کالم : بزمِ درویش – بابابلھے شاہ ؒ :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
بابابلھے شاہ ؒ

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

تا ریخ تصوف کے اورا ق بے شمار ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جب کسی طالب حق کے دل میں عشق الہی کی چنگا ری سلگ اٹھی چنگاری آگ کا بھانبھڑ بن گئی آتش عشق نے جسمانی کثافتوں کو راکھ کا ڈھیر بنا ڈالا پھر طالب حق معرفت الہی عشق الہی کے پر کٹھن سفر پر نکل پڑا پھر قرب الہی پانے کے لیے عبادت ریاضت تزکیہ نفس مراقبہ اور کڑے مجاہدوں کے پل صراط سے خود کو گزار کر کثافت کو لطافت میں بدل ڈالا

جسم و روح کی گندگی کو صاف کیا جسم و روح سراپا نور بن گئے اورپھر ایسے سالک سے کرامات کا ظہور ہوتا ہے اِن کرامات سے اہل دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ یہ وہ بندہ خاص ہے جس پر خالق کائنات کا کرم خاص ہوچکا ہے ایسا بندہ سیف زبان بھی ہوتا ہے وہ کن فیکون کے مقام پر ہوتا ہے ایسے بندے پر یہ انعام سخت کڑے مجاہدوں اور عبادات کے بعد ہوتا ہے لیکن کوچہ تصوف میں کچھ ایسے بھی خوش نصیب ہمیں ملتے ہیں جو عبادت ریاضت کڑے مجاہدوں کے بنا ہی اللہ کے ولی ہوتے ہیں یہ پیدائشی ولی ہوتے ہیں اِن کے اندر پیدا ئش کے وقت سے ہی لطافت کی مقدار زیادہ ہوتی ہے یہ سراپا نور ہوتے ہیں یہ جذب و سکر کی دولت سے مالا مال ہو تے ہیں بچپن سے ہی اِن سے کرامات سرزد ہوتی ہیں ایسا ہی ایک پیدائشی ولی آج ہمارا مو ضو ع سخن ہے جو پیدائشی ولی تھا اور بچپن میں ہی آپ سے کرامات سرزد ہو نی شروع ہوگئی تھیں 1675 میں ایسا ہی پیدائشی ولی اچ گیلانیاں شہر میں پیدا ہوا 6سال کی عمر میں باپ کے کہنے پر یہ بچہ ایک دن کھیتوں میں اپنے مویشی چرا رہاتھا تیز گرمی میں بچہ آرام کی نیت سے ایک شجر سایہ دار کے نیچے لیٹ گیا اور سوگیا مویشیوں کو کو ئی دیکھنے والا نہ تھا اِس لیے وہ بے لگام ہوگئے وہ جنگل کی گھاس چرتے چرتے قریبی فصل میں گھس گئے اور بری طرح فصلوں کو اجاڑنے لگے کھیتوں کے مالک جیون خان کو پتہ چلا تو ڈنڈا لے کر مویشیوں کومار پیٹ کر کھیتوں سے باہر نکالنے لگا لیکن اِس دوران مویشی کھیتوں کو نقصان پہنچا چکے تھے جیون خان غصے کی آگ میں جھلسنے لگا اور چرواہے کو تلاش کر نے لگا تھوڑی دو ر ہی ایک معصوم 6سالہ بچہ درخت کے نیچے سویا نظر آیا جیون خان آگ برساتا بچے کی طرف بڑھا کہ بچے کو کھاہی جائے گا جس کی کوتاہی سے اس کی فصلیں بر باد ہوگئیں تھی لیکن جیسے ہیں جیون خان بچے کے قریب پہنچا تو منظر دیکھ کر پتھر کا مجسمہ بن گیا سانسیں رک گئیں اور بچے کو پہچان بھی لیا منظر یہ دیکھا کہ بچہ دنیا ومافیا سے بے خبر پڑا تھا ایک شیش ناگ پھن پھیلائے بچے کے سر پر کھڑا تھا جیون خان خو فناک انداز میں الٹے پا ں واپس بھاگا اور جاکر بچے کے باپ کو اطلاع دی کہ اس کا بچہ اب زندہ نہیں سانپ نے اس کو ڈس لیا باپ پر یہ خبر قیامت بن کر ٹوٹی وہ بھاگتا ہوا اس جگہ آیا جہاں جیون خان نے اشارہ کیا تھا باپ کو دیکھ کر سانپ خاموشی سے رینگتا ہوا جھاڑیوں میں چلاگیا سانپ کا اندازبتارہا تھا جیسے وہ بچے کا پہرا دے رہاتھا باپ نے جلدی سے بیٹے کو بلایا آوازیں دیں تو بچہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور معصومیت سے باپ کی طرف دیکھا اور بولا جی بابا جان کیا بات ہے باپ نے اچھی طرح بیٹے کو دیکھا کہ کہیں سانپ کے کاٹے کا نشان تو نہیں ہے لیکن بچہ تو بالکل ٹھیک تھا بچے کو صحیح سالم دیکھ کر جیون خان غصے میں بو لا تمہا را بیٹا تو ٹھیک ہے لیکن میری فصل تو برباد ہو گئی میرا نقصان کو ن پو را کر ے گا تمہارا بیٹا ٹھنڈی چھاں میں نیند کے مزے لوٹ رہا تھا ادھر تمہا رے مویشی میری فصلیں اجا ڑ رہے تھے اب بچہ بو لا ابا جان چاچا جیون غلط کہہ رہا ہے میرے جانور کسی کی فصل نہیں اجاڑتے وہ تو گھاس ہی چرتے ہیں جیون خان غصے سے بولا یہ بچہ ہوکر مجھے جھوٹا کہہ رہا ہے تو باپ بولا جیون خان میں تمہارا نقصان بھر دونگا چلو دکھا تمہاری فصل کدھر خراب ہوئی ہے اور پھر جب جیون خان کے کھیت پر پہنچے تو حیران کن منظر تھا فصل بالکل ٹھیک تھی فصل پر بربادی کے ہلکے سے آثار بھی نہیں تھے نقصان تو دور کی بات یہاں تو کوئی جانور تک داخل نہیں ہوا تھا جیون خان آنکھیں پھاڑ کر صحیح سالم فصل کو دیکھ رہا تھا اور شرمندہ بھی ہو رہا تھا اب باپ بولا میں نے کہا تھا ناکہ میرا بیٹا جھوٹ نہیں بولتا جیون خان بچے کی کرامت دیکھ چکا تھا باپ بھی بچے سے متاثر ہو چکا تھا اب جیون خان اِس معصوم بچے کا بہت زیادہ احترام کر نے لگ گیا تھا یہ بچہ جب کسی راستے سے گزرتا تو جیون خان اِس کے احترام میں کھڑا ہو جاتا اور ادب سے معصوم بچے کو سلام کرتا دعا کی درخواست کرتا پھر جب یہ معصوم بچہ گزر جاتا تو لوگوں کو بتاتا میں اِس بچے کی کرامت دیکھ چکا ہوں یہ اِس دور کا ولی ہے مویشی چرانے والا یہ بچہ شہر قصور کا مشہور بے باک صوفی حضرت بلھے شاہ تھا باپ عبداللہ المعروف بلھے شاہ سے متاثر ہوچکا تھا اب اس کی تعلیم کی فکر کی اور قصور میں حافظ غلام مرتضے کے مدرسے میں تحصیل علم کے لیے بھیج دیا یہاں پر آپ نے عربی فارسی زبان پر دسترس حاصل کی پھر تحصیل علم کے بعد جب سند ملی تو باکمال استاد نے اپنے ہونہار شاگرد کو مبارک باد دی بلھے شاہ نے سر جھکا کر کہا جناب استاد محترم آپ کی درس گاہ نے مجھے علم و شعور دیا دماغ تو مطمئن ہوگیا لیکن دل ابھی بھی پیاسا ہے یہاں تعلیم کے بعد میری روح کا اضطراب مزید بڑھ گیا ہے پیاس اور بڑھ گئی ہے بے چینی جستجو مزید بڑھ گئی ہے استاد مسکرایا اور بو لا بیٹا میں ان استادوں میں سے نہیں ہوں جو بیک وقت انسان کے دل و دماغ کو مطمئن کر سکیں میرے پاس علم کا جو نور تھا وہ تمہیں دے چکا دل اور روح کی تشنگی اب کسی روحانی مر شد کے پاس ہی بجھے گی استاد محترم آپ ہی رہنمائی فرمائیں اب میں کس در پر جاں استاد محترم شفیق لہجے میں بولے صدق دل سے تلاش کرو اور اللہ تمہاری مدد کرے گا اِسطرح بلھے شاہ دنیاوی علم حاصل کر نے کے بعد استاد کی دعاوں کے ساتھ وہاں سے روحانی مرشد کی تلاش میں نکل پڑے اِس کے بعد بلھے شاہ ایک جگہ سے دوسری جگہ مرشد کی تلاش میں بھٹکتے رہے لیکن سکون کہیں نہ ملا آخر تھک ہار کر روحانی مرشد کی تلاش کی آگ سینے میں سلگائے گاں آگئے ایک رات والدہ محترمہ کے پاوں دبا رہے تھے چہرے سے اداسی چھلک رہی تھی والدہ نے اداسی کی وجہ پوچھی تو بلھے شاہ گلوگیر آواز میں بو لے میری روح کی بے چینی اضطراب جستجو تشنگی ختم ہی نہیں ہو رہی میں گیلی لکڑی کی طرح مسلسل سلگ رہا ہوں بے قراری مجھے کھائے جارہی ہے میرا مرشد نہیں مل رہا میرے لیے دعا کریں ماں نے بیٹے کو گلے سے لگایا اور کہا اللہ جلدی تمہیں مر شدسے ملائے گا بلھے شاہ اسی اضطراب میں سوگئے تو اس رات عجیب خواب دیکھا آسمان سے ایک نو رانی تخت زمین پر آیا ہے جس پر ایک پر جلال نو رانی بزرگ بیٹھے تھے بلھے شاہ نے تیزی سے قریب جاکر سلام کیا اور ادب سے کھڑے ہوگئے نورانی بزرگ نے پو چھا تمہارا نام کیا ہے تو بلھے شاہ بولے شاہا میں سید عبداللہ بن سید درویش محمد قادری ہوں بزرگ مسکرائے اور بولے تم مجھے پہچانتے ہو بلھے شاہ نے لا علمی کا اظہار کیا تو بزرگ بولے میں پا نچویں پشت میں تمہارا جد امجد ہوں سید عبدالحکیم مجھے پیاس لگی ہے جا پانی لے کر آ بلھے شاہ دوڑ کر گاوں گئے اور مٹی کا پیالا دودھ سے بھرلائے بزرگ نے دودھ کا پیالہ پکڑا ور دودھ پی لیا تھوڑا دودھ چھوڑ کر پیالے کو بلھے شاہ کی طرف بڑھایا اور کہا یہ دودھ پی لو بزرگ نے دعا دی کہ اللہ تعالی تمہیں آتش عشق سے نوازے تمہارے سینے کو نور سے بھر دے اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اب کسی کامل مرشد کی صحبت اختیار کرو اب عشق حقیقی کی پل صراط سے تمہیں مرشد کا مل ہی گزار سکتا ہے۔

Share
Share
Share