حجاج کرام ان امور پر خاص توجہ دیں
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
www.najeebqasmi.com
حج ایسی عبادت ہے جوزندگی میں ایک مرتبہ صاحب استطاعت پر فرض ہے، اگرچہ ایک سے زیادہ مرتبہ حج کی ادائیگی کی ترغیب حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات میں واضح طور پر ملتی ہیں، چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پے درپے حج وعمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ابن ماجہ)
انسان کو اپنی زندگی میں بار بار حج کرنے کی توفیق عام طور پر نہیں ملتی ہے۔ حج کے مسائل کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ حج کی ادائیگی کے بغیر ان کا سمجھنا بظاہر مشکل ہے،نیز پہلے سے خاطر خواہ تیاری نہ ہونے کی وجہ سے بھی عام حاجی اپنے حج کی ادائیگی میں غلطیاں کرتا ہے۔ بعض غلطیاں حج کے صحیح نہ ہونے یا دم کے واجب ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ لہذا عازمین حج کو چاہئے کہ وہ حجاج کرام سے سرزد ہونے والی مندرجہ ذیل غلطیوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں تاکہ حج کی ادائیگی صحیح طریقہ پر ہو اور ان کا حج حج مبرور بنے جس کا بدلہ جنت الفردوس ہے جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری ومسلم)
۱) حج کے اخراجات میں حرام مال کا استعمال کرنا:
حج اور عمرہ کے لئے صرف پاکیزہ حلال کمائی میں سے خرچ کرنا چاہئے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے: اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہے اور پاکیزہ چیزوں کو ہی قبول کرتاہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آدمی حج کے لئے رزق حلال لے کر نکلتا ہے اور اپنا پاؤں سواری کے رکاب میں رکھ کر (یعنی سواری پر سوار ہوکر) لبیک کہتا ہے تو اس کو آسمان سے پکارنے والے جواب دیتے ہیں، تیری لبیک قبول ہو اور رحمت الہی تجھ پر نازل ہو، تیرا سفر خرچ حلال اور تیری سواری حلال اور تیرا حج مقبول ہے اور تو گناہوں سے پاک ہے۔ اور جب آدمی حرام کمائی کے ساتھ حج کے لئے نکلتا ہے اور سواری کے رکاب پر پاؤں رکھ کر لبیک کہتا ہے تو آسمان کے منادی جواب دیتے ہیں تیری لبیک قبول نہیں، نہ تجھ پر اللہ کی رحمت ہو، تیرا سفر خرچ حرام، تیری کمائی حرام اور تیرا حج غیر مقبو ل ہے۔ (طبرانی) ہمیشہ ہمیں حلال رزق پر ہی اکتفاء کرنا چاہئے خواہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔ حرام رزق کے تمام وسائل سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔ جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو کیونکہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی)
۲) حج کے سفر سے قبل حج کے مسائل کو دریافت نہ کرنا:
لہذا عازمین حج کو چاہئے کہ وہ حج کی ادائیگی پر جانے سے قبل علماء کرام سے رجوع فرماکر مسائل حج کو اچھی طرح ذہن نشین کریں۔
۳) بعض لوگوں نے مشہور کررکھا ہے کہ اگر کسی نے عمرہ کیا تو اس پر حج فرض ہوگیا، یہ غلط ہے۔ اگر وہ صاحب استطاعت نہیں ہے یعنی اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ وہ حج ادا کرسکے تو اس پر عمرہ کی ادائیگی کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوتا ہے اگرچہ وہ عمرہ حج کے مہینوں میں ادا کیا جائے پھر بھی عمرہ کی ادائیگی کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوگا۔
۴) اپنی طرف سے حج کئے بغیر دوسرے کی جانب سے حج بدل کرنا۔
۵) سفر حج کے دوران نمازوں کا اہتمام نہ کرنا۔ یاد رکھیں کہ اگر غفلت کی وجہ سے ایک وقت کی نماز بھی فوت ہوگئی تو مسجد حرام کی سو نفلوں سے بھی اس کی تلافی نہیں ہوسکتی ہے۔ نیز جو لوگ نماز کا اہتمام نہیں کرتے وہ حج کی برکات سے محروم رہتے ہیں اور ان کا حج مقبول نہیں ہوتاہے۔
۶) حج کے اس عظیم سفر کے دوران لڑنا، جھگڑنا حتی کہ کسی پر غصہ ہونا بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حج کے چند مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج کو لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل میلاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑا کرنے سے بچتا رہے۔(سورۃ البقرہ آیت ۷۹۱) نیز نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق وفجور سے بچا، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔ (بخاری ومسلم)
۷) بڑی غلطیوں میں سے ایک بغیر احرام کے میقات سے آگے بڑھ جانا ہے۔ لہذا ہوائی جہاز پر سوار ہونے والے حضرات ایرپورٹ پر ہی احرام باندھ لیں یا احرام لے کر ہوائی جہاز میں سوار ہوجائیں اور میقات سے پہلے پہلے باندھ لیں۔
۸) بعض حضرات شروع ہی سے اضطباع (یعنی داہن ی بغل کے نیچے سے احرام کی چادر نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا) کرتے ہیں، یہ غلط ہے بلکہ صرف طواف کے دوران اضطباع کرنا سنت ہے۔ لہذا دونوں بازؤں ڈھانک کر ہی نماز پڑھیں۔
۹) بعض حجاج کرام حجر اسود کا بوسہ لینے کے لئے دیگر حضرات کو تکلیف دیتے ہیں حالانکہ بوسہ لینا صرف سنت ہے جبکہ دوسروں کو تکلیف پہونچانا حرام ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خاص طور سے تاکید فرمائی تھی کہ دیکھو تم قوی آدمی ہو حجر اسود کے استلام کے وقت لوگوں سے مزاحمت نہ کرنا، اگر جگہ ہو تو بوسہ لینا ورنہ صرف استقبال کرکے تکبیر وتہلیل کہہ لینا۔
۱۰) حجر اسود کا استلام کرنے کے علاوہ طواف کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی طرف چہرا یا پشت کرنا غلط ہے، لہذا طواف کے وقت آپ کا چہرہ سامنے ہو اور کعبہ آپ کے بائیں جانب ہو۔ اگر طواف کے دوران آپ کا چہرا کعبہ کی طرف ہوجائے تو اس پر دم لازم نہیں ہوگا، لیکن قصداً ایسانہ کریں۔
۱۱) بعض حضرات حجر اسود کے علاوہ خانہ کعبہ کے دیگر حصہ کا بھی بوسہ لیتے ہیں اور چھوتے ہیں جو غلط ہے، بلکہ بوسہ صرف حجر اسود یا خانہ کعبہ کے دروازے کا لیا جاتا ہے۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے علاوہ کعبہ کے کسی حصہ کو بھی طواف کے دوران نہ چھوئیں، البتہ طواف اور نماز سے فراغت کے بعد ملتزم پر جاکر اس سے چمٹ کر دعائیں مانگنا حضور اکرم ﷺ سے ثابت ہے۔
۱۲) رکن یمانی کا بوسہ لینا یا دور سے اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرنا غلط ہے، بلکہ طواف کے دوران اس کو صرف ہاتھ لگانے کا حکم ہے وہ بھی اگر سہولت سے کسی کو تکلیف دئے بغیر ممکن ہو۔
۱۳) بعض حضرات مقام ابراہیم کا استلام کرتے ہیں اور اس کا بوسہ لیتے ہیں، علامہ نووی ؒ نے ایضاح اور ابن حجر مکی ؒ نے توضیح میں فرمایا ہے کہ مقام ابراہیم کا نہ استلام کیا جائے اور نہ اس کا بوسہ لیا جائے، یہ مکروہ ہے۔
۱۴) بعض حضرات طواف کے دوران حجر اسود کے سامنے دیر تک کھڑے رہتے ہیں، ایسا کرنا غلط ہے کیونکہ اس سے طواف کرنے والوں کو پریشانی ہوتی ہے، صرف تھوڑا رک کر اشارہ کریں اور بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر آگے بڑھ جائیں۔
۱۵) بعض حجاج کرام طواف کے دوران اگر غلطی سے حجر اسود کے سامنے سے اشارہ کئے بغیر گزر جائیں تو وہ حجر اسود کے سامنے دوبارہ واپس آنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جس سے طواف کرنے والوں کو بے حد پریشانی ہوتی ہے، اس لئے اگر کبھی ایسا ہوجائے اور ازدحام زیادہ ہو تو دوبارہ واپس آنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ طواف کے دوران حجر اسود کا بوسہ لینا یا اس کی طرف اشارہ کرنا سنت ہے واجب نہیں۔
۱۶) طواف کے دوران رکن یمانی کو چھونے کے بعد (حجر اسود کی طرح) ہاتھ کا بوسہ دینا غلط ہے۔
۱۷) طواف اور سعی کے ہر چکر کے لئے مخصوص دعا کو ضروری سمجھنا غلط ہے، بلکہ جو چاہیں اور جس زبان میں چاہیں دعا کریں۔
۱۸) ازدہام کے وقت حجاج کرام کو تکلیف دے کر مقام ابراہیم کے قریب ہی طواف کی دو رکعات ادا کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے، بلکہ مسجد حرام میں جہاں جگہ مل جائے یہ دو رکعات ادا کرلیں۔
۱۹) طواف اور سعی کے دوران چند حضرات کا آواز کے ساتھ دعا کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سے دوسرے طواف اور سعی کرنے والوں کی دعاؤں میں خلل پڑتا ہے۔
۲۰) بعض حضرات کو جب طواف یا سعی کے چکروں میں شک ہوجاتا ہے تو وہ دوبارہ طواف یا سعی کرتے ہیں، یہ غلط ہے بلکہ کم عدد تسلیم کرکے باقی طواف یا سعی کے چکر پورے کریں۔
۲۱) بعض حضرات صفا اور مروہ پر پہونچ کر خانہ کعبہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہیں، ایسا کرنا غلط ہے بلکہ دعا کی طرح دونوں ہاتھ اٹھاکر دعائیں کریں، ہاتھ سے اشارہ نہ کریں۔
۲۲) بعض حضرات نفلی سعی کرتے ہیں جبکہ نفلی سعی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
۲۳) بعض حجاج کرام عرفات میں جبل رحمت پر چڑھ کر دعائیں مانگتے ہیں، حالانکہ پہاڑ پر چڑھنے کی کوئی فضیلت نہیں ہے بلکہ اس کے نیچے یا عرفات کے میدان میں کسی بھی جگہ کھڑے ہوکر کعبہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعائیں کریں۔
۲۴) عرفات میں جبل رحمت کی طرف رخ کرکے اور کعبہ کی طرف پیٹھ کرکے دعائیں مانگنا غلط ہے بلکہ دعا کے وقت کعبہ کی طرف رخ کریں خواہ جبل رحمت پیچھے ہو یا سامنے۔
۲۵) عرفات سے مزلفہ جاتے ہوئے راستہ میں صرف مغرب یا مغرب اور عشاء دونوں کا پڑھنا صحیح نہیں ہے، بلکہ مزدلفہ پہونچ کر ہی عشاء کے وقت میں دونوں نمازیں ادا کریں۔
۲۶) بعض حضرات عرفات سے نکل کر مزدلفہ کے میدان آنے سے قبل ہی مزدلفہ سمجھ کر رات کا قیام کرلیتے ہیں۔ جس سے ان پر دم بھی واجب ہوسکتا ہے، لہذا مزدلفہ کی حدود میں داخل ہوکر ہی قیام کریں۔
۲۷) مزدلفہ پہونچ کر مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی کنکریاں اٹھانا صحیح نہیں ہے، بلکہ مزدلفہ پہونچ کر سب سے پہلے عشاء کے وقت میں دونوں نمازیں ادا کریں۔
۲۸) بہت سے حجاج کرام مزدلفہ میں ۰۱ ذی الحجہ کی فجر کی نماز پڑھنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں اور قبلہ رخ ہونے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے جس سے فجر کی نماز نہیں ہوتی۔ لہذا فجر کی نماز وقت داخل ہونے کے بعد ہی پڑھیں نیز قبلہ کا رخ واقف حضرات سے معلوم کریں۔
۲۹) مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد عرفات کے میدان کی طرح ہاتھ اٹھاکر قبلہ رخ ہوکر خوب دعائیں مانگی جاتی ہیں، مگر اکثر حجاج کرام اس اہم وقت کے وقوف کو چھوڑ دیتے ہیں۔
۳۰) بعض حضرات وقت سے پہلے ہی کنکریاں مارنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ رمی کے اوقات سے پہلے کنکریاں مارنا جائز نہیں ہے۔ پہلے دن یعنی ۰۱ ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد سے کنکریاں ماری جاسکتی ہیں، بعض فقہاء نے صبح صادق کے بعد سے کنکریاں مارنے کی اجازت دی ہے، مگر ۱۱ اور ۲۱ ذی الحجہ کو زوال آفتاب یعنی ظہر کی اذان کے بعد ہی کنکریاں ماری جاسکتی ہیں۔ ہاں اگر کوئی شخص غروب آفتاب سے قبل کنکریاں نہ مارسکا تو ہر دن کی کنکریاں اُس دن کے بعد آنے والی رات میں بھی مارسکتا ہے۔
۳۱) بعض لوگ کنکریاں مارتے وقت یہ سمجھتے ہیں کہ اس جگہ شیطان ہے اس لئے کبھی کبھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ اس کو گالی بکتے ہیں اور جوتا وغیرہ بھی ماردیتے ہیں۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں ماری جاتی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اللہ کے حکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے لے جارہے تھے تو شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو انہیں تین مقامات پر بہکانے کی کوشش کی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان تینوں مقامات پر شیطان کو کنکریاں ماری تھیں۔
۳۲) بعض خواتین صرف بھیڑ کی وج ہ سے خود رمی نہیں کرتیں بلکہ ان کے محرم ان کی طرف سے بھی کنکریاں ماردیتے ہیں، اس پر دم واجب ہوگا کیونکہ صرف بھیڑ عذر شرعی نہیں ہے اور بلا عذرشرعی کسی دوسرے سے رمی کرانا جائز نہیں ہے۔ عورتیں اگر دن میں کنکریاں مارنے نہیں جاسکتی ہیں تو وہ رات میں جاکر کنکریاں ماریں، ہاں اگر کوئی عورت بیمار یا بہت زیادہ کمزور ہے کہ وہ جمرات جاہی نہیں سکتی ہے تو اس کی جانب سے کوئی دوسرا شخص رمی کرسکتا ہے۔
۳۳) بعض حضرات ۱۱، ۲۱ اور ۳۱ ذی الحجہ کو پہلے جمرہ اور بیچ والے جمرہ پر کنکریاں مارنے کے بعد دعائیں نہیں کرتے، یہ سنت کے خلاف ہے، لہذا پہلے اور بیچ والے جمرہ پر کنکریاں مارکر ذرا دائیں یا بائیں جانب ہٹ کر خوب دعائیں کریں۔ یہ دعاؤں کے قبول ہونے کے خاص اوقات ہیں۔
۳۴) بعض لوگ ۲۱ ذی الحجہ کی صبح کو منی سے مکہ طواف وداع کرنے کے لئے جاتے ہیں اور پھر منی واپس آکر آج کی کنکریاں زوال کے بعد مارتے ہیں اور یہیں سے اپنے شہر کو سفر کرجاتے ہیں۔ یہ غلط ہے، کیونکہ آج کی کنکریاں مارنے کے بعد ہی طواف وداع کرنا چاہیے۔