عید کی خوشی :- ڈاکٹر سیّداسرارالحق سبیلی

Share
ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی

کہانی : عید کی خوشی

ڈاکٹر سیّداسرارالحق سبیلی
اسسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہ اردو
گورنمنٹ ڈگری کالج سدّی پیٹ ۔ تلنگانہ

چنکو منکو دو بھائی تھے۔دونوں عمر میں فاکہہ سے چھوٹے تھے،لیکن شرارت میں بہت آگے تھے۔ کبھی پڑوس میں چھوٹی آمنہ کو ستاتے،کبھی فاکہہ کو منھ چڑاتے۔ایک دن تو ان دونوں نے حد کر دی؛فاکہہ سے لڑائی بھی کی اور جب فاکہہ نے اپنے گھر کا دروازہ اندر سے بند کرلیا تو دونوں نے فاکہہ کے دروازہ کے سامنے ڈھیر ساری مٹّی اور ریت ڈال دی۔

فاکہہ نے اپنے ابّو سے س کی شکایت کی،ابو نے کہا:رمضان صبر کا مہینہ ہے،ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے۔رمضان میں لڑائی کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ایسے بھی کل عید ہے۔کل میں باہر دروازہ کے آس پاس صفائی کرنے والا ہوں۔تم پریشان نہ ہو۔
عید کے دن فاکہہ کے ابو صبح سویرے اٹھے۔فجر کی نماز کے لئے مسجد گئے۔مسجد سے آکرگھر کے باہر کی صفائی کی،پانی سے دھودیا اور نہا دھو کر اور شیر خرما پی کر عیدگاہ چلے گئے۔
عیدگاہ سے نماز پڑھ کر آنے بعدابو نے فاکہہ اور اس کی بہنوں کو عیدی دی اور فاکہہ کی امّی سے کہا:عید کا دن اجتماعی خوشی کا دن ہے۔اس دن نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ غیر مسلموں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کرنا چاہیے۔آج تمام مسلمانوں کے گھروں میں شیر خرما اور اچھے کھانے بنے ہیں،لیکن غیر مسلموں کے یہاں معمول کی زندگی ہے،ان کے یہاں میٹھے نہیں بنے ہوں گے۔اس لئے ہمیں اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کے یہاں شیر خرما تقسیم کرنا چاہیے۔
امی نے ابو کی بات سے اتفاق کیا۔امی نے پیالے میں شیرخرما نکال کر دیئے اور ابو فاکہہ کو ساتھ لے کرپڑوس کے گھروں میں شیر خرما اور عیدی تقسیم کرنے گئے۔جب ابو اور فاکہہ چنکو منکو کے گھر شیر خرما اور عیدی کی رقم لے کر جارہے تھے تو ان دونوں نے سمجھا کہ ان کی اماں سے شکایت کرنے اور ریتی پھینکنے کی سزا دلانے آئے ہیں،دونوں ڈرے سہمے ہوئے تھے،جب اپنی ماں کے ہاتھ میں شیر خرما دیکھا تو ان کی جان میں جان آئی۔ابو نے فاکہہ کے ہاتھ سے ان دونوں کو تیس تیس روپیے دلوائے۔دونوں کو بڑی حیرت ہوئی۔وہ تو جرم کی سزا سے گھبراگئے تھے اور سزا کے بجائے شیر خرما اور عیدی لے کر ابو اور فاکہہ کے حسنِ سلوک سے بہت شرمندہ ہوئے۔اس عید کے بعد سے چنکو منکونے کبھی فاکہہ کو نہیں ستایا،اور نہ اس کے دروازہ کے سامنے ریتی پھینکی۔
—-

Share
Share
Share