اخلاق و کردار کے پیکر،بحرالعر فان
حضور مفتی آفاق احمد مجددی علیہ الر حمہ
حافظ محمد ہا شم قادری مصباحی
جمشید پور
hhmhashim786@ gmail.com
اللہ رب العزت نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور ارشاد فر مایا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْم۔(القرآن،سورہ والتین،95:آیت،4) ترجمہ: بیشک ہم نے آدمی کو اچھی صورت میں بنایا۔ (کنز الایمان) اللہ تعالیٰ نے انجیر،زیتون، طور سینا، اور شہر مکہ کی قسم ذکر کر کے ارشاد فر مایا:
کہ بیشک ہم نے آد می کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا، اس کے اعضا ء میں مناسبت رکھی اسے جانوروں کی طرح منھ سے پکڑ کر نہیں بلکہ ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا اور اسے علم، فہم اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے نوازا،انسان اللہ کا جتنا شکر ادا کرے کم ہے کہ اللہ نے انسا نوں کو عقل و تمیز جیسی عظیم نعمتوں سے سرفراز فر مایا۔
دنیا کا ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں کامیاب ہو، کامیابی وکامرانی کا سہرا اسے ہی نصیب ہو پر یہ نعمت سب کے نصیب میں نہیں جسے اللہ عطا فر مائے۔ دنیا کی مستند تاریخ انسائیکلو پیڈیابرٹانیکا کا مصنف لکھتا ہے بلاشبہ”محمد بن عبداللہ: محمد( ﷺ) یہ خدا کے آخری پیغمبر دونوں جہانوں کے نبی اور ساری انسانیت کے معلم ہیں اور آپ ہی اللہ کے تمام بندوں میں اچھے ہیں، اسی طرح انیسویں صدی کا ایک بہت بڑا مسیحی مؤرخ مائکل ہارٹ نے اپنی مشہور کتاب”(The hundred) میں آپ کو کامیاب انسان کے طور پر پہلے نمبر پر جگہ دی ہے۔
بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے رحمت عالم ﷺ کو بے نظیر بنایا اور آپ کے صد قے وطفیل صحابۂ کرام، تابعین،تبع تا بعین،اولیائے کرام رضوا ن اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو بھی عزت بخشی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلِلّٰہِ ا لْعِِزَّۃُ وَلِرَ سُوْلِہِ وَلِلْمُوْٗ مِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنََ۔ تر جمہ:عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول(ﷺ) کے لیے اور مو منوں کے لیے ہے مگر منافقین(اس حقیقت کو) جانتے نہیں ہیں۔اللہ رب العزت نے مو منین میں علماحق کو بھی عزت بخشی،انکی فہرست بہت بڑی ہے ساری دنیا میں اللہ کے ایسے نیک بندے ہیں اور تا قیامت رہیں گے۔
اخلاق کی تعلیم کی اہمیت:
اللہ رب ا لعزت اپنے محبوب ﷺ کے بارے میں قر آن مجید میں ارشاد فر مارہا ہے۔وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔تر جمہ:اور بیشک تمہاری خو بو(خلق) بڑی شان کی ہے۔(کنز الایمان) اللہ کے محبوب ﷺ نے ارشاد فر مایا: انمابعثت لا تمم مکا ر م الاخلاق۔ میری بعثت دنیا میں اخلاق کی تعلیم مکمل کر نے کے لیے ہوئی ہے، جن کے بارے میں قرآن اعلان فر مارہا ہے کہ آپ اخلاق کریمانہ کے عظیم پیکر ہیں انہیں کا فر مان عالیشان ہے:
”اِنَّ الْعُلَمَا ءَ وَرَثَۃُ الا نبیاءِ وانَّ الانبیاءَ لَمْ یورِّ ثو دِیْناَ رًا وَلَادِرْہَمَا وانَّما وَرَثُو الْعِلْمَ فَمَنْ اخَذَہُ اخْذَبِحظٍ وَا فِرٍ“۔علما ئے د ین انبیا ئے کرام کے وارث ہوتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیائے کرام دینا رو درہم کے وارث نہیں بناتے ہیں وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں جس نے دین کا علم حاصل کر لیا اس نے پورا حصہ پالیا۔(سنن تر مذی،باب ما جاء فی فضل الفقہ عل العبا دۃ،حدیث 2682,6297,593) ظاہر سی بات ہے جب علما وارث انبیا ہیں تو انہیں پر ذمہ ہے کی حضور ﷺ کی وراثت علم و عمل،عبادات و اخلاق پر پوری طرح سے عمل پیرا ہوں،تبھی تو لوگ دیکھ کر عمل پیرا ہوں گے۔ ہمیشہ علمائے حق قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے کردار و اعمال اور عقائد و نظریات کے اعتبار سے اللہ کی مخلوق کے لیے نمونہ عمل رہے ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔
ان علما ئے حق میں بہت سے علما کا نام اس دور انحطاط(زوال) میں بھی ہے۔ بلا شبہ انہیں میں ایک نمایاں نام ”حضور بحر العرفان علامہ مفتی آفاق احمد مجددی“کابھی تھا آپ صحیح معنوں میں اس دور انحطاط میں اللہ کی مخلوق کے لیے وارث انبیا کی ذمہ داری اپنے کردار و عمل سے نبھا رہے تھے۔ ناچیز کی پہلی ملاقات 7مارچ 2019 انٹر نیشنل کانفرنس جشن مولیٰ علی زیر اہتمام فروغ تصوف فاؤنڈیشن الجامعۃ ا لاحمدیہ السنیہ احمد نگر قنوج یوپی میں ہوئی، نورانی چہرہ انتہائی سادگی اور علمی رعب سے بھر پور شخصیت دیکھ کر دل انکی طرف کھینچتا چلا گیا اور پھر دوتین بیانات سننے سے آپ کا علمی رعب مجھ پر طاری ہو گیا،نیک لوگوں کو دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے کیوں کہ وہ اللہ کی یاد میں لگے رہتے ہیں اور سنت نبوی پر عمل کی برکت سے ا نکے چہرے پر نور محمدی ہی کا فیض موجود رہتا ہے۔حضرت عمرو بن جموح روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:اِنَّ اَحِبَّاءِیی وَاَوْلِیَا ءِیی ا لَّذِیْنَ یَذْکَرُوْنَ بِذِکْرِی، وَاذْکَرْ بِذِکْرِھِمْ۔(احمد بن حنبل، المسند، 3:430حدیث:15 588)”بے شک میرے احباب اور اولیاء وہ لوگ ہیں کہ میرا ذکر کرنے سے وہ یاد آجاتے ہیں اور ان کا ذکر کر نے سے میں یادآجاتاہوں (یعنی میراذکر ان کی یاد دلا تا ہے اور ان کاذکر میری یاد دلاتاہے“۔(یاد رہے اَلْحَمْدُلِلّٰہ ناچیز شہزادہ اعلیٰ حضرت حضرت مولانا مصطفی رضا خان بمشہورحضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے بیعت کا شرف رکھتا ہے،آپ کے فیضان کرم سے مالامال ہے) میں جلدی کسی سے مر عوب نہیں ہوتا یہ بھی ہمارے پیرو مرشد کا فیض ہے۔آج کل جلسے جلوسوں کے ماحول میں کچھ کم علم علما نذرانہ کے لالچ میں دنیا دار عالم و پیر کی تعریف میں مبالغہ آرائی سے نہیں بلکہ جھوٹھی تعریفیں کرتے نظر آتے ہیں،(کچھ کو چھوڑ کر الا ما شا اللہ حالات بہت افسوس ناک ہیں)۔
خوشبو ؤں کا شہر، خوشبو دار لوگ:
قنوج بہت پرانا تاریخی ٹاؤن ہے تاریخ ہندوستان کے مطابق قنوج کی دوسری دنیا کی دوسری یا تیسری آبادی ہے،جسے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے آباد کیا تھا۔ قدیم زمانے میں یہ شہر پورے غیر منقسم ہندوستان کی راج دھانی بھی رہا ہے۔ تاریخ فرشتہ کے بیان سے اس کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، نیز عرصہ دراز تک شمالی ہند کی راجدھانی رہاہے۔ اس شہر کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس میں تین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کے مزارات مقدسہ ہیں ”ا لاصبۃ فی تمیز الصابۃ“ میں اس کی صراحت موجود ہے، نیزمختلف سلاسل کے کئی بزرگوں کے مزارات بھی اس کی عظمت رفتہ کے گواہ ہیں،جیسے حضرت حاجی شریف زندنی، حضرت بالا پیر صاحب،حضرت سلطان پیر،حضرت مخدوم اخی جمشید، حضرت مخدوم جہانیاں رحمھم اللہ، نیز حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃاللہ علیہ کے خاص خلیفہ حضرت شیخ احمد رحمۃاللہ علیہ بھی یہاں تشریف لائے اور یہیں مدفون ہوئے،آج بھی آپ کے نام سے محلہ احمدی ٹو لہ آباد ہے۔ یہ شہر تجارت و معیشت کے اعتبار سے بھی بہت مشہور ہے،یہاں کا عطر بھی بہت مشہور ہے اور پوری دنیا میں جاتا ہے اور قنوج کو”عطرو اتیہاس“ کی نگری بھی کہا جاتا ہے شہر کی آبادی کئی لاکھ ہے،تقریباً45فیصد مسلمان آباد ی ہے اور اہلسنت کی اکثریت ہے واضح رہے کی عطر کی تجارت پر اب مسلمانوں کا غلبہ نہیں رہا برادران وطن بھی خوب خوب کمارہے ہیں۔ خوشبوؤں کے شہر میں خوشبو دار لوگوں میں یقینا”حضور بحرا لعرفان علامہ مفتی آفاق احمد مجد دی علیہ الرحمہ بھی تھے اور اب آپ ہمیشہ کے لیے وہیں کے ہوکے رہ گئے علم کی روشنی پھیلائی،اپنی محبت سے لو گوں کو مالا مال کیا آپ کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لکھا جائے گا میں کیا لکھوں میں اپنے کو اس لائق نہیں سمجھتا۔
حضور بحر العر فان کا اخلاق اور محبت:
میں جمشید پور سے قنوج 7 مارچ2019 کوپہنچا عصر کی نماز میں حضور بحر ا لعرفان مفتی آفاق احمد مجددی سے ملاقات ہوئی بہت محبت اورپیار سے ملے،حضرت مو لاناآصف رضا (ایڈیٹر پیغام سکون)صاحب نے تعارف کرایا آپ نے خوشی کا اظہار فر مایا اور پوچھا سفر میں دشواری تو نہیں ہوئی ایسے خیریت تو بہت محبت کر نے والے ہی دریافت کرتے ہیں،آپ نے حضرت مولاناگلبیز آفاقی کو ہدایت دیکر انکے حوالے کر دیا،8 مارچ الجامعۃا لاحمدیہ السنیہ خانقاہ مجددیہ کی شاندار خوبصورت مسجد میں جمعہ کی نمازمیں حاضری ہوئی۔بعد نماز جمعہ”انٹر نیشنل کا نفرنس جشن مولیٰ علی“ کے شرو عاتی پرو گرام فاتحہ خوانی میں حضرت مولاناآصف صاحب کا بیان ہوا اسی درمیان حضور بحر العرفان نے مجھ سے دریافت فر مایا آپ بیان کریں گے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ حکم فر مائیں تو کروں گا،آپ نے فر مایا دس منٹ آپ حضرت مولیٰ علی کی شان بیان کریں حضرت کے حکم پر ناچیز نے خلیفۃ المسلمین حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں قرآن و احادیث کی روشنی میں بیان کیا پوری مسجدبھری ہوئی تھی اور تمام لوگ نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدائیں کر رہے تھے بیان کرتے ہوئے ہم نے تین منٹ اور مانگا حضرت نے فر مایا خوب اطمینان سے آپ بیان کریں،اَلْحَمْدُ لِلّٰہ تقریباً18منٹ بیان ہوا فاتحہ خوانی کے بعد آپ نے بہت دعاؤں سے نوازا۔ مولانا آصف کو پھر یاد دہانی کر ائی کہ حافظ صاحب کو جہاں مہمان ٹھہرے ہیں وہاں پہنچائیے اور جو ضرورت ہو مہیا کیجئے(یادرہے میں مدرسے کے مہمان خانے میں رکا تھا) لیکن جہاں مہمان علماؤں کوٹھہرایا گیا تھاوہاں حضرت مو لانا نبیل اختر کولکا تہ، حضرت مولانا منظر محسن صاحب، حضرت مولانا انوار بریلی شریف،علی گڈھ مسلم یونی ورسٹی کے پروفیسران حضرات وغیرہ وغیرہ سب سے اچھی ملاقات رہی۔
دوسرے دن 9 مارچ بروز سنیچر کانفرنس کا پہلا دور: قنوج کے ہی رہنے وا لے ر یٹائرڈ فوجی آفیسر خان صاحب جنکی عمر 88سال تھی انھوں نے بہت اہم اورمعلوماتی باتیں بتائیں،اس کے بعد حضرت کے حکم پر ناچیز کو بیان کا موقعہ ملا جو مقالہ مولیٰ علی کانفرنس کے لیے حضرت کے حکم پر لکھا تھا(حضرت مولیٰ علی ا لمرتضیٰ کر م اللہ وجہہ الکریم بحیثیت خلیفۃ المسلمین) کے پانچویں پیرا گراف کی سب ہیڈنگ”حضرت مولیٰ علی کی خلافت میں عر بی گرامر کی ابتدا“ حضرت نے انگلی رکھ کر فر مایا آپ اس پر بیان کریں ناچیز نے تقریباً37منٹ اس پر بیان کیا،حضرت مولا نا مجاہد حسین حبیبی کولکاتہ اور مشہور اسکالر جناب سمیر صدیقی وغیرہ نے پسندید گی کا اظہار فر مایا اور حضرت نے دعا ؤں سے نوازا۔ کانفرنس کے کئی مر حلے ہوئے حضرت تشریف رکھتے تھے اور مسکراتے چہرے سے دعاؤں سے نواز تے میں نے وہاں بہت کچھ دیکھا کیا کیا لکھوں۔ خاصکر علمی میدان میں آپ کا کام دیکھتے بنتا ہے ان شا اللہ اس پر میں ضرور کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا مضمون کی طوالت کا خوف ہے۔
بحرالعرفان کا تقویٰ اور سادگی:
ذمہ دار لوگوں سے سنی ہوئی کچھ باتیں مطالعہ فر مائیں۔حضرت مولانا اسحاق انجم فیضی مصباحی ویشاخا پٹنم (جو کی اصنام شکن کے ایڈیٹر ہیں 1993 سے مسلسل نکال رہے ہیں، دین متین اور اردو کی خد مت کر رہے ہیں)آپ بہترین صلاحیت کے عالم ہیں،لیکن وشاخا پٹنم میں آپ شاعر اور انجم کے نام سے مشہور ہیں،1953سے1957تک جمشید پور میں علامہ ارشدالقادی علیہ الرحمہ،مولاناممتا،مولانا غلام رسول، ماسٹر سید اعجاز صاحب جیسے اکابرحضرات سے علم حاصل کیا،پھر اشرفیہ میں 1958سے1960تک حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ، حضور مفتی عبد المنان،مولانامظفر حسین ظفرادیبی، صاحب جیسے علم والوں سے علم حاصل کیا اس وقت ان کی عمر76سال ہے، وہ جلدی کسی عالم اور پیر سے مرعوب نہیں ہوتے، ان کو جب میں نے حضرت بحرا لعر فان کے وصال کی خبر دی تو وہ بہت غمگین ہوئے آواز بھر آئی، انہوں نے اپنے اور اپنی فیملی کے مرید ہونے کا سبق آموز واقعہ بتایا مختصر میں آپ مطالعہ فر مائیں۔حضرت بحر العر فان وشاخا پٹنم جایا کرتے تھے اور مولانا اسحاق انجم فیضی مصباحی کے گھر بھی جایا کرتے تھے اپنے مرید ہونے کا واقعہ یوں بیان فر ماتے ہیں،حضرت بحر ا لعر فان جب بھی میرے گھر تشریف لاتے تو میں تو میں اہل خانہ کے لیے بھی دعا کی گزارش کر تا،حضرت ہمیشہ نگاہیں نیچی رکھتے ہوئے سب کو دعائیں دیتے دم فر ماتے حضرت کا تقویٰ اور سادگی دیکھ کر میرے دل میں حضرت کی عزت بہت بڑھ گئی، میں اور میری فیملی2013 حضرت سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔حضرت مولانا عثمان انجم فیضی مصباحی نے آپ کی کئی باتیں بیان کی ان شا اللہ اگلے مقالہ میں لکھنے کی کوشش کروں گا۔
بحرالعرفان کی علمی خد مات:
آپ نے علمی میدان میں نمایاں کام کیا ہے اس پر لکھا جانا چاہیے،لکھا جائے گا بھی،قنوج ٹاؤن میں ہی نہیں آپ کی علمی خدمات دوسرے صوبوں وشہروں میں نمایاں ہیں۔مری پالم،وشاخا پٹنم میں خانقاہ آفاقیہ مجددیہ،کٹنی،مدھیہ پردیس، خانقاہ آفا قیہ مجددیہ،شاہین باغ دہلی،سلکٹرچنڈی گڑھ، بنارس وغیرہ میں بھی آپ نے علم کی روشنی پھیلائی۔ خانقا ہوں کو تزکیہ نفس کے لیے، مدارس اسلامیہ اسلام کے فروغ کے لیے اور دنیا بھی کامیاب رہے آپ نے عصری علوم حاصل کرنے کے لیے آپ نے اسکولوں کی تعمیر بھی کرائی نہ صرف لڑ کوں بلکہ لڑ کیوں کی تعلیم کے لیے بھی آپ نے جامعۃا لمحصنات کی تعمیر فر مائی،وارثی پبلک اسکول: یہ انٹر میڈیٹ انگلش اسکول ہے اور قنوج کے اسکولوں میں اول نمبر پر آتاہے۔ الجامعۃ الاحمدیہ کی موجودہ عمارت سے متصل ہے اس میں تعلیم حاصل کر رہے طلبہ وطالبات کی تعداد پانچ سو سے زیادہ ہے اساتذہ کی تعداد بھی 25 کے قریب ہے سر ہند پبلک اسکول جو آبادی سے باہر بنا ہے دیکھتے ہی بنتا ہے وسیع وعریض جگہ اسکول اندر بڑا میدان،مولیٰ علی کانفرنس کا پروگرام بھی اسی میدان میں ہوا جس میں آئی پی ایس وبڑے بڑے علما ملکی و بیرونی بنگلہ دیش، پاکستان، لبنان وغیرہ تشریف لائے بین الاقوامی شخصیت کے مالک ”شیخ عمر الفاکھانی“ لبنان بھی تشریف لائے اور سر ہند اسکول کی بلڈنگ کے اندرونی میدان میں آپ کا بھی بیان ہوا، بیان کے بعد ملا قات ہوئی بہت محبت سے ملے میں نے پچھلی ملا قات کی یادہانی کرائی1997 میں کیرالا، کالی کٹ میں الثقافۃ السنیہ کے ہوٹل (کالی کٹ ٹاور) میں پرائم منسٹر آف انڈیا مسٹر ایچ.ڈی.دیوے گوڑا کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی،جس میں حضرت مولانا مبین الھدیٰ، جھاڑ کھنڈ کے مفتی وفیض العلوم کے شیخ الحدیث حضرت مفتی عابد حسین نوری صاحب اور میں حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی، شیح عمر الفا کھانی وشیخ ابو بکر صاحب ودیگر لوگ موجود تھے پچھلی یاد دہانی کرانے پر بہت خوش ہوئے بغل گیر ہوئے بہت محبت کا اظہار فر مایا اور دعاؤں سے نوازا۔
بحر العر فان کی وفات اہل سنت کا عظیم خسارا:
موت بر حق ہے موت سبھی کو آنی ہے اس پر ایمان ہے۔
؎ موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس ٭ یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
موت العالم موت العالم: ایک عالم دین کی موت پورے عالم(پوری دنیا) کی موت ہے،بر حق ہے۔ آپ کے وصال کی خبر پاکر ملک کے گوشے گوشے وبیرون ملک سے بھی آپ کی تعزیت پر لوگوں کے پیغام آئے،چشتی،سہر وردی، اشرفی، وارثی، نقشبندی،مجددی، قادری، بر کاتی، اور اکابر سادات کرام و علما حضرات بھی شریک جنازہ ہوئے یہ آپ کی مقبولیت کا ثبوت ہے آپ کے جنارہ کی نماز آپ کے پیر و مرشد حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان کمال پوری نقشبندی مد ظلہ العالی سجادہ نشین خانقاہ خیریہ نقشبندیہ کمال پور ضلع مرزا پور یوپی نے پڑھائی۔ پورے ملک اور بیرون ملک سے آپ کی تعزیعت کا سلسلہ جاری ہے بڑی بڑی خانقاہوں سے جو تعزیعتی پیغامات آئے ہیں وہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان کی مشہور و معروف خانقاہ مارہرہ شریف سے جو تعزیعتی پیغام بھیجا گیا ہے وہ آپ مطالعہ فر مائیں۔ ۔۔تعزیعتی پیغام ماہرہ مطہرہ۔۔
نحمدہ‘ونصلی علی رسولہ الکریم
ز مانہ بڑے شوق سے سن رہاتھا ۔۔ ہمیں سوگئے داستان کہتے کہتے
ایک وجیہ،پروقار، متقی، پر ہیز گار،صاحب دل، صاحب حال علم وفن کا سفیر،اپنی ذات میں بے نظیر،مجدد الف ثانی اور مجدد دین وملت کاشیدائی، واقف رموز وشریعت، پر وانۂ بر کاتیت،آفاقی شہرتوں کے مالک حضرت علامہ مفتی محمدآفاق صاحب نقشبندی مجددی بر کاتی اپنی متحرک شخصیت کی خوشبوؤں سے سرزمین قنوج کو مزید معطر کرتے ہوئے جنت کی خوشبوؤں میں جا ملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
یہ رسمی اور تعزیتی جملہ نہیں بلکہ سو فیصد دل کی آواز اور حق بات ہے کہ دنیائے سننیت کو مفتی صاحب علیہ الر حمہ والرضوان کی اشد ضرورت تھی۔ وہ ان صاحب کمال شخصیتوں میں تھے جنھوں نے اس امت کو علم نافع سے جوڑنے کے لیے کمر توڑ محنت کی اور علم وفن کے ایسے لالہ زار تیار کئے جو دوسروں کے لیے قابل تقلید ہیں۔ وہ انجمن تھی جس میں صرف تحریک ہی تحریک نظرآتی تھی۔متعدد اداروں کے بانی، درجنوں کتا بوں کے مصنف،عابد وزاہد و متقی داعی و قابل تقلید مبلغ، ایک باعمل خطیب اور اپنی ذات میں ایک بے حد مخلص، باادب سنجیدہ، متین اور بے حد خوددار، خوش فکر وخوش ذہن شخصیت کے حامل ہمارے مفتی صا حب ہم کو بہت یاد آئیں گے۔ ان کا متبسم چہرہ جو ان کی نیکیوں اور پاکیزگی کا عکاس تھا وہ ہمیشہ ہمارے ذہن ودل میں گردش کرتا رہے گا۔ ان کی ساد گی بھی قنوج کے عطر کی طرح مشہور تھی۔ ہم نے شازونادر ہی کسی عالم، مفتی یا شیخ کو اتنے سادہ لباس میں دیکھا ہو۔ انکساری ایسی تھی کہ اتنے بڑے اداروں کے بانی ہزاروں وفادار مریدوں کے شیخ طریقت کو گر مارہرہ میں تلاش کر نا ہو تو وہ پیکر انکسار خانقاہ بر کاتیہ کے صدر دروازے کی پٹیہ پر بیٹھا مل جائے گا۔ اسی اخلاص اور انکسار نے مفتی صاحب قبلہ کو اتنا معروف و مقبول کر دیا کہ سواد اعظم کے خوش عقیدہ مسلمان ہی نہیں بلکہ اطراف و جوانب کے اہل وطن اور سیاسی رہنما بھی اس بے نیاز ذات والا کی قدم بوسیاں کیا کرتے تھے۔
خانقاہ بر کاتیہ کا ہر فرد آج سوگوار ہے۔ ہم اور ہمارے تمام متوسلین اور متعلقین اپنے پیر خانے کے محبوب ترین خلیفہ کی رحلت پر کف افسوس ملتے ہوئے دعا کر رہے ہیں کہ مولیٰ عزوجل امت کی خیر خواہی کرنے والے اور اہل اسلام کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے اس مخلص قائد کا نعم البدل عطا فر مادے۔ مفتی صاحب کی رحلت کے بعد صرف ان کا گھر اور گھرانا ہی پسماند گان میں نہیں ہے بلکہ اہلسنت والجماعت کا ہر وہ شخص فرد ان کے پسما ندگان میں ہے جس کے دل میں ملت اسلامیہ کا درد ہے۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ رب کریم ہمارے مفتی محمد آفاق صاحب رحمۃاللہ علیہ کے درجات کو بلند فر مائے اور ہم سب کو اور با لخصوص ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل کامل کی توفیق عطا فر مائے۔ مولیٰ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے صد قے طفیل میں مفتی صاحب علیہ الر حمہ کے علمی مشن کو دن دونی ترقی عطا فر ما اور ان کے وارثین کو ان کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے دین متین کی خوب خوب خد مت کر نے کی توفیق عطا فرما۔آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔ (فقط و السلام)
حضو ر امین ملت اور حضو رفیق ملت نے جوتعزیتی پیغام بھیجا ہے ایک ایک حرف پڑھنے کے لائق ہے۔ بڑے بڑے مقالوں میں بھی وہ بات نہیں آسکتی میں کیا لکھوں میری کیا ہستی ہے، ہمارے بڑے سرکاروں نے جب بحرالعرفان حضور محمد مفتی آفاق مجددی صاحب علیہ الرحمہ کو ”علم کا سفیر فر ما رہے ہیں تو میں کیا لکھوں۔ اور حق وسچ تو یہی ہے کی دعوت دین کا کام علما ئے حق کے لیے ہی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَمَا کَانَ الْمُوُٗ مِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْ قَۃٍ مِّنْھُمْ طَآ ءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْافِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْااِذَارَجَعُوْٓ الَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۔ (القرآن،سورہ توبہ:9، آیت122) تر جمہ: اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں،تو ان میں سے ہر ایک گروہ(یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقہ (یعنی خوب فہم وبصیرت) حاصل کریں اوراپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تا کہ وہ (گناہوں اور نا فر مانی کی زندگی سے بچیں)۔
حدیث پاک میں ہے اللہ تعالیٰ جس کے لیے بہتری چا ہتا ہے اس کو دین میں فقیہ بناتا ہے۔ میں تقسیم کر نے والا ہوں اللہ تعالیٰ دینے والاہے (بخاری،کتاب العلم،باب مَن یرد اللہ بہ خیرً ایفقّہ فی الدین،ج:1،ص42،حدیث:71،مسلم کتاب ا لز کاۃ باب النھی عن المسا لۃ ص517،حدیث100،1037) دعوت کا یہ حکم علما کے لیے ہے اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ سب مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے، لیکن ان کی ہر جماعت سے کچھ لوگوں کو لاز ماً اس مقصد کے لیے نکلنا چاہیے کہ وہ دین کا علم حاصل کریں اور اپنی قوم کے لیے نذیر بن کر ان کو آخرت کے عذاب سے بچا نے کی کوشش کریں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ اس نیک کام کو کریں ان کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دین کا گہرا علم حاصل کریں،اس کے لیے آیت میں لیتفقھوا فی الدین کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ حضور بحرا لعر فان کی علمی بصارت کا اندازا ہم جیسے کم علم کیا لگائیں گے آپ کی تصنیف کردہ کتا بیں آپ کے بیان کر نے کا طریقہ قنوج آنے پر شروع دنوں کی کمر توڑ محنت ہی کا نتیجہ ہے جو آج قنوج میں علم دین ودنیا کی روشنی پھیلی ہوئی ہے کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اخلاق و محبت کی بات کیا لکھوں جو ایک با رملا گر ویدہ ہو گیا یہ بھی آپ پر اللہ کا فضل خاص تھا اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو جنت الفر دوس میں اعلیٰ مقام عطا فر مائے اور انکے جانشین و چاہنے والوں کو صبر جمیل عطا فر ما ئے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین:
—-
Hafiz Mohammad Hashim Quadri Misbahi
Imam Masjid-e-Hajra Razvia
Islam Nagar, Kopali, P.O.Pardih, Mango
Jamshedpur, Jharkhand.Pin-831020
Mob.: 09386379632
One thought on “اخلاق و کردار کے پیکر مفتی آفاق احمد مجددی :- حافظ محمد ہا شم قادری مصباحی”
خوب