تھے،اس لیے کہ شدید بیماری کی وجہ سے وہ سفر کے قابل نہیں تھیں۔انیس کے ایک مرثیے میں امامِ حسین مدینے سے روانگی کے وقت اس بیمار بیٹی سے ملنے آتے ہیں۔اس محل پر یہ بیت ہے:
بیٹی شہ ذی جاہ کی تعظیم کو اٹھی
بستر سے عصا تھا م کے تسلیم کو اٹھی
اس بظاہر معمولی سے جزیاتی بیان میں ایک بزرگ مرتبت باپ اورسراپا تہذیب بیٹی کے کرداروں کی اشاراتی عکاسی کے ساتھ مشرقی،خصوصاً ہندوستانی تہذیب کے ایک بہت اہم عنصر یعنی حفظِ مراتب کو جس طرح مجسم کیا گیا ہے اس کی مثال کم ملتی ہے۔غرض مرثیوں کے کرداروں میں رشتوں اور مراتب و مدارج کے فرق کا ایک پیچیدہ جال پھیلا ہوا ہے۔ماں،باپ،بیٹا، بیٹی،بہن،بھائی، نند،بھاوج،آقا، غلام،دوست یہ سب گھوم گھوم کر آمنے سامنے آتے اور اپنی اپنی رفتار و گفتار سے، ارتقا کے عروج پر پہنچی ہوئی ایک تہذیب کے مختلف معیاروں کی متحرک تصویریں پیش کرتے رہتے ہیں۔تہذیب کے ایک اور رخ یعنی رسم و رواج اور رہن سہن کی عکاسی کے لحاظ سے،مرثیے اہم ترین ماخذوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں اور یہاں مرثیوں کا وہی واقعاتی نقص اور بھی مفید ثابت ہوتا ہے،کہ ان میں عرب کے واقعات کو ہندوستان کا تہذیبی پس منظردیا جا تاہے۔تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ عکاسی بھی روشن تر ہوتی گئی،مثلاًفنونِ سپاہ گری سے شوق،لکھنوکی تہذیب کا جز تھا اس لیے لکھنو کے مرثیہ نگاروں نے جنگ کے مناظر بکثرت اور بالالتزام بیان کیے اوردراصل لکھنو آنے کے بعد ہی مرثیے میں رزمیہ نظم کی شان پیدا ہوئی۔ سماجی پس منظر کی طرف لکھنو اور دوسرے علاقوں کے مرثیہ نگاروں نے خصوصی توجہ کی اور اپنے عہد کی اشرافی تہذیب کو مرثیوں کی شکل میں محفوظ کر لیا۔حضرت قاسم ابن حسن کی شادی مرثیوں کا ایک مقبول موضوع ہے۔ابتدا ہی سے مرثیوں میں قاسم کا بیان ملنے لگتا ہے اور اس کے ضمن میں سماجی زندگی کے بہت سے مناظر کے علاوہ مختلف معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ مہیاہوتا ہے۔سودا کے ایک مرثیے سے چند متفرق مثالیں دیکھیے:
یارو ستمِ نو یہ سنو چرخ ِ کہن کا
ٹھانا ہے عجب طرح سے بیاہ ابنِ حسن کا
سنجوگ یہ کچھ باندھا ہے دلھا سے دلھن کا
جو تار کفن کا ہے سو ڈورا ہے لگن کا
دھرنا لگن اس بیاہ کازنہارنہ مانوں
بھر تاس دھراخون کا ہے نام لگن کا
غم دل پہ خلائق کے عوض منڈھے کے چھایا
دلھن کو جوڑے کے عوض رنڈ سالہ پہنایا
ہے خلعت نوشہ کے لیے فکرکفن کا
رنگ کھیلنے کا شادی کے دیکھا یہ عجب طور
جز خون کے چھینٹوں کے نہ تھا کپڑوں پہ کچھ اور
کٹتا تھا سرو سینہ بجائے دہل و دف
ماتم کی بچھی شادی کے منڈوے کے تلے صف
تھا عود کے مجمرکے عوض سینہئ پُر تف
ہر ایک کا دل اس میں تھا انگارا اگن کا
میر ضمیر کے ہاں دلھا کی پوشاک کا بیان یوں ملتا ہے:
سر پیچ کی دستار پہ تھا اور ہی سامان
کلغی و چغے کی نظرآتی تھی عجب آن
موتی کے مالے کی تھی گلے میں نئی شان
الگ ہر اک تار میں تھا برق کا عنوان
اک پھول کا،اک موتیوں کا ہار پڑا تھا
ڈوبا ہوا وہ حسن کے دریا میں کھڑا تھا
پانوں سے کیاتھا شبِ دامادی جو منہ لال
سرخی سی گلے میں وہی موجود تھی تا حال
ہاتھ میں آیا ہواسسرال کا رومال
پوشاک کی بو باس کا میں کیا کہوں احوال
خوش بو میں نہ اس گل کا عرق عطر سے کم تھا
خود عطر میں ڈوبا ہوا سر تا بہ قدم تھا
تھی خلعت شادی کے تلے اور بھی پوشاک
تھا ثقلِ کفن پہنے ہوئے اس کووہ غم ناک
اک آستیں دولھن کو بھی دے آئے تھے کر چاک
کافور ملا عطر کے جا اس پہ تھا
خاک تھے تو رتن اک بازو پہ فرزندِ حسن کے
تھے دوسرے بازو پہ بندھے بال دلھن کے
دلگیر کے ایک مرثیے میں بیٹی کی رخصتی کے وقت ماں کی یہ نصیحتیں خالص لکھنوی تہذیب کی آئینہ دار ہیں۔
بولی یہ کبرٰ ی سے کہ اے گل زار
آنکھ نہیں ہوتی میری تجھ سے چار
تجھ کودیا میں نے نہ کچھ زینہار
بچی میں تجھ سے ہوں بہت شرم سار
کیجو نہ غم،دیتی جو پہنچوں گی میں
چل کے وطن سب تیرا حق دوں گی
بیٹی میری بات یہ تم مانیو
ساس کا جو حق ہے سو پہچانیو
مجھ سے بھی الفت میں سوا جانیو
ہٹ نہ کوئی دل میں کبھی ٹھانیو
چوتھی میں، چالے میں،رسومات میں
بول نہ تم اٹھیو کسی بات پر
رسوم و رواج کے علاوہ بھی متفرق معلومات کا ایک سمندرمرثیوں میں موجزن ہے۔مثلاً قدیم مرثیہ نگار فضلی کے یہاں علی اصغر کی ماں جب اپنے ششماہے بچے کا مرثیہ پڑھتی ہیں تو ہمارے سامنے فضلی کے عہد کے بچوں کی تصویر آ جاتی ہے،اس مرثیے کے تین شعر سنیے:
کرتا تھا جب ہٹ اے بچے،پھسلاو تی تب تیرے تئیں
آگے بجا کر جھنجھنا،چوسنی چوساؤں اب کسے
یہ گھر بھی زنجیر ہنسلیاں،کس کے گلے اور ہاتھ میں ڈالوں
بلاک اور گھنگھروبنوا پہناؤں کسے
منت کی تھی میں نے یہ،بارہ برس کا جب ہو تو
چوٹیاں اتاروں سر کی،سو منتیں بڑھاؤں اب کسے
شوہر کے مرنے پر سہاگ بڑھانے کا بیان فصیح کے یہاں اس موقع پر ملتا ہے جب حضرتِ عباس کی شہادت کے بعدجنابِ زینب ان کی زوجہ کے پاس آتی ہیں۔
بھاوج کا سرگوندھا ہوا کھولا
کہا لے خاک ڈال
تو رانڈ،بیوہ ہوگئی،
اقبال کو آیا زوال
توڑ اب اپنی چوڑیاں
ناک میں سے نتھ نکال
چادر سفید اک اوڑھ لے
کر پریشان سر کے بال
نیچے الم کے بیٹھ جا،منہ ڈھانک
شوہر مر گیا،ام البنی کا لاڈلا
فرزندِ حیدر مر گیا
اس دور میں عزا داری کے مراسم ثقافت کا جز بن چکے تھے۔مرثیے میں ان کی بھی تفصیل موجود ہے۔میر تقی میر اپنے ایک مرثیے میں مراسم پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:
الف داغ کھینچے کہیں جائیں گے
کہیں نال سینوں پہ جڑوائیں گے
بہت لؤر ہوتے ہوئے آئیں گے
بہت سینہ کوبی سے ہوں گے نڈھال
عزیزوں کے احوال ہوں گے بتر
برہنہ سر آویں گے اکثر نظر
سیہ ہوں گے ہر کوئے برزن میں سر
پریشان کریں گی زنا ں سر کے بال
جواں اپنے جامے کریں گے سیاہ
پھریں گے گریباں پھٹے دل تباہ
گزارے کی رستوں میں نہ ہو گی راہ
رکھیں گے جو روضے گھروں سے نکال
خانگی زندگی کے مناظر اور گفتگو کے طور طریقے مرثیوں میں بکثرت موجود ہیں۔ان کی مدد سے ہم اس عہد کی تہذیب کو بہت قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔میر انیس حضرتِ عباس کو حسینی لشکر کی علم داری کا عہدہ ملنے کے بعدخیمے کے اندر کا منظر یوں دکھاتے ہیں:
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لی سبط مصطفیٰ کی بلائیں چشمِ تر
زینب کے گرد،پھر کہ یہ بولی وہ نو اگر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیر،رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی سے،زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ،کوکھ سے ٹھنڈی رہے صدا
کی عرض، مجھ سی لاکھ کنیزیں ہوں تو فدا
پانوِ نامور کو سلامت رکھے خدا
بچے جئیں، ترقی اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھرسب کو لے کے جائے
یثرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ حشم سے پسر کو پائے
جلدی شب ِعروسی اکبر خدا دکھائے
مہندی تمھارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلھن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
مرثیوں کی تہذیبی اہمیت پر اپنی اس گفتگو کو ہم نے معروضی سطح پر رکھا ہے، موضوعی طور پر مرثیوں کی تہذیبی اہمیت، غورو فکر اک نیا میدان کھولتی ہے،جس سے ہم نے اس گفتگومیں گریز کیا ہے لیکن مختصراً اتنا کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مرثیہ ایک المیہ صنفِ سخن ہے،یہاں جنگ و جدل کی خوں فشانی ہو یا شادی بیاہ کی چہل پہل سب پر غم کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرثیے کا اساسی موضوع غم ہے،غم انسانی فطرت پر سب سے زیادہ اثر اندازہونے والا جذبہ ہے،کسی تہذیب کو سمجھنے کا اب بڑا ذریعہ اس امر کا مشاہدہ ہے کہ اس تہذیب کے نمایندے غم کا کس طرح احساس اور اظہار کرتے ہیں اور یہ مشاہدہ مرثیے سے زیادہ کسی صنفِ سخن میں نہیں ہو سکتا۔غم ہی کی طرح خیر و شر کا تصادم بھی مرثیوں کا بنیادی موضوع ہے۔مرثیہ نگار خیر و شرکا بہت واضح تصور رکھتا ہے اور کسی تہذیب کو سمجھنے کے لیے ظاہر ہے اس سوال کاجواب بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس تہذیب میں خیر و شر کا تصور کیا تھا۔ مرثیے غم کی فضا میں خیر و شر کی ٹکر دکھاتے ہیں۔اس موضوعی پہلو کو نظر میں رکھیے تو مرثیے اس مہتم بالشان فریضے کو بھی بوجوہ ِاحسن انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جسے اقبال نے افرادو اقوام کی باطنی تربیت سے تعبیر کیا ہے اور اس طرح مرثیوں کی اہمیت دو گنا ہو جاتی ہے کہ یہ تہذیب کے مظاہر دکھاتے ہی نہیں،تہذیب سکھاتے بھی ہیں۔

Share
Share
Share