کالم : بزمِ درویش
عمر بن خطاب ؓ
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
نبوت کا چھٹا سال جا رہا تھا صرف انتالیس افراد حلقہ بگوش اسلام ہو ئے تھے۔ مسلمانو ں کو کعبے میں نماز پڑھنے کی اجازت تک نہ تھی کو ئی مسلمان اگر عبادت کر تے نظر آجاتا تو اس کی زندگی جہنم بنا دی جاتی اس پر قیامت ٹوٹ پڑتی مکہ کی گلیاں بازار اور وادی اہل ِ اسلام کے لیے عقوبت خانے بن چکے تھے‘
مشرکین ظالم اور مسلمان مظلوم تھے۔تمام مسلمانوں کی حالت تو کیا ہو گی خود محبوب خدا ﷺ کئی بار تشدد کا نشانہ بن چکے تھے۔ غریب اور غلام مسلمانوں کے لیے مکہ شہر پھانسی گھاٹ بناہوا تھا‘صحابہ کرام گردنیں جھکا کر چھپ چھپ کر زندگی گزار نے پر مجبور تھے۔ مسلمانوں کی حالت زار سردار الانبیا ﷺ سے برداشت نہ ہو تی تھی اور پھر تاریخ اسلامی نہیں تاریخ انسانی کا عظیم واقعہ رونما ہوا یہ ذوالحجہ کا مہینہ تھااور بدھ کا دن سرور کائنات ﷺ نے اپنے ساتھیوں کی بے بسی اور اہل مکہ کی بے حسی دیکھ کر بارگاہِ الہٰی میں دعا کے لیے ہا تھ اٹھائے خدایا اسلام کو عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے تقویت عطا فرما ان دونوں میں سے جو بھی تجھے محبوب ہو اسے مشرفِ بہ اسلام فرما اور پھر اگلے ہی دن قریش کے قبیلہ عدی کا طویل قامت سرخ چہرہ جنگجو دلیر اور بے باک شجاع انسان گھر سے اِس لیے نکلا کہ سر زمین عرب خدا کا پیغام سنانے والے کو تہہ تیغ کر کے اہل قریش کے بتوں کو سر بلند رکھے گا۔ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر لوگوں نے کہا تو پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو تمھاری بہن اور بہنوئی بھی مسلمان ہو چکے ہیں یہ سن کر وہ اپنی بہن کے گھر غضب ناک ہو کر گیا اور بولا یہ کیا سرگوشیاں تم کر رہے ہو اور بولا تم گمراہ ہو چکے ہو اِس پر اس کے بہنوئی نے کہا گمراہ ہم نہیں تم ہو تو وہ غصے سے بے قابو ہو گیا اور اپنی بہن اور بہنوئی کو مارنے لگا جب وہ بہت مار چکا تو تھک کر بولا مجھے بتا تم کیا پڑھ رہے تھے پھر اس نوجوان کے سامنے وہ کلام پڑھا گیا جو پہاڑوں پر نازل کر دیا جا تا تو پورا سلسلہ کوہسار خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا‘ کلام کی تاثیر ایک زلزلہ تھی جس نے نو جوان کے دل کی زمین کو زیر و بر کر کے رکھ دیا اور پھر قبیلہ عدی کا نوجوان سردار اِس کلام کی ہیبت سے لرزنے لگا پھر قبیلہ عدی کا سردار انسان نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان محبوب خدا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو ا اور اپنی تلوار اور سر بھی رسالت مآب ﷺ کے قدموں میں رکھ دیا اور مسلمان ہو گیا تو مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی اِس طرح آپ کو متمم الاربعین کا لقب ملا پھر یہی نوجوان ایک مسلمان کی حیثیت سے میدانِ بدر میں نمودار ہوا قریش کے تمام قبائل کے سرکش کفار بہترین اسلحہ سجا کر اہل ِ ایمان کے مقابل آئے مگر قبیلہ عدی کا کو ئی فرد اِس خوف سے اِدھر نہیں آیا کہ حلقہ اسلا م میں ان کا سردار موجو د تھا عزت رعب دبدبے کی یہ عجیب مثال تھی کہ آج تک تاریخ دان اور نفسیات دان اِس بات پر حیران ہیں بدھ کے دن نبی کریم ﷺ نے دعا مانگی اور اگلے ہی دن یہ نوجوان جس کا نام عمر بن ہشام تھا اسلام کے دائرے میں کیا داخل ہوا کہ تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہو ئی حضرت عمر بن خطاب کو پوری اسلامی تاریخ میں منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ہر ایک نے اپنی خوا ہش اور طلب پر حضور ﷺ سے مصاحبت اختیار کی لیکن حضرت عمر کو اپنی صحبت اور رفاقت کے لیے سرور کو نین ﷺ نے اللہ تعالی سے دعا کر کے منتخب کیا۔ آپ داخل ِ اسلام کیا ہو ئے کہ مصائب و الام کی دھند چھٹنے لگی اور قبول ِ اسلام کے بعد آپ سیدھے خانہ کعبہ پہنچے اور بلند آواز سے اہل ِ مکہ کو پکا را جو کو ئی اپنی ماں کو ماتم گسار اپنے بچوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ بنانا چاہتا ہے وہ آئے اور ہمیں اللہ کے گھر میں عبادت سے روکے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں حضرت عمر کا اسلام ہماری کامیابی تھا اِن کی ہجرت ہماری نصرت اور انکی خلافت ہمارے لیے باعث ِ رحمت تھی جب تک حضرت عمر اسلام نہیں لائے تھے ہم کعبے میں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے جب وہ اسلام لا ئے تو قریش سے لڑ بھڑ کر ہمارا حق تسلیم کرا لیا کہ ہم بھی کعبے میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ پھر سرور کائنات ﷺ کے حکم پر جنگ کے لیے آدھا سامان نبی کریم ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ پھر جب حضور ِ اکرم ﷺ اپنی بیویوں سے ناراض ہو تے ہیں تو دربار رسالت ﷺ میں پیش ہو کر کہتے ہیں شاید آقا ﷺ یہ سمجھتے ہیں کہ میں اپنی بیٹی حفضہ کی سفارش کے لیے آیا ہوں تو ربِ کعبہ بہتر جانتا ہے کہ حفضہ کے لیے میرے دل میں عکسِ ملال تک نہیں میں تو حضور ﷺ کی تنہائی کے خیال سے آزردہ ہوں اگر آقا ﷺ مجھے حکم دیں تو اللہ کی قسم اِسی وقت حفضہ کی گردن کاٹ دوں سرور دو جہاں ﷺ آپ ہی کے بارے میں فرمایا کر تے تھے۔ اللہ تعالیٰ (بعض اوقات)عمر کی زبان سے بولتا ہے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا شیطان عمر کے سائے سے بھی دور بھاگتا ہے اور اگر میرے بعد کو ئی نبی ہو تا تو وہ عمر ہو تا لیکن میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت عمر فاروق نے جن بلندیوں کو چھوا وہ آپ کا ہی مقدر تھا۔ جب مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہو ئے تو ایسی با ت کہی کہ پوری انسانی تاریخ میں کو ئی دوسری مثال نہیں آپ نے کہا اے لوگوں میں نے اپنے دروازے کے کواڑ نکال پھینکے ہیں تاکہ میرے اور تمھارے درمیان کو ئی دیوار حائل نہ رہے اور پھر کہا اگر فرات کے کنارے کو ئی بھی بھوکا مر جائے تو اس کا جواب دہ میں ہوں عہد جہالت میں دریائے نیل ہر سال خشک ہو جا تا پھر نوجوان دو شیزاؤں کی قربانی اور خون دیا جاتا تو پانی آجاتا جب آپ بر سر اقتدار آئے تو حضرت عمر نے دریائے نیل کے نام خط لکھا کہ اے نیل اگر تو میرے خدا کے حکم سے چلتا ہے تو چل ورنہ تیرے پانی کی ہمیں کو ئی ضرورت نہیں اور پھر نیل اِس طرح ابل پڑا کہ آج تک پانی بند نہیں ہوا۔ انداز حکمرانی ایسا کہ ہندوستان کے نجات دہندہ گاندھی نے کہا تھا اگر بھارت ایک مثالی ترقی چاہتا ہے تو اسے دوسرا عمر فاروق پیدا کر نا ہو گا۔ اِن کے عہد حکومت میں اسلامی ریاست کرہ ارضی کے شرق و غرب اور شمال و جنوب کی وسعتوں پر محیط تھی لیکن کمال عجز کا عالم یہ تھا کہ کپڑوں پر پیوند لگے تھے۔ بیت المال کے اونٹوں کی گلہ بانی خود کر تے۔ اور جب آخری حج کے بعد پلٹ رہے تو ایک وادی میں رک گئے اور فرمایا بے شک اللہ جسے چاہے نواز دیتا ہے میں کبھی اِس وادی میں اپنے باپ کے اونٹ چرایا کر تا تھا وہ مجھے غلطی پر خوب مارتا تھا اور آج یہ وقت ہے کہ میرے اور اللہ کے درمیان کوئی نہیں جس کا مجھے خوف ہو اور پھر شعر پڑھا تمھارے سامنے جو کچھ ہے اِس کی حلاوت باقی نہیں رہے گی صرف اللہ کی ذات ہی باقی رہنے والی ہے یہ مال و دولت سب کچھ ختم ہو جا ئے گا بے شک اب موت کے حوض میں داخل ہو نے کا وقت آگیا ہے وہی حوض جس میں ہم سے پہلے لوگ داخل ہو ئے پھر ابو لولو فیروز کے حملے میں زخمی ہو گئے اور محسوس کیا کہ اب جانبر ہو نے کی امید نہیں تو فورا اپنے بیٹے عبداللہ کو بلایا اور فرمایا ام المومنین حضرت عائشہ کے پاس جا اور کہوعمر سلام کہتا ہے یاد رکھنا امیر المومنین نہ کہنا عرض کرنا عمر بن خطاب اجازت مانگتا ہے اسے دونوں رفیقوں کے ساتھ دفن کیا جائے سیدہ عائشہ آپ کی حالت پر پہلے ہی دکھی تھیں فرمایا یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی تاہم میں عمر کی آرزو کو اپنی خواہش پر ترجیح دیتی ہوں پھر محرم کی پہلی تاریخ کو حضرت عمر نبی کریم ﷺ کے پہلو میں دفن ہو نے کا لافانی اور لا زوال اعزاز نصیب ہو گیا یوں آپ کے اعزازات میں ایک اور اضافہ ہوگیا دنیا تو نبی ﷺ کے ہوا کو ترستی ہے مگر حضرت عمرؓ کو روز محشر تک محبوب خدا ﷺ کے دامن کی ہوا ملتی رہے گی جہاں دنیا کا بڑے سے بڑا بادشا ہ اور ولی اپنی سانس روک کر حاضر ہو تا ہے وہاں حضرت عمر ؓکو ابدی نیند سونے کی عظیم سعادت میسر آگئی حضور ﷺ نے اللہ سے مانگ کر لیا تو دور کیسے کر تے۔