کالم: بزمِ درویش
حاجی صاحب (پارٹ 2)
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
باباجی میں نے بچپن سے ایک ہی بات سنی تھی‘ نبی کریم ﷺ اللہ تعالی کے محبوب ہیں‘ رب کریم نے کائنات تخلیق ہی اپنے محبوب کے لیے کی تھی پھر اپنے محبوب کو سرتاج الانبیاء ﷺ بنا کر آخر میں دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجا مکہ میں جب میری دعا قبول نہ ہوئی تو اب میں مدینہ شریف کی طرف جانے لگا وہ مدینہ شریف جس کی خاک کے ذرات بھی آسمانی کہکشاؤں سے زیادہ روشن اورمتبرک ہیں‘
آخرکار میں اُس شہر پہنچ گیا جو زمین پر جنت ہے جہاں پر بادشاہ وقت اور ولیوں کے سردار بھی ننگے پاؤں چلنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں‘ گنبد خضرا پر نظر پڑی تو رگوں میں برفیلی کستوری کی لہریں دوڑنے لگیں مجھے مکمل یقین تھا کہ یہاں پرمیرا خالی دامن قبولیت کے پھولوں سے بھر جائے گا‘ نماز باجماعت اداکی‘ روضہ رسول ﷺ کی جالیوں کے پار دیکھنے کی سعادت حاصل ہو ئی ریاض الجنہ میں نوافل کی سعادت حاصل ہو ئی‘ اصحاب صفہ کے پاؤں میں بیٹھنے کا اعزاز ملا گنبد خضرا کی چھاؤں تلے بیٹھا‘ مدینہ کی گلیوں میں ننگے پاؤں میلوں چلا‘ یہاں بھی دعا کا سلسلہ جاری تھا روزانہ سوالی بن کر بیٹھ جاتا کہ پتہ نہیں محبوب خدا کو کب مُجھ سوالی پر رحم آئے‘ ایک دن کسی نے کہا جنت البقیع میں جا کر سیدہ کائنات بی بی فاطمہ ؓ جگرگو شہ رسول ﷺ کو سلام کرو پھر آکر آقا کریم ﷺ کو درخواست دو‘ میں ادب و احترام سے پلکوں پر چل کر سیدہ کائنات کی قبر مبارک کی طرف گیا‘ دور سے سلام کیا سفارش کی درخواست کی اور آکر گنبد خضرا پر نظر جما کر بیٹھ گیا لمحے صدیوں میں بدلے یا صدیاں لمحوں میں بدلے پتہ نہیں میں کتنی دیر عالم محویت میں سبز گنبد پر نظریں جمائے بیٹھا رہا پھر میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا پتہ نہیں میں کتنی دیر تک بلک بلک کر بچوں کی طرح روتا رہا پھر میں نیم خوابیدگی کے عالم میں ڈوبتا گیا تو مجھے احساس ہوا چاروں طرف نور کے پھوارے پھوٹ رہے ہیں اورمیرے جسم و جان اُن روشنیوں میں روشن ہو رہے ہیں میں کتنی دیر اُس حالت میں رہا یاد نہیں پھر کسی نے میرا کندھا ہلا کر جگا دیاتو میں ہوش کی دنیا میں آگیا میں سن سا بیٹھا تھا حیران کن چیز یہ تھی کہ میرا کرب دکھ درد ختم ہو چکا تھا میرا جسم اب بھی مردوں والا ہی تھا لیکن بے قراری بے چینی ختم ہو چکی تھی میرا ادھورا پن ختم تھا میرا احساس ختم ہو گیا تھا اب میں آسودہ لگ رہا تھا میری وحشت بے قراری ختم ہو گئی تھی شایدمیری دعا کسی اور طرح سے قبول ہو گئی تھی میں آسودگی اطمینان کی دولت سے سرفراز ہو چکاتھا پھر میں مدینہ میں اپنی زندگی کے خوشگوار ترین دن گزار کر واپس پاکستان آگیا چیلوں نے پوچھا دعا قبول ہو ئی تو میں نے کہا ہاں ہو گئی چیلوں نے اعتراض کیاتم تو آج بھی مرد ہو لڑکی نہیں بنے تو میں کہتا اب میں پرسکون ہوں اب ادھورے پن کا احساس نہیں رہا۔چیلوں نے اطمینان خوشی کی وجہ پوچھی تو میں نے مدینے میں ایک بزرگ نے جو ایمان افروز واقعہ بتا یا تھا وہ چیلوں کو بھی سنایا کہ ایک بار دلی شہر قحط کی لپیٹ میں آگیا ساری مخلوق دن رات بارش کی دعا کرتے لیکن دعا نہ ہو ئی تو لوگ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے گدی نشین کے پاس آئے کہ آپ بہت بڑے بزرگ کے گدی نشین ہیں آپ ؒ خدارا ہمارے شہر کے لیے دعا کریں تاکہ بارش ہو اور قحط سالی سے جان چھوٹ جائے تو گدی نشین نے اہل شہر کے ساتھ شہر سے باہر آکر بارش کے لیے نماز نفل پڑھے پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے دیرتک لوگوں کے ساتھ مل کر بارش کی دعائیں کرتا رہا لیکن بارش نہ ہوئی تو شرمندہ شرمندہ سر جھکائے واپس شہر آگیا دن رات غمگین رہنے لگا کہ لوگوں کا درگاہ پر بہت یقین تھا جو اب ٹوٹ رہا ہے کاش خدا ہماری دعا سن لیتا تو ہمارا اور درگاہ کا بھرم اور عزت رہ جاتی گدی نشین کی پریشانی دیکھ کر ایک مرید قریب آیا اور بولا حضرت میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس کی دعا اللہ تعالی قبول کر تا ہے دعا کے الفاظ اُس کے لبوں سے پھسلتے ہیں تو دعا قبول ہو جاتی ہے اگر آپ اُس سے دعا کرائیں تو بارش بھی ہو گی اورہماری عزت بھی بچ جائے گی‘گدی نشین فوری بولا کون ہے ایسا نیک انسان جو بارگاہ ِ الٰہی میں اتنا زیادہ مقبول ہے کہ خدا اُس کی کوئی دعا بھی رد نہیں کرتاتو مرید بولا جناب وہ بدنام زمانہ محلے میں رہتا ہے اور وہ ایک مخنث یعنی ہیجڑا ہے گدی نشین غصے سے بولا یہ تم کیا کہہ رہے ہواُس بد نام بازار میں ایک مخنث خدا کے حضور اتنا عزت والا ہے کہ خدا اُس کی دعا رد نہیں کر تا تو مرید نے کہا جناب میں سچ کہہ رہا ہوں میں کئی ایسے چشم دید واقعات کا گواہ ہوں جب اُس نے دعا کی تو فوری قبول ہوئی گدی نشین چند دن تو اِس کشمکش میں رہا کہ اتنی بڑی درگاہ کا گدی نشین اُس بازار میں مخنث کے پاس جائے گا تو لوگ کیا کہیں گے لیکن پھر آخر کار ایک رات منہ پر چادر ڈال کر رات کے اندھیرے میں اُس بازار میں اُس نیک مخنث کے دروازے پر دستک دی‘ نیک بندہ باہر آیا اور بولا آپ نیک بزرگ ہیں مُجھ حقیر گناہ گار کے پا س کیا لینے آئے ہیں تو گدی نشین نے اپنی مشکل بتا دی تو وہ بولا دیکھیں جناب اگر میں آپ کے ساتھ دعا کے لیے گیا تو آپ کی عزت اور درگاہ پر حرف آئے گا اِ س لیے آپ میرے چولے کا دھاگا لے جائیں اور پھر جا کر دعا کریں اگر دعاقبول نہ ہو تو میرے چولے کے دھاگے کو جیب سے نکال کر بارگاہ الٰہی میں عرض کرنا اے خدا تیرے اُس مخنث نے تیری رضا کا چولا جس دن سے پہنا ہے اُس دن سے کوئی نافرمانی نہیں کی اگر اے خدا تجھے میری توبہ پسند آئی ہوتو تجھے میرے کپڑے کے دھاگے کی قسم بارش برسادے انشاء اللہ بارش ہو گی گدی نشین صاحب نے دھاگا جیب میں ڈالا اگلے دن اہل شہر کے ساتھ پھر شہر سے باہر آکر بارش کی دعا کی جب بارش نہ ہو ئی تو جیب سے اُس مخنث کے چولے کا دھا گا نکالا آسمان کی طرف کیا اور کہااے اللہ تجھے اپنے بندے کے چولے کے دھاگے کی قسم بارش برسادے ابھی گدی نشین کے ہاتھ ہوا میں ہی تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی گدی نشین اور اہل شہر نے بھاگ کر بارش سے جان بچائی۔ یہ واقعہ سنا کر حاجی صاحب اپنے چیلوں سے بولا اب میں بھی خدا کے ہر حال میں خوش ہوں۔ پھر چند دن بعد ہی حاجی صاحب کی زندگی میں ایک خاص واقعہ پیش آیا جب چیلوں کو کوڑے کے ڈھیر سے ایک لاوارث بچی ملی جو انہوں نے لاکر حاجی صاحب کو دے دی بچی کو دیکھ کر حاجی صاحب کے جسم سے ممتا کا آبشار ابل پڑا‘ دن رات بچی کو ماں بن کر پالنا شروع کر دیا حاجی صاحب کے گھر والوں کو جب حاجی صاحب کی اِس تبدیلی کا پتہ چلا تو بھائیوں نے ایک مکان اور دو دوکانیں جو اِن کا حصہ تھا وہ حاجی صاحب کو دے دیں‘ حاجی صاحب نے ان کو بیچا اور لاہور میں گھر اور دوکانیں خرید لیں جن کے کرائے سے اب وہ بچی کو پال رہے تھے بچی جوان ہوئی اُسے یونیورسٹی میں داخل کرادیا وہاں پر بیٹی کے کلاس فیلو نے اُسے پسند کیا لیکن گھر والوں نے انکار کر دیا اب ماں باپ کو منانے کے لیے حاجی صاحب بابوں کے پاس چکر لگاتے لگاتے میرے پاس آگئے حاجی صاحب جب بھی میرے پاس آتے میں خاص توجہ دیتا اور چھیڑتا حاجی ماں میرے پاس آئی ہے تو وہ خوش ہو تے بعد میں حاجی صاحب نے حج بھی کر لیا اس لیے لوگ اور برادری انہیں حاجی صاحب کہتے پتہ نہیں کس کی دعا قبول ہو ئی کہ بیٹی کو چاہنے والا لڑکاماں باپ کو منانے میں کامیاب ہو گیا حاجی صاحب یہ کریڈٹ مجھے دینے آئے تھے لہٰذا آج حاجی صاحب خوشی خوشی مٹھائی لے کر میرے پاس آئے تھے حاجی صاحب بار بارکہہ رہے تھے آپ شادی پر ضرور آنا میں گناہ گار چھوٹا کمینہ انسان ہوں لیکن مجھے اور میری بیٹی کو بہت خوشی ہو گی تو میں نے حاجی صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا حاجی صاحب فراڈ دھوکے باز جھوٹے بد دیانت چور ڈکیت حاجی تو بہت دیکھے لیکن اللہ کی قسم آج پہلی بار اصلی حقیقی حاجی صاحب سے ملا ہوں آپ جیسے لوگوں سے ہی معاشرے قائم ہیں ورنہ کب کے ہڑپہ موہنجودوڑو بن چکے ہو تے۔