روِش کمار کو ” ریمن میگسیسے ایوارڈ ” کا مفہوم
خان حسنین عاقبؔ
علامہ اقبال نے اپنی نظم ’طلوعِ اسلام‘ کا آغاز اس مطلع سے کیا تھا۔
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تُنک تابی
اُفُق سے آفتاب اُبھرا، گیا دورِ گِراں خوابی
ہم یہاں بھلے ہی طلوعِ اسلام پر بات نہیں کررہے ہیں لیکن سچائی اور حق ہی اسلام کا بنیادی عنصر ہے اور آج کے دور میں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے سچائی اور حق گوئی کی۔ اس لئے اقبال کا درجِ بالا شعر ہمیں اپنی گفتگو کے آغاز کے لئے نہایت موزوں محسوس ہوا۔ کل سے، ہاں کل ہی سے، یا شاید مزید ایک روز سے میڈیا کے ایک سیکشن میں روِش کمار کو ایشیاء کا نوبل انعام کہے جانے والے’ریمن میگسیسے‘ ایوارڈ ملنے کی خبریں گشت کررہی تھیں۔سارے ملک کے انصاف اور سچائی پسند لوگوں کو اس بات کی خوشی ہوئی کہ چلئے، ملک میں نہ سہی، ملک کے باہر تو سچی صحافت کی قدر ہے۔ آ ج صبح ہی میں نے این ڈی ٹی وی کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کردہ فوٹیج دیکھی جس میں این ڈی ٹی وی کا عملہ روِ ش کمار کے ساتھ اس کامیابی کا جشن منارہا ہے۔عملے کے سارے لوگ نہایت محبت سے گلے مل کر، مصافحہ کرکے، روِش کمار کو نہایت خلوص اور محبت کے ساتھ مبارکباد پیش کرتے دکھائی دئے۔ کیک کاٹتے ہوئے روِش نے عجز و انکسار کے ساتھ سب سے کہا کہ ’یہ سب (کامیابی) آپ لوگوں کے نام ہے۔‘ یہ ایک اعلیٰ ظرف انسان کی پہچان ہے کہ وہ کامیابی کا سہرا خود نہیں باندھتا بلکہ دوسروں کو بھی اس میں شریک کرتا ہے، یا پھر کم از کم وہ دوسروں کو یہ احساس دلادیتا ہے کہ اُس کی اِس کامیابی میں دوسرے بھی کسی نہ کسی طور پر شریک ہیں۔ بہر کیف، آج تک اور اتنے سارے گزشتہ برسوں میں ہم نے جو دیکھا ہے اس کی روشنی میں یہ کہنا کچھ غلط نہیں ہوگاکہ رِوش کمار، جھوٹ اور پروپیگنڈا کی میلوں لمبی تاریک سُرنگ میں روشنی کا ایک دِیا ہے۔ بے باک اور نڈر صحافت، صداقت اور معقولیت پر مبنی ذہنیت، لجلجی اور خوشامد پسندی کی دلدل میں گردن تک دھنسی صحافت کی اس کیچڑ میں غیر جانبداری،بے خوفی اور باضمیر ی کا کھِلتا کنول۔۔۔ ہر موڑ، ہر قدم پر، ہر سانس پیچھے ٹرول کرنے اور گالیاں دینے والی مستعد فوج کی مستقل موجودگی کے باوجود عوام کے سامنے اپنی بات کھُل کر رکھنے والا شخص ہے روِش کمار۔ یہ کوئی قصیدہ خوانی نہیں ہے اور نہ ہی خوشامد۔یہ ایسی سچائی ہے جس کا اعتراف کرنے سے روِش کے دشمن بھی شاید گریز نہ کرپائیں۔
روِش کمار کو ’ریمن مگسیسے ایوارڈ‘ملنے کا مفہوم:
اب آئیے، ہم اس پہلو کی طرف نظر ڈالتے ہیں جس نے ہمیں صبح صبح اس تحریر کے لئے متحرک کیا۔روِش کمار کو ایشیاء کے سب سے بڑے شہری ایوارڈ، ایشیاء کا نوبل انعام کہے جانے والے ’ریمن میگسیسے‘ ایوارڈ ملنے کا مفہوم کیا بنتا ہے۔ملک بھر میں مین اسٹریم صحافت کو جس طرح ایک پروپیگنڈا مشین میں تبدیل کردیا گیا ہے اس کی مثال دنیا بھر کے کسی ملک میں نہیں مل سکتی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا صرف ان ممالک میں ہوا جہاں آمریت نے اپنے پنجے نہایت مضبوطی سے گاڑدیے تھے۔ اس کی مثالیں جرمنی، اٹلی، اسپین اور وہ تمام ممالک ہیں جہاں اس عفریت نے عوامی ذہن و فکر کو مفلوج کردیا تھا۔آمریت کا بنیادی نصاب ہی یہ ہے کہ سب سے پہلے صحافت پر ڈول ڈالا جائے، اسے اپنے پالے میں کیا جائے اور تمام مین اسٹریم صحافت کے وسائل کے گِرد گھیرا ایسا تنگ کردیا جائے کہ ’نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن‘۔ یعنی صحافت کے لئے حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کے علاوہ کوئی متبادل ہی نہ بچے۔ملکِ عزیز میں بھی یہی ہوا۔ ہنوز یہی سلسلہ جاری ہے۔ ایسی بھیانک اور تکلیف دہ صورتِ حال میں این ڈی ٹی وی اور اس کا عملہ بشمول روِش کمار، وِنود دعا، عارفہ خانم شیروانی وغیرہ نیز دیگر چند صحافی جن میں ابھیسار شرما اور پونیہ پرسون باجپئی شامل ہیں، غنیمت کے طور پر سامنے آئے۔ روِش کمار ان سب میں ایک توانا آواز کے طور پر اُبھرے۔ این ڈی ٹی وی کو انکم ٹیکس، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور دیگرسرکاری اداروں کے ذریعے دھمکایا گیا لیکن اس آواز کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ روِش کمار کی بات کریں تو انہیں ہر قدم پر یرقانی ذہنیت والے تنخواہ دار ٹرولس کی فوج نے روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں گالیوں اور دھمکیوں سے نوازا لیکن سچائی کی آواز زیادہ دیر دبی نہیں رہ سکتی۔ملک میں اس صورتِ حال کے باوجود این ڈی ٹی وی اورروِش کمار دونوں نے حق گوئی کی روایت کو قائم رکھنے کی حتی المقدور کوششیں جاری رکھیں۔ روِش کی ان کوششوں پر انہیں ملک میں تو گالیوں اور دھمکیوں کا تحفہ ملتا رہا لیکن ملک کے باہر صداقت پسند لوگ موجود ہیں۔ ہمارے ملک کی شبیہ بیرونِ ملک کس طرح کی بن رہی ہے، اس سے اربابِ اقتدار کو یوں بھی کچھ لینا دینا نہیں رہا ہے۔ ساون کے اندھے کو ہر چیز ہری دکھائی دیتی ہے اس لئے ملک میں تو یرقان کے اندھوں کو ہر چیز زعفرانی دکھائی دے رہی ہے لیکن ملک کے باہر ایسا نہیں ہے۔ فلپائن کے صدر ’ریمن میگسیسے‘ کے نام پر 1958 میں قائم اس باوقار ایوارڈ کے لئے ہر سال ایشیاء کے کسی بھی ملک سے حیاتِ انسانی کے مختلف شعبوں میں انسانی ہمدردی، سالمیت اور عوام کی بے باکی اور جرات کے ساتھ خدمت کرنے والے نمائندہ اشخاص کو منتخب کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ یہ اعزاز حق گوئی و بے باکی کے ساتھ عوام کی خدمت کرنے کے لئے روِش کمار کے حصے میں آیا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہندی صحافت کے لئے کسی کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ روِش کمار کو اس اعزاز کے ملنے کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ بیرونِ ملک ہمارے ملکِ عزیز کی شبیہ ایسی نہیں ہے جیسی ساون کے اندھوں کو نظر آرہی ہے۔ یہ ’رام راجیہ‘ نہیں، ’خام راجیہ‘ ہے، اس بات سے بیرونی ممالک بخوبی واقف ہوچکے ہیں۔ اسی لئے ایک ایسے شخص کو اتنے باوقار اعزاز کے لئے منتخب کیا گیا جسے اس کے اپنے ملک کے بیمار ذہن لوگ جی بھر کے کوستے ہیں اور ٹوکرے بھر بھر کے گالیاں دیتے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ ایسے لوگوں آج کل اکثریت میں ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سچائی ہمیشہ اقلیت میں ہوتی ہے۔ روِش کمار کو اس اعزاز کا ملنا یہ بتاتا ہے کہ ملک سے باہر ملک کی تصویر کتنی خراب ہوچکی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مین اسٹریم صحافت ایک نہایت تاریک دور سے گزررہی ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ باشعوراور بیدار مغز برادرانِ وطن کو سچ کی حمایت کے لئے سوچنا شروع کردینا چاہیے۔ اس کا مفہوم یہ بھی ہوتا ہے کہ جب ملک کی سالمیت اور جمہوری ساخت مکمل طور پر ختم ہوچکی ہوگی تو انہی دانشورانِ ملک، انہی صاحبانِ عقل و شعور کی خاموشی کو تاریخ ان الفاظ میں یاد کرے گی کہ ’جب روم جل رہا تھا، تو نیرو بانسری بجارہا تھا۔‘ روِش کو اس اعزاز کے ملنے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ ہماری بین الاقوامی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ سربراہِ ملک کے ذریعے بیرونی ممالک کے طوفانی دورے کرلینے اور خودنمائی کے جذبے کو تسکین پہنچانے کے لئے ملک بھر کے ٹی وی چینلس کو خریدلینے کے بعد اب ڈسکوری چینل پر بھی اپنے جلوے دکھانے سے اس ساکھ میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آنے والی۔ ملک کی بین الاقوامی ساکھ کو مثبت طرزِ فکر اور طرزِ سیاست سے ہی سدھارا جاسکتا ہے۔ اس اعزاز کا مفہوم یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی برادری ہمارے ملک میں روز افزوں ترقی پانے والی منافقت اور سیاسی ابتری سے واقف ہوچکی ہے اور ایسی صورتِ حال میں جو لوگ حق گوئی، جرات مندی اور بے باکی کے ساتھ نیز شعوری بیداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، ان کی پذیرائی کرنے کی سمت پیش رفت کررہی ہے۔ یہ وہ کام ہے جو ملک کے ’اندر‘ ہونا چاہیے، لیکن یہ ستائشی کام جس سے کام کرنے والے کے حوصلے مہمیز ہوتے ہیں، ملک کے ’باہر‘ ہورہاہے۔ روِش کو اس اعزاز کے ملنے کے مزید کئی مفہوم ہوتے ہیں۔ اس پر ہمیں یعنی ملک کے ہر باشعور اور بیدار ذہن، باضمیر شہری کو غور کرنا چاہیے۔
خیر، روِش کمار کے لئے تو ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں اندھیروں کی حکمرانی میں چراغوں کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ شعر مشہور ہے کہ ؎
کیا ضروری ہے کہ سورج ہی کا رستہ دیکھیں
ایک جگنو بھی اندھیرے میں غنیمت ہے میاں
—–