تشریح حدیث اور جدید نقطہ نظر
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذو مفتی دار العلوم وقف دیوبند
E-mail :
Mob : 07207326738
قرآن وحدیث اس امت کا عظیم سرمایہ ہیں، اور انہی دونوں پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے، اور یہ سرمایہ قیامت تک امت کے لیے مشعل راہ ہے، کامیابی کی شاہ کلید ہے،مشکلات کا حل، ترقی کا زینہ، دنیا و آخرت کی فلا ح و بہبود کا راستہ ہے-
یہ دونوں حیات سرمدی کا وہ سرمہ ہیں جس سے نہ صرف ایمان والوں کی آنکھیں روشن ہوتی ہیں بلکہ دل کی تاریکی کافورہوتی ہے یہ دونوں شریعت کا سرچشمہ اور اساس ہیں،حضور پرنور ﷺ کا ارشاد ہے: میں تمہارے درمیان دو چیز یں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے(سنن الترنذی رقم الحدیث:۳۷۸۶)۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن و احادیث میں بعض چیزیں بہت تفصیل کے ساتھ بیان کردی گئی ہیں جب کہ بعض چیزوں اور بعض باتوں میں اجمال ہے جس کی تفصیل و تشریح کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بہتر تشریح تو وہ ہے جو منصوص ہو یعنی قرآن کی ایک آیت کی تشریح کسی دوسری آیت سے کی جائے یا قرآن کی تشریح کسی حدیث سے کی جائے، اسی طرح احادیث کا اجمال قرآن سے یا کسی دوسری روایات سے دور کیا جائے یہ تشریح کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔محدثین کے یہاں اصول ہے القرآن یفسر بعضہ بعضا (تفسیر خازن،سورہ یونس آبت ۲۶،۲/۴۳۹) والحدیث یفسر بعضہ بعضا۔لیکن کبھی کبھی احادیث کی تشریح ان دونوں کے علاوہ ماحول، قرائن اور دیگر خارجی بنیادوں پر بھی کی جاتی ہے لیکن یہاں یہ اصول پیش نظر رکھنا ضروری ہوتاہے کہ اس تشریح کی وجہ سے کسی منصوص علیہ مسئلہ پر زد نہ پڑے،کسی مسلمہ مسئلہ کی تردید لازم نہ آئے، اصول شریعت کی مخالفت نہ ہوترک روایات کا دروازہ نہ کھلتا ہو اگر ایسا ہے تو منصوص علیہ دلائل کے علاوہ سے بھی تشریح کی جاسکتی ہے۔
یہاں یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ بہت سے موجودہ مفکرین تشریح حدیث کے نام اورخدمات حدیث کے عنوان پر ایسی تشریح کرتے ہیں جس سے نہ صرف شریعت کے مسلمہ عقائد پر زد پڑتی ہے؛ بلکہ بعض مرتبہ انکار حدیث کے دروازے بھی وا ہونے لگتے ہیں۔ بعض محققین نے حدیث کے ایسے اصول وضع کئے کہ خود ان کے اصول کی روشنی میں بہت سی احادیث کا انہوں نے انکار کردیا، اور بہت سی احادیث کو غیر ضروری قرار دے دیا ایسے حضرات کی کتابیں اور افکار موجود ہیں۔
اس وقت احادیث کی دو قسم کی جارہی ہے تشریعی اور غیر تشریعی ماضی قریب کے بہت سے مفکرین مثلاسید رشید رضا (۱۳۹۳ھ)طاہر بن عاشور (۱۳۷۳ھ)شیخ عبد الوہاب خلاف وغیرہ نے یہ تقسیم کی ہے اور بہت سی احادیث کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ غیر تشریعی ہیں مثلا آپ ﷺ کا تیل استعمال کرنا، خضاب کرنا،اور عرفہ او رمزدلفہ میں آپ کا ٹہرنا وغیرہ یہ سب غیر تشریعی ہیں اور امورعادی ہیں اور وہ امور جن کا تعلق نہ حق اللہ سے ہو نہ حق العبد سے ہو اور نہ ہی اس سے جلب منفعت متعلق ہو اور نہ ہی دفع مضرت تو وہ امور غیر تشریعی ہیں امت سے ان امور کا مطالبہ نہیں ہے ہاں کوئی سنت سے محبت اور اتباع کی نیت سے یہ کام کرے تو اس کو ثواب ملے گا۔(اتجاہات فی دراسات السنۃ قدیمہا و حدیثہا ص:۱۴۴)اسی طرح احادیث کی ایک دوسری تقسیم کی جاتی ہے، ثوابت اور متغیرات، ثوابت کا مطلب یہ ہے کہ وہ احادیث جن میں کسی صورت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے جیسے عقائد، ازداجی نظام اورعبادات سے متعلق احادیث ہیں یہ سب ثوابت ہیں جن میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے دوسری قسم ان احادیث کی جو متغیرات ہیں اس میں بہت ساری روایتیں آتی ہیں، بعض احاددیث وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرف و عادت کی بنیاد پر کیا تھا، بعض عمل آپ کا ماحول کی بنا پر تھا مثلا لباس وغیرہ، بعض عمل آپ کا ضرورت کی بنا پر تھا، بعض عمل آپ کا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر تھا، بعض عمل آپ کی عادت کی بنا پر تھا یہ سب احادیث متغیرات ہیں اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے اگر کوئی سنت کی پیروی کی نیت سے عمل کرے تو اس کا ثواب ملے گا ورنہ شریعت میں اس پر عمل مطلوب نہیں ہے، مثال کے طور پر آپ ﷺکو کدو پسند تھا یہ آپ کی عادت کی بنا پر تھا، کوئی سنت پر عمل کے جذبے سے کھائے تو اس کو ثواب ملے گا لیکن شریعت میں اس پر عمل کرنا مطلوب نہیں ہے۔اس طرح انہوں نے بہت سی مثالیں دی۔مجھے ان تمام مثالوں میں فی الوقت ایک مثال پر اپنے خدشات کا اظہار کرنا ہے۔اس طرح کی تقسیم موجودہ دور کے مشہور عالم دین مولانا ڈاکٹر ابواللیث صاحب نے بھی اپنی کتاب علوم الحدیث اصیلہا و معاصرہا میں کی ہے اور اس میں انہوں نے سے بہت سی مثالوں کے ذریعہ اس موضوع پر تفصیلی کلام کیا ہے اور ذکر کیا ہے کہ بہت سی روایات وہ ہیں جو متغیرات میں سے ہیں یعنی آپ ﷺ نے وقتی مصلحت اور ضرورت کے تحت کیا تھا اور جب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی تو اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ بعض چیز یں جو ممانعت کی قبیل سے ہیں وہ ممانعت وقتی تھی کسی خاص مصلحت کے تحت آپ ﷺ نے منع کیا تھا اب جب کہ وہ مصلحت باقی نہیں ہیں تو ان چیزوں کو کیا جا سکتاہے ممانعت کی احادیث کو ترک کردیا جائے گا۔
ایک حدیث ہے:لعن الواشمات المستوشمات و المتنمصات و المتفلجات للحسن المغیرات خلق اللہ (صحیح بخاری رقم الحدیث: ۵۹۳۱)اللہ تعالی کی لعنت ہو گودھنے والی پر اورگودھوانے والی پر اور چہرے کے والوں کو نوچنے والی پر، اور دانتوں کے درمیان فصل کرنے والی پر، بعض روایات میں کرنے والی اور کرانے والی دونوں پر لعنت کا تذکرہ ہے بعض روایات میں الواصلۃ والمستوصلۃ کا تذکرہ ہے بالوں کو اپنے بالوں کے ساتھ ملانے والی اور اس کام کو انجام دینے والی پرلعنت ہے، یہ حدیث بخاری شریف اور دیگر صحاح کی کتابوں میں موجود ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاموں سے منع کیا ہے اور ممانعت کی وجہ خود اس حدیث میں بتادی گئی ہے کہ یہ سب تغییر لخلق اللہ میں داخل ہے اور اللہ تعالی کو اپنی تخلیق میں تبدیلی پسند نہیں ہے؛ اس لیے حدیث سے یہ ضابطہ نکلتاہے کہ ہر ایسا عمل جو تبدیل خلق اللہ میں آئے وہ حرام ہوگا اور لعنت کی اس وعید میں داخل ہوگا۔ اسی وجہ سے آج کل جنس کی تبدیلی کا مسئلہ سامنے آرہا ہے آپریشن کے ذریعہ مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنایا جا سکتا ہے اور یہ عمل ہوبھی رہا ہے لیکن یہ عمل تبدیل خلق اللہ میں داخل ہے اس لیے فقہاء نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ ہاں اگر اصل خلقت میں تبدیلی نہ ہو، نہ ہی دھوکہ کا کوئی عمل ہو تو ایسی صورت میں گنجائش ہوگی مثلا اگر کسی عورت کو داڑھی کے بال اگ آئیں یا مونچھ نکل آئے تو عورت کے لیے ان بالوں کو صاف کرانا مستحب ہے اس لیے کہ یہ تغییر لخلق اللہ نہیں ہے کیوں کہ عورت کی اصل خلقت داڑھی اور مونچھ کا نہ ہونا ہے اس لیے عورت کے لیے اس حد تک عمل کرنے کی گنجائش ہوگی، اسی طر ح ان چیزوں کی ممانعت کی وجہ حسن کے لیے یا کام کرنا یا کرانا ہے لہذا اگر علاج کی مجبوری ہو تو بھی گنجائش ہوگی مثلا دانتوں کے درمیان فصل کرنا حسن کے لیے ہو تو ناجائز ہے لیکن علاج کی غرض سے ہو تو جائز ہے۔غرض کے حدیث میں چند چیزوں سے منع کیا گیا ہے اور اس ممانعت کی علت بتادی دی گئی ہے کہ یہ سب چیزیں تبدیل خلق اللہ ہے اس لیے حرام ہے علامہ نووی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں: وہذا الفعل حرام علی الفاعلۃ و المفعول بہا لہذہ الاحادیث و لانہ تغییر لخلق اللہ تعالی و لانہ تزویر و لانہ تدلیس (شرح النووی علی مسلم ۱۴/۱۰۶)حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: فورد النہی عن ذلک لما فیہ من تغییر الخلقۃ الاصلیۃ (فتح الباری، قولہ باب المتفلجات للحسن ۱۰/۳۷۲)فیض القدیر میں ہے: قال القرطبی: لایجوز للمرأۃ تغیر شئی من خلقتہا بزیادۃ و لانقص التماسا للتحسن للزوج و لاغیرہ کمفروتۃ الحاجبین تزیل مابینہما توہم البلج و عکسہ و أخذ منہ عیاض أن من خلق بأصبع زائدۃ أو عضو زائد لا تحل لہ ازالتہ لانہ تغییر لخلق اللہ الا اذا ضرہ (فیض القدیر، حرم میم، ۵/ ۲۷۲)علامہ قسطلانی لکھتے ہیں: و ذلک حرام للحسن ای لاجل التحسین لما فیہ من التزویر فلو احتاجت الیہ لعلاج أو عیب فی السن فلا، -المغیرات خلق اللہ، کالتعلیل لوجوب اللعن وہو صفۃ لازمۃ لمن تصنع الوشم والنمص و الفلج (ارشاد الساری، لشرح البخاری، باب ما أتاکم الرسول فخذوہ ۷/۳۷۶)دوسری جگہ قسطلانی مزید وضاحت کرتے ہیں: لاجل الحسن ای بسبب الحسن المغیرات خلق اللہ وسبب لعن المذکورات أن فعلہن تغییر لخلق اللہ و تزویر و تدلیس و خداع ولو رخص فیہ لاتخذہ الناس وسیلۃ الی انواع الفساد و لعلہ قد یدخل فی معناہ صنعۃ الکیمیاء فان من تعاطاہا انما یروم أن یلحق الصنعۃ بالخلقۃ و کذالک کل مصنوع یشبہ بمطبوع و ہو باب عظیم من الفساد حکاہ فی الکواکب (شرح القسطلانی -ارشاد الساری، باب التصاویر ۸/۴۸۰)
قسطلانی کی یہ آخری عبارت بالکل واضح ہے کہ ممانعت کی وجہ تغییر لخلق ہے اور حدیث میں چند چیزیں مثال کے طور پر ہیں اس لیے کہ اس وقت ان چیز وں کا رواج تھا اس لیے اس کی صراحت کی گئی ورنہ ہر وہ عمل جو تغییر لخلق اللہ میں داخل ہو اس حدیث کی بناء پر حرام ہوگا۔
حدیث کی یہی تشریح اب تک ہم پڑھتے آئے تھے لیکن ڈاکٹر ابواللیث صاحب کی کتاب کو پڑھ کراور اس موضوع پر ان کے ایک محاضرے سن کراس حدیث کی ایک نئی توجیہ سننے میں آئی،جو کہ اسی تقسیم کا شاخسانہ ہے مولانا موصوف نے ابن عاشور (تونس، ۱۲۶۹ھ /۹۷۸اء -۱۳۳۹ھ /۱۹۷۳ء)کے حوالے سے اس حدیث کی یہ تشریح کی کہ آپ ﷺ کا ان چیزوں سے منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ چیزیں اس وقت فاحشہ عورتیں کیا کرتی تھیں تو اگر شریف خاتون یہ عمل کرتی تو فاحشہ عورتوں کے ساتھ مشابہت لازم آتی، اس لیے آپ ﷺ نے عورتوں کو منع کیا، گویا ممانعت کی وجہ تشبہ بالفاحشات ہے اور یہ حدیث متغیرات کی قبیل سے ہیں لہذا اگر کسی زمانے میں یہ تشبہ نہ رہ جائے تو ان اعمال کی اجازت ہوگی مثلا آج کل دانتوں میں فصل کرانے کا فاحشہ عورتوں کا عرف نہیں ہے اگر کوئی عورت یہ عمل حسن کے لیے کرائے، یا اگر بھیویں بنانے کا فاسقہ عورتوں کا عرف نہ ہو اور اس کے شوہر کی خواہش ہو تو عورتوں کے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا۔
حدیث کی یہ تشریح عام مفسرین کی تشریح سے بالکل مختلف ہے، عام مفسرین محدثین کی رائے یہ ہے کہ ممانعت کی وجہ تبدیل خلق اللہ ہے لہذا جہاں بھی تبدیل خلق اللہ پائی جائے حرمت کا یہ حکم متعلق ہوگا۔مجھ جیسے طالب علم کو اس تشریح پر اس لیے بھی اعتراض ہے کہ حدیث کے اندر جب ممانعت کی علت بیان کردی گئی ہے تو پھر اپنے طورپر حدیث کی دوسری علت بیان کرنا عقل سے پرے معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس صورت میں منصوص علت کو چھوڑ کر غیر منصوص علت پر اعتماد کرنا لازم آتاہے اور اس طرح احادیث کے وسیع دائرے کو اپنے عقل کے ذریعہ سے مخصوص کرکے تنگ کرنا لازم آئے گااور یہ صرف یہ کہ احادیث کے اپنی معنویت میں کمی آئے گی بلکہ ہر کوئی حدیث کی اپنے کے مطابق تشریح کرے یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ متغیرات میں سے ہے لہذا اب اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی، غور کیا جائے تواس طرح انکار حدیث کے دورازے بھی کھل سکتے ہیں اس لیے حدیث کی وہی تشریح کی جانی چاہیے جو سلف سے ثابت ہو،یا اس کا کوئی واضح قرینہ ہو اور اس کی وجہ سے مسلمات پر کوئی زد نہ پڑتی ہو۔
آپ ﷺ کے بعض افعال کسی وقتی مصلحت یا عادت کی بنا پر ہیں اسی طرح بہت سے امر آپ کے ارشادی ہیں جس پر عمل کرنے میں اختیار محدثین نے دیا ہے کہ اگر کوئی عمل کرتاہے تو اس کو ثواب ملے گا اور اگر ترک کردے تو کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اس طرح کی تقسیم کرنے سے بہت زیادہ عموم پیدا ہوجاتا ہے اور ترک حدیث کے دروزاے کھلنے لگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ موجودہ دو رکے بہت سے اہل علم نے اس تشریعی اور غیر تشریعی تقسیم کی تردید کی ہے میں سمجھتا ہوں کہ حدیث کی تقسیم ثوابت اور متغیرات کے ذریعہ کرنا توسع کے دروازے کھول دے گا اور ہر کوئی حدیث کی ایک نئی توجیہ کرکے یہ کہہ دے گا کہ آپ ﷺنے اس کام سے وقتی ضرورت کے تحت منع کیا تھا اب اس کی ضرورت نہیں رہی یا آپ نے وقتی ضرورت کے تحت اس کا حکم دیا تھا اب اس کی ضرورت نہیں رہی اس طرح ترک حدیث کا ایک رحجان پیدا ہوجائے گا اس لیے اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنے ضرورت ہے۔