کالم : بزمِ درویش
ایک چال
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
میرے سامنے معذورشخص بیٹھا تھا جو آنکھوں سے اندھا‘ چہرے پر تیزاب سے جھلسنے کے اثرات اور پھر سب سے بڑھ کر دونوں بازوں سے محروم تیزاب کی وجہ سے چہرے کے خدوخال آپس میں گڈ مڈ ہو گئے تھے چہرے کے نقش و نگار اِس بری طرح خراب اور ٹیڑھے میڑھے ہو گئے تھے کہ خوفناک منظر پیش کر رہے تھے‘
مجھے میرا ایک جاننے والا پچھلے کئی دنوں سے ایک بات بار بار کہہ رہا تھا کہ اُس کے محلے میں ایک بوڑھا معذور شخص ہے جو بار بار آپ سے ملنے کی ضد کر تا ہے لہٰذا جب میرے جاننے والے نے بار بار ضد کی تو آج میں اِس معذور نابینا شخص سے ملنے کے لیے اِس شخص کے گھر آیا تھا معذور شخص سے تو میں ملنے کے لیے تیار تھا ہی لیکن معذوری اتنی خوفناک ہو گی یہ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کسی دشمن نے اِس کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اِس کی آنکھوں کا نور تو چھینا ہی تھا ساتھ میں اِس کے چہرے کا جغرافیہ اِس بری طرح بگاڑ دیا تھا کہ انسان کا چہرہ ہی نہیں لگ رہا تھا جیسے کسی جانور کا چہرہ ہو وہ بھی خوفناک جھلسا ہوا، جب اُس معذور شخص کو میرے آنے کا بتا یا گیا تو وہ بہت خوش ہوا اور اٹھنے کی کو شش بھی کی لیکن میں نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُس کو روک دیا کہ آپ کے لیے اٹھنا مشکل ہے اِس لیے آپ اٹھنے کی زحمت نہ کریں میری آواز سن کر وہ بیٹھ گیا اور بولا پروفیسر صاحب آپ کے آنے کا میں کس طرح شکریہ ادا کروں میرے پاس شکر ئیے کے الفاظ نہیں ہیں تیزاب نے اُس کے ہونٹوں کو بھی بگاڑ دیا کم کر دیا تھا اِس لیے ہونٹوں کے بے ترتیبی کی وجہ سے الفاظ کی ادائیگی بھی نامکمل سی تھی الفاظ نا مکمل اور ادھورے تھے آواز بھی بے ہنگم اور بے ترتیب سی تھی چہرے کا بگاڑ تیزاب کے اثرات دونوں بازووں سے محروم جسم اوپر سے بے ہنگم بے ترتیب ادھورے الفاظ سب کچھ نے مل کر خوفناک منظر بنا دیا تھا میرے اعصاب اور دماغ الجھ کر رہ گئے تھے میری مستقل آسودگی اطمینان خوشگواریت کے تالاب میں اِس منظر نے پتھر پھینکنے والا کام کیا تھا‘ میرے شعور فہم و ادراک آگہی میں انتشار کی سی کیفیت پید اہو گئی تھی میں بے چین بے قرار الجھا سا بیٹھا تھا کیونکہ معذور شخص پر رحم کرنے کی بجائے قلب و روح عجیب سی بے قراری الجھن کا شکار ہو کر رہ گئے تھے سامنے معذور نا بینا شخص تھا جس پر رحم پیار آنے کی بجائے اٹھ کر واپس جانے کو دل کر رہا تھا اب میں اِس تجسس انتظار میں تھا کہ معذور مجھ سے کیوں ملنا چاہتا تھا اور اتنے دنوں سے مجھے کیوں بلا رہا تھا آخر مجھ سے ملنے کی اُس کو کیوں ضرورت یا خواہش تھی آخر کار میرے لبوں پر یہ بات آہی گئی کہ جناب آ پ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے اب میں آگیا ہوں تو آپ وہ بات کریں جس کے لیے مجھے بلایا تھا تاکہ پھر میں مل کر واپس جا سکوں پتہ نہیں عجیب سی وحشت اکتاہٹ بے چینی سی مُجھ پر طاری تھی کہ جلدی مل کر واپس جاؤ ں میری ایسی کیفیت کبھی ہو ئی نہیں لیکن اِس معذور سے مل کر ہو رہی تھی اب میں جلدی بات سن کر واپس جانا چاہ رہا تھا میرے بار پوچھنے پر کہ جناب آپ نے مجھے کس لئے بلایا ہے تو معذور میرے دوست سے بولا وہ باہر چلا جائے وہ پروفیسر صاحب سے الگ بات کرنا چاہتا ہے تو وہ اٹھ کر باہر چلا گیا اب معذور اور میں کمرے میں اکیلے تھے تو معذور بولا جناب آپ نے مجھے پہچانا نہیں میں بیس سال پہلے آپ کے پاس مری آیا تھا آپ کے فلاں دوست نے مجھے آپ کے پاس بھیجا تھا میں ایک رات آپ کے پاس ٹہرا بھی تھا آپ مُجھ سے ناراض ہو گئے تھے اورمجھے بہت سمجھایا بھی تھا لیکن میں عقل و دماغ اور جوانی کے نشے میں غرق تھا آپ کی کسی بات پر دھیان نہیں دیا تھا تو مجھے وہ رات یاد آگئی جس رات یہ جوانی اور اپنی گفتگو کی مہارت الفاظ کی جادوگری میں میرے پاس آیا تھا ان دنوں میں مری میں نوکری کر رہا تھا کہ میرے ساتھ والے گاؤں سے میرے کالج فیلو کا مجھے فون آیا کہ اُس کا کزن مری میں تین دن کے لیے آنا چاہتا ہے وہ آپ سے بات کر کے آئے گا پھر اِس شخص کا مجھے فون بھی آگیا کہ وہ اپنی منگیتر کے ساتھ مری تین دن کے لیے آنا چاہتا تھا ان دنوں میں مری میں اکیلا تھا میرے گھر میں میرے علاوہ کو ئی نہیں تھا پھر فون کر نے کے چند دن بعد یہ صاحب ایک نو عمر نوجوان خوبصورت لڑکی کے ساتھ آگئے میں نے پہلے سے تیار گیسٹ روم میں ان کو ٹہرا دیا یہ دونوں سامان رکھ کر مال روڈ کی سیر کو چلے گئے رات کو آکر یہ اپنے کمرے میں گھُس گئے میں ان دنوں مراقبہ جات نوافل اور وظائف میں ڈوبا ہوا تھا رات کو نماز نوافل تسبیح کرنے کے بعد مراقبہ میں ڈوب رہا تھا رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی میرے مہمان سمجھ رہے تھے کہ میں سو چکا ہوں میرے کمرے میں مکمل اندھیرا تھا میں سارے دن کی تھکاوٹ طویل وظائف اور مراقبے میں ڈوبتا جارہا تھا میرا تعلق اِس دنیا سے منقطع ہو تا جارہا تھا مری کی راتیں بہت پر سکون ہو تی ہیں نہ ٹریفک ناشور نہ فیکٹریاں نہ آبادی کا زور رات کے وقت تاریکی اور خاموشی کا ہی راج ہوتا ہے اس لیے روحانی مراقبہ جات کے لیے پہاڑی علاقوں کا رخ کر تے ہیں کیونکہ مراقبے کی عبادت کا جو لطف پر سکون پہاڑی علاقوں میں ہے وہ گنجان آبادی والے شہروں میں نہیں ہے۔ اُس رات میں بھی مراقباتی کیفیت میں نیم بیداری غنودگی میں جاکر باطنی کھڑکی کھولنے ہی والا تھا کہ کسی نے زور زور سے میرا دروازہ پیٹنا شروع کر دیا ساتھ میں نسوانی چیخ بار بار رات کی تاریکی کی چادر کو چاک کر رہی تھی نیز شور اور نسوانی چیخوں سے میں نیند سے بیداری میں آیا تو پتہ چلا کوئی لڑکی میرے دروازے کو زور زور سے پیٹ رہی تھی ساتھ میں چیخ چیخ کر مدد مدد بھی پکار رہی تھی میں نے دوڑ کر دروازہ کھولا تو ساتھ کمرے میں سویا مہمان اپنی منگیتر کو گھسیٹ کر کمرے میں لے جانے کی کو شش کر رہا تھا لڑکی اُس سے جان چھڑا کر میرے کمرے میں گھس گئی اور روتے ہو ئے بو لی مجھے اِس بھیڑیے سے بچا لیں یہ میری عزت لوٹنا چاہتا ہے تو میں بولا تم اس کی منگیتر نہیں ہو تو وہ بولی بلکل نہیں یہ تو میرے استاد ہیں میں ان سے ٹیوشن پڑھتی ہوں خدا کے بعد باپ جتنا اِن کا احترام کر تی ہو ان کی کو ئی بات نہیں ٹالتی انہوں نے کہا آؤ تمہیں مری کی سیر کر اتا ہوں تو ادب میں یہاں آگئی میں ساری بات سمجھ گیا بندے کو دوسرے کمرے میں لے گیا اور کہا تم کوشرم نہیں آتی معصوم بچیوں کو بہلا پھسلا کر باتوں میں گھما کر اُن کی عزت تار تار کرتے ہو تو اِس نے شرمندہ ہو کر معافی مانگی وعدہ کیا کہ دوبارہ ایسا نہیں کروں گا صبح یہ بندہ واپس چلا گیا بچی کو دو دن بعد میں نے کسی فیملی کے ساتھ لاہور بھیج دیا آج وہی بندہ بیس سال بعد میرے سامنے تھا تمہاری یہ حالت کس نے کی تو وہ بولا جناب میں نے آپ کے سامنے شرمندگی اور معافی کا ڈرامہ کیا تھا میں بعد میں بھی کئی سال تک معصوم طالبات کی عزتوں سے کھیلتا رہاانہیں اپنی باتوں میں لگا کر اپنی جنسی ہوس پوری کرتا پھر ایک متاثرہ لڑکی کے منگیتر نے مجھے اغوا کر کے میرے چہرے پر تیزاب پھینک کر اندھا کیا پھر میرے بازو توڑ دئیے جو بعد میں کاٹ دئیے گئے اب میں اندھا اورمعذور ہوں عبرت کا چلتا پھرتا اشتہار میرا دوست آپ کی بہت تعریف کر تا تھا تو میں نے سوچا کاش آپ کی بات مان لیتا معصوم بچیوں کی عزت سے نہ کھیلتا پھر معذور بلک بلک کر رونے لگا میرا سانس بھی گھٹنے لگا اِس کے گناہوں کی سزا شروع ہو گئی تھی عقل مند چالاک لفظوں کے مداری اپنی الفاظ کی جادوگری سے لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں لیکن خالق کائنات اتنا کہتا ہے کہ تم سو چالیں چلتے ہو مگر میں صرف ایک چال میں کام تمام کر دیتا ہوں۔