اردو افسانے میں عصر حاضر کے مسائل
اور سماجی تعمیرکے موضوعات
قمرالدین صابری فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام
محفل افسانہ و مشاعرہ۔دانشوروں کا خطاب
حیدرآباد (29جولائی۔راست) افسانہ نگار‘ادیب و شاعر اپنے عہد کا حصہ ہوتا ہے اور اپنے مشاہدات کو فنکاری کے ساتھ پیش کرتے ہوئے ایک شاہکار تخلیق کرتا ہے۔ یہ اچھا رجحان ہے کہ ہمارے دور کے افسانہ نگار اپنے عہد کے مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کر رہے ہیں اور سماجی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہمارے دور میں رشتوں کی پاسداری مٹتی جارہی ہے دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے اور بچے اپنے بوڑھے ماں باپ کو بے سہارا چھوڑ کردیار غیر میں بس رہے ہیں۔اور دلوں کو جھنجھوڑنے والے واقعات رونما ہورہے ہیں جنہیں افسانوں میں پیش کیا جارہا ہے۔ان خیالات کا اظہار قمر الدین صابری فاؤنڈیشن حیدرآباد‘ تلنگانہ اردو فاؤنڈیشن اورانجمن قلمکاران دکن کے زیر اہتمام مکتبہ شاداب ریڈ ہلز حیدرآباد میں منعقدہ محفل افسانہ و مشاعرہ سے خطاب کرتے ہوئے مختلف دانشوروں نے کیا۔محفل افسانہ میں محترمہ شبینہ اسلم فرشوری نے اپنے افسانے کوئی جارہا ہے شب غم گزار کے اور نہلے پہ دہلا پیش کئے۔ ڈاکٹر محبوب فرید نے اپنا افسانہ میرا مسیحا پیش کیا جب کہ ڈاکٹر خواجہ فرید الدین صادق نے اپنا افسانہ خود دار مسیحا پیش کیا۔ ان افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ناظم علی نے کہا کہ اس محفل میں پڑھے گئے افسانوں میں حیدرآبادی تہذیب‘تقسیم ہند کے اثرات اور سماج کی تعمیر کے پہلو نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے کہا ہمارے افسانہ نگار اپنے عہد کے مسائل کی عکاسی کرتے ہوئے سماج کی تعمیر میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ سرپرست بزم پروفیسر ایم ایم انور نے کہا کہ افسانہ نگار بھی سماج کا اہم حصہ ہے اور وہ فنکاری سے اپنے اطراف موجود کہانیوں کو افسانوں کا روپ دے کر ان میں موجود پیغام کو آفاقی بناتا ہے۔ جناب اسلم فرشوری اور ڈاکٹر محبوب فرید نے بھی خطاب کیا۔ محفل افسانہ کے بعد مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا۔ جس میں مدعو شعرا جناب گووند اکشے‘لطیف الدین لطیف‘ڈاکٹر خواجہ فرید الدین صادق‘اسلم فرشوری اور جناب مومن خان شوق نے مزاحیہ و سنجیدہ کلا م پیش کیا۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے شکریے پر محفل کا اختتام عمل میں آیا۔