اردو ادب کا ایک روشن چراغ – رام لعل
اویس احمد
پی ایچ۔ڈی،ریسرچ اسکالر،یونیور سٹی آف حیدر آباد(حیدر آباد)
میل::
موبائل نمبر:: 7889664099
رام لعل اردو ادب میں کسی خاص تعارف کے محتاج نہیں ہے۔وہ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اور جدید دور کی درمیانی کڑی کا ایک اہم نام ہے۔۶۳۹۱ء سے لیکر ۰۶۹۱ء تک جتنے بھی ادباء و شعراء اردو ادب کی اُفق پر جلوہ گر ہوئے ہیں، ان کی طرف تحقیق و تنقید نگاروں نے خاطر خواہ توجہ دی ہے،لیکن جس رغبت کے مستحق رام لعل تھے،وہ انھیں نہیں ملی۔
وہ بیک وقت ایک ناول نگار، تنقید نگار،ڈراما نگار، سفر نامہ نگار، خاکہ نگار اور سب سے بڑھ کر ایک اعلیٰ پایہ کے افسانہ نگار تھے۔رام لال کا سب سے بڑا اختصاص یہ ہے،کہ ان کے افسانوں کو ہندوستان میں بولی جانے والی مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے پیش کیا گیا ہے۔ جن میں کنٹر، تامل، ہندی، اُڑیا، ملیالم، مراٹھی، گجراتی، پنجابی، آسامی وغیرہ زبانیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی متعدد تصانیف کے ترجمے،اردو،ہندی،انگریزی کے علاوہ روسیRussian)) فرنچ(French)،دانش(Dannish)، عربی(Arabic) وغیرہ زبانوں میں شائع ہوئے ہیں۔جو ان کی شہرت کا ایک اہم ثبوت ہے۔
رام لعل کا تعلق صوبہ پنجاب (موجودہ پاکستان)کے میا نوالی علاقے سے تھا۔میانوالی دریاسندھ کے کنارے پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ رام لعل کی پیدائش ۳/ مارچ،۳۲۹۱ء کو اسی مقام پر ہوئی۔ان کے والد کا نام لچھن داس چھابرہ تھا۔رام لعل کی عمرابھی دو ہی سال کی تھی،کہ سایہ ء مادری سے محروم ہونا پڑا۔اس کے بعد ان کے والد نے دوسری شادی کرلی۔لیکن سوتیلی ماں نے رام لال کے ساتھ سچ میں سوتیلی ماں جیسا سلوک رواں رکھا۔جس کا غم رام لال کو ہمیشہ ستاتا رہا۔ اس تعلق سے رام لعل کہتے ہیں۔
”بچپن ہی سے ماں جیسی نعمت سے محرومی اور دوسرے لوگوں کی شفقت جس میں ترس کا مادہ زیادہ ہوتا تھا،میرے اندر احساس کمتری کو بڑھانے کا باعث ہمیشہ بنتا رہا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا گھر سے مفلسی رخصت ہو چکی تھی۔ اتنا بڑا گھر تھا جس کے تین حصوں میں میرے والد اور میرے دو چچا رہائش پزیر تھے۔“(1)
(1) وہاب اشرفی،تاریخ ادب اردو، ابتداء سے ۰۰۰۲ ء تک (جلد سوم)،اشاعت،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،صفحہ۹۹۱۱)
رام لعل نے ابتداء سے لیکر دسویں جماعت تک کی تعلیم سنتا دھرم اسکول،میانوالی سے حاصل کی۔دسویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد ہی رام لعل کو ہندوستانی ریلوے میں ملازمت ملی،اس وقت ان کی عمر کُل سولہ سال کی تھی۔ ریلوے کی ملازمت کے سبب انھیں ہندوستان بھر کی سیر کرنے کا موقع ملا۔ وہ جہاں بھی جاتے اپنے مشاہدے کو وسعت سے ہمکنار کراتے رہے۔ہر جگہ کے لوگوں سے ملتے رہتے۔ان کی معاشرتی،معاشی، اقتصادی، سماجی وغیرہ، ہر طرح کی صورتحال سے آگاہی حاصل کرتے رہے،پھر انہی حالات و واقعات کو کہانی کا جامہ پہنا کر پوری دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ ظہیر آفاق اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں۔
”۰۴۹۱ء سے پہلے جب رام لال ریلوے کی ملازمت میں تھے۔تو اپنی ڈیوٹی پر انھیں ہندوستان بھرگھومنا پڑتا تھا۔یہ ملازمت ان کے عین موافق تھی،جس میں انھیں سیاحت کا لطف حاصل ہوتا تھا۔بے شمار جگہوں سے واسطہ پڑتا تھا۔طرح طرح کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ہر رنگ ونسل کی، بیشتر جگہ انھیں ان لوگوں کی زبان کوسمجھنا مشکل ہو جاتا تھا،لیکن ایک زبان انسانی ہمدردی کی بھی ہے،جو ہمیشہ ساتھ دیتی ہے۔انھیں کہانیوں کو رام لال اپنے افسانوں میں ڈھالتے ہیں۔“
(ظہیر آفاق،رام لال کی افسانہ نگاری،صفحہ۵۲)
رام لال نے ادبی دنیا میں اس وقت قدم رکھا، جب ان کی پہلی کہانی بعنوان ”خیام“ ۳۴۹۱ ء میں لاہور سے نکلنے والے مشہور ہفتہ وار اخبار”ویکلی“ میں چھپی تھی۔ اس کے کل دو سال بعد ۵۴۹۱ ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ”آئینے“ کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔یہ وہ دور تھا جب ترقی پسند تحریک سے وابستہ کہانی کار، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی،سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی وغیرہ، جیسے چوٹی کے ادیبوں نے صنفِ افسانہ کو اپنے گھنے سائے کی لپیٹ میں لیا تھا۔اس دور میں کون ایسا ہو سکتا تھا،جو ان کی ہمسری کرتا یا ایسی روشنی میں اپنی شمع کی لُو کو روشن کر دیتا۔رام لعل نے انھیں لوگوں سے تھوڑی سی روشنی لیکر اپنا ادبی سفر آگے پڑھایا۔
رام لال کی کہانیاں اس وقت کے مشہور رسائل میں چھپتی تھیں، جن میں لطفِ شباب، حسین دنیا، خیام وغیرہ شامل ہیں۔ان کے معاصرین میں غیاث احمد گدی،جیلانی بانو،جوگندر پال، انتظار حسین، سعید امرت، پروفیسر کرشنا کماری، منور اشرف، دت کماری، وغیرہ شامل ہیں۔
رام لعل نے کم و بیش باون کتابیں تصنیف کی ہیں۔جن میں تقریباً سولہ افسانوی مجموعے، مثلاً۔آئینے، آواز تو پہچانو، انقلاب آنے تک، گلی گلی، چراغوں کا سفر، اکھرے ہوئے لوگ، معصوم آنکھیں، ایک اور دن کو پرنام، نئی دھرتی پرانے گیت،وغیرہ۔ان افسانوی مجموعوں کے متعدد ایڈیشن پاکستان اور سویڈن سے شائع ہوئے ہیں۔زیرِ تحریر مجموعوں کے علاوہ باقی کئی مجموعے آج ناپید ہیں۔رام لعل نے انوکھے موضوعات پر قابلِ فخر کہانیاں لکھی ہیں۔ان کہانیوں کے طرزِ بیان،اسلوب اور تکنیک کے اعتبار سے رام لعل ایک منجھے ہوئے فنکار کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ان کے مشہور افسانوں میں، او۔ سی، راکھ، چمار، دشتِ دل،تیرے منھ میں چاک، بھیڑ اور بھیڑ، تلاش گمشدہ، رسٹ واچ، وغیرہ ہیں۔ان میں سے ”رسٹ واچ“ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں صرف ایک کردار کو مرکزی حیثیت دے کر اس کی جذباتی کشمکش، ازدواجی زندگی سے وابستہ معاملات اور دوسرے کرداروں کے ذہنی خلجان، ڈرامائی واقعات، ماضی اور حال کے تجربات کا ایک ایسا امتزاج ملتاہے کہ قاری پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔رام لعل نے زیادہ تر متوسط طبقے سے وابستہ ہندو مسلم خانوادوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ جس کا احساس ان کی کئی کہانیوں کو پڑھ کر بخوبی ہوتا ہے، مثلاً، افسانہ”نصیب جلی“ میں ایک سکھ خاندان کی کہانی ہے، جو اپنے مسلمان دوست کو فسادیوں سے بچانے کے لیے اپنی بیوی کے پہلو میں لِٹادیتا ہے۔جو ہندو مسلم بھائی چارے کی ایک اعلٰی مثال ہے۔ رام لعل کی کہانیاں موجودہ معاشرے اور اس میں بسنے والے انسان کے کرب انگیز لمحوں کی داستان معلوم ہوتی ہیں۔علی عباس حسینی، رام لعل کی ادب نوازیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”رام لعل میں وہ ساری صلاحیتیں موجود ہیں جو انھیں چوٹی کا افسانہ نگار بنا سکتی ہیں۔نظر میں گہرائی ہے،طبیعت میں نفسیاتی الجھنوں کے سمجھنے کی خاصیت اور بیان میں وہ سادگی، جو اپنے دامن میں بڑی رنگینیاں چھپائے ہوئے ہیں، وہ جن کرداروں اور جس ماحول کو اپنی کہانی کا مرکز بناتے ہیں اس کا بغور مطالعہ اور صحیح نباضی کرتے ہیں۔وہ جزیات کو بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں اور اُ ن کو بڑی فنکارانہ طور پر ایک لڑی میں منسلک کر دیتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اسی لگن سے لکھتے رہے اور ہماری معاشرتی، اقتصادی اور نفسیاتی گتھیوں کی ایسی ہمدردانہ عکاسی کرتے رہے تو وہ ایک دن اردو کے سرت چندر چٹر جی بن جائیں گے۔“
(رام لعل،گلی گلی،افسانوی مجموعہ،اشاعت ۰۶۹۱،مطبع،نامی پریس، لکھنؤ۔صفحہ ۴۱۲)
علی عباس حسینی نے یہاں جن خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے اور رام لعل کو بنگالی زبان کے مشہور ناولسٹ سرت چندر چٹرجی 1876-1938 کے مقام تک پہنچنے کی جو پیشن گوئی کی ہے۔اس چیز کو رام لعل نے سچ کرکے دکھایا ہے۔1960ء میں رام لعل نے جتنا ادب تخلیق کیا تھا، اس سے تین گنا زیادہ ادب انہوں نے آگے کی ۰۳ سے ۵۳ سالہ زندگی میں تخلیق کیا ہے۔اس دور میں انھوں نے کئی ناول لکھئے ہیں،جن میں، ”نیل دھارا“ 1981، نعمانی پریس، دہلی سے شائع ہوکر سامنے آیاہے۔یہ بنیادی طور پر فرانس کے مشہور ناولسٹ، فرانکائز ساگن ((FRANCOISE SAGAN کے ناولٹ (ASCERTAIN SMILE) کا آزاد ترجمہ بہ اضافہ ہے۔جسے رام لعل نے گیارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔1994 ء میں رام لعل کے دو ناولٹ، ”آگے پیچھے“ کے عنوان سے سیمات پرکاش پریس،دہلی سے شائع ہوئے ہیں۔جنھیں رام لال نے۶۲ ذیلی عنوانات کے تحت لکھا ہے۔”چاچی کا ڈبہ“1996، میں لکھا ہوا ان کا ایک اور ناول ہے۔جو تیرہ ابواب پر مشتمل ہے۔یہ ناول آفیسٹ پریس دہلی سے منظر عام پرآیا ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ رام لعل ایک ڈراما نگار بھی تھے۔ڈراما نگاری میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ”آتش خور“ کے عنوان سے لکھا گیا ایک طویل ڈرامہ ہے۔ یہ ڈرامہ کل پانچ ایکٹس پر مشتمل ہے۔ اس کا انتساب اردو ادب کی مشہور شاعرہ کشور ناہید کے نام ہے۔جسے اتر پردیش اردو اکاڈمی کی مالی معاونت سے 1992 ء میں شائع کیا گیا ہے۔ڈرامے میں تین مرکزی کردار، فریڈا، لارنس اور برتھا ہیں۔رام لعل کے اندر جو تحریک جنم لے رہی تھی،اس کا ثبوت دینے کی خاطر رام لعل کا قلم ہمیشہ چلتا رہا۔ رام لعل نے محسوس کیا تھا کہ اردو ادب میں ڈرامہ نگاری کا سرمایہ دوسری اصناف کے مقابلے میں کافی قلیل ہے اور اسی کمی کو پورا کرنے کی خاطر انھوں نے ڈرامہ نگاری کی طرف توجہ مبذول کی۔اس تعلق سے ولایت جعفری رقمطراز ہیں۔
”رام لعل کے افسانے، خاص طور سے چھوٹے افسانے بہت عظیم ہیں۔اردو میں ڈراموں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے رام لعل کوشاں ہیں۔ان کی یہ کتاب(آتش خور) اسی کوشش کا نتیجہ ہے۔“
(لال لعل، مجموعہ ڈرامہ،آتش خور،اشاعت،دہلی،1992ء،صفحہ159)
رام لعل کو ایک خاکہ نگار ہونے کی حیثیت سے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔”دریچوں میں رکھے چراغ“ ان کے ادبی خاکوں کا ایک بہترین مجموعہ ہے۔جس میں اردو ادب سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیتوں پر لکھے گئے اکیس خاکے شامل ہیں۔ ان میں، تلوک چند محروم، فراق گورکھپوری، سید احتشام حسین، سید سجاد ظہر، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔یہ خالص ادبی شخصیات پر لکھے گئے خاکے ہیں۔اس مجموعے کی اہمیت اس لیے دو بالا ہو جاتی ہے کہ رام لعل نے جن اشخاص کو قریب سے دیکھا تھا،انھیں پر خاکے تحریر کیے ہیں۔ یعنی اس میں کسی بھی طرح کا خیالی پلاؤ نہیں پکایا گیا ہے۔اس تعلق سے رام لعل خود فرماتے ہیں۔
”جن مشاہیر کے بارے میں یہ خاکے میں نے لکھئے ہیں اور ان کے ساتھ باتیں کی ہیں۔ان کے ناموں اور کارناموں سے آپ بھی بخوبی واقف ہوں گے۔لیکن جو کچھ میں نے لکھا ہے اس کا بیشتر حصہ آپ کے علم میں ہرگز نہیں ہوگا۔“
(رام لعل،دریچوں میں رکھے چراغ،مطبع،اے۔ ون۔آفیسٹ پرنٹرز،دہلی۔صفحہ۹)
رام لعل نے اردو افسانے کے تعلق سے بہت سے تنقیدی مضامین لکھئے ہیں۔ان تمام مضامین کو کتابی شکل میں ”اردو افسانے کی نئی تخلیقی فضا“ کے عنوان سے1985 ء میں شائع کیا گیاہے۔اس کے علاوہ بچوں کے ادب سے متعلق ان کی دو کتابیں ”آنے والے کل کے سپاہی“ اور”ڈیڈی کی چوری“ کے عنوان سے شائع ہو ئی ہیں۔
رام لعل کو ادبی خدمات کی عوض میں کئی ملکی و بین الاقوامی انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔جن میں، غالب ایواڑ، شیرومانی اردو ساہتیہ کار، بھلے شاہ (ڈنمارک)، نقوش(پاکستان)، کے علاوہ مختلف ادبی انجمنوں نے سپاس نامے پیش کیے ہیں۔اس کے علاوہ رام لعل اتر پردیش اردو اکاڈمی کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔
1988-1989 تک حکومتِ ہند نے انھیں اعزازی طور پر ہندوستانی لٹریچر کا سربراہ منعقد کیا،جس کے سبب انھیں دنیا کے مختلف مقامات کا سفر کرنا پڑا۔جن ممالک کی سیر کرنے کا انھیں موقع ملا ہے،اُن میں انگلینڈ، ڈنمارک، سوئیڈن، فرانس، جرمنی، سوئزر لینڈ، پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔ان ممالک کے سفر کی روداد انھوں نے اپنے تحریر کردہ سفرناموں میں بیان کی ہے۔زرد پتوں کی بہار، خواب خواب سفر اور ماسکو یاترا،1990ء ان کے سفری دستاویز ہیں۔
الغرض ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو افسانے کے سرخیل سپاہی،سعادت حسن منٹو،کرشن چندر، پریم چند، راجندر سنگھ بیدی وغیرہ کے بعد کی نسل کے افسانہ نگاروں میں رام لعل کا نام سر فہرست ہے۔انہوں نے ادب کے تئیں اپنی بے لوث محبت اور انتھک کوششوں کی بنا پر، اردو افسانے کی دنیا میں ایک مستحکم جگہ بنا لی ہے اور جب جب اردو ادب کے صفِ اول کے افسانہ نگاروں کا تذکرہ ہوگا، وہاں رام لعل کو فراموش کرنا ادبی بد دیانتی ہوگی۔
—–